اجتہاد کی تعریف اجتہاد کب روا ہے اجتہاد بالقلم یا بالسیف ہے وہ کیا شرائط ہیں جن کا مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے جس سے وہ درجہ اجتہاد کو پہنچتا ہے اور مجتہد کو اپنی صریح خطا کا علم و یقین ہونے پر رجوع کرنا ضروری ہے یا نہ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عبداللہجواب:
جس مسئلے کا حل قرآنُ و سنت اور اجماع میں نہ ملے قیاس کے ذریعے اس کا حل نکالنا اجتہاد کہلاتا ہے واضح حکم موجود نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے مجتہد کے لیے قرآنُ و سنت کا عالم ہونا اور اجماعی مسائل سے واقف ہونا ضروری ہے۔ مجتہد کو اپنی خطا کا علم ہو جائے تو اس پر رجوع کرنا لازم ہے لیکن اگر اسے اپنی خطا کا علم نہ ہو سکے اور وہ خود کو حق پر ہی سمجھ رہا ہو تو اس کی خطا معاف ہے بلکہ اسے اجتہادی خطا پر بھی اجر ملے گا۔
(مسلم و بخاری مشکوٰۃ صفحہ 324)
ثانیاً سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا سیدنا علیؓ کے خلاف جنگ کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ واقعی اجتہادی تھا اور اس میں غلط فہمی کی واضح گنجائش موجود تھی اور صرف سیدنا امیرِ معاویہؓ ہی نہیں بلکہ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوئیں مجتہد کا اپنے موقف پر ڈٹے رہنا یا اس سے رجوع کر لینا ایک الگ بحث ہے۔
ثالثاً اجتہاد کی شرائط کچھ بھی ہوں سیدنا عبداللہ ابنِ عباسؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مجتہد (فقیہ) قرار دیا ہے۔
(بخاری جلد1 صفحہ 531)۔ لہٰذا یہ سوال آپ ابن عباسؓ سے پوچھیے کہ مجتہد کی شرائط کیا ہیں اور آپ نے سیدنا معاویہؓ کو فقیہ کیوں قرار دیا ہے۔