وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوا الۡحَـقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔
(سورۃ البقرہ:آیت 42)
ترجمہ: اور حق کو باطل کے ساتھ مت ملاؤ اور تم حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو۔ تو کیا ایک باغی دین وملت کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ملانا اس آیت کا انکار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین نہیں؟ اور کیا قرآن کی ایک آیت کا انکار کفر نہیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: معاویہجواب:
سیدنا امیرِ معاویہؓ باغی دین وملت نہیں ہیں بلکہ صحابی ہیں ہم حدیث شریف لکھ چکے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اختلاف رحمت ہے۔
(مشکوٰۃ صفحہ 554 احتجاج طبری جلد 2 صفحہ 105-106)۔
اور جنگ کے باوجود سیدنا امیرِ معاویہؓ مسلمان ہیں۔
(بخاری جلد 1 صفحہ 530)
سیدنا ابنِ عباسؓ نے انہیں صحابی بھی مانا ہے اور فقیہ بھی۔
(بخاری جلد 1 صفحہ 531)
لہٰذا سیدنا امیرِ معاویہؓ کو صحابی کہنا حق و باطل میں تلبیس نہیں ہے بلکہ انہیں باغی دین و ملت کہنا محبوب کریمﷺ کی صحیح اور صریح حدیث سے ٹکر لینا ہے سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ دونوں حق ہیں جب کہ یزید باطل ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو یزید کے ساتھ ملانا حق و باطل کی تلبیس ہے۔
اس سوال میں سیدنا امیر معاویہؓ صحابی ماننے سے حق و باطل کی تلبیس ثابت کرنا پھر اس پر وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ الآیۃ کو چسپاں کرنا جو اس موضوع پر بطورِ نص وارد ہی نہیں ہوئی اور پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ کو صحابی ماننے کو اس آیت کے انکار کے مترادف قرار دینا ایسی حرکت ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ سوال گھڑنے والا آدمی یا ٹولہ عالم نہیں ہے اس طرح کی جاہلانہ حرکتیں بعض دوسرے سوالوں میں بھی پائی جاتی ہیں جن پر ہم نے بحث نہیں کی بلکہ خود حسنِ ظن سے کام لے کر سائل کے مفہوم کو سیدھا کر لیا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ سائل نے صرف اس ایک موضوع پر چند کتابیں پڑھ لی ہیں اور کسی بدتمیز کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کی وجہ سے منہ پھٹ ہوگیا ہے۔
سائل کو جہالت کی وجہ سے اصل سوال اٹھانے کا سلیقہ نہیں آیا ذیل میں ہم از راہِ احسان وہ سوال خود اٹھا کر اس کا جواب دے رہے ہیں۔