إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْجَنَّةَ عَلَى مَنْ ظَلَمَ أَهْلَ بَيْتِي أَوْ قَاتَلَهُمْ أَوْ آعَانَ عَلَيْهِمْ أَوْ سَبَهُمُ ہے شک اللہ نے حرام کر دیا جنت کو اس شخص پر جس نے میرے اہلِ بیتؓ پر ظلم کیا یا ان سے جنگ کی یا ان سے جنگ کرنے والے کی اعانت و مدد کی یا ان کو گالی دی یہ سب کام سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کیے اس حدیث کی رو سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے جہنمی ہونے میں قطعاً شک نہ رہا لیکن حواری ملاں اپنے مفروضوں کے بل بوتے پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کو گھسیٹ گھسیٹ کر جنت لے جانے کی کوشش میں کامیاب ہوں گے یا خود بھی اس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: باسطجواب:
اولاً آپ نے اس حدیث کا حوالہ نہیں دیا ثانیاً اہلِ بیتؓ کی تین اقسام ہیں۔ سب سے بڑی اور حقیقی قسم اصل اہلِ بیتؓ ہے وہ ازواجِ مطہراتؓ اور چار شہزادیاں ہیں۔ ازواجِ مطہراتؓ کا اہلِِ بیتؓ ہونا سورۃ احزاب میں نص سے ثابت ہے۔
دوسری قسم داخل اہلِ بیتؓ ہے جن میں سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنین کریمین علیہم الرضوان شامل ہیں تیسری قسم لاحق اہلِ بیتؓ ہیں جیسے سیدنا سلمان فارسیؓ اور اُمت کے منتخب لوگ۔
(سبع سنابل اردو صفحہ 94)
اب آپ بتائیے جب سیدنا علیؓ اور ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کی جنگ ہوئی تو دونوں طرف اہلِ بیتؓ تھے کہ نہیں؟ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ اعلیٰ درجہ کی اہلِ بیتؓ ہیں کہ نہیں؟ اہلِ بیتؓ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سیدنا علیؓ کی ماں تھیں کہ نہیں؟ اور قرآن کے مطابق ماں کو اف کہنا بھی منع ہے کہ نہیں؟ اب آپ کا سیدنا علیؓ پر کیا فتویٰ ہوگا؟
ہمارے نزدیک اس جنگ میں بھی غلط فہمی ہوئی تھی اور اس جنگ میں بھی غلط فہمی تحقیق کے لحاظ سے سیدنا علیؓ کا موقف درست تھا مگر فریق ثانی ان سے بڑھ کر اہلِ بیتؓ تھا ان کی شان میں بدتمیزی کرنا بدرجہ اولیٰ منع ہے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے درمیان غلط فہمی کا ذکر قرآن میں موجود ہے چھوٹا بھائی اپنے بڑے پیغمبر بھائی کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی مبارک سے اور سر کے بالوں سے پکڑ لیا۔
(حاصل طہٰ: 94)
ایک عالم دین کو داڑھی سے پکڑنا کفر ہے تو ایک پیغمبر کو داڑھی سے پکڑنا کتنی بڑی بات ہوگی؟ لیکن چونکہ یہ بڑوں کا معاملہ ہے لہٰذا ہمیں ادب کی وجہ سے خاموش رہنا چاہیے سیدنا علیؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ میں غلط فہمی ہوگئی۔
(عام کتب تاریخ)
سیدنا علیؓ اور سیدۃ النساءؓ میں جھگڑا ہوا اور سیدۃ النساءؓ روٹھ کر نبی کریمﷺ کے ہاں چلی گئیں اس موقع پر نبی کریمﷺ نے فرمایا مَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنی جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
(بخاری جلد 1 صفحہ 532)
اگر آپ میں معمولی بھی خدا خوفی اور احتیاط کا مادہ موجود ہے تو اس خطرناک صورت حال میں خاموشی کو ہی ترجیح دیں گے اور اگر قسمت پھٹ چکی ہے اور بد بختی غالب آ گئی ہے تو بھاری بجلی کے خطر ناک تاروں میں انگشت زنی کرتے رہیے اہلِ سنت ایسے معاملات میں ادب کی وجہ سے خاموش رہا کرتے ہیں۔
ثالثاً حدیث شریف میں ہے کہ جس نے میرے اہلِ بیتؓ سے جنگ کی اس کے ساتھ میری جنگ ہے اور جس نے ان سے صلح کی اس سے میری صلح ہے آپ کو سیدنا امیرِ معاویہؓ کا سیدنا علیؓ سے جنگ لڑنا تاریخ میں نظر آ گیا ہے تو فرمائیے کہ اس جنگ کے بعد سیدنا حسنؓ سے صلح کرنا نظر کیوں نہیں آیا؟