Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

قرآنُ و سنت کی رُو سے صحابی و باغی کی تعریف و جزا کیا ہے؟ کیا صحابی اور باغی کو ایک ہی زمرہ میں شمار کیا جاسکتا ہے یا نہ؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عماد

جواب:

جس مسلمان نے نبی کریمﷺ کی زیارت کی اور مرتد نہیں ہوا وہ صحابی ہے۔

قرآن شریف میں اللہ کریم جل شانہ کا ارشاد ہے کہ:

وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ‌ۚ الخ۔

یعنی اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو جو بغاوت کرتا ہے اس کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ 

(سورۃ الحجرات:آیت 9)

اس آیت میں مومنین کے دو گروپوں کا ذکر ہے جو آپس میں لڑ پڑیں حکم یہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اگر مومنوں کے دوسرے گروہ پر بغاوت کرے تو مظلوم کا ساتھ دو یہاں بغاوت کرنے والے کو بھی مومن کہا گیا ہے اور جس کے خلاف بغاوت کی گئی ہو اسے بھی مومن کہا گیا ہے معلوم ہوا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا گروہ باغی ہونے کے باوجود مومن ہے۔

اسی طرح ایک اور آیت میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: 

وَيَبۡغُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّ‌ؕ الخ۔

یعنی ظلم کرنے والے لوگ حق کے بغیر بغاوت کرتے ہیں۔

 (سورۃ شوریٰ: آیت 42)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک بغاوت حق پر ہوتی ہے اور دوسری بغاوت حق کے بغیر ہوتی ہے یہی بات اہلِ لغت نے بھی لکھی ہے امام راغب اصفہانیؒ یہی آیت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ فَخَصَّ الْعُقُوبَةَ بِبَغْيِهِ بِغَيْرِ الْحَقِ یعنی اللہ تعالیٰ نے حق کے بغیر بغاوت کرنے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ 

(مفرداتِ راغب صفحہ 53)۔ 

اس آیت سے لفظ بغاوت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ الْبَغْيَ قَدْ يَكُونُ مَحْمُوداً وَ مَذْمُوماً یعنی بغاوت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔

(مفردات صفحہ 53)

المنجد میں بغاوت کے دو معنی لکھے ہیں: 

(1) تلاش کرنا یا مطالبہ کرنا۔

 (2) ظلم اور نافرمانی کرنا۔

(المنجد اردو صفحہ 94)

قرآن اور لغت کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ باغی کا لفظ وسیع ہے اور ہر باغی کافر اور جہنمی نہیں ہوتا بلکہ اس لفظ کا اطلاق مومنین صادقین پر بھی ہوتا ہے۔

ثانیاً باغی کا معنیٰ کچھ بھی ہو نبی کریمﷺ اپنے کسی غلام کیلئے یہ لفظ استعمال فرمائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپﷺ بڑے ہیں اور چھوٹوں کو تنبیہہ اور سب کر سکتے ہیں۔ جس طرح اللہ کریم نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ: 

وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‌الخ

(سورۃ طہٰ: آیت 121)

اس آیت کا ترجمہ علماء نے اس طرح فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے رب کا حکم بجا لانے میں بھول ہوئی تو جنت سے بے راہ ہوگئے۔ حالانکہ قرآن کے اصل الفاظ عصیٰ اور غویٰ بڑے سخت الفاظ ہیں عصیٰ کا لفظی معنیٰ ہے نافرمان ہوا اور غویٰ کا لفظی معنیٰ ہے گمراہ ہوا کیا آپ یہ جرات کرسکتے ہیں کہ جس طرح آپ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو بغاوت کے لفظ کی وجہ سے باغی کہا ہے اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کو بھی عاصی اور غاوی کہہ دیں؟۔

اگر آپ کو حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت تاویل پر مجبور کر رہی ہے تو اسی طرح ہمیں بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کی صحابیت اور ان کے فضائل تاویل پر مجبور کر رہے ہیں۔

ثالثاً جسے ہم صحابی کہہ رہے ہیں اور آپ باغی و مرتد ثابت کر رہے ہیں اس کو نبی کریمﷺ نے سیدنا علیؓ سے جنگ لڑ چکنے کے بعد مسلمان قرار دیا ہے۔

(بخاری جلد 2 صفحہ 530)

 لہٰذا نبی کریمﷺ کے فیصلے کے مطابق وہ صحابی ہی تھے۔ باغی و مرتد نہیں سیدنا عبداللہ ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا امیرِمعاویہؓ کو کچھ نہ کہوبوہ رسول اللہﷺ کا صحابی ہے۔

(بخاری جلد 1 صفحہ 351)۔ لہٰذا سیدنا امیرِ معاویہؓ صحابی ہیں باغی اور مرتد نہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر پار جہاد کرے گا ان پر جنت واجب ہوچکی ہے۔ 

(بخاری جلد1 صفحہ 410)

 سب سے پہلے سمندر پار جہاد کرنے والے سیدنا امیرِ معاویہؓ ہیں اور اس حدیث میں اُن کی واضح اور زبردست منقبت موجود ہے فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْقَبَةُ لِمُعَاوِيَةَؓ۔ 

(حاشیہ بخاری جلد 1 صفحہ 410)

لہٰذا سیدنا امیرِ معاویہؓ جنتی ہیں نہ کہ باغی اور مرتد اور جو شخص اتنی تصریحات کے باوجود سیدنا امیرِ معاویہؓ پر زبان درازی کرتا ہے وہ خود باغی ہے اور مرتد ہوکر مرے گا مَنْ عَادَى لِی وَلِيَا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَزبِ جو اللہ کے ولی سے عداوت رکھتا ہے اس کے خلاف اللہ کا اعلان جنگ ہے۔