اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُامید ہے تمام احباب بخیر و عافیت ہوں گے۔ جناب مفتی صاحب میں نے ایک شیعہ ذاکر کا کلپ سنا وہ یہ بات کہہ رہا ہے کے اہلسنت کے نزدیک حضرت مُحَمَّد ﷺ کے والدین نعوذ باللہ کفر پر اس دنیا سے گے ہیں اس پر وہ مسلم کی روایت پیش کرتا ہے کے ایک صحابی حضرت مُحَمَّد ﷺ کے پاس آے اور اپنے والد کے بارے میں پوچھا کے وہ کہاں ہیں تو آپﷺ نے فرمایا جہنم میں۔ جب وہ صحابی واپس لوٹے تو آپﷺ نے آواز دے کر دوبارا بلوایا اور فرمایا آپ کے والد اور میرے والد دونوں جھنم میں ہیں۔ ایک اور روایت مسلم کی پیش کی کہ آپ ﷺ نے والدہ کی قبر پر جانے کی اجازت طلب کی تو اللہ پاک نے روک دیا جبکہ اس سے آگے والی حدیث میں قبر پر جانے کی تلقین بھی کی گی ہے۔ پھر ملا علی قاریؒ کی کتاب عقیدة الموحدین کا ہوالا دیا ملا علی قاری اسی کتاب کے الرسالة السابعة عشرہ میں امام ابو حنیفہ کا اور جمھور علما کا یہی مسلک نقل کرتے ہیں۔ اس ویڈیو کا لنک یہ ہےhttps://fb.watch/hdSMoWGuNf/براہ کرم رہنمای فرماٸیں۔ جزاك اللهُ
سوال پوچھنے والے کا نام: حمزہ ندیمیہ نہایت نازک مسئلہ ہے جس بارے میں اہل اسلام پر بڑے بھونڈے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں اہل اسلام اس بارے میں موقف ملاحظہ فرماٸیں۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے والدین کو ان کی وفات کے بعد زندہ کیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے، بعض علماء فرماتے ہیں کہ چوں کہ وہ زمانہ فترت میں انتقال کر گئے تھے اور ان کے نزدیک جو لوگ زمانہ فترت میں صریح شرک اور بت پرستی سے دور رہے ان کے لیے آخرت میں نجات کے لیے کافی ہوگا۔ باقی صحیح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیا جائے یعنی خاموشی اختیار کی جائے اور آپﷺ کے والدین کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی اور بے ادبی سے زبان کو محفوظ رکھا جائے، اس لیے کہ یہ مسئلہ نہ عقائد میں داخل ہے اور ہی ایمان کا جز ہے اور نہ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔
فتاوی شامی (3/ 184) میں ہے:
'' ولا يقال: إن فيه إساءة أدب، لاقتضائه كفر الأبوين الشريفين مع أن الله تعالى أحياهما له وآمنا به، كما ورد في حديث ضعيف؛ لأنا نقول: إن الحديث أعم بدليل رواية الطبراني وأبي نعيم وابن عساكر: «خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي لم يصبني من سفاح الجاهلية شيء»، وإحياء الأبوين بعد موتهما لا ينافي كون النكاح كان في زمن الكفر. ۔۔۔۔۔۔۔
وأما الاستدلال على نجاتهما بأنهما ماتا في زمن الفترة مبني على أصول الأشاعرة أن من مات ولم تبلغه الدعوى يموت ناجياً، أما الماتريدية، فإن مات قبل مضي مدة يمكنه فيها التأمل ولم يعتقد إيماناً ولا كفراً فلا عقاب عليه، بخلاف ما إذا اعتقد كفراً أو مات بعد المدة غير معتقد شيئاً.
نعم البخاريون من الماتريدية وافقوا الأشاعرة، وحملوا قول الإمام:لا عذر لأحد في الجهل بخالقه على ما بعد البعثة، واختاره المحقق ابن الهمام في التحرير، لكن هذا في غير من مات معتقداً للكفر، فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشركاً فهو في النار، وعليه حمل بعض المالكية ما صح من الأحاديث في تعذيب أهل الفترة بخلاف من لم يشرك منهم ولم يوجد بل بقي عمره في غفلة من هذا كله ففيهم الخلاف، وبخلاف من اهتدى منهم بعقله كقس بن ساعدة وزيد بن عمرو بن نفيل فلا خلاف في نجاتهم، وعلى هذا فالظن في كرم الله تعالى أن يكون أبواه صلى الله عليه وسلم من أحد هذين القسمين، بل قيل: إن آباءه صلى الله عليه وسلم كلهم موحدون؛ لقوله تعالى: ﴿ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِيْنَ ﴾ [الشعراء: 219]۔ لكن رده أبو حيان في تفسيره بأن قول الرافضة ومعنى الآية وترددك في تصفح أحوال المتهجدين، فافهم.
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''