اسلام علیکم میرا سوال یے ھے کے مصنف ابن ابی شیبہ میں ھاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا باب موجود ھے کیا یے روایات صحیح ھیں یاں نھیں۔
سوال پوچھنے والے کا نام: راحت علیکتبِ احادیث میں رسول اللہﷺ سے نماز میں ہاتھ چھوڑنے کا ثبوت کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت میں نہیں ملتا، البتہ بعض صحابہ کرامؓ اور تابعین سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا منقول ہے، صحابہؓ میں سے عبداللہ بن زبیر، اسعد بن سہل بن حنیف، رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، حسن بصری، ابن سیرین، عطاء اور ابن جریج رحمہم اللہ سے یہ بات امام عبدالرزاق نے اپنی "مصنف" میں، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی "مصنف" میں، امام ابن منذر نے "الاوسط" میں امام ابوزرعہ دمشقی نے اپنی تاریخ میں نقل فرمایا ہے، البتہ ہمارے ہاں یہ عمل معمول بہ نہیں ہے، بلکہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل راجح ہے، بلکہ رسول اللہﷺ کا معمول اس کے خلاف ہے؛ لہذا اس پر کسی حنفی کے لیے عمل درست نہیں ہے۔
ہاتھ چھوڑنے کے بارے میں روایات درج ذیل ہیں :
1- "حدثنا عفان قال: حدثنا یزید بن إبراهیم قال: سمعت عمرو بن دینار قال: کان ابن زبیر إذا صلی یرسل یدیه." (مصنف ابن أبي شیبة، باب من کان یرسل یدیه في الصلاۃ: ۳/۳۲۵، رقم: ۳۹۷۱، ط: إدارۃ القرآن)
اس روایت میں باقی رواۃ ثقہ ہیں، البتہ یزید بن ابراہیم کے بارے میں ہے کہ جو حدیث وہ قتادۃ سے نقل کریں اس میں کمزوری ہوتی ہے۔
(تقریب التہذیب :۴۲۴، رقم الترجمہ :۴۶۲۵،ط: رشیدیہ)
2- "وحدثني عبد الرحمن بن إبراهيم عن عبد الله بن يحيى المعافري عن حيوة عن بكر بن عمرو: أنه لم ير أبا أمامة -يعني ابن سهل- واضعاً إحدى يديه على الأخرى قط، ولا أحداً من أهل المدينة، حتى قدم الشام، فرأى الأوزاعي، وناساً يضعونه." (تاریخ أبي زرعة الدمشقي: ۶۲۲، ط: مجمع اللغة العربیة، دمشق)
اس سند میں عبداللہ بن یحیی المعافری کے بارے میں ہے کہ ان سے روایت لینے میں حرج نہیں۔ (تقریب التہذیب :۲۲۱،رقم :۱۶۰۰،ط: رشیدیہ) باقی رواۃ ثقہ ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کچھ روایتیں ہیں، لیکن جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرا ہے کہ حنفیہ کے ہاں یہ سب روایات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح عمل کی وجہ سے قابل تقلید نہیں۔
شیعہ کا نماز میں ہاتھ کھولنے پر چند قرآنی آیات سے استدلال اور اس کا تحقیقی رد