میں سنی کیوں ہوا
مولانا محمد اسماعیل میسوِیمیں سنی کیوں ہوا
داستان هدایت ..... جناب صالح حسین شوق صاحب
یہ مضمون کے7 ذیقعدہ 1345ھ کے النجم لکھنو میں شائع ہوا تھا اس میں صاحب مضمون جناب صالح حسین شوق نے اپنے سنی مذهب قبول کرنے کے اسباب و عوامل بیان کیے ہیں مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیعوں کے دل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف کتنا بغض و عناد بھرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس مضمون کو بے راہ لوگوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ بنائے مضمون درج ذیل ہے
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الكريم وعلى اله واصحابه اجمعين
آج سے (یعنی جس وقت صاحب مضمون کی عمر 40 سال تھی) چوبیس پچیس سال قبل جبکہ میں تقریبا پندرہ سولہ برس کا تھا اور ضلع چھیرہ کے اسکول میں پرانے نصاب کے موافق تیسرے درجے میں تعلیم پارہا تھا کہ رب مقلب القلوب نے شیعہ مسلک سے متنفر کر کے حلقہ بگوشان صحابہؓ میں داخل فرمایا اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ .....
سن رشد کو پہنچا تو پکا شیعہ تھا
ہم دو بہن بھائی تھے جو بحالت یتیمی اپنی جدہ ماجدہ والدہ مرحومہ کے زیر سایہ پرورش پارہے تھے چونکہ الحاج مولوی مبارک حسین صاحب جد مرحوم ضلع کے مشہور رئیس اور وکیل تھے اور آپ کی حیات ہی میں ہمارے والد ماجد جناب الحاج مولوی سید نجم الحسن صاحب مرحوم رحلت فرما چکے تھے اور ہم دونوں بہن بھائی کا سن دو تین سال سے زائد نہ تھا اس لیے جائیداد کا نظم تحت انتظام ککڑ ضلع محکمہ کورٹ آف وارڈس کے در آیا اور ہم لوگ بولایت و نگران جدہ امجدہ و والدہ مرحومہ کے تربیت پانے لگے اور جناب دادی صاحبہ و جملہ بزرگان خاندان نے خاص توجہ اس امر پر رکھی کہ سنی المشرب اتالیق کا مذھبی اثر ہم پر نہ پڑنے پائے چنانچہ جب میں سن رشد کو پہنچا تو پکا شیعہ تھا اور خاص عقیدت والہانہ کے ساتھ محرم الحرام کی رسم عزاداری اور اس کی تمام بدعات میں حصہ لیتا جو ہمارے یہاں بڑے اہتمام سے انجام دی جاتی تھیں۔
نعوذ باللہ عمرکشی کی رسم
مذھبی غلو کے اہتمام کا یہ عالم تھا کہ ہمارے ننھیال میں جس کا خاص تعلق کھجوہ ضلع سارن سے ہے نعوذ باللہ عمرکشی کی رسم ہوتی تھی اس میں بشوق تمام حصہ لیتا تھا حتی کہ اس کی رنگ رلیوں نے ہمیں یہاں تک آمادہ کیا کہ ایک سال جدہ ماجدہ سے میں نے عرض کی کہ جو رسم ہمارے ننھیال میں ہوتی ہے اس کو آپ اپنے یہاں بھی قائم کریں مگر جدہ مرحومہ نے ہماری عرض کو منظور نہیں فرمایا اور یہ کہہ کر ہماری آرزؤں کو خاک میں ملا دیا کہ تمہارے دادا نے کبھی اس رسم کو اپنے یہاں ادا نہیں کیا تمہارے دفتر کے تمام عمال سنی المشرب ہیں اور نوکر چاکر بھی اسی مسلک والے ہیں اور یہ سب تمہارے بزرگوں کے وقت سے یوں ہی چلے آرہے ہیں ان کی خاطر شکنی کسی طرح مناسب نہیں اس فہمائش سے مجھے قلق ہوا اور اپنی شقاوت قلبی کی بھڑاس کو اس وقت یوں پورا کیا کہ اپنے ہاتھوں کاغذ پر ایک تصویر بنائی اس کو بیت الخلاء میں لے گیا اور پھر یہ قرار دے کر کہ یہ مخبر صادقﷺ کے خلیفہ اقدس جناب سیدنا عمر فاروقؓ کی ہے اور اس پر پیشاب پاخانہ کر ديا نعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا
دل نے کبھی گوارہ نہ کیا
منجلہ دیگر مذھبی تعلیمات کے ہم کو یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ لعنت کی عبادت ادا کرتے وقت اس امر کا ضرور خیال رکھنا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ وسیدنا عمر فاروقؓ کے ہم نام سیدنا علیؓ کی اولاد بھی ہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی نادانستگی میں سب وشتم جاری ہو جائیں مگر ہمارے قلب کی اس وقت عجیب حالت ہو گئی جب ہمیں یہ تلقین بھی کی جانے لگی کہ نماز پنجگانہ کے بعد مصلی اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک ایک تسبیح لعنت کی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے نام سے نہ پڑھ لیں باوجود اپنی مذھبی شدت کے مجھ سے شیعہ مسلک کی یہ عبادت سر انجام نہ پاسکی، نمازوں کے بعد تسبیح اٹھاتا اور پھر رکھ دیتا ۔ دل نے کبھی گوارا نہ کیا کہ اس کو گالیاں دوں جس کا ماں ہونا قرآن کریم نے صریح طور پر واضح کر دیا ہو۔
خدارا ! خلفاء راشدینؓ پر لعنت نہ کرنا
بہر حال اسی طرح بسر ہورہی تھی کہ یکا یک اسکول کے مدرسین میں سے ایک بزرگ کو میری سادہ لوحی اور مذہبی نیک نیتی پر رحم آیا اور انھوں نے ایک روز دبی زبان سے مگر نہایت مخلصانہ طور پر مجھ سے فرمایا "تم کو ماشاء اللہ مذھب سے بڑا شغف ہے اچھی بات ہے مگر خدارا خلفاء راشدینؓ پر لعنت نہ کرنا قلب اس فعل سے سیاہ ہو جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد خدا نے انہی مولوی صاحب کو یہ توفیق بھی دی کہ ایک روز وہ ایک کتاب لائے جس میں سیدنا عمرؓ کے اسلام لانے کا مفصل حال درج تھا تاکہ اس کو دیکھ کر ہمارا دل اس بزرگ کی دشمنی کی جانب سے کچھ نرم ہو جائے اور لعنت سے محفوظ ہو سکوں ۔ ان دو باتوں کا اثر ہمارے قلب پر کیا ہوا ہم نے اس وقت محسوس نہیں کیا مگر غالبا یہی دو واقعے تھے جس سے پہلے ہمارے کان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حمایت یا تعریف کے الفاظ سے قطعا نا آشنا تھے۔
تلاوت قرآن اور نماز سے محبت
ہماری تربیت نے ہم کو سنی مسلک سے اس قدر دور رکھا تھا کہ جب کبھی ہمارے دادا صاحب مرحوم کا ایک سنی خانساماں قرآن مجید کی تلاوت کرتا اور میں بے اختیار اس کے پاس جا کر سننے لگتا تو یہ خیال آتے ہی کہ میں ایک سنی کا قرآن پڑھنا سن رہا ہوں چونک پڑتا اور اس خوف سے کہ کہیں گناہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں وہاں سے دور ہٹ جاتا یہ تو تلاوت کا حال تھا۔ طریقہ نماز کا بھی اس سنی کا زیادہ پیارا معلوم ہوتا خصوصاً جہری نمازوں میں اس کا قراءت کرنا اور رکوع و سجدہ کی تسبیحوں کو بالسرادا کرنا میں شیعہ مسلک میں سب کو بالجہر ہی پڑھا کرتا تھا۔
الفاظ مقدس سینہ میں اترنے لگے
اسی اثناء میں ایک روز دادا صاحب مرحوم کے کتب خانہ کی دیکھ بھال کر رہا تھا کہ کچھ بند پارسل نظر پڑے کھولا تو حرف ابیض والا قرآن مقدس تھا بین السطور ترجمہ اور حاشیہ پر مختصر لکھائی مندرج تھی 27 عدد پارے تھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارہ پارہ ہو کر طبع ہور ہا تھا اور ابتداء ہی سے دادا مرحوم نے اس کا ہدیہ کرنا شروع کر لیا تھا اتنے ہی پارے آنے پائے تھے۔ کہ انہوں نے رحلت فرمایا اس لیے بقیہ تین پارے نہ آسکے کیونکہ ان کی رحلت کا زمانہ اور اس کے بقیہ پاروں کی طباعت کا وقت قریب قریب ایک ہی تھا جدا امجد مرحوم کو کتابوں کا بڑا شوق تھا شیعی چھپے ہوئے بے شمار نسخے عرضیوں کے بھی تھے جو امام غائب کے پاس دریا کے ذریعہ روانے کیے جاتے تھے مسلک کی نایاب جلدیں عراق سے ساتھ لائے تھے۔ خصوصاً قرآن کریم کی جلدوں کے تو شیدا معلوم ہوتے تھے۔ متعدد قلمی نسخے ہر کمرہ، ہر دفتر میں موجود رکھتے ، جو نیا قرآن کہیں چھپتا فورا ھدیہ کرتے بہر حال اس قرآن کریم کی جلد کے بقیہ پارے منگوائے اور بڑے اشتیاق سے اعلیٰ درجہ کی جلد بندی ہوئی اور جی جان سے تلاوت شروع کر دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ خداوند ذوالجلال کا مقدس کلام معہ ترجمہ کے نظروں سے گذرا اس وقت تک تلاوت بلا فہم ہوا کرتی تھی اب جو اس کے مطلب پر نظر پڑی تو ایسا محسوس ہوا کہ دوسری دنیا میں ہوں آنکھوں کے رستے اس کے الفاظ مقدس اب سینہ میں اترنے لگے جیسے کوئی پیاسا پانی پیے۔ صبح سے عصر تک جب کبھی فرصت ملتی
میں ہوتا اور وہ ہمارا حرف ابیض والا با ترجمہ قرآن ہوتا ۔
اعضاء نے شیعہ نماز کا طریقہ فراموش کر دیا
باوجود دن دن بھر کی تلاوت کے چار ورق سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا تھا اسی طرح خداوند کریم نے دو تین بار اپنا کلام پاک ختم کر دیا اور اس کی مقدس چاشنی ہماری جان کو بخشی چونکہ یہ قرآن ہم نے دادا صاحب مرحوم کی کتابوں سے خود پایا تھا اس لیے کبھی اس کا وہم گمان بھی شاید نہیں ہوا کہ یہ سنی مذهب کی کتاب ہے نیز ہماری شیعہ تعلیمات میں غالباً یہ کسر رہ گئی تھی کہ ہم کو بھی قرآن کریم سے متنفر نہیں کرایا گیا تھا اور نہ یہ ذھن نشین ہوا تھا کہ موجودہ مصحف بیاض عثمانی ہے جس میں کفر کی بنیادیں ہیں بلکہ دانسته یا نا دانستہ دادی صاحبہ مرحومہ جب ہم بھائی بہن اور گھر بھر کو صبح کی نماز کیلئے بعوض سلانے کے جگانے کی لوری دے کر بیدار فرما تھیں کہ اٹھو اے نمازی نماز گزارو۔ پیا ملن کا بیریا ہے۔ تو چونکہ بڑے درد کے ساتھ ان الفاظ کو ادا کرتی تھیں اس لیے ہم لوگ جاگ ہی پڑتے اور نماز ختم کر کے قرآن لے کر تلاوت کے لئے بیٹھ جاتے اور جو بچہ جتنی دیر تک تلاوت کرتا وہ اسی مقدار سے دادی صاحبہ مرحومہ کی محبت اور انعام کا صلہ پاتا الغرض قرآن کی عظمت ہمارے دلوں میں پہلے سے قائم تھی اور بسا اوقات ہمارے ایک شیعہ بزرگ ہمارے سنی عمال کو چھیڑ کر بحث و مباحثہ کو گرم کر دیا کرتے تھے ہمارے گھر میں مذھبی چرچے رہا ہی کرتے تھے جس میں خاموشی کے ساتھ میں موجود رہا کرتا ایک روز غالبا جبکہ تنہائی میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا کہ یکا یک دل نے کہا کہ ہاتھ باندھ لو اور گویا بے ساختہ ہمارے ہاتھ نماز ہی کے اندر اس طرح پر بندھ گئے جیسا کہ حنفی مسلک کا قاعدہ ہے مگر تمام ارکان نماز کے ویسے ہی ادا کرنے پڑے جیسے شیعہ مسلک میں تھے اس طرح کچھ زمانہ گذرنے پر میں نے ان استاد صاحب سے ایک روز کہا جو سیدنا عمرؓ کے ایمان لانے والی کتاب کے دینے والے تھے کہ کوئی کتاب ایسی ہو جس میں سنی مسلک کا طریقہ نماز وغیرہ کی کیفیت درج ہو تو ہمیں مرحمت فرمائیں تو انھوں نے شرح وقایہ کا اردو ترجمہ لا کر ہمارے حوالے کر دیا جس کی کتاب الطہارت و کتاب الصلوۃ کے ورق ورق کا میں کیڑا ہوگیا اور سنی مسلک کے طریقہ نماز سے آگاہی حاصل کر لی مگر باوجود اس کے جب کبھی نماز کیلئے کھڑا ہوتا تو چونکہ جوارح شیعہ طریقہ کے عادی ہوچکے تھے ، بار بار اسی انداز سے جاری ہو جاتے اور میں رونے لگتا کہ یا اللہ تیری صحیح نماز مجھ سے ادا نہیں ہو سکی بحمد اللہ محنت کرتے کرتے کئی مہینہ میں ایسی مشق ہوگئی کہ اب شیعہ طریق نماز کو جوراح نے یوں فراموش کر دیا جیسے وہ کبھی اس سے آشنا ہی نہ تھے۔
پردے ڈال دیتا تھا
یہ زمانہ تھا کہ میں اسکول کے تیسرے درجے میں پہنچ چکا تھا مذہبی انہماک کے ساتھ ساتھ تعلیمی شغل کو بھی کما حقہ ادا کرنا ضروری تھا اس لیے مجھے ایک کمرہ اپنے لیے مخصوص کرنا پڑا تھا جس میں دین و دنیا کے شغل جاری رہتے چونکہ وضوء کی عبادت اور نمازیں میں دونوں آبائی طریقہ کے خلاف ادا کرتا تھا اس لیے کمرہ کے دروازوں پر پردے ڈال دیتا تھا اندر ہی میں وضوء بھی کرتا اور جب سناٹا ہو جاتا تو نمازیں بھی پڑھ لیتا۔ شدہ شدہ احباب و بزرگوں کو خیال ہونے لگا کہ تنہائی میں میں کیا کرتا رہتا ہوں کہیں ایسا تو نہیں کہ برے افعال کا مرتکب رہتا ہوں جس کیلئے یہ سب پردہ داریاں ہیں۔ الغرض تانک جھانک ہوتی رہتی تھی کہ ایک روز جبکہ میں گردن کا مسح کر رہا تھا کہ والدہ مرحومہ نے دیکھ لیا اور فورا دادی صاحبہ کو اطلاع دی کہ میں نے لڑکے کو وضوء کرتے وقت گردن کاٹتے دیکھا ہے بعض سنی نوکروں نے بھی ہمارے راز سے واقفیت حاصل کرلی تھی اس لیے اب چرچا شروع ہو گیا۔
دادی صاحبہ کی محبت
شیعہ بزرگ دادی صاحبہ پر نرغہ کرنے لگے خبر لیجئے ایسا نہ ہو کہ لڑکا سنی ہو جائے مگر چونکہ ہمارے شباب کا زمانہ تھا اور دادی صاحبہ مرحومہ ہمارے مزاج سے واقف تھیں اس لیے کسی طرح کی سختی کرنا ان کی مصلحت کے خلاف تھا ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ ذرہ برابر گزند ہمارے قلب کا ان سے دیکھا نہیں جاتا تھا اور فرمایا کرتی تھیں۔ شوہر اور بیٹے کو اللہ نے ہم سے جدا کر کے ان دونوں کی نشانی یہی دو بھائی بہن ہمیں دیے ہیں جہاں خود سوتیں وہیں اپنے پلنگ سے متصل ہم دونوں بھائی بہن کے پلنگ بھی بچھواتیں اور ہر کھانا پہلے خود تناول فرما لیتیں بعد میں ہم کو کھلاتیں خدا نخواستہ اگر کھانے میں زہر ہو تو ہم دونوں بہن بھائی محفوظ رہیں۔
وہابی ہو گیا ہے
مگر باوجود ان تمام باتوں کے فکر ان کو بھی دامن گیر رہتا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے جو سنتی ہوں۔ چنانچہ ایک روز جب میں اپنے کمرے میں صاف فرش پر عشاء کی نماز میں مصروف تھا کہ یکا یک کمرہ میں چلی آئیں اور اسی تخت پر بیٹھ گئیں جس پر میں نماز پڑھ رہا تھا۔ میں روزانہ دروازہ بند کر کے نماز پڑھتا تھا اس روز اتفاق سے بھول گیا تھا میں نے نماز ہی میں محسوس کیا کہ تشریف لائیں ہیں سوچا کیا کروں دل نے فیصلہ کیا کہ نماز تو پوری کرلوں سلام پھیر کر گردن جھکائے بیٹھا رہا دیر تک خاموش رہنے کے بعد غصہ میں بولیں سنی بھی نہیں وہابی ہو گیا ہے جا نماز بھی نہیں بچھائی۔
ہماری بڑی سبکی ہوئی
میں خاموش رہا پھر فرمایا" سر اٹھاؤ ڈرو نہیں ہم کو اس کا شک تھا کہ تم بند کمرہ میں کسی برے افعال کے مرتکب رہتے ہو آج معلوم ہوا کہ جو کچھ تمہارے بارے میں سنا تھا وہ صحیح ہے اور تم نے مذہب بدل دیا۔ خیر یہ تو ایک رشتہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہم کو دخل نہیں دینا چاہیے۔ ہاں اتنی خواہش ضروری ہے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تم اپنے آپ کو ظاہر نہ کرتے تو اچھا ہوتا ورنہ ہماری بڑی سبکی ہوئی۔ دادی صاحبہ تو یہ تقریر فرما کر چلی گئیں مگر ہماری عجب حالت ہوگئی راز فاش ہونے سے حیاء دامن گیر ہوگئی حتی کہ میں اپنے بستر پر سونے کیلئے نہیں گیا اور دوسرے روز بھی کھانا وغیرہ باہر ہی سے منگوا کر کھایا۔ دادی صاحبہ نے زنان خانہ میں بلا بھیجا تو میں بھی حاضر نہ ہو سکا سامنے جانے سے طبیعت عرق عرق ہوتی معلوم ہوتی اور اندر جانے کی ہمت نہ پڑتی۔
حسب دستور رہنے سہنے لگا
دوسرے روز شام کے وقت کمرہ سے باہر سائبان میں بیٹھا تھا کہ دادی مرحومہ کو دیکھا دیوانہ وار باغ میں نکل آئی ہیں اور مردانہ سے ہوکر سڑک کا رخ کرلیا میں لپک کر آگے ہوگیا اور دروازہ روک کر عرض کرنے لگا کہ کہاں تشریف لے جارہی ہیں۔ ارشاد کیا کہ ہم کو چھوڑ دو میں نے ضد کی تو رونے لگیں اور فرمایا کہ تم کو اسی دن کیلئے پالا پوسا تھا کہ جوان ہو کر ہم سے کنارہ کشی کرلو اور ہم کو منہ نہ دکھاؤ اللہ اللہ ان جملوں نے قلب کو پاش پاش کر دیا میں بھی رونے لگا بالاخر منا کر واپس لایا اور اس طرح جو خجالت مجھے دامن گیر ہوگئی تھی زائل ہوئی اور حسب دستور میں رہنے سہنے لگا حتی کہ انٹرنس کا امتحان بخوبی میں نے پاس کیا اور اس کی خوشی میں دادی صاحبہ مرحومہ نے مجلس میلاد منعقد فرمائی۔
کونڈوں کی رسم
ان کی اکثر یہ عادت تھی اور ایسے دستور میں شیعہ و سنی دونوں جماعتوں کے افراد کو مدعو فرماتیں تھیں مگر میلاد خواں کو تاکید کر دیتیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب نہ پڑھیں چنانچہ وہ مجلس میلاد حسب ہدایت ان کے قائم ہوئی جس کے دو تین روز بعد والدہ مرحومہ نے اسی پاس ہونے کی خوشی میں مجلس برپا کی اور کونڈا بھی کیا اس رسم میں شیعہ لوگ بعد ذکر خیر ائمہ اثنا عشرہ کے دستر خواں پر بیٹھ کر جلیبیاں کھاتے ہیں چنانچہ حسب رواج جب بعد مجلس دستر خوان لگایا گیا تو میں بھی موجود تھا شب کے غالباً گیارہ بجے ہوں گے۔ لوگ جلیبیاں اٹھا چکے تھے ایک میرے ہاتھ میں بھی تھی دفعتا صفدر حسین جو والدہ مرحومہ کے خلیرے بھائی تھے سیدنا عمرؓ کا نام لے کر لفظ لعنت کو اپنی زبان پر لائے اور گویا کونڈہ کی اس طرح بسم اللہ کی۔ جہاں میں بھی موجود تھا تو میری طبیعت جلیبی کھانے سے رک گئی اس سے پہلے بھی جب ہمارے تبدیل مذهب کا حال دادی صاحبہ مرحومہ سے بھی مخفی تھا تو آٹھویں محرم کو حاضری کی روٹیاں جن کے نیاز کرتے وقت عموماً سب وشتم کے الفاظ مثل درود و دعاء کے پڑھے جاتے ہیں نہیں کھائی جاتی تھیں۔ بلکہ نیاز ونذر کی کوٹھڑی سے اپنا حصہ منگوا کر پوشیدہ طور پر اس کو دفن کر دیتا اور ہمارے راز دان کو جب محسوس ہوتا کہ مجھ پر فاقے گذر چکے ہیں تو کچھ سامان کر کے وہ ہم کو کھلا پلا دیتے۔
ہمیں ستانا مناسب نہیں تھا
بہر حال اب جلیبی ہاتھ میں ہے دل گوارا نہیں کرتا کہ کھاؤں نہیں کھاتا تو راز جو گو اب ویسا راز نہ تھا مگر پھر بھی راز تھا۔ فاش ہوتا ہے اور دادی صاحبہ کی وصیت کے خلاف ہوتا ہے کہ انھوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ ان کی زندگی تک ہم بالاعلان اپنے مذھب کو فاش نہ کریں۔ غرض اس کشمکش میں فیصلہ یہی کیا کہ جلیبی نہیں کھائی اور سیدھا اپنے کمرہ میں اٹھ آیا اور عالم خیال میں مستغرق ہوگیا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے اتنے میں ایک شیعہ بزرگ جن کا میں ادب کرتا ہوں اور وہ بھی اکثر آمد و رفت رکھتے تھے ہمارے پاس آئے اور اپنی ٹوپی اتار کر ہمارے پیروں پر رکھ دی اور فرمایا کہ معاف کرو ہم لوگوں نے صفدر کو ڈانٹا کہ انھوں نے تم کو کیوں گزند پہنچایا میں نے عرض کی کہ آپ بزرگوں سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی ہاں اتنی شکایت ماموں صاحب سے ضرور ہے کہ جب وہ ہمارے جذبات سے واقف تھے تو ہمیں ستانا مناسب نہ تھا۔
علی الاعلان سنی طریقہ سے نمازیں پڑھو
ادھر ایک شیعہ بزرگ واجبات ادا کر کے رخصت ہوئے اور ادھر دادی صاحبہ مرحومہ کو جو بستر علالت پر تھیں بہن سلمھا اللہ نے خبر کر دی کہ بھیا کے ساتھ لوگوں نے ایسا برتاؤ کیا، ماما مجھے بلانے آئی جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو والدہ وغیرہ کو بھی متوشوش اور سخت مکدر پایا۔ دادی صاحبہ نے نہایت برہمی کی حالت میں مجھ سے فرمایا کہ ہمارے گھر میں دادا صاحب مرحوم کے وقت سے کبھی اس طرح برملا تبراء کی رسم نہیں برتی گئی تم نے دروازہ بند کر کے سب وشتم کرنے والوں کو زدو کوب کیوں نہ کروایا خیر تم کل سے علی الاعلان نمازیں پڑھو اور ظاہر ہوجاؤ ۔ دیکھیں کوئی " عد بشد سبب خیرگر خدا خواہد ۔ غرض ہماری حالت طشت ازبام تو ہو ہی چکی تھی جو کچھ رہا سہا پس و پیش دادی صاحبہ کی وصیت کے باعث دامن گیر تھا وہ بھی جاتا رہا میں اپنے کمرے کے قید خانہ سے گویا آزاد ہو گیا۔
جائیداد سے محروم کرنے کی دھمکی
شیعہ حضرات نے اس بات کی بھڑاس یوں نکالی کہ کلکٹر ضلع کے پاس متعدد دستخط سے ایک عرض داشت گذاری ۔ جس میں ہمارے تبدیل مذھب کی کیفیت مندرج کر کے تفتیش حالات کی استدعا کی اور جائداد سے مرحوم کیے جانے
کی دھمکی دلائی۔ بحمد اللہ میں اس آزمائش میں ثابت قدم رہا بلکہ اپنے قلب کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت سے ایسا استوار پایا گویا جائداد سے محروم کیا جاتا ایک موہوم امر تھا مگر تا ہم گھر بار کو عشاق نبویﷺ کے نام کے صدقہ میں ان پر نثار کر دینے کا تصور دریا کے موجوں کی طرح لہریں لینے لگا۔
شیعہ پبلک ہمارا بال بھی بیکانہ کر سکی
بہر حال حسب منشاء درخواست تحقیقات شروع ہوئیں کلکٹر صاحب خود آئے ہم سے کچھ زیادہ پوچھا نہیں بلکہ مجھ سے تو کلکٹر نے میری تعلیمات کے متعلق استفسارات کر کے مجھ کو روانہ کر دیا ہاں دادی صاحبہ مرحومہ کا دیر تک تبادلہ خیال ہوتا رہا کیوں کہ وہی ہماری ولی تھیں اور نامعلوم اللہ نے ان کی زبان سے کس طرح کا بیان دلوایا کہ درخواست خارج کر دی گئی اور شیعہ پبلک ہمارا ہال بھی بیکا نہ کرسکی۔
میری بہن بھی سنی ہو گئی
اور تو اور ان تحقیقات سے ایک نیا گل کھلا یعنی بہن سلمھا اللہ کے بھی سنی المشرب ہو جانے کی اسی روز بنیاد پڑگئی۔ وما علینا الا البلاغ المبین
( ماهنامه خلافت راشده)
سراسیمگی پھیل گئی
جام پور شہر وارڈ نمبر7 میں ایک عورت نے کافی عرصہ بیمار رہنے کے بعد موت سے دو دن قبل خواب دیکھا خواب کا ذکر کرتے ہوئے رشتہ داروں کو بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں جھنم میں پہنچ چکی ہوں اور فرشتے میری پٹائی کر رہے ہیں اور مجھے یاد دلا رہے ہیں کہ تو نے ساری زندگی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ازواج مطہراتؓ پر تبرا بازی کی
اور ان تبرائی مجالس میں شرکت کی لہٰذا تجھے اس بات کی سزا مل رہی ہے میں خواب میں یہ حالت دیکھ کر گھبرا کر اٹھ بیٹھی اور ساری رات پریشانی میں گذاری اب میں تمہیں یہ خواب سنا رہی ہوں اور اب میں مذھب شیعہ سے براءت کا اعلان کرتی ہوں پھر اس عورت نے کلمہ شریف پڑھا اور مذھب شیعہ سے توبہ کی اپنے رشتہ داروں کو وصیت کی کہ میرا جنازہ اہلِ سنت سے پڑھایا جائے دوسرے دن اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے رشتہ داروں نے شیعہ عقائد کے مطابق کفن دفن کا انتظام کرنا شروع کیا تو اس کا بیٹا ماں کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے بضد ہوگیا کہ میں اور میرا باپ بھی شیعہ ہونے کے باوجود میں ماں کی وصیت پر عمل کروں گا اور اس کا کفن دفن مذھب اہلِ سنت کے مطابق کروں گا تو برادری دو دھڑوں میں بٹ گئی آخر اس کا جنازہ سنی مذھب کے مطابق پڑھایا گیا جس میں اہلِ سنت ہمسائے جو کہ پریشان تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ جنازہ اہلِ سنت کے عقیدہ کا امام پڑھے گا تو کثرت سے شرکت کی تمام انتظام اہلِ سنت کے مذہب کے مطابق کیا گیا تو شیعہ رشتہ داروں نے ناراض ہو کر جنازہ میں شرکت نہ کی اور اس خواب سے ان کے اندر سراسیمگی پھیل گئی۔
یہ حق ہے
میر منصب علی تھانوی جب شیعہ سے سنی ہوئے ان کی ماں بہت روئی اور تمام عمر ان کی صورت نہیں دیکھی ان کے سنی ہونے کا یہ قصہ ہوا کہ ان کو سنی شیعہ دونوں طرف کی باتیں سن کر تردد ہو گیا جو کسی طرح دفع نہ ہوتا تھا کسی نے کہا کہ پیران کلیر بڑی برکت کی جگہ ہے وہاں حاضر ہو وہ پیران کلیر کی مزار پر جا کر دعا کی اے اللہ اس بزرگ کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں کہ بس یوں ہی میرے قلب میں حق بات آجائے کہ یہ حق ہے اور اس کے خلاف کو دل قبول ہی نہ کرے اس کے بعد تھانہ بھون آئے اور اتفاقا ایک حافظ صاحب نے آیت وضوء میں اِلی المَرَافِق کی تفسیر میں یہ کہا کہ دیکھو اس سے معلوم ہوتا ہے پانی کہنیوں کی طرف لانا چاہیے انہوں نے شیعوں کو بالعکس کرتے دیکھا انھوں نے اپنے ماموں سے پوچھا جو کہ مجتہد تھے انہوں نے کچھ تاویل کی انہوں نے کہا کہ صاف بات کو چھوڑ کر تاویل کو قبول نہیں کیا جاتا پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگ قرآن کے تارک ہیں اور پکے سنی ہو گئے (حسن العزیز)۔
ماما نوکرانی
کانپور میں ایک ماما نوکر تھی وہ اپنی بہن کی حکایت بیان کرتی تھی کہ میری بہن شیعہ تھی اور خود میں بھی شیعہ تھی جب میری بہن کا انتقال ہوا تو اس کو غسل کے وقت گز ڈالا گیا میں یہ دیکھ کر سنی ہوگئی کہ میرا بھی یہی حال کریں گے یہ دیکھ کر میں سنی ہوگئی اللہ جانے قیامت میں کیا حالت ہوگی یہاں تو اس کی صورت دیکھنے سے معلوم ہوتی ہے کہ دوزخی ہے۔
نو مسلم شیعہ خاندان کے سر براہ غلام شبیر سے ایک ملاقات
سوال ..... غلام شبیر صاحب ! کیا آپ نے شیعیت سے توبہ کر لی ؟
جواب: جی ہاں۔
سوال .. آخر کیا وجہ بنی؟
جواب اس لیے کہ شیعہ مذهب جھوٹا مذھب ہے اور اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
سوال : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ مذھب جھوٹا ہے؟
جواب ... مجھے شیعیت کی حقیقت کا علم مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کی تقریر کی کیسٹوں سے اور مولانا قاری محمد یعقوب صاحبؒ سرپرست سپاہ صحابہؓ بلوچاں کی تبلیغ اور ان کے تعاون سے اور شیعہ مذھب کے کفریہ لٹریچر پڑھ کر پتہ چلا کہ شیعہ مذحب جھوٹا ہے۔
سوال : کیا آپ کے قریبی رشتہ داروں میں سے بھی کسی نے مذھب حق قبول کیا؟
جواب نہیں ! صرف میں میری بیوی اور بچوں نے اسلام قبول کیا ہے جبکہ ہمارے دوسرے رشتہ دار ابھی شیعہ ہیں اور ہمارا علاقہ جلا بلوچاں شیعہ کا گڑھ ہے اور یہاں کے بڑے بڑے ذاکر بھی مشہور ہیں۔ سوال : آپ نے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے کسی کو مذہب اسلام کی حقانیت سے روشناس کروایا ہے؟
جواب: جی ہاں؟ کیوں نہیں میں اپنے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کو اسلام کی حقانیت کے بارے میں بتا رہا ہوں اور انھیں مذہب شیعہ سے توبہ کرنے کیلئے تبلیغ کررہا ہوں اور دعا بھی کررہا ہوں کہ اللہ تعالی انھیں ہدایت نصیب کرے۔
(خلافت راشده مٸ 1991 )
شیعہ مذھب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا
چکوال میں ایک نوجوان نے مولانا حقنواز جھنگوی شہیدؒ کی کیسٹ سن کر اسلام قبول کر لیا اس نوجوان کا تعلق ایک مشہور شیعہ گھرانے سے ہے اور اس کے گھر میں اکثر مجالس عزا کا اہتمام ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو ایمان کی روشنی عطا کی اور اس نے
سپاہ صحابہؓ چکوال کے سرپرست مولانا عبدالشکور جھنگویؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اس نوجوان کا نام وسیم عباس تھا اب اس نے اپنا نام وسیم عثمان رکھ لیا ہے وسیم عثمان کو گھر سے
دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن یہ تو جوان عظمت صحابہؓ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار
ہے۔
(خلافت راشدہ مئی 1991 صفحہ 34)۔