ایجاد مذہب شیعہ
مولانا اللہ یار خانؒاَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ
بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله رب العٰلمين والصلوٰة والسلام على عباده الذين اصطفىٰ امّابعد
جب اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو مکمل کرنا چاہا اور اپنی تمام نعمتیں مخلوق پر پوری کرنی چاہیں اور ہدایت اور رضامندی کا دروازہ کھولنا چاہا اور ہر قسم کی نبوت تشریعی اور غیر تشریعی کا دروازہ بند کرنا چاہا۔ تو حضرت محمدرسول اللہﷺ خاتم الانبیاء کو مبعوث فرمایا۔حضورانورﷺ نے اپنے منصب رسالت کو اس طرح ادا فرمایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی، آپﷺ نے اس جاہل قوم میں آکر تبلیغ و دعوت اِلی اللہ شروع فرمائی تو جناب محمدﷺ کے شاگردوں اور مریدوں کا ہجوم ہوا،اپنے مریدوں کو عقائد و اعمال حلال و حرام سکھلائے اور ان کے نفوس کا وہ تزکیہ فرمایا جس کی مثال سابقہ انبیاءؑ میں بھی تلاش کرنی ناممکن ہے جب دین ہر طرح سے مکمل ہو گیا۔اور دین میں فوج در فوج لوگ داخل ہو گئے،اور جب آپﷺ اپنے منصب کو ادا کر چکے تو داعی اجل کو لبیک فرماتے ہوئے رفیق اعلیٰ کی طرف رحلت فرمائی۔جزاه الله عنا خير الجزاء جس وقت آپﷺ نے دنیا فانی کو ترک فرمایا تو آپﷺ کے شاگردوں کی جماعت کی تعداد ایک لاکھ کئی ہزار پر مشتمل تھی بقول ڈاکٹر اسپرنگر چار لاکھ تھی آپﷺ سے حدیثیں نقل کرنے والوں کی تعداد مردوں عورتوں کی جیسا کہ اصابہ کے صفحہ 11،12 پر موجود ہے۔
تعداد رواة توفی النَّبِیّﷺ ومن سمع منه زيادة على مائةالف انسان من رجل وامراة كلهم قدروى عنه سماعا ورواية۔
رواۃ کی تعداد جنہوں نے نبی کریمﷺ سے حدیثیں سنی ہیں۔ایک لاکھ سے زائد تھے مرد و عورت تمام نے نبی کریمﷺ سے سُن کرحدیثیں بیان فرمائیں اور کوئی دوسروں سے سُن کر۔
اس مقدس جماعت کے اندر کوئی ذرہ بھر اختلاف نہ تھا تمام کا ایک ہی عقیدہ تھا۔جو عقیدہ آج اہلِ سنت والجماعت کا ہے ان کے اعمال و عبادات میں بھی کوئی اختلافات نہ تھا۔ اگر تھا تو مقتضائے فہم ورائے تھا۔ جیسا کہ خود سیدنا علی المرتضیؓ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے۔
(نہج البلاغہ جلد 3،صفحہ 125)
والظاهران ربنا واحد ونبينا واحد ودعوتنا في الاسلام واحدة ولا نستزيدھم فی الايمان بالله والتصديق برسول اللهﷺ ولا يستزيدوننا الامر واحد۔
ظاہر بات ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ وغیرہ کا اور ہمارا رب ایک ہے نبی ایک ہے۔ اسلام ایک ہے۔ ہم ان سے نہ ایمان میں زائد ہیں بات ایک ہے۔
اس کلام سے واضح ہے کہ سیدنا علیؓ کا مذہب دیگر صحابہ کرامؓ سے کوئی علیحدہ نہ تھا، ورنہ سیدنا امیر معاویہؓ کے ایمان کو اپنے ایمان کے برابر نہ فرماتے اور یہ بھی ثابت ہوا کے سیدنا علیؓ شیعہ نہ تھے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ اس وقت تک صحابہ کرامؓ میں اصولی اختلاف کا وجود تک نہ تھا۔البتہ معمولی عمل میں تھا جیسا کہ دَمِ عثمانؓ کے قصاص میں اختلاف ہوا ۔
علیٰ ہذا القیاس اس مقدس جماعت میں نہ کوئی جبری تھا،نہ قدری تھا،نہ معتزلی تھا نہ خارجی تھا اور نہ رافضی تھا ، کسی شاعر نے خوب کہا ہے ۔
لگایا تھا مالی نے ایک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا
حضرات شیعہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اس مقدس جماعت میں اور آپﷺ کے زمانہ میں صرف چار آدمی شیعہ مذہب کے تھے مگر وہ بھی تقیہ کر کے اندر دل میں تو شیعہ تھے اور بظاہر سُنی ہی تھے اور خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اور مرید بن کر حلف وفاداری دیدی تھی کہ ہم آپ کے کسی امر میں مخالفت نہ کریں گے۔جیسا کہ خود سیدنا علیؓ کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ خلافت میں بھی کوئی مخالفت نہ کی۔ اور بیعت پر قائم رہے جیسا کہ احتجاج طبرسی جو شیعہ کی چوٹی کی کتاب ہے کے صفحہ 49 پر ہے۔
ما من الامة احدٌ بايع مكرها غير على واربعتنا۔
امت محمدیہﷺسے کوئی ایسا نہ تھا جس نےسیدنا ابو بکرصدیقؓ کی بیعت خوشی سے نہ کی ہو سوائے سیدنا علیؓ اور چار آدمیوں ہماروں کے ۔
فائدہ :- بہر حال اگر شیعہ کے ان توہینی خرافات کو ہم مان بھی لیں تو یہ تو ثابت ہوا،کہ بظاہر یہ پانچ بھی سُنی مذہب کے مطابق قول و اقرار عمل و عبادت کرتے تھے،یا کہ دیں کہ معاذ اللہ ان کی طرح یہ پانچ شیعہ بھی مرتد ہوگئے تھے، اسی رنگ میں رنگے گئے تھے جب پیرو مرشد مسلمان نہ تھا تو مرید کب مسلمان ہو گا۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔
شیعہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ بعد وفات رسولﷺ تمام صحابہ کرامؓ مرتد و کافر ہو گئے تھے؟ سوائے تین آدمیوں کے؟ پوچھا گیا وہ کون تھے تو فرمایا سیدنا مقدادؓ سیدنا سلمانؓ اور سیدنا ابوذرؓ
عن ابی جعفر قال كان الناس اهل الرده الاثلاثة فقلت ومن الثلاثة فقال المقداد بن الأسودؓ وأبو ذر الغفاريؓ وسلمان الفارسيؓ۔
سیدنا باقر فرماتے ہیں کہ تمام آدمی مرتد ہو گئے تھے صرف تین بچے تھے راوی نے سوال کیا وہ کون تھے ؟ تو فرمایا سیدنا مقدادؓ بن اسود ،سیدنا ابوذر غفاریؓ اور سیدنا سلمان فارسیؓ -(رجال کشی صفحہ 4 مطبوعہ بمبئی)
فائدہ :- شیعہ کی اس روایت نے سیدنا علیؓ و سیدہ فاطمهؓ و سیدناحسنینؓ شریفین واہلِ بیت تک ہاتھ صاف کئے۔اور شیعہ نے جوش و غضب میں تّبراء کا خوب حق ادا کیا۔
فصل الخطاب مطبوعہ ایران کے صفحہ 109 پر ہےکہ: صحابہ کرامؓ کی جماعت نے رسول کریمﷺ سے اتنا علم حاصل کیا تھا جس سے نفاق پر پردہ پڑ جائے نہ غیر کی تبلیغ کی خاطر۔
فاخذ وامنه العلم بقدر ما يحفظون به ظاهرهم ويستترون به نفاقهم وهذا عند الاماميۃ اوضح من النار.
صحابہ کرامؓ نے رسول کریمﷺ سے اتنا علم سیکھا تھا، جس سے ان کے نفاق پر پردہ پڑھ جائے"
اور اپنے ظاہر کی حفاظت کر سکیں یہ بات شیعہ کے نزدیک آگ سے زیادہ روشن ہے ۔
فائدہ :۔ اول تو شیعہ کے نزدیک صحابہ کرامؓ کے پاس علم تھا ہی نہیں اور جو علم تھا وہ رسول اکرمﷺسے حاصل کیا تھا۔ وہ بھی بوجہ مرتد ہو جانے کے تمام کا تمام ضائع ہو گیا۔
سوال شیعہ :چار پانچ آدمی جو بچے تھے رسولی علم ان کے پاس محفوظ تھا۔
جواب اول : میں تمام دنیا کے شیعہ کو بڑے زور سے اعلان کرتا ہوں کہ ان تینوں آدمیوں سے متصل روایت جو مرفوع ہو نبی کریمﷺ تک ایک ایک آدمی سے پانچ پانچ روأتیں پیش کریں جو اس طرح ہوں۔
عن سلمانؓ او عن ابی ذر الغفاریؓ او عن المقداد بن الاسودؓ عن رسول اللهﷺ
سیدنا سلمانؓ یا سیدنا ابو ذرغفاریؓ یا سیدنا مقدادؓ نے رسول خداﷺ سے یوں نقل کیا کہ رسول خداﷺ نے فرمایا چلو پیش کرو جب آپ ان سے پانچ روأتیں مرفوع رسولِ خداﷺ سے نہیں پیش کر سکتے تو پھر انہوں نے مذہب شیعہ کو رسول خداﷺ سے کیسا نقل کیا تھا؟
جواب دوم : خودان تین حضرات کا یہ حال تھا کہ اپنے عقائد، دل کی بات اپنے بھائی ہم مذہب کو بھی نہ بتاتے تھے۔ اگر ایک دوسرے کو بتاتا تو یقیناً ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ورنہ فتویٰ کفر کا ایک دوسرے پر لگا دیتے دیکھو اصول کافی صفحہ 254 –
عن ابی عبد الله عليه السلام قال ذكرت التقية يوما عند على بن الحسينؓ فقال والله لو علم ابوذرؓ ما في قلب سلمانؓ لقتله ولقد اخارسول اللهﷺ بينهما فماظنكم بسائر الخلق۔
ابی جعفر صادقؒ سے ہے کہ ایک دن سیدنازین العابدینؒ کے پاس تقیہ کا ذکر ہوا پس فرمایا امام نے قسم خدا کی اگرسیدنا ابوذرؓ کو سیدنا سلمانؓ کے دل کی بات معلوم ہو تو اس کو قتل کر دے البتہ محقق بات ہے نبی کریمﷺ نے دونوں کو بھائی بنایا تھا پس کیا خیال ہے تمہارا باقی مخلوق کے ساتھ۔اور یہی روایت رجال کشی کے صفحہ 12 پر موجود ہے۔
اور فتویٰ کفر والی روایت رجال کشی کے صفحہ 7 پر موجود ہے۔
عن ابی بصير قال سمعت ابا عبد الله بقول رسول اللهﷺ يا سلمانؓ لو عرض علمك على مقدادؓ لكفر يا مقدادؓ لو عرض على سلمانؓ الكفر .
ابی بصیر کہتا ہے کہ میں نے سیدنا جعفرؒ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا اے سلمانؓ اگر تمہارا علم یعنی دل کی بات مقدادؓ کو معلوم ہو جائے تو مقدادؓ کافر ہو جائے۔اے مقدادؓ اگر تمہارا حال دل کا سلمانؓ پر پیش کیا جائے تو سلمانؓ کافر ہوجائے۔
فائدہ :۔ یہ حال تھا ان دونوں بھائیوں کا بھائی بھی وہ جن کو رسول خداﷺ نے بھائی بھائی بنایا تھا پھر باقی ایرے غیرے شیعہ کا کیا پوچھنا ۔
اے حضرات شیعہ ! جب ان کی یہ حالت تھی کہ اپنا عقیدہ اپنے بھائی کے سامنے زبان پر نہ لاتے تھے تو غیر کو یہ کب بتاتے تھے۔ اگر غیر کے سامنے پیش کرتے تو وہ یقیناً بجائے ایمان کے کافر و اکفر ہو جاتے۔ یہ عقائد ان کو یقیناًرسولﷺ نے سکھائے تھے اور بہت سے ایسے خراب اور متضاد عقیدے تھے جن کا انجام قتل وفتویٰ کفر پر تھا۔
اے شیعہ صاحبان ! فرمائیے،انہی سے دین شیعہ نقل ہو کر آیا ہوگا؟ یہ تھا حال صحابہ کرامؓ کا شیعہ مذہب میں کہ جس دین کو رسولﷺ لے کر آیا تھا وہ ہرگز ہرگز دنیا میں نہیں پھیلا ۔
اے علماء شیعہ ! آپ کسی دلیل سے کہتے ہیں کہ مذہب شیعہ رسولﷺ سے چلا ہے رسولﷺ نے اس مذہب کی تعلیم دی۔آپ کے عقیدے سے تو کوئی مذہب ہی رسولﷺ کا ثابت نہیں ہو سکتا شیعہ کا بیان ، پس جو دین نبی کریمﷺ نے پیش کیا تھا وہ ضائع ہو گیا۔ اوّل راوی چشم دید گواہ سب بے کار ثابت ہوئے ہیں شیعہ کو یہ بھی اقرار ہے کہ سیدنا علیؓ موت تک کوئی حکم، خلاف خلفائے ثلاثہؓ کے جاری نہ کر سکے۔ اور یہ بھی کہ آپ کے شاگرد بہت کم تھے ۔ جیسے کہ( رجال کشی کے صفحہ6 پر موجود ہے) ۔ کہ میدانِ قیامت میں سیدنا علیؓ کے ساتھی صرف چار آدمی ہوں گے،باقی دوزخی ہوں گے۔اول تو کوئی سیدنا علیؓ کے عقیدہ کا آدمی پیدا ہی نہ ہوا تھا ۔ ان کی خلافت میں اگر ہوا تو سیدنا علیؓ اس سے بیزار ہو جائیں گئے قیامت کے دن جس سے سیدنا علیؓ بے زار ہوا ہم ان کے دین و مذہب سے بیزار ہیں۔ اور ان کی روایت سے بھی بے زار نیز جب خود سیدنا علیؓ نےخلفائے ثلاثہؓ کے مذہب کے خلاف کوئی بات اپنے زمانے خلافت میں نہ فرمائی،تو ان چار کو سُنی مذہب کے خلاف شیعہ مذہب کی کب تعلیم دی ہوگی؟ اگر شیعہ میں غیرت ہے تو اپنے مذہب پر ان چاروں سے،وہ سیدنا علیؓ سے اور سیدنا علیؓ رسولِ خداﷺ سے اس طرح کی روایت پیش کریں افسوس کہ روایات تو لیں زرارہ و ابوبصیر سے اور نام لیں رسولِ خداﷺ کا۔(دیکھو رجال کشی صفحہ 6 مذکورہ)
ثم ينادی مناد این حواری علی بن ابی طالبؓ وصى محمد بن عبد الله رسول اللهﷺ فيقوم عمر بن الحمق الخزاعی ومحمد بن ابی بكر وميشم بن يحيىٰ التمار مولى بنی اسد و اويس القرنی۔
پھر منادی کرنے والا ندا کرے گا۔ کہاں ہیں حواری علی ابن ابی طالبؓ کے جو کہ وصی رسول اللہﷺ کا تھا، پھر عمر بن الحمق خزاعی اور محمد بن ابی بکر اور میشم بن یحییٰ التمار مولی بنی اسد کا اور اویس قرنی کھڑے ہوں گے ۔
فائدہ : اویس قرنی کا خواہ مخواہ نام لے لیا۔باقی عمر بن الحمق اور میشم اور محمد بن ابی بکر ان کی زبان سے پانچ حدیثیں مرفوع رسول خداﷺ سے پیش کریں دوئم بالفرض محال ہم بقول شیعہ علی کو معصوم بھی مان لیں تو آگے چل کر چار آدمی پیدا ہوتے ہیں جن سے تواتر نہیں چلتا۔ جب مذہب میں تواتر نہ رہا تو مذہب شیعہ باطل ہوا۔
آگے سیدنا حسنؓ کا زمانہ آیا، تو ان کے متبعین کی جماعت کا حال دیکھیں۔رجال کشی کے صفحہ 6 پر ہے:
کہ سیدنا حسنؓ کے متبع صرف دو آدمی تھے۔
ثم ینادی مناد این حوارى الحسنؓ بن على و ابن فاطمهؓ بنت محمد بن عبد الله رسول اللهﷺ فيقوم سفيان بن ابي ليلا الهمداني وحذيفة بن ابی اسيد الغفارى.
پھر منادی کرنے والا منادی کرے گا کہاں ہیں حواری سیدنا حسن بن علیؓ،وابن فاطمہؓ بنت محمد رسول اللہﷺ پس سفیان ابن ابی لیلا ہمدانی اور حذیفہ اسید غفاری کھڑے ہو جائیں گے۔
فائدہ : سفیان وہ شخص ہے جس نے سیدنا حسنؓ کو بعد صلح سیدنا امیر معاویہؓ کے مذل المؤمنین کہا تھا۔ یعنی امام کے حق میں گستاخی کی تھی۔ (رجال کشی صفحہ 73 )
فقال له سفيان السلام عليك يا مذل المومنين۔
سفیان نے کہا اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے تم پر سلام ہو۔
اصول کافی میں پورا باب باندھا ہواہے،کہ تمام کام بحکم خدا کیا کرتے ہیں۔ سیدنا امیر معاویہؓ سے صلح بحکم خدا تھی۔ اور سفیان نے حکم خدا کی نافرمانی کی اور امام کے فعل کو ذلیل فعل کہا یہ کب مسلمان رہا ہوگا؟ اگر کوئی دین کا مسئلہ باقی تھا تو سیدنا حسنؓ پردین رسولی ختم ہو گیا۔ امام کا ساتھی ایک آدمی رہا۔
آگے سیدنا حسینؓ کا حال سنو!شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وفات رسول کریمﷺکے بعد تمام صحابہ کرامؓ مرتداور کافر ہوگئےاور تمام دین رسولﷺ کا صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں ختم ہو گیا تھا اور ارتداد دوم،زمانہ سیدناحسینؓ میں طاری ہوا جو ائمہ سے کوئی خبط بے ربط چیز بچی ہوئی تھی وہ بھی اس ارتداد نے ختم کر دی۔(رجال کشی صفحہ7 )
ثم ينادي منادين حواری الحسين ابن علی ابن ابی طالبؓ فيقوم كل من استشهدو لم يتخلف۔
پھر منادی کرنے والا منادی کرے گا کہ کہاں ہیں حواری سیدنا حسین بن علی ابن ابی طالبؓ کے؟ پس ہر وہ شخص کھڑا ہوگا جو ہمراہ کربلا میں شہید ہوا تھا اور پیچھے نہ رہا تھا۔
فائدہ :اس امر کو یاد رکھنا آگے کام آئے گا کہ سیدنا حسینؓ کے متبع وہی لوگ تھے جوان کے ہمراہ شہید ہوئے اور جو باقی رہ گئے تھے وہ مرتد اور غیر ناجی ہیں۔ (رجال کشی کے صفحہ 28 پرہے)۔
عن ابی عبد الله عليه السلام قال ارتد الناس بعد قتل الحسينؓ صلوات الله عليه الاثلثة ابوخالد الكابلى ويحيىٰ بن ام طويل وجبير بن معطم .
امام جعفر نے فرمایا کہ بعد قتل حسینؓ کے تمام لوگ مرتد ہو گئے تھے صرف تین بچے تھے۔ ابو خالد کابلی یحییٰ بن ام طویل اور جبیر بن معطم۔
فائدہ :۔ اس روایت سے صرف تین آدمی استثناء فرمائے ہیں مگر حدیث منادی نے صاف بتا دیا کہ کوئی آدمی نجات نہ پائے گا۔ سوائے ان آدمیوں کے جو امام کے ساتھ شہید ہوئے ہیں لہذا ان تین آدمیوں کو بھی جو مرتد ہونے سے بچے ہیں دوزخی سمجھو۔کیونکہ امام حسینؓ کے ساتھ کربلا میں شہید نہ ہوئے تھے۔اور نجات اسی کو ہو گی جو امام کے ساتھ کربلا میں شہید ہوا۔ جلاء العیون کے (صفحہ 472) سے بھی یہی مضمون ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے میدان میں وہی کامیاب ہوں گے جو بہمراہ امام شہید ہوئے تھے نیز رجال کشی کے(صفحہ 84)پر موجود ہے کہ ابو خالد کابلی نے حجاج سے بھاگ کر مکہ میں پوشیدہ زندگی بسر کی تھی۔اور رجال کشی کے اسی (صفحہ 82) پر یحییٰ بن ام طویل کے متعلق لکھا ہے کہ اس کو حجاج نے قتل کر دیا تھا۔ اور رجال کشی کے(صفحہ 4) پر ہے کہ ابو خالد کابلی نے مدت تک محمد بن حنفیہ کواپنا امام بنا رکھاتھا اور غیر امام کو امام بنانے والا شیعہ کے نزدیک کافر ہے۔
لو جناب مطلع صاف جس دین کو حضرت محمدﷺ لے کر آئے تھے وہ دوارتداروں نے ضائع کر دیا۔ باقی ہر امام کے دو یا ایک شاگرد جو تابع تھے۔ اول تو انہوں نے رسولﷺ سے مذہب شیعہ کا چلنا بیان ہی نہیں کیا ۔ اگر بالفرض بیان کرتے بھی تو مذہب متواتر نہ رہا تو جھوٹ محض ہوا۔اور شیعہ کو اس بات کا بھی اقرار ہے، کہ جو مذہب رسولﷺ کے صحابہ کرامؓ کے جم غفیر کا تھا، وہی عرب میں اور باہر ملکوں میں بھی پھیلا جیسا کہ فصل الخطاب کے صفحہ 164پر ہے:
وكون كثير من البلاد فتح خلافة عمر و تلقن اصحاب تلك البلاد سنن عمر فی خلافتهٖ من نوابه رهبة ورغبة كما يلقنوا شهادة ان لا الہٰ الا الله وان محمد رسول الله فنشاء عليها الصغير ومات عليها الكبير
اور فتح ہونا بہت شہروں کا زمانہ خلافت عمرؓ میں اور سکھاتے گئے اصحاب شہروں کے عمرؓ کا طریقہ اس کی خلافت زمانہ میں جس قدر نائب تھے عمر کے رہبتہ رغبتہ یعنی رعب سے یا خوشی سے جیسا کہ ان گاؤں کے لوگوں کو تلقین کلمہ شہادت یعنی لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گئی تھی پس اسی طریقہ پر پیدا ہوا چھوٹا اور اسی پر فوت ہوا بڑا آدمی۔
فائدہ:-اسی سے دو امر ثابت ہوئے:
اول یہ تمام علاقوں میں مذہب فاروقی ہی پھیلا۔ جو آج اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے اس پر بچے پیدا ہوکرتعلیم پاتے تھے اور اسی پر بڑے ہو کر مرتے تھے۔
دوم یہ کہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے آگے کوئی کلمہ نہ تھا۔ جیسا کہ علی ولی اللہ وصی رسول الله۔
اس سے ثابت ہوا کہ ایران،عراق،یمن، روم،مصر،شام، عرب،افریقہ وغیرہ تمام سنی مذہب پر تھے۔شیعہ بعد کو ہوئے۔چونکہ ان تمام علاقوں کو سیدنا عمرؓ،سیدنا عثمانؓ اور سیدنا صدیقؓ ہی نے فتح کیا تھا۔اور جو علاقے فتح ہوئے ان میں دین خلفاء ثلاثہؓ کا متمکن ہوتا گیا اور جم گیا اور مضبوط ہو گیا تھا۔جیسا کہ خود سیدنا علیؓ کا فرمان ہے نہج البلاغہ جلد 3صفحہ 263)
ووليهم وال فاقام واستقام حتى اضرب الدين بجرانۃ۔
والی ہوا،ان کا والی یعنی حاکم ہوا مسلمانوں کا تو
قائم کیا دین اور خود بھی سیدھا رہا یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ زمین پر رکھ دیا یعنی مضبوط ہو گیا۔
فائدہ :-اور دُرّۃ النجفیہ شرح نہج البلاغہ میں ہے کہ والی سے مراد فاروق ہے ۔
ووليهم وال المنقول ان الوالى هو عمر بن الخطابؓ ۔
علمائے سے منقول ہے کہ حاکم سے مراد فاروق اعظمؓ ہے ۔
فائدہ :-ثابت ہوا کہ مذہب اہلِ سنت والجماعت خلافتِ خلفاء میں خوب زبردست مضبوط ہوچکاتھا۔
هم ما قال وليمكنن لهم دينهم الذی ارتضى لهم (قرآن)
اور البته ضرور بالضرور مضبوط کر دے گا ان کے لیے دین ان کا وہ دین جس کو خدا نے کے لیے پسند فرمایا ہے۔
فائدہ :- بوعدہ خدائی معلوم ہوا کہ جن خلفاء کا دین متمکن و مضبوط ہو گا اور جن کے زمانہ میں خوب طاقت پکڑے گا وہی خلفاء برحق ہوں گے اور باقرار شیعہ خود واضح ہو چکا ہے کہ دین جس کو خدا نے مضبوط فرمایا وہ زمانہ ثلاثہ میں مضبوط ہوا اور تمام علاقوں میں پھیلا،نہ شیعہ نہ دین شیعہ اور نہ ائمه شیعه بہ اقرار شیعه تین یا دو آدمیوں سے زائد ائمہ کے زمانہ میں پائے ہی نہ گئے تھے۔ لہٰذا نہ دین شیعہ کو تمکن و مضبوطی حاصل ہوئی اور نہ وہ خدا کا دین ہوا بلکہ کسی دشمنِ دین کا ایجاد شدہ ہے، شیعہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ امام حسنؓ وحسینؓ نے امیر معاویہؓ کی بیعت کر لی تھی اور مان کر اپنا پیرو حاکم مان لیا تھا۔ جس طرح حضرت علیؓ نے خلفاء ثلاثہؓ کی بیعت کر کے ان کو اپنا پیشواء دین و حاکم مان لیا تھا۔ رجال کشی کے صفحہ 72 پر امام جعفرؓ سے مروی ہے ۔
فقال معاوية ياحسن قم فبايع فقام فبايع ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع –
معاویہ نے امام حسنؓ کو کہا،اٹھ کھڑا ہو اور میری بیعت کر پس امام حسنؓ نے بیعت کر لی پھر امام حسینؓ کو کہا کھڑا ہو اور میری بیعت کر پس امام حسینؓ نے بیعت کر لی ۔
فائدہ:- یہ پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ علیؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں بھی کوئی شرعی حکم خلفاء ثلاثہؓ کے خلاف جاری نہیں کیا تھا۔ بلکہ تمام زندگی تقیہ میں بسر فرمائی۔
کیونکہ ان کا کوئی تا بعدار نہ تھا جیسا کہ حدیث قیامت سے واضح ہو چکا ہے۔باقی امام حسنؓ وحسینؓ نے امیر معاویہؓ کی بیعت کر کے تقیہ میں زندگی بسر کی گویا ساٹھ سال تک جو زمانہ صحابہ کرامؓ کا تھا ان ائمہ سے دین کی کوئی بات صادر نہیں ہوئی۔ امیر معاویہؓ کی وفات سن 60 ھجری میں بیس سال امام حسینؓ اور سات سال امام حسنؓ ان کے تابعدار رہے پس کرن صحابہؓ میں وہی دین رسول معاذ اللہ تمام کا تمام ضائع ہوگیا۔ مگر کوئی دین و مذہب تھا تو اہل سنت والجماعت ہی کا تھا، نہ شیعہ کا۔
تقریر بالا کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دین کو محمد رسول ﷺ نے خدا سے لے کرصحابہؓ تک پہنچایا تھا۔وہ دین صحابہؓ کے مرتد ہو جانے کی وجہ سے شیعہ کے نزدیک ضائع ہوچکا ہے،اور حضرت علی کرم اللہ وجہ اور دیگر تین چار آدمی جو بقول شیعہ اس ارتداد سے جو نبی کریم کی وفات کے بعد طاری ہوا تھا جو بچے تھے وہ تقیہ باز ہونے کی وجہ سے کسی کے سامنے دین رسول ﷺ کو پیش نہ کر سکتے تھے ۔ اگر بفرض محال اس پہلےارتداد سے،جو رسول اکرم ﷺکی وفات کے بعد طاری ہوا تھا۔ اور تمام دین کو اس نے فنا کر دیا تھا۔ دین کی کوئی چیز بچی بھی تھی تو اس کو شہادت امام حسینؓ نے فنا کر دیا تھا۔ کیونکہ شہادت امام حسینؓ کے بعد تمام لوگ کافر و مرتد ہوگئے اور جو تین آدمی اس ارتداد سے بچے تھے وہ بھی میدان قیامت نجات کے مستحق نہ ہوں گے کیونکہ بقول شیعہ نجات اس کو ہوگی جو امام حسینؓ کے ساتھ شہید ہوچکا تھا۔ پس ان دونوں ارتدادوں نے پورے دین کا خاتمہ کر دیا۔ اب اگر کوئی شیعہ مذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ دھوکا باز ہے اور لوگوں کو فریب دیتا ہے۔
اب میں قرن دوم کو لیتا ہوں جو صحابہؓ کے بعد باقی ائمہ شیعہ کا زمانہ تھا۔ ائمہ کیا فرماتے ہیں؟ امام زین العابدین نے یزید پلید کی بیعت کر کے یزید خبیث کی غلامی کا دعویٰ بھی کیا تھا کہ میں تیرا غلام ہوں ۔ (روضتہ الکافی اور جلاء العیون صفحه 588 )
یہ امام مدینہ میں رہا۔اور گوشہ نشین ہی رہا اور امام زین العابدین امام باقر امام جعفر، ان تینوں کی قبریں جنت البقیع میں ہیں۔ جلاء العیون صفحہ 602 ۔
نوٹ :۔ مدینہ میں رہنے والی بات کو یاد رکھنا آگے چل کر کام آئے گی۔
امام زین العابدین نے کبھی مذہب شیعہ کی تبلیغ نہ کی تھی۔اس لیے ان سے مذہب شیعہ کی کتب میں بہت کم رواتیں ملتی ہیں ۔ زیادہ تر مذہب شیعہ کی روایات امام باقر اور امام جعفر سے ملتی ہیں۔ بلکہ تمام مذہب شیعہ کی سنگ بنیاد ان دو اماموں کی رواتیں ہیں۔اب امام باقر کا حال سنو۔ (اصول کافی صفحہ 496 نولکشور)
ثم كان محمد بن على ابا جعفر وكانت الشيعة قبل ان يكون ابو جعفر وهم لا يعرفون مناسك حجهم وحلالهم وحرامهم حتى كان ابو جعفر ففتح لهم وبين لهم مناسك حجهم وحلالهم وحرامهم حتى صار الناس يحتاجون اليهم من بعد ما كانوا يحتاجون الى الناس۔
پھر محمد بن علی ابا جعفر،اور شیعہ تھے کہ ان سے پہلے نہیں پہچانتے تھے احکام حج نہ حلال نہ حرام یہاں تک کہ امام باقر آیا پس اس نے شیعہ پر احکام حج وحرام و حلال کا دروازہ کھولا۔یہاں تک کہ لوگ شیعہ کی طرف محتاج ہونے لگے مسائل میں۔ اس کے بعد کہ پہلے شیعہ لوگوں کی طرف مسائل حرام و حلال وغیرہ میں محتاج تھے۔
نوٹ:- اس لفظ کو خوب یاد رکھنا کہ شیعہ لوگوں کی طرف مسائل دینی میں محتاج تھے ان کو کوئی علم حلال و حرام کا نہ تھا۔
دوم حلالہم و حرامہم میں ہم کی ضمیریں شیعہ کی طرف راجع ہیں یعنی شیعہ مذہب میں جو حلال و حرام ہیں ، ان کا علم امام باقر سے پہلے کسی کو نہ تھا۔نہ کوئی شیعہ مذہب کا حلال و حرام اس وقت تک بنایا گیا تھا۔
سوئم! یہ شیعہ مذہب شیعہ مذہب کے حلال و حرام خدا اور رسولﷺ کے بنائے ہوئے نہیں۔بلکہ امام باقر کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور خدا کے حرام کو جو حرام نہ کہے اور حلال کو حلال نہ کہے ، اس سے قتال حلال ہے -قال تعالی:
قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ(سورۃ توبہ،آیت 29)
ان سے لڑو جو اللہ اور آخرت کو نہیں مانتے اور نہ اللہ اور رسول کی حرام شده چیزوں کو حرام مانتے ہیں-
بلکہ جو شخص حرام و حلال خود بناتا ہے ،اس کو قرآن نے مشرک فرمایا ہے مگر یہ تمام باقر پر بہتان ہیں اور کذب ہیں۔ لیکن ہم کو ان باتوں سے اس رسالہ میں واسطہ نہیں ہے ہمیں تو یہ ثابت کرنا ہے کہ مذہب شیعہ امام باقر کے زمانہ تک کوئی نہ تھا۔مذہب حرام وحلال و احکام کو کہتے ہیں جب یہ چیزیں نہ تھیں تو مذہب کہاں تھا۔اور یہی مضمون بعینہ رجال کشی کے صفحہ 267 پر بھی موجود ہے اس سے بڑھ کر علامہ دلدار علی مجتہد اعظم شیعہ نے اپنی کتاب اساس الاصول کے صفحہ 124 پر کمال کر دیا ہے۔اس کی پوری عبارت میں نقل کرتا ہوں۔نتائج آپ خود اخذ کر لیں۔
لا نسلم انهم كانوا مكلفين بتحصيل القطع والبقين كما يظهر من سجية أصحاب الائمة بل كانوا مامورين باخذ الاحكام من الثقاة وغيرهم ايضامع قرينة تفيدالظن كما عرفت مرارً ابانماء مختلفة كيف ولو لم يكن الامر كذالك لزم ان يكون اصحاب ابی جعفر و الصادق لذين اخذ يونس كتبهم وسمع احاديثم مثلاها لكين مستوجبين النار و ھكذا حال جميع اصحاب الائمة بانهم كانوا مختلفين فی كثير من المسائل الجزئية الفرعية كما يظهر ايضا من كتاب العدة وغيره وقد عرفتہ ولم يكن احد منهم قاطعالها يرويه الاخر فى مستمسكه كما يظهر ايضا كتاب العدة وغيره ولنذكر فی هذا المقام رواية رواها محمد بن يعقوب الكلينی فی الكافی فانها مفيدة لما نحن نقصده ونرجوا من الله ان نطمئن بها قلوب المومنين يحصل لهم الجزم بحقيقة ما ذكرنا فنقول قال ثقة الاسلام فى الكافى على ابن ابراهيم عن الشريع بن الربيع قال لم يكن بن ابی عمير يعدل بهشام بن الحكم شيئا ولايغيب ايمانه ثم انقطع عنه وخالفه وكان بسبب ذلك ان ابامالك الحضرمی كان احد رجال هشام وقع بينه وبين ابن ابی عمير ملاماة فی شی من الامامة قال ابن عميرالدنيا كلها للامام من جهة الملك وانه اولىٰ بها من الذين هی فی ايديهم وقال ابو مالك كذلك املاك الناس لهم الاماحكم الله به للامام كألفى والخمس والمغنم فذلك له وذلك ايضا قد بين الله للامام ان يضعه وكيف يصنع به فتراضيا به ہشام بن الحكم وما را اليه فحكم هشام لابی عمير فغضب بن ابی عمير وهجر هشام بعد ذلك فانظروا يا اولى الالباب واعتبروا يا اولى الابصار فان هذه الاشخاص الثلاثة كلهم كانوا من ثقاة اصحابنا وكانوا من اصحاب الصادق والكاظم والرضاء عليهم السلام كيف وقع النزاع بينهم حتى وقعت المهاجرة فيمابينهم مع كونهم متمكنين من تحصيل العلم واليقين من جناب الائمة۔
ہم نہیں مانتے کہ اصحاب ائمہ پر لازم تھا کہ یقین حاصل کریں چنانچہ اصحاب ائمہ کی روش سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے بلکہ اصحاب ائمہ کو حکم تھا، کہ احکام دین معتبراورغیر معتبر ہرقسم کے لوگوں سےحاصل کر لیا کریں بشرطیکہ کوئی قرینہ مفید زن موجودہو۔ جیسا کہ بارہا تم کو مختلف طریقوں سے معلوم ہوچکا ہےاوراگرایسا نہ ہو تو لازم آئے گا کہ امام باقراور امام صادق کے جن کی کتابوں کو یونس نے لیا اور ان کی حدیثوں کو سنا ہلاک ہونے والے اور مستحق دوزخ ہو جائیں اور یہی حال تمام اصحاب ائمہ کا ہوگا۔ کیونکہ وہ بہت سے مسائل جزئیہ فرعیہ میں باہم مختلف تھے چنانچہ کتاب العدة وغیرہ سے ظاہر ہے اور تم اس کو معلوم کرچکے ہو اور ان میں سے کوئی شخص اپنے مخالف کی روایت کی تکذیب نہ کرتا تھا جیسا کہ کتاب العدة وغیرہ سے ظاہر ہے اور ہم اس مقام پر ایک روایت ذکر کرتے ہیں جس کو محمد بن یعقوب کلینی نے کافی میں ذکر کیا ہے وہ روایت ہمارے مقصود کے لیے مفید ہےاور ہم دل سے امید کرتے ہیں کہ اس روایت سے ایمان والوں کے دلوں کو اطمینان حاصل ہوگا اور جو کچھ میں نے بیان کیا اس کے حق ہو جانے کا یقین ان کو ہوجائے گا۔ لہذا میں کہتا ہوں کہ ثقہ الاسلام نے کافی میں بیان کیا ہے کہ علی بن ابراہیم نے شریع بن ربیع سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن ابی عمیر ہشام بن حکم کی بہت عزت کرتے تھے ان کے برابر کسی کو نہ سمجھتے تھے اور بلا ناغہ ان کے پاس جاتا تھا پھر اس سے قطع تعلق کر لیا اور اس کے مخالف ہو گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو مالک حضرمی جو ہشام کے راویوں میں سے تھے ایک آدمی تھا اس کے اور ابن ابی عمیر کے درمیان میں مسئلہ امامت کے متعلق گفتگو ہو گئی ابن ابی عمیر کہتے ہیں کہ دنیا سب کی سب امام کی ملک ہے اور امام کو تمام چیزوں میں تصرف کرنے کا حق ہے ان لوگوں سے زیادہ جن کے قبضے میں دو چیزیں ہیں ابو مالک کہتا تھا لوگوں کی مملوک چیزیں ان ہی کی ہیں امام کو صرف اس قدر ملے گا جو اللہ نے مقرر کیا ہے جیسا مال فی اور خمس اور غنیمت اور اس کے متعلق بھی اللہ نے بتادیاہے کہ امام کہاں کہاں خرچ کرے ۔ آخر ان دونوں نے ہشام بن حکم کو اپنا پچ بنایا اور دونوں اس کے پاس گئے ہشام نے اپنے شاگردابو مالک کے موافق اور ابن عمیر کے خلاف فیصلہ کر دیا۔اس پر ابن عمیر کو غصہ آیا اس نے ہشام سے قطع تعلق کر دیا یعنی سلام کلام تک بند کر دیا۔پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو یہ تینوں اشخاص ہمارے معتبر اصحاب میں سے ہیں اور امام صادق اور امام کاظم امام رضا کے اصحاب میں سے ہیں ان میں باہم کس طرح جھگڑا ہوا یہاں تک کہ باہم قطع تعلق ہوگیا باوجودیکه ان کو قدرت حاصل تھی کہ جناب ائمہ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کراکرعلم و یقین حاصل کر لیتے۔
اسی اساس الاصول کے صفحہ 15پر علامہ دلدار علی نے اختلاف کا اقرار کیا۔
وامتياز المناشى بعضها عن بعض في باب كل حديثين مختلفين بحيث يحصل العلم واليقين بتعين المنشاء عسير جدا وفوق الطاقة كمالايخفى۔
ہر وہ مختلف حدیثوں میں امتیاز کرنا کہ یہاں اختلاف کا سلب کیا ہے۔اس طور پر کہ اس سبب کا علم و یقین ہو جائے ساتھ مقرر کرنے سبب اختلاف کے بہت دشوار اور انسانی طاقت سے باہر ہے جیسا کہ یہ بات پوشیدہ نہیں۔
شیخ مرتضیٰ نے فرائد الاصول مطبوعہ ایران کے صفحہ 86 پر علامہ دلدار علی سے بھی بڑھ کر قدم مارا ہے۔
ثم ان ما ذكره من تمكن اصحاب الائمة من اخذا الاصول والفروع بطريق اليقين دعوىٰ ممنوعة واضح المنع ولا قل مايشهد عليها ماعلم بالعين والاثر من اختلاف اصحابهم صلوات الله عليهم في الاصول والفروع ولذاشكى غير واحد من الاحاديث الماثورة عن الائمة مختلفة جدا الايكاد يوجد حديث الأوفی
المقابلته حديث بنا فيه ولا يتفق خبرا الا وبازنه ما يضاده حتى صار ذلك سببا فی رجوع بعض الناقصين عن اعتقاد الحق كما صرح به شيخ الطائفة فی اوائل التهذيب والاستبصار ومناشئ هذا الاختلافات كثيرة عبدا من التقيه والوضع واستنتاج السامع والنسخ والتخصيص والتفسيد وغير هذا المذكورات عن الأمور الكثيرة كما الوقع التصريح على اكثرها الأخبار الماثورة عنهم اصحاب الائمة اليهم ختلاف اصحابه ما اجابوهم بانهم قد القوا الاختلاف حقنا لدمائهم كما في رواية حريز و زرارة وأبي ايوب الجزار واخرى اجابوهم بان ذلك من جهة الكذا بين كما فی رواية الفيض بن المختار قال قلت لا بی عبد الله جعلنی الله فداك ما هذا الاختلاف الذی بين شيعتهم قال فای اختلاف یا فیض فقلت له انی اجلس فی حلقهم بالكوفة وأكاد أشك فى اختلافهم فی حديثهم حتى ارجع الى الفضل بن عمر فيوقفني من ذلك على ما تستريح به نفسی فقال عليه السلام اجل كما ذكرت يا فيض ان الناس قداربعوا بالكذب علينا كان الله افترض عليهم ولا يريد منهم غيره انی احديث احدهم بحديث فلا يخرج من عندى حتى يناوله على غير تاويله وذالك لانهم لا يطلبون بحديثنا ويحبنا ما عند الله تعالى وكل يحب ان يدعى واما قريب منها رواية داؤد بن سرحان واستشناء القمين كثيرا من رجال نوادر الحكمة معروف وقصة ابن ابی العرجاءانه قال عند قتله قد و مسست فی كتبكم اربعة الاٰف حديث مذكورة فی الرجال وكذا ما ذكر يونس بن عبد الرحمٰن من انه اخذ احاديث كثيرة من اصحاب الصادقين ثم عرضها على ابى الحسن الرضا عليه السلام فانكر منها احاديث كثيرة الى غير ذلك مما يشهد بخلاف ما ذكره۔
پھر یہ اس شخص نے ذکرہ کیا ہے کہ اصحاب ائمہ اصول و فروع دین کو یقین کے ساتھ حاصل کرنے پر قادر تھے یہ ایک ایسا دعوی ہے جو تسلیم کرنے کے لائق نہیں کم ازکم اس کی شہادت وہ ہے جو آنکھ سے دیکھی ہوئی اور اثر سے معلوم ہوئی کہ ائمہ صلوات اللہ علیہم کے اصحاب اصول و فروع میں باہم مختلف تھے اور اسی سبب سے بہت لوگوں نے جو حدیثیں کہ اماموں سے منقول ہیں ان میں بہت سخت اختلاف ہے۔ایسی کوئی حدیث نہیں ملتی جس کے مقابل میں اس کی مخالف حدیث موجود نہ ہو یہاں تک کہ یہ اختلاف بعض کمزور خیال لوگوں کے لیے مذہب شیعہ ترک کرانے کا سبب بنا جیسا کہ شیخ الطائفہ نے تہذیب و استبصار کے اول میں بیان کیا اس اختلاف کے اسباب بہت ہیں مثلاً تقیہ کرنا ائمہ کا،اور موضوع حدیثوں کا بنایا جانا اور سننے والوں سے غلطی ہو جانی نہ سمجھنا اور منسوخ ہو جانا اور مخصوص ہونا اور ان کے علاوہ بھی بہت سے امور ہیں۔ چنانچہ ان میں سے اکثر کی تصریح احادیث ائمہ میں موجود ہے اور ائمہ سے شکایت کی کہ آپ کے صحابہ میں اختلاف بہت ہے تو ائمہ نے جواب دیا کہ یہ اختلاف ہم نے خود تم میں ڈالا ہے ان کی جان بچانے کے لیے جیسا کہ حریز اور زرارہ اور ایوب جزار کی روایتوں میں ہے اور کبھی یہ جواب دیا کہ یہ اختلاف جھوٹ بولنے والوں کے سبب سے پیدا ہو گیا ہے جیسا کہ فیض بن مختار کی روایت میں ہے وہ کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق سے کہا کہ اللہ مجھے آپ پر فدا کر دے۔ یہ کیسا اختلاف ہے،جو آپ کے شیعوں کے آپس میں ہے؟ امام نے فرمایا کہ اے فیض،کونسا اختلاف؟میں نے عرض کی کہ میں کوفہ میں ان کے حلقہ درس میں بیٹھتا ہوں تو ان کی احادیث میں اختلاف کی وجہ سے فریب ہوتا ہے کہ میں شک میں پڑ جاؤں یہاں تک میں فضل بن عمرو کی طرف رجوع کرتا ہوں تو وہ مجھے ایسی بات بتلا دیتے ہیں جس سے میرے دل کو تسکین ہوتی ہے امام نے فرمایا کہ اے فیض یہ بات سچ ہے۔لوگوں نے ہم پر افترا پردازی کی ہے جھوٹ بہت کی گویا خدا نے ان پر جھوٹ بولنا فرض کردیا ہے، اوران سے سواء جھوٹ بولنے کے اور کچھ چاہتا ہی نہیں میں ان میں سے ایک سے کوئی حدیث بیان کرتا ہوں تو وہ میرے پاس سے اٹھ کر جانے سے پہلے ہی اس کے مطلب میں تحریف شروع کر دیتا ہے۔یہ لوگ ہماری حدیث اور ہماری محبت سے آخرت کی نعمت نہیں چاہتے بلکہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ سردار بن جائے ۔ اور اسی کے قریب داؤد بن سرحان کی روایت ہے اور اہل قم کا نوادر الحکمت نے بہت سے راویوں کو مستثنیٰ کر دینا مشہور ہے اور ابن ابی عرجاء کا قصہ کتب رجال میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے قتل کے وقت کہا کہ میں نے تمہاری کتابوں میں چار ہزار حدیثیں بنا کر درج کی ہیں اسی طرح وہ واقعہ جو یونس بن عبد الرحمٰن نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے بہت سی حدیثیں ائمہ کے اصحاب سے حاصل کیں پھر ان کو امام رضا علیہ السلام کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے ان میں سے بہت سی حدیثیں ہیں جن کا امام نے انکار کیا ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات میں جو اس شخص کے دعویٰ کے خلاف شہادت دیتے ہیں۔
فائدہ:-ان تینوں عبارتوں کے چند قابل قدر فوائد نمبر وار حسب ذیل ھیں
نمبر اول :- شاگردان آئمہ باوجودیکہ قدرت رکھتے تھے اور پھر وہ یقین علم اور اصول و فروع دین یقیناً حاصل کرنا ان پر فرض نہ تھا یہ مذہب شیعہ کے عجائبات سے ہے علامہ فرماتے ہیں کہ
لا نسلم انهم كانوا مکلفین کہ وہ مکلف ہی نہ تھے سبحان اللہ!ھر عاقل و بالغ انسان خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو ، یقین کے حصول کا مکلف ہے، مگر ائمہ کے شاگرد مکلف نہ تھے۔
کیوں صاحب!فرشتے تو نہ تھے وہ شیعہ راویوں نے جب دیکھا کہ احادیث ائمہ میں اس قدر اختلاف ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس اختلاف کو اٹھا نہیں سکتی۔ اگر یہ حدیثیں ائمہ سے،مروی ہوتیں اس قدر شدید اختلاف کیونکر ہوتا؟توان چلتے پُرزوں نے فوری یہ جواب گھڑلیا کہ وہ علم و یقین و احکام دین کو صرف ائمہ سے حاصل کرنے میں مکلف ہی نہ تھے ہر فاسق فاجر ثقہ غیر ثقہ سے دین حاصل کر لیتے تھے اسی طرح اصول کافی کی روایت میں کہ امام باقر سے پہلے شیعہ غیر لوگوں سے دین کے احکام حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح فرائد الاصول میں بھی کیا خوب فرمایا کہ بطریق یقین اصول و فروع دین کا حاصل کرنا ایک دعویٰ ہے جو قابل تسلیم ہی نہیں اگر بطور یقین حاصل کرتے تو شدید اختلاف نہ ہوتا من هذا الاصول و نفروع بطريق اليقين دعویٰ ممنوعة واضح المنع
میں عرض کرتا ہوں کہ جب خود ائمہ معصوم موجود تھے، تو پھر وہ ایرے غیرے اور ہر فاسق فاجر اور سُنی وغیرہ سے احکامِ دین حاصل کرنے میں کیونکر مجاز تھے؟ بتایئے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کبھی کسی صحابی نے رسول ﷺکو چھوڑ کر کسی نتھو خیراسے دین کے اصول حاصل کیے تھے؟ وہ بھی فاسق فاجر سے۔
ثانیہ :- پھر شیعہ کیوں کہتے ہیں کہ مذہب شیعہ سارا کا سارا ائمہ سے منقول ہے؟ یہ غلط فاحش ہے بلکہ ہر فاسق فاجر مذہب شیعہ کا بانی ہے اور وہی امام ہوا۔امام باقر سے پہلے جب حلال وحرام مذہب شیعہ کا موجود ہی نہ تھا تو امام باقر نے ان احکام کو کہاں سے حاصل کیا؟اگر خود بیان کئے تو فرمایئے کہ خاتم النبیین امام باقر ہوا نہ رسول اللهﷺ؟ اور اسی اساس کی صفحہ 51 والی عبارت میں یہ مان لیا،کہ ائمہ اللہ و رسولﷺکے احکام میں سے جس کوچاہتے تھے منسوخ کر دیتے تھے تو یہ حقیقتہً ختم نبوت کا انکار ہے بلکہ ائمہ ہی صاحب شریعت رسول ہوئے۔
اجی صاحبِ!کہو کہ ائمہ رسول سے افضل صاحب وحی تھے۔ علامہ دلدار علی فرماتے ہیں: کہ اگر شاگردان ائمہ کو اصول دین فروعِ دین کے حصول میں مکلف قرار دیں،توتمام شاگردان ائمہ جہنمی و دوزخی و ناری ہو جائیں،کیا عجیب بات ہے کہ اصحاب ائمہ و تو خواہ کیا ہی کردیں ان کا دوزخی ہونا امر محال ہے، خواہ کسی قدر آپس میں لڑیں ۔مگراصحاب رسولﷺ ان میں کوئی ایسا امر پیش آجائے تو کافر ہو جائیں۔
یا للعجب
اصحاب ائمہ لڑیں اور ترک سلام و کلام تک نوبت آجائے تو بھی شیعہ دونوں کو پیشوائے دین تسلیم کریں مگر اصحاب رسولﷺ سے معاذ اللہ ایک ہی مسلمان رہے۔
ہاں جی! شاگردان و اصحاب ائمہ نے دین ائمہ میں اتنا شدید اختلاف جس کی وجہ سے سلام و کلام ترک کر دی جائے۔ بلکہ فتویٰ لگایا جائے کیوں ہے مگر اس شق سے انکار کیا گیا کہ صرف ائمہ سے حاصل نہ کرتے تھے بلکہ غیروں سے بھی حاصل کرتے تھے۔اگر صرف ائمہ سے تسلیم کریں تو پھر اس اختلاف کی وجہ سے وہ جہنمی بنتے ہیں۔بہر حال ائمہ سےاحکام لیں تو وہ دوزخی ہوجاتے ہیں؟
اب شق دوم کہ غیروں سے بھی حاصل کرتے تھے تو اس صورت میں بھی مذہب شیعہ ائمہ سے نہ آیا نہ ہی مذہب شیعہ ائمہ کا دین ہوا نہ حق ہوا بلکہ باطل ہوا۔ نیز اس صورت میں بھی اصحاب ائمہ جہنمی ہوجائیں گے جیسا ائمہ سے حاصل کرنے میں جہنمی بنتے ہیں۔
اول تو یہ مشکل ہے کہ غیروں سے دین حاصل کریں چونکہ شیعہ کا مذہب ہے کہ اصحاب کرامؓ نے علم دین بقدر ستر نفاق رسولﷺ سے حاصل کیا تھا جیسا کہ فصل الخطاب کے صفحہ 99 پر ہے۔
واخذ وامن رسول اللهﷺ بقدر ما يحفظون به ظاهرھم ويسترون به نفاقهم
صحابہ کرامؓ نے رسولﷺ سے علم اس قدر حاصل کیا جس سے ان کے ظاہر کی حفاظت ہو سکے اور اپنے نفاق کو پوشیدہ رکھ سکیں۔
فائدہ : جب صحابہ کرامؓ کے پاس علم شریعت موجود ہی نہ تھا تو غیروں نے صحابہ کرامؓ سے کیا لیا تھا۔ جب استاذ کے پاس نہ تھا تو شاگردوں کوکب تھا؟ کہ شیعہ غیروں سے حاصل کرتے تھے۔
دوم: شیعہ مذہب کا موٹا اصول ہے کہ غیر شیعہ سے دین کی تعلیم حاصل کرنی قطعاً حرام کفر ہے جیسا کہ کافی کتاب الروضہ اور فصل الخطاب صفحه 220 مطبوعہ ایران اور رجال کشی صفحه 1،2میں ہے کہ علی بن سوید نسانی کو موسیٰ کاظم نے جواب دیا تھا ،اور امام جیل میں تھا۔
واما ماذكرت يا على ممن ناخذ معالم دينك لا تاخذن معالم دينك عن غير شيعتنا فانك فان تعديتهم اخذت دينك من الخائنين الدين خانوا امانتهم فهم اوتمنواعلى كتاب الله جل وعلى فحرفوه وبدلوه فعليهم لعنة رسوله ولعنة ملئكة ولعنة ابائی الكرام البررة ولعنتى ولعنة شيعتي الى يوم القيمة
اے علی!جو تم نے دین کی تعلیم کے متعلق دریافت کیا کہ کس سے حاصل کروں؟ہرگز ہرگز سوائے شیعہ کے دین کسی سے حاصل نہ کریں۔پس اگر تم نے تعدی کر کے غیر شیعہ سے دین حاصل کیا تو پھر تم نے دین کو خائن سے حاصل کیا جنہوں نے اللہ اور سولﷺ کی خیانت کی ہے ان کو کتاب اللہ پر امانتی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے قرآن میں تحریف کر دی قرآن بدل ڈالا ان پر خدا اور رسول کی ملائکہ کی میرے آباء واجداد کی میری اور میرے شیعوں کی لعنت ہو قیامت تک
فرمائیے ملعون کا شاگرد خاص ملعون کے دین پر چلنے والا اور اس سے دین کی تعلیم حاصل کرنے والا ملعون ہوا یا کون۔
باقی دین بتائیےکہ ان غیروں سے چلاجو ملعون تھے؟ پس شیعہ کے اس قول کے طابق شیعہ نے خود اپنے آپ پر ملعون ہونے کا فتویٰ دے دیا چونکہ شیعہ نے ملعون سے دین حاصل کیا،لہٰذا وہ شیعہ بھی ملعون اور وہ دین بھی ملعون ہوا کیا اب بھی یہ شبہ باقی ہے کہ یہ مذہب شیعہ ائمہ سے چلا ؟نعوذ باللہ منہ۔
اے بیچارے شیعو ! کیا مصیبت بنی؟اگر ائمہ سے دین حاصل کر نے کا دعویٰ کریں تو دوزخی اور اگر غیر سے حاصل کرنے کا دعویٰ کریں تو خود زیر بار لعنت اور مذہب خود ملعون۔
اساس الاصول صفحه 51 والی حدیث پر بھی غور کرنا،کہ شافعی ، مالکی، حنبلی اور حنفی اختلاف ہے اور جس کی بنا پر کفر کے فتوے جڑ جاتے ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم اہلِ بیت کے تابع اور ان کے مذہب پر ہیں اور سُنی امتیوں کے مذہب پر ہیں لیکن شیعہ یاد رکھیں کہ ہمارا امام صرف اللہ اور اس کا رسولﷺ ہے جو امام الرسل ہے۔
باقی سب کمتر ہیں۔امام صرف رسول اکرم ﷺ ہے یہ استاد ہیں باقی بڑے عالم میں ہر عالم کے شاگرد اس کے تابع ہیں ان کا رتبہ ایسا ہے جیسا شیعہ آج اپنے مجتہدوں کو دیتے ہیں۔ ہم ان ائمہ کو حلت و حرمت کا اختیار نہیں دیتے جیسے شیعہ ائمہ کو رسول اکرمﷺ سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔
اساس الاصول کے صفحہ 51 والی عبارت نے واضح کر دیا کہ ائمہ کی احادیث سے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جانا طاقت انسانی سے باہر ہے یعنی کسی مسئلہ پر جو ائمہ سے نقل ہو کتب شیعہ میں موجود ہے،عمل کرنا اس مسئلہ کو ترجیح دے کر انسانی قوت سے باہر ہے اسی وجہ سے غیر مکلف ہونے کا دعویٰ کیا ۔ لہذا شیعہ کا نماز روزہ ، حرام حلال وغیره قطعاً بیکار ثابت ہوئے واللہ اعلم اماموں سے کونسی حدیث منقول ہے۔ اور غیروں سے کونسی؟ اور اس کی تمیز چونکہ ازحد مشکل ہے لہذا ان پر عمل بھی مشکل ہے۔
اور ابی العوجاء کا قصہ مشہور ہے کہ وقتِ قتل اس نے اقرار کر لیا کہ چار ہزار جھوٹی روائتیں میں نے کتب شیعہ میں ملائی ہیں اور توضیح المقال جو شیعہ کی مشہور کتاب ہے اس کے صفحہ 2 پر لکھا ہے کہ ان حدیثوں کو کتب شیعہ احادیث سے نہیں نکالا گیا۔ باقی عبارت میں یونس،ہشام علی بن عمیر اور ابی مالک جن کے فساد پر علامہ کو حیرانی ہوئی کہ یہ تین اماموں کے شاگرد تھےان کا ہی حال سن لو کہ اماموں کے شاگرد کس قدر نیک و صیحیح عقیدہ والے تھے۔اور ائمہ کی نگاہ میں ان کی کیا قدر تھی،ان کا شاگرد ہونا اور پھر تین ائمہ کا،علامہ دلدار علی کو مسلم ہے۔
سب سے پہلے یونس صاحب کا حال سنو!جن کے متعلق علامہ دلدار علی کافرمان ہے کہ امام باقر جعفر کے شاگردوں کی کتابوں اور حدیثوں کو اس نے سمجھا تھا۔ اس کے متعلق رجال کشی کے صفحہ 307 پر لکھا ہے ۔
كان يونس يروى الاحاديث من غير سماع۔
یونس ائمہ کی حدیثیں بغیر سماع کے بیان کرتا تھا یعنی خود گھڑ کر اماموں کے ذمہ لگاتا ہے۔
اور رجال کشی کے صفحہ 308 پر ہے ۔
عن عبد الله بن محمد بن الحجال قال كنت عند الرضا ومعه كتاب يقرء فی بابه حتى ضرب به الارض فقال كتاب ولد الزنا فكان كتاب يونس –
عبد اللہ بن محمد الحجال کہتا ہے کہ میں موسیٰ رضاء کے پاس تھا اور امام کے پاس کتاب تھی جس کو پڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ زمین پر ماری اور فرمایا کہ حرامی کی کتاب ہے اور وہ یونس کی تھی۔ اسی رجال کشی کے صفحہ 309پرہے ۔
ثم ضرب به الارض فقال هذا كتاب ابن زان لزانيه هذا كتاب زندیق لغیر رشد .
پھر امام نے کتاب کو زمین پر مارا پس فرمایا کہ یہ کتاب حرامی کی جو واسطے حرامی کے ہے یه کتاب زندیق کی ہے جو غیر رشد پہ پیدا ہوا۔
کتاب کا زمین پر مارنا تو امام کاحق تھا کہ اس میں بغیر سماع امام کے حدیثیں لکھیں تھیں جو امام پر بہتان اور جھوٹ گھڑا ۔ہوا تھا اور ساتھ ہی حرامی بھی ثابت ہوگیا اور حرامی کی شرعاً شیعہ کے نزدیک کوئی حدیث مقبول ہی نہیں اسی واسطے اس کی کتاب زمین پر ماری ۔ اب یونس کا مزید حال حسب ذیل ہے۔
رجال کشی صفحه 306 پر ہے
عن ابن سنان قال قلت لابی الحسن ان يونس يقول الجنة والنارلم يخلقا فقال له لعنة الله واين جنة اٰدم۔
ابن سنان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا سے عرض کیا کہ یونس کہتا ہے کہ جنت دوزخ ابھی پیدا نہیں ہوئے امام نے جواب دیا اس کو کہا اس پر خدا کی لعنت ہو آدم کی جنت کہاں ہے۔
اسی رجال کشی کے صفحہ 306 پر ہے کہ محمد بن ابادیہ کوامام رضاء نے یہ جواب دیا۔
كتب الى الحسن فی يونس فكتب فلعنه الله ولعن اصحابه۔
امام نے جواب دیا کہ یونس بھی ملعون اور اس کے شاگرد ھی ملعون۔
کیوں!علامہ دلدار علی صاحب یہی یونس ہے جو تمام شاگردان امام باقر جعفر کی کتابوں کا وارث ہوا تھا؟ جس کو دوزخ سے بچاتے ہو؟یہ تھا تین چار اماموں کا شاگرد، اس پہ ائمہ کرام کا جو انعام ہوا وہ سن لیا۔ باقی اب ہشام کاحال حسب ذیل ہے۔
اصول کافی صفحہ 56، نولکشور، امام رضا کے پاس عقیدہ ہشام بن سالم و ہشام بن حکم و مومن الطاق و میشمی کا بیان ہوا محمد بن الحسین ان کا عقیدہ یہ تھا۔
ان هشام بن سالم وصاحب الطاق الميشى يقولون انه لجوف الى السرة والباقی صمد
تحقیق ہشام بن سالم و مومن طاق اور میشمی کہتے تھے کہ خدا تعالیٰ ناف تک خالی ہے باقی ٹھوس مضبوط ہے۔
اسی روایت میں ان مذکورہ حضرات کا عقیدہ یہ بھی لکھا ہے۔
کان محمد ارای ربه فی هئة الشاب الموفق في سن ابناء ثلثين سنه.
خدا کی عمر تیس سال جوان کی تھی کہ رسول نےاس کو دیکھا۔
فائدہ : کیا یہی ہشام تھا،جس کو علامہ دلدار علی جہنم سے بچانا چاہتے تھے؟خدا کی توحید میں فاسد عقائد رکھتا تھا؟ وہمی خدا کا قائل تھا؟ یہ کافر ہے یا جنتی؟
پس میں اب جرح کو ہشام پر ختم کرتا ہوں،کیونکہ ہشام ابی مالک کا استاد تھا۔ اور ابن ابی عمیر خود ہشام کو بڑا عالم جانتا تھا لہٰذا اس بڑے پر ہی ختم کریں۔
پہلے میں نے لکھا تھا کہ ان کے علماء میں بڑا اختلاف ہوتا ہے اب میں اس وعدہ کو پورا کرتا ہوں اس رجال کشی کے صفحہ 310 پر ہے کہ جعفر بن عیسیٰ نے امام رضا سے شکایت کی۔
قال له جعفر ابن عيسىٰ اشكوا الى الله اليك ما نحن فيه من اصحابنا فقال وما انتم فيه منهم فقال جعفرهم والله يزيد قوتا ويكفرونا ويبرؤن منا فقال عليه السلام هكذا كان اصحاب على بن الحسين ومحمد بن على و اصحاب جعفر و موسىٰ عليه السلام ولقد كان اصحاب زرارة يكفرون غيرهم كذلك غيرھم كانوا يكفرونهم فقلت له يا سيدی نستعين بك على هذان الشخين يونس وهشام وهما حاضران وهما ادبانا وعلمانا۔
امام رضاء کو جعفر بن موسیٰ نے کہا کہ میں خدا اور آپ کی طرف شکایت کرتا ہوں اس تکلیف کی جس میں ہم اپنے شیعہ کی وجہ سے ہیں پس امام نے فرمایا کہ وہ کونسی تکلیف ہے جس میں تم ہو؟پس جعفر نے کہا قسم خداہم کو وہ زندیق و کافر کہتے ہیں اور تبراء کرتے ہیں۔ پس امام نے فرمایا کہ یہی حال امام زین العابدین کے شاگردوں کا اور باقر جعفر صادق اور موسی کاظم کے اصحاب کا،اور شاگردان زرارہ بقایا اصحاب ائمہ کے شاگردوں کو کافر کہتے ہیں اور باقی ائمہ کے شاگرد زرارہ کے شاگردوں کو کافر کہتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ اے میرے سردار ! ہم مدد مانگتے ہیں آپ کے ساتھ دو بزرگوں سے کہ یونس اور ہشام ہیں ان دونوں نے ہم کو ادب و علم سکھایا۔
فائدہ : غالباً مطلع صاف ہو گیا ہو گا اور مذہب شیعہ پر جو غبار تھا وہ اُڑ گیا ہوگا۔
اب قابل قدر تحفے حسب ذیل ہیں۔
اول : معلم دین وہی یونس حرامی و هشام جو خالص توحید باری کامنکر تھاثابت ہوئے۔جو خود ملعون ان کے شاگرد بھی ملعون اوران کی تعلیم بھی سوائے لعنت کے اور کیا ہوگی۔
ثانیا : پہلے امام کی پوری تعلیم دوسرے امام کے زمانہ میں بوجہ فتویٰ کفر کے تمام ضائع ہو گئی۔
ثالثا:ہر امام کی تعلیم دوسرے امام کی تعلیم کے مخالف و متضاد ہوتی تھی ورنہ بعد والے کفر کا فتویٰ نہ دیتے۔ لہٰذا بعد والوں کے نزدیک امام سابق کی وہ تعلیم یقینی کفر سمجھتی جاتی تھی بغیر کفری تعلیم کے فتویٰ کفر محال ہے ۔
رابعاً : ہر امام کے شاگرد سابقہ امام کی اقتدار و تابعداری کو واجب نہ جانتے تھے ورنہ امام کی تعلیم پر کفر کا فتویٰ دیتے۔امام کی اقتداء کیا چیز ہے حدیث امام جیسا رسول کی اتباع کیا چیز ہے۔ایمان بالحدیث و تعلیم رسول بجائے ایمان لانے کے جن لوگوں نے امام سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ عقائد حاصل کئے ان احادیث و عقائد پر فتویٰ کفر جڑا گیا ۔
خامساً:-یہ فتویٰ دو وجہ سے خالی نہ ہو گا۔اول یہ کہ ان عقائد و اعمال کی تعلیم خود امام نے دی تھی یا خود ساختہ عقائد واعمال تھے؟ اگر پہلی بات ہے تو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کفریہ عقائد و اعمال کی ایجاد امام نے فرمائی تو پھر ہادی کس طرح ہوئے؟ اور ان کو امام کس طرح کہا جائے ؟ دوم اگر دوسری بات ہے تو یہ لوگ ائمہ مطہرین کے شاگرد نہ تھے نہ ہی ان کو امام مانتے ہیں بلکہ ان کا امام و استاد اپنا نفس شیطان تھا۔
انصاف سے فرمائیے!کیا انہی لوگوں سے شیعہ مذہب چل کر آج دنیا میں پھیلا جس کو مذہب ائمہ عظام کہا جاتا ہے؟ہرگز نہیں!یہ سبائی کمیٹی کے ممبروں کے تمام بہتان ہیں۔ یہ مذہب نہ ائمہ کا تھانہ یہ لوگ ائمہ کے شاگرد تھے اور نہ ائمہ نے مذہب شیعہ کی تعلیم دی۔
سادساً : -محدثین شیعہ نے تمام ائمہ کے شاگردوں کی احادیث اپنی اپنی کتابوں میں جمع کر دی ہیں غضب یہ کہ متقدمین شیعہ نے جن ائمہ کے شاگردوں پر کفر کا فتویٰ دیا تھا علماء شیعہ خلف کا فرض تھا کہ ان کی حدیثیں ہرگز اپنی کتابوں میں داخل نہ کرتے۔فتویٰ کفر سے اگر بچے ہیں تو امام تقی و نقی وامام حسن عسکری کے شاگرد بچے صرف ان کی حدیثیں نقل کرتے بھلا جن پر مقتدمین شیعہ نے کفر کا فتویٰ دیا،ان کی حدیث کب قابل عمل ہے؟ جس پر آج شیعہ عمل کر رہے ہیں۔ علمائے شیعہ نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ جب دو ائمہ کی احادیث میں اختلاف پڑ جائے،توپچھلے امام کی حدیث معتبر ہوگی اصول
کافی صفحہ 38۔
معطی بن قیس نے امام جعفر سے پوچھا، کہ جب پہلے اور پچھلے امام میں اختلاف ہو جائے تو کیا کریں۔
قلت لابي عبد الله اذا جاء حديث عن أولكم وحديث عن اٰخراكم بايتهما ناخذ فقال فخذوا به حتى يبلغنكم عن الحيى فان مبلغكم عن الحي فخذوا به –
معلیٰ کہتا ہے کہ میں نے امام سے دریافت کیا کہ ایک حدیث امام سابق کی ہے۔اور ایک حدیث بعد والے امام کی اس کے خلاف ہے تو ہم کس پر عمل کریں؟تو فرمایا کہ جب زندہ کی حدیث مل جائے تو اس پر عمل کرو۔
اس حدیث نے واضح کر دیا کہ امام زین العابدین کے شاگردوں پر جو فتویٰ امام باقر کے شاگردوں نے دیا تھا، وہ ٹھیک ہے اس پر عمل کرنا چاہئیے اور امام باقر کے شاگردوں پر امام جعفر کے شاگردوں کافتویٰ علی ہذالقیاس امام موسیٰ رضا تک امام موسیٰ رضا کے شاگردوں کا فتویٰ ٹھیک مانا جائے اور سابقہ ائمہ کی تعلیم پر بدستور فتویٰ جاری رکھ کر اس تعلیم کو ردی کی ٹوکری میں ضائع کر دینا چاہئیے۔
اے حضرات شیعہ!ذرا انصاف کرو اور سُنی بھائی عبرت حاصل کریں کہ جن کے فتویٰ کفر سے ائمہ کا کوئی شاگرد نہ بچ سکا وہ اصحاب رسولﷺپر کس طرح فتویٰ نہ دیں۔
خلاصه : یہ کہ جو دین رسول تھا ، وہ بوجہ ارتداد کے امام حسین کی شہادت پر ختم ہو کر دنیا سے نابود ہو گیا باقی دین جو ائمہ کا تھا وہ امام زین العابدین بن امام حسینؓ سے لے کر امام موسیٰ رضا تک جو ساتویں امام ہیں سب کا دین بوجہ فتویٰ کفر کے ضائع و برباد ہو گیا تھا۔ لہذا شیعہ کا فرض ہے کہ امام تقی و نقی و امام حسن عسکری سے مذہب شیعہ کا ثبوت دیا کریں یہ نہ کہیں کہ مذہب شیعہ رسول سے چلا۔
امام جعفر صادق کا حال حسب ذیل ہے اصول کافی صفحہ 496 پر ہے ۔
امام فرماتے ہیں، کہ اگر سترہ شیعہ مجھ کو مل جاتے تو میں جنگ کرتا۔
والله يا سدير لو كان لى شيعة بعده هذا الجداء ما وسعتى الفقود ونزلنا وعلينا فلما فرغنا من الصلواة عطفت الى الجداء فعدتها فاذا هي سبعة عشر-
فرمایا امام نے اسے سدیر خدا کی قسم اگر ان بھیڑوں کی تعداد پر میرے شیعہ ہوتے تو ضروری جنگ کرتا یعنی جہاد جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا اور شمار کیں تو بزغالہ سترہ تھیں۔
اسی اصول کافی کے صفحہ 496 پر امام جعفر کا فرمان موجود ہے کہ اگر مجھے تین شیعہ مل جاتے تو بھی میں حدیث کو نہ چھپاتا۔
لوانی اجد منكم ثلاثة مومنين يكتمون حديثی ما استحللت ان اكتمهم حديثاً۔
اے ابو بصیر! اگر میں تم میں سے جو(دعویٰ شیعہ ہونے کا کرتے ہو)،تین مومن پاتا جو میری حدیث کو ظاہر نہ کرتے تو میں ان میں سے اپنی حدیثیں نہ چھپاتا۔
فائدہ : امام کے قول سے معلوم ہوا کہ امام جعفر کے زمانہ میں جو شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ان میں تین بھی مسمان نہ تھے اور جو کوئی تھا اس سے امام اپنا مذہب و عقیدہ پوشیدہ رکھتے تھے ظاہر نہ کرتے تھے۔
کہو صاحب!امام تو فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی حدیث کسی پر ظاہر نہیں کی تو یہ کافی استبصار، تہذیب اور من لا یحضرہ الفقیہ امام جعفر کے اقوال سے کیونکر بھری ہوئی ہیں۔ کیا تم اور آپ کے محدثین اس دعویٰ میں حق بجانب ہیں کہ یہ حادیث امام جعفر کی ہیں؟ یا امام کا فرمان سچا ہے۔کہ میں حدیثیں ظاہر نہیں کرتا ہے یقیناً امام سچا ہے ! لہذا امام پر احادیث کا بہتان ہوا۔
رجال کشی صفحہ 107 میں امام جعفر نے فرمایا کہ مجھے ایک آدمی شیعہ ملا ہے باقی کوئی شیعہ نہیں۔
كان ابو عبد الله عليه السلام يقول ما وجدت إحدا يقبل وصيتي ويطيع امرى الأعبد الله بن يعفور .
امام جعفر فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا کوئی آدمی نہیں پایا جو میری وصیت کو قبول کرتا اور میرے حکم کی تابعداری و اطاعت کرتا سوائے عبداللہ بن یعفور کے۔
فائدہ جب امام کا حکم نہ مانتے تھےتومسلمان کس بات کے تھے؟ پس ایک ابن یعفور باقی رہا۔ اس سے مذہب شیعہ متواتر نہ رہا۔ مگر اس امر کو یاد رکھنا، عبد اللہ بن یعفور بھی اڑ جائے گا۔اس کا ذکر ابھی آتا ہے،کہ یہ بھی کذاب تھا۔ یہ تھا حال ائمہ کے متبعین کا جن سے مذہب شیعہ کو چلایا جاتا ہے اب ائمہ کا حال برنگ تعلیم ملاحظہ ہو کہ امام ہر مخلص سے مخلص شیعہ سے بھی تقیہ کرتے تھے۔اور اس تقیہ بازی کو دیکھ کہ انسان کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا کہ خدا جانے ان کا اصلی مذہب کیا تھا۔ جیسا کہ اصول کافی میں ہے،کہ امام سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا تھا تو اس کو کچھ اور طرح بتایا۔پھر زرارہ کی باری آتی۔ یہ اصول کافی صفحہ 35 سے۔
فلما خرج الرجلان قلت يا بن رسول الله رجلان من اهل العراق من شيعتكم قد يسئلان فاجبت كل واحد منهما بغير ما اجبت به صاحبه فقال يا زرارة ان هذا خير لنا وابقى منائكم ولو اجتمعتم على امر واحد اصدقكم الناس علينا ولكان اقل بقائنا وبقائكم.
پس جب دونوں مرد چلے گئے تو میں (زرارہ) نے کہا اے فرزند رسول ! یہ دونوں مرد عراقی آپ کے پُرانے شیعوں سے تھے۔سوال کرتے ہیں پس آپ نے ہر ایک کو جواب مختلف دیا ہے۔ فرمایا امام نے اے زرارہ !یہ تحقیق یہ جواب ایک دوسرے کے مخالف دینا ہمارے تمہارے لیے اچھا ہے اور اس میں ہماری اور تمہاری بقاء ہے اگر تم ایک مسئلہ پر جمع ہو جاؤ گے تو لوگ تمہیں سچا سمجھیں گے ہم پر اور یہ ہمارے لیے اور تمہارے لیے باقی رہنے میں نقصان پیدا کرےگی۔
فائده ائمه خودشیعہ کو جوخاص شیعہ ہوتے تھے جھوٹے مسائل بلا کسی خوف و خطرہ کے بتاتے تھے اور ائمہ خود چاہتے تھے کہ شیعہ کو لوگ کذاب کہیں۔ کوئی ان کے سچا ہونے کا اعتبار نہ کر بیٹھے سو ائمہ کو شیعہ کے نام کی ضرورت تھی مذہب و ایمان کی ضرورت نہ تھی،کہ شیعہ ایمان دار ہوں۔ان کا باقی رکھنا مقصود تھا،خواہ ایماندار ہوں یا نہ ہوں بقول شیعہ ائمہ کو علم تھا۔کہ یہ وفادار نہیں اسی واسطے غلط مسائل بتاتے تھے جیسا فرمایا کہ ایک بھی مطیع نہیں ملا ورنہ حدیث نہ چھپاتا۔
زرارہ کے بعد ابوبصیر کا نمبر ہےاستبصار میں خود
ابوبصیر نے سنت فجر کا مسئلہ دریافت کیا، تو امام نے غلط بتایا۔
استبصار کے صفحہ 146 پر ہے۔
عن ابی بصير قال قلت لا بی عبد الله عليه السلام متى اصلى ركعتی الفجر قال فقال لى بعد طلوع الفجر قلت له أن أبا جعفر عليه السلام امرنی ان اصلهما قبل طلوع الفجر فقال يا ابا محمد ان الشعة التوابي مسترشدين فافتاھم بالحق واتونى شكاكا فافتيتهم بالتقية۔
ابو بصیر نے کہا کہ میں نے امام جعفر سے مسئلہ پوچھا کہ سنت فجر کو کس وقت پڑھوں؟توامام نے مجھے فرمایا بعدطلوعِ فجر کے تومیں نے عرض کی کہ امام باقر نے مجھے حکم دیا تھا کہ طلوعِ قبل فجر کے پڑھیں پس امام جعفر نے فرمایا اے ابامحمد! شیعہ میرے باپ کے پاس طالب ہدایت ہو کر آتے تھے توحق مسئلہ بتا دیتے تھے اور میرے پاس وہ شک لے کر آتے ہیں تو میں تقیہ کر کے بتاتا ہوں۔
فائدہ :-امام نے شک کو زائل کرنا تھا یا الٹا شک زیادہ ڈالنا تھا، معلوم ہوا کہ امام کے پاس تو وہ آدمی جاتا جو سابق دین کا عالم ہوتا ورنہ بجائے حق اور راہبری کے الٹا گمراہی کے گڑھے میں ڈالتے تھے۔ ذرا انصاف کرنا! یا یہی مذہب ہے جس کو دنیا کے سامنے حق بنا کر پیش کرتے ہیں؟بھلا کیونکہ غلط مسائل نہ بتاتے، یہ شیعہ مومن نہ تھے جیسا کہ پہلے گزر چکاہے ائمہ کی کلام میں 70،70پہلو جھوٹ کا ہوتا تھا۔ایک کلام میں اگر 70 سامع ہوتے،تو یقینی70ہی جھوٹ سیکھ کر جاتے اور ایک بھی یقین حاصل کر کے نہ اٹھتا۔
اساس الاصول علامہ دلدار علی مجتہد اعظم کے صفحہ 65 پر ہے۔
عن ابن عبد الله انه قال انى اتكلم على سبعين وجه لي في كلها المخرج وايضا عن ابی بصير قال سمعت ابا عبد الله يقول انی اتكلم بالكلمة الواحدة لها سبعون وجها ان شئت اخذت كذا وان شئت اخذت كذا .
امام جعفر صادق نے فرمایاکہ میں 70 پہلوؤں پر کلام کرتا ہوں میرے لیے ان تمام پہلوؤں میں نکلنے کا راستہ ہوتا ہے دوم ابی بصیر سے مروی ہے کہ میں نےامام جعفر سے سنا کہ فرماتے تھے، میری کلام میری 70 پہلو ہوتا ہے ایک کلمہ میں اگر چاہوں تو اس کو لے لوں اور اگر چاہوں تو اس کو لےلوں۔
فائدہ:- کیا کوئی مجتہد شیعہ منصف مزاج دنیا میں ہے ! کہ انصاف سے یہ بتائے کہ جب امام کی ایک بات میں 70 پہلو ہوں اور ہر بات دوسری کے بات کے مخالف و متضاد ہوتی تھی تو ترجیح کسطرح دی جاسکتی ہے؟یہ ایک عجیب معمہ درپیش ہے شاید کسی مجتہد شیعہ کی سمجھ میں آجائے تو وہ اس کو حل فرما دے۔
مثلاً امام نےفرمایا:زرارہ ملعون ہے،تو اس کلام میں بھی صدق کذب کا ، ستر 70پہلو ہوا اس جملہ کے بعد فرمایا کہ زرارہ کو میں نے؟ یعنی "اعیب زرارة " اب اس کلام میں بھی 70پہلو ہوا۔ پھر مثلاً فرمایا آنا اصلی یا فرمایا اصوم اب اس کلام میں بھی 70 پہلو صدق کذب کا ہوگا مثلاً فرمایا لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ اب اس کلمہ توحید میں بھی 70 پہلو صدق کذب کا ہوگا ۔ اب آپ ہی فرمایا کہ آئمہ کا مذہب کس طرح متعین ہوگا؟سنی شیعہ تو در کنار رہا، ان کا کوئی مذہب ہی ثابت نہیں ہو سکتا۔اگر کوئی دلیل ان کے مذہب کے ثبوت پر شیعہ کے پاس ہے تو پیش کریں۔
مگر اے حضرات شیعہ!ان کو تقیه باز مان کر خدا کے لیے ان بزرگوں کی توہین مت کیجیئے گا ورنہ اس کلام میں تسلسل یا دور لازم آئے گا۔ شیعہ کو بھی یہ اقرار ہے کہ امام اپنی امامت سے انکار کرتے تھے اصول کافی صفحہ 142۔
عن سعيد السمان قال كنت عند ابی عبد الله اذ دخل عليه رجلان من الزيدية فقالا له افيكم امام مفترض الطاعة قال فقال لا قال فقالا له قد اخبرنا عنك الثقاة انك تفتى وتقر وتقول به وتسميهم لك فلان وفلان و هو اصحاب ورع وتشهيروهم ممن لا يكذب فغضب ابو عبد الله وقال ما امرتهم بهذا فلما رايا الغضب في وجهه خرجا.
سعید سمان کہتا ہے کہ امام جعفر کے پاس تھا کہ دو مرد مذہب زیدیہ کے داخل ہوئے اور امام سے دریافت کیا کہ تم میں کوئی امام ہے جس کی اطاعت فرض ہو ؟سعید کہتا ہے کہ امام نے فرمایا میں نے نہیں فرمایا ان کو،ان دونوں نے کہا کہ ہم کو آپ سے بڑے ثقہ لوگوں نے خبر دی ہے کہ آپ فتوٰی دیتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں اور ہم ان کے نام بتاتے ہیں اور نیکی میں بڑا مبالغہ کرنے والے ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے پس امام کو غضب آیا جب انہوں دیکھا تو وہ چلے گئے ۔
اور یہی مضمون رجال کشی کے صفحہ268 پر اس سے بھی بڑھ کر ہے ۔
عن سعيد الاعرج قال كنا عند ابي عبد الله فاستاذن له رجلان فاذن لهما فقال احدهما افيكم امام مفترض الطاعة قال ما اعرف ذلك فينا قال بالكوفة قوم يزعمون أن فيكم اماما مفترض الطاعة وهم لا يكذبون اصحاب ورع اجتهاد و تميزمنهم عبد الله عن ابي يعفور الى ان قال فما ذبني واحمر وجهه ما امرتهم .
سعید اعرج بیان کرتا ہے کہ ہم ابی عبداللہ کے پاس موجود تھے کہ دو مرد زیدیہ فرقہ کے آئے انہوں نے اجازت لی امام نے اجازت دی اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی امام مفترض الطاعة موجود ہے تو امام نے فرمایا میں نہیں پہچانتا اپنے اندر کہا کہ کوفہ میں ایک قوم ہے وہ زعم کرتے ہیں کہ تم میں کوئی امام مفترض الطاعۃ ہے اور وہ جھوٹ بولنے والے نہیں صاحب درع و تقویٰ ہیں انہی میں سے عبد اللہ بن یعفور بھی ہیں۔امام نے فرمایا میرا کیا قصور ہے اور امام کا چہرہ سرخ ہوگیا فرمایا میں نےان کو یہ حکم نہیں دیا اور نہ کہا ہے۔
اسی طرح مجالس المومنین کے صفحہ 166پر بھی یہی مضمون ہے۔
اس روایت میں بھی عبداللہ بن یعفور ہے اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ عبداللہ بن یعفور کی بات کو یادرکھنا۔ جس کے متعلق امام جعفر فرماتے ہیں کہ یہ ایک مسلمان ہے باقی صرف دعویٰ کے شیعہ ہیں۔ اب دیکھا، کہ عبداللہ بن یعفور بھی جھوٹ کی زد میں آگیا۔ کہ امام نے امامت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی ان کو یہ فرمایا کہ میں امام ہوں، مگر کوفہ کے عبداللہ بن یعفور نے امام بنایا، اور امام کو ناراض بھی کیا کہ امام اس امام کے لفظ سے غضب ناک ہوئے جس نے اہلِ بیت کے امام کو ناراض کیا۔اور غصہ دلایا،وہ کب مسلمان رہ سکتا ہے۔ چلو چھٹی ہوئی۔ عبداللہ سے بھی امام دعویٰ امامت کو ذنب یعنی گناہ سے تعبیر فرمارہے ہیں کہ مجھے امام کہنا گناہ ہے۔
اسی طرح کتاب حق الیقین کے صفحہ 721پر یہ عبارت ہے۔ائمہ طاہرین کے زمانہ میں شیعوں کے اندر ایسے لوگ بھی تھے جو ان بزرگوں کی عصمت کا اعتقاد نہ رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کو نیک علماء کے مرتبہ شمار کرتے تھے۔جیسا کہ کتاب رجال کشی سے واضح ہوتا ہے، لیکن باوجود اس کے ائمہ طاہرین ان کو صاحب ایمان سمجھتے تھے،بلکہ ان کی عدالت کو معتبر فرماتے تھے
ثابت ہوا کہ نہ اماموں نے دعویٰ امامت کیا تھا اور نہ اماموں کی امامت کا اقرار ایمان تھا۔ورنہ عدم اقرار کی وجہ سے ایماندار عادل نہ رہتا۔
پس معلوم ہوا کہ تمام من گھڑت مسئله زراره، ابو بصیر اور عبدالله بن یعفور حضرات کا دعویٰ ہے۔بھلا امام دعویٰ امامت کیسے کرتے ؟ یہ امامت کا مسئلہ تو ایک راز تھا جس کا علم سوائے جبرائیل کے کسی فرشتہ کوبھی نہ تھا۔ پھر رسولﷺکے سوا کسی کو جبرائیل نے نہیں بتایا تھا۔اور رسول ﷺ نے علیؓ کو بتایا۔
اصول کافی صفحه 477 -
قال ابو جعفر عليه السلام ولايه الله اسرها الى جبرئيل واسرها جبرئيل الى محمد وأسرها محمد الى على واسرها على من شاء ثوانتم تزيعون ذالك .
امام باقر نے فرمایا امامت ایک راز تھا جو خدا نے جبرائیلؑ کو پوشیدہ طور پر بتایا تھا جبرائیلؑ نے رسولﷺ کو رسولﷺ نے علیؓ کو راز کے طور پر بتایا۔ اور علیؓ نے جس کو چاہا راز کے طور پر بتایا۔ اور علیؓ نے جس کو چاہا راز کے طور پر بتایا اب تم شیعہ اس کو مشہور کرتے ہو۔
اور یہی مضمون رجال کسی صفحہ 370 پر بھی ہے ۔
فائدہ: اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ امامت کا ذکر قرآن و حدیث میں تو درکنار رہا۔یہ تو کسی انسان کو بھی معلوم نہ تھا۔ چونکہ یہ ایک اسرار تھا اور
اسرار پوشیدہ راز اور بھید کو کہتے ہیں لہٰذا اگر قرآن و حدیث میں ذکرہوتا تو اسرار نہ رہتا لہذا قرآن یا حدیث شیعہ علماء کی امامت پر پیش کرنی غلط ہوئی۔
اب سوال تو یہ ہے کہ پھر امامت کا مسئلہ کسی قاتل نے ایجاد کیا ہے؟ یہ تو ثابت ہو گیا کہ جب امامت کا علم کسی کو نہ تھا تو مذہب شیعہ کا علم کیسے ہوگیا؟ پس زمانہ اول میں نہ امامت تھی اور نہ مذہب شیعہ تھا۔
باقی رہا یہ سوال کہ امامت کا موجد کون ہے؟ یہ خود شیعہ اقرار کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن سباء یہودی تھا۔ رجال کشی کے صفحہ 71 پر ہے۔
وذکر بعض اھل العلم ان عبداللہ بن سباء کان یھودیا فاسلم ووالٰی علیاعليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصى موسى بالغلو فقال فی اسلامه بعد وفات رسول الله ﷺ فی على مثل ذالك وكان أول من استشهد بالقول بفرض امامة على واظهر البراة من اعدائه وكاشف مخالفيه واكفرهم فمن هذا قال من خالف الشيعة اصل التشيع والرفض ماخوذ من اليهودية۔
بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ عبد اللہ بن سباء یہودی تھا پھر وہ اسلام لایا اور اس نے حضرت علیؓ سے محبت کی اور وہ اپنے یہودیت کے زمانہ میں حضرت یوشع بن نون وصی موسیٰ کے بارے میں غلو کرتا تھا،پھر اپنے اسلام کے زمانہ میں رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے بارے میں غلو کرنے لگا یہ ابن سباء پہلا شخص ہے جس نے مسئلہ امامت علی کے فرض ہونے کو شہرت دی اور ان کے دشمنوں پر تبراء کیا اور ان کے مخالفوں سے کھیل کھیلا اور ان کی تحقیر کی یعنی فتوٰی کفر لگایا اسی وجہ سے جو لوگ شیعوں کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ شیعہ کی بنیاد یہودیت سے کی گئی ہے۔
فائدہ :۔ ثابت ہوا کہ مذہب شیعہ کے دونوں رکن اعظم امامت اور تبراء بازی اسی دشمنِ اسلام کی ایجاد ہے۔اور وہی مذہب شیعہ کا بانی ہے۔
عبد اللہ بن سباء یہودی خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں منافقانہ طور پر مسلمان ہوا اور خلیفہ کے دربار میں مقرب بننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور بڑے پوسٹ پر ملازم ہونے کی بھی کوشش کی تو بھی ناکام رہا اور اس وجہ سے اس کی خلیفہ ثالث سے عداوت پیدا ہو گئی اور ان کی بدگوئی شروع کردی آخر خلیفہ نے ان کو مصر کی طرف نکال دیا مصر جا کہ اس نے اپنی جماعت تیا رکی اسی جماعت نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا۔اور جنگ جمل و صفین بھی اسی حضرت کے کارناموں سے ہیں پھر اس نے یہ تبلیغ شروع کر دی کہ تینوں خلیفے ظالم اور غاصب تھے،خلافت حضرت علیؓ کا حق تھا جس کو خلفائے ثلاثہؓ نے جبراً چھین لیا ہے۔جب کسی نے اعتراض کیا،تو جواب دیا کہ نہیں میں تو صرف علیؓ کو تین خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں،کسی کو کہا کہ حضرت علیؓ خدا تھا، میں ان کا نبی ہوں آخر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اس کو واصل جہنم کیا۔مگر اس کا لگایا ہوا پودا موجود تھا جنگِ صفین کے بعد جیسا کہ رجال کشی کے صفحہ 72 ہے پر ہے کہ اس کے 70 شاگردوں نے حضرت علیؓ کو خدا کہنا شروع کر دیا جب روکنے سے بھی نہ رکے تو حضرت علیؓ نے فی النار کئے مگر پھر بھی اس کمیٹی کے ممبر ختم نہ ہوئے۔ ایران و عراق میں اس نے آگ پر تیل چھڑکا تھا۔ چونکہ ایران و عراق کے تخت خلفائے ثلاثہؓ نے الٹ کر زیر بالا کر دئیے تھے خزانے لیے گئے ان کی عورتیں باندیاں بنائی گئیں اور حکومتوں کی عزت و غرور خاک میں مل گیا تھا۔اس لیے ان کو خلفائے ثلاثہؓ سے سخت عداوت تھی۔ عبد اللہ بن سباء کا منتر بھی اس ملک میں خوب چل گیا اور اس کمیٹی کے پھر بڑے بڑے ممبر پیدا ہو گئے جنہوں نے مذہب شیعہ کو خوب سراہا۔ مثلاً زرارہ ،ابوبصیر محمد بن مسلم، بریدہ بن معاویہ عبداللہ بن یعفور، ہشام بن سالم اور مومن طاق وغیرہ ذالک جن کا ذکر عنقریب آتا ہے اور سبائی مشین کے پرزوں نے خوب موقعہ محل کی حدیثیں ڈھالنی شروع کر دیں۔
آج شیعہ عبداللہ بن سباء کے بانی مذہب شیعہ ہونے سے انکاری ہیں۔ ہاں شیعہ مذہب کو یہودیت سے مشتق ہونا مخالفین کا قول قرار دیا ہے مگر بانی مذہب شیعہ ہونے سے انکار نہیں کیا۔نہ ہی ان دونوں اعظم رکنوں سے انکار کیا ہے۔چلو میں چند منٹ کے لیے مان لیتا ہوں کہ شیعہ مذہب یہودیت سے مشتق نہیں تو پھر کسی اور دشمن اسلام کو بانی مذہب شیعہ ماننا پڑے گا۔ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے یہ مندرجہ ذیل تین مسائل جن پر مذہب شیعہ کی عمارت کھڑی ہے سوائے دشمن اسلام کے کسی غیر سے ایجاد نہیں ہو سکتے۔
1):-یہ کہ قرآن محرف ہے۔اس میں پانچ قسم کی تحریف ہو چکی ہے اس کی آیتیں اور سورتیں نکال ڈالی گئی ہیں ۔ اس میں اپنی طرف سے عبارتیں داخل کی گئیں جس کی وجہ سے کفر کے ستون اس میں قائم ہوتے ہیں۔
یہ قرآن رسول کی توہین کرتا ہے۔ اس کے حروف والفاظ بدل ڈالے گئے اس کی سورتوں اور لفظوں کی ترتیب الٹ پلٹ کر دی گئی،اب بجائے دین کے بے دینی کی قرآن تعلیم دیتا ہے۔
بتاؤ جب قرآن کی یہ حالت ہے تو دین اسلام میں باقی کیا رہ گیا؟
2):-یہ کہ تمام صحابہؓ رسولﷺ کی سوائے چار پانچ کے کافر، مرتد کاذب خائن،ظالم اور غاصب تھے گویا باطن میں وہ چار کافرو مرتد نہ تھے مگر کاذب اور اعلیٰ درجہ کے کذاب وہ بھی تھے۔ لیکن ان کے کذب کا نام تقیہ رکھ دیا۔
پس جب صحابہؓ کی یہ حالت تھی جو رسالت کے چشم دید گواہ اور نزول قرآن کے اول گواہ ہیں،تو اب نبوت رسول اکرم ﷺ دلائل نبوت معجزات نبوت اور تعلیمات نبوت سب مشکوک ہوئیں۔جس واقعہ کا چشم دید گواہ صادق نہ ہو، اس واقعہ کو کون مانتا ہے؟
3):-یہ کہ رسول کے بعد بارہ اشخاص مثل رسول ہیں معصوم ہیں اور مفترض الطاعتہ ہیں ان کی اطاعت بھی مثل اطاعتِ رسول ہے۔ جب تک ان کی امامت پر ایمان نہ لائیں توحید ورسالت کوئی فائدہ نہ دے گی۔ ان کو حرام و حلال کرنے کا اختیار ہے موت اور زندگی ان کے اپنے اختیار میں ہے ہر سال ان پر نئے احکام شب قدر کو نازل ہوتے ہیں وغیرہ ذالک۔(اصول کافی کتاب الحجہ)
بتاؤ : یہ مسائل دشمنِ اسلام کے ایجاد شدہ نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرات شیعہ کے بانیان مذہب نے جب دیکھا کہ مذہب شیعہ زمانہ رسول میں تو تھا ہی نہیں، نہ اس کی کوئی سند رسول سے ملتی ہے۔ نہ ہی کوئی مسئلہ رسول سے ملتا ہے اور نہ ہی ہم حدیث کو وضع کر کے رسول سے روایت کر سکتے ہیں تو اب اماموں کا سلسلہ باقی رہا۔ اگر ان سے روایت کو گھڑیں تو مذہب سوائے معصوم و مفترض الطاعۃ کے چل ہی نہیں سکتا،تو ائمہ کی عصمت کے قائل ہو کر مثل رسول کے مانا۔اور اس چال پر چل کر پھر از سرِ نو حدیثیں گھڑنی شروع کر دیں۔پس جب حدیثیں اماموں سے گھڑی گئیں،تو یقینی طور پر یہ ثابت ہو گیا کہ رسول کے ساتھ اس مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب رہا اماموں سے اس مذہب کا چلنا، اس پر ہم بحث کریں گے کہ جن راویوں نے ائمہ سے ان کا مفترض الطاعۃ ہونا معصوم ہونا مثل رسول ہونا اور ان کا مذہب شیعہ ہونا ذالک نقل کر کے ہم تک پہنچایا ہے چونکہ ہم نے خود تو کسی امام کو دیکھا نہیں اور نہ ہی ان کا دعویٰ سنا صرف راویوں کی نقل ہے-
لہٰذا! اب ہم راویوں کے حالات کو دیکھتے ہیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان کے اقوال قابل قبول ہوں؟ یا نہیں اور اماموں کا اور ان راویوں کا آپس میں کیا سلوک رہا؟اور اماموں نے ان کے حق میں کیا فرمایا؟
اگر یہ سچے اور صادق ہیں تو مذہب شیعہ کا اماموں سے چلنا ٹھیک اور اگر یہ جھوٹے اور کذاب ہیں تو مذہب شیعہ کا اماموں سے چلنا غلط ہے۔حق الیقین اردو صفحہ 371 سے قول باقر مجلسی کا میں پورا نقل کر دیتا ہوں ہر صاحب انصاف نتائج آسانی سے خود نکال لے گا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز و عراق و خراسان و فارس وغیرہ سے فضلاء کی ایک جماعت کثیر حضرت باقر و حضرت صادق اور نیز تمام ائمہ کے اصحاب سے تھی مثل زرارہ محمد بن مسلم ابوبریده ابو بصیر ہشامین حمران جیکر، مومن طاق ابان بن تغلب اور معاویہ بن عمار کے، اور ان کے علاوہ اور جماعت کثیرہ بھی تھی جن کا شمار نہیں کر سکتے اور کتب رجال اور علماء شیعہ کی فہرستوں میں مسطور و مذکور ہیں یہ سب شیعوں کے رئیس تھے ان لوگوں نے فقہ،حدیث و کلام میں کتابیں تصنیف کر کے تمام مسائل کو جمع کیا ہے۔ان میں ہر ایک شخص بہت سے شاگرد اور پیرو رکھتا تھا یہ لوگ ائمہ طاہرین کی خدمت میں ہمیشہ حاضر ہوکر حدیثیں سنتے تھے۔پھر ملک عراق اورتمام شہروں کی طرف مراجعت کر کے ان حدیثوں کواپنی کتابوں میں ثبت کرتے تھے۔یہ لوگ ائمہ طاہرین سے روایت کرتے اور بزرگوں کے معجزات منتشر کرتے تھے،ان لوگوں کا اختصاص ائمہ طاہرین کے ساتھ معلوم و محقق ہے جیسا کے ابوحنیفہؒ کے ساتھ ابویوسفؒ اور اس کے شاگردوں کا اور یہ بھی تمام لوگوں کو معلوم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں اگر ائمہ طاہرین ان کے اقوال واحوال سے مطلع تھے۔
پس ان لوگوں کی حالت دو صورتوں سے خالی نہیں ہے۔ یعنی یہ لوگ مذہب شیعہ سے جن امور کی نسبت ائمہ طاہرین سے دیتے ہیں۔ان میں راست گواورمحقق ہیں،یا دروغ گو اور مبطل اگر ان امور میں صادق ہیں۔ جن کی نسبت ائمہ طاہرین سے کرتے ہیں(یعنی دعویٰ امامت،ان بزرگواروں پرنص کا صادر ہونا ان بزرگوں کے معجزات،ان کے مخالفوں کا کفروفسق)پس یہ تمام امور حق اور ثابت ہیں اور اگر دروغ کہتے ہیں تو پھر ائمہ باوجودیکہ ان کے اقوال واحوال سے آگاہ تھے کس لیے ان سے بیزاری طلب نہ کرتے تھے،اور ان کا کذب بطلان ظاہر نہ کر دیا۔جیسا ابوالخطاب و مغیرہ بن شعبہ اورتمام غالیوں اور اہل ضلالت کے مذاہب باطلہ سے بیزاری طلب کرتے تھے۔اگر دیدہ و دانستہ اغماض کرکے ان کے مذاہب باطلہ کے اقوال و افعال کو بہتر کہتے تھے پس العیاذ باللہ خود بھی اہل ضلالت سے قرار پائیں۔(ختم ہوئی عبارت)
اس عبارت سے موٹے چار فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
فائدہ 1: یه کہ مذهب شیعه نبی کریمﷺ کے زمانہ میں نہ تھا نہ ہی یہ مذہب نبی کریمﷺسے ماخود ہے اور نہ ہی اس مذہب کا واسطہ نبی کریمﷺ سے ہے، البتہ اس مذہب کی نسبت ائمہ کی طرف کی گئی ہے مگر وہ دیکھا جائے گا۔
فائدہ 2: یہ کہ اس مذہب کا کوئی راوی عرب کا اور خاص کر مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کا نہیں ملتا۔ تمام راوی عراق و ایران کے ہیں۔جو ملک کہ خلفائے ثلاثہ اور اسلام کے بدترین دشمن تھے اور جن کو ملک کا بَیرتھا۔
فائدہ 3: یہ کہ اگر جماعت کاذب ثابت ہو جاتے تو مذہب شیعہ باطل ہے۔
فائدہ 4: یہ کہ اگر یہ باطل پر ہے اور ائمہ نے ان سے بیزاری نہ حاصل کی ہو، تو خود ائمہ معاذ اللہ بے دین ثابت ہو جائیں گے کیا جن لوگوں کو ائمہ کرام نے خالی نکال نہیں دیا، بلکہ ملعون و کافر قرار دیا تھا ان کو شیعہ نے پیشوائی سے معزول کیا ہے کیا ان کی مروی حدیثیں کتابوں سے نکال دی ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ جن کو ائمہ کرام نے کافروملعون قرار دیکر نکالا ہے،اگر شیعہ کو وہ آگے معلوم نہ تھے تو اب میں بتاتا ہوں ، آپ ہی برائے خدا ان کی مروی حدیثیں شیعہ اپنی کتب سے نکال ڈالیں۔
لو! سب سے اول زرارہ جو سبائی کمیٹی کا صدر اعظم ہے جس پر نصف مذہب شیعہ کی مدار ہے جس کے ہزاروں شاگرد تھے۔رجال کشی کے صفحہ 95 میں ہے کہ یہ امام جعفر سے کم نہ تھا ۔
قال اصحاب زرارة من ادرك زرارة بن اعين فقد ادرك ابا عبد الله عليه السلام -
زرارہ کے شاگردوں نے فرمایا جس شخص نے زرارہ کو پایا تحقیق اس نے امام جعفر کو پالیا۔
فائدہ :خلاصہ یہ کہ امام کا ہم پلہ تھا علم وغیرہ میں رجال کشی صفحہ 103 پر ہے ۔
عن جميل بن دراج قال ما رايت رجلا مثل زرارة بن اعين انا كنا نختلف اليه فما كنا حوله الا بمنزلة الصبيان في الكتاب حول المعلم
جمیل بن دراج کا بیان ہے کہ میں نے کوئی آدمی مثل زرارہ کے نہیں پایا ہم اس کے حلقہ تعلیم میں بچوں کی طرح ہوتے تھے جیسا معلم کے گرداگرد ہوتے ہیں۔
اسی رجال کشی صفحہ90،91پر ابی عبداللہ سے ہے۔
يقول عبد الله ما اجد احداً احياذ كرنا واحاديث ابى عليه السلام الازرارة وابو بصير ليث الراوى ومحمد بن مسلم وبريد بن معاوية العجلی ولولا هوٰلآء ما كان احد يستنبط هذا هولاء حفاظ الدين وامناء ابی عليه السلام على حلال الله وحرامه۔
امام جعفر فرماتے ہیں کہ میں کسی ایک کونہیں پاتا کہ اس نے ہمارا ذکر یا احادیث میرے والد کی زندہ کی ہوں۔سوائے زرارہ،ابوبصیر محمد بن مسلم او یزید بن معاویہ کے اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو کوئی ایک بھی نہ تھا کہ اس علم کا استنباط کرتا۔یہ لوگ دین کے محافظ ہیں۔اللہ تعالی کے حلال حرام کے امین ہیں۔
فائدہ : امام جعفر صادق کے قول کے مطابق معلوم ہوا کہ جس قدر امامت کا ذکر یا معجزات ائمہ کا ذکر یا حدیثیں، یا حرام و حلال کا ذکر زندہ رہا اور حدیثیں منقول ہیں، سب ان ہی کی روایت شدہ ہیں۔نہ غیرسے اگر غیر سے ہیں تو بہت کم، اور پھرغیر ان کاہی شاگرد ہو گایاشاگرد کا شاگرد ہوگا۔
خلاصه : یہ کہ شیعہ کا دین ان ہی حضرات سے منقول ہے یہ چار ستون ہیں۔مذہب شیعہ کی سطح انہی پر استوار ہے زرارہ کے بعد ابو بصیر کا نمبر ہے پھر محمد بن مسلم کا اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا امام نے ان چاروں کو جن پر مذہب شیعہ کی سطح استوار ہے نکالا تھایانہ؟
حق الیقین اردو کے صفحہ 766 پر ہے۔کہ زرارہ وابو بصیر باجماع امامیہ گمراہ ہیں،عبارت یہ ہے۔
یہ حکم ایسی جماعت کے حق میں ہے جن کی ضلالت پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ زراره وابوبصير"
رجال کشی کے صفحہ 107 پر زرارہ کے حق میں امام جعفرکافتویٰ۔
قال نعم زرارة شر من اليهود والنصارىٰ ومن قال ان مع الله ثالث ثلاثہ
امام نے فرمایا،ہاں زرارہ بُرا ہے یہودونصاریٰ اور تین خدا ماننے والوں سے بھی۔
اسی رجال کشی کے صفحہ100 پر امام جعفر کا فتویٰ۔
فقال لعن الله زرارة لعن الله زرارة لعن الله زرارۃ -
امام نے فرمایا کہ خدا لعنت کرے زرارہ پر،یہ لفظ تین بار فرمائے۔
پھر زرارہ نے امام کو اس لعنت کا جواب دیا رجال کشی صفحہ 106
فلما خرجت ضرت فی لحيته فقلت لا يفلح ابدا .
پس جواب میں امام سے باہرآنے لگا تو میں نے امام کی ڈاڑھی میں پاد مارا اور میں نے کہا کہ امام کبھی نجات نہ پائے گا۔
اب سبائی کمیٹی کے پریزیڈنٹ ابوبصیر کا نمبر ہے۔ اس نے امام کی توھین کی تھی۔کہ امام کو طماع دنیادار کہا۔ رجال کشی صفحہ116 پر ہے۔
قال جلس ابو بصيير على باب ابی عبدالله عليهںالسلام ليطلب الاذن فلم يؤذن له فقال لوكان معناطبق لاذن قال فجاء كلب فشغر فی وجه ابی بصير۔
راوی کا بیان ہے کہ ابو بصیر امام جعفر کے دروازہ پر بیٹھا تھا کہ اسکو اندر جانے کی اجازت دی جائے مگر امام نے اجازت نہ دی تو ابو بصیر نے کہا کہ اگر میرے پاس کوئی طبق ہوتا تو اجازت مل جاتی،پس کہتا آیا اور اس نے ابو بصیر کے منہ میں پیشاب کر دیا ۔
نوٹ : یہ ابوبصیر اندھا تھا اور کوفہ کاتھا۔
فرمایئے مجلسی صاحب!کیا زرارہ اور ابوبصیر جن کی روایات پر مذہب شیعہ کی مدار ہے ، آپ نے ان کو اپنی پیشوائی سے معزول کیا؟جب کہ امام نے ان پر گمراہی اور کفرکافتویٰ دیااور تمام مذہب کے علماء کا ان کی گمراہی پر بھی ہے۔اگر پہلے یاد نہ تھا تو اب وہ تمام حدیثیں جوان سے مروی ہیں نکال دو مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا ان کی روایات نکال دیں تو پھر باقی مذہب کی سطح ہوا پر رہ جائے گی۔کیونکہ تین حصے دین ان سےمروی ہے۔
اب محمد بن مسلم کاحال حسبِ ذیل ہے۔رجال کشی کے صفحہ 101 پر ہے محمد بن مسلم کو صرف دو اماموں سے چھیالیس ہزارحدیث یاد تھی۔
عن محمد بن مسلم قال ما شجن في رائى شئ قط الاسئلت عنه اباجعفر عليه السلام حتى سئلت عن ثلثين الف حديث وسالث ابا عبد الله علیه السلام عن ستة عشرالف حديث-
محمد بن مسلم بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں کوئی چیز کبھی نہیں کھٹکی مگر میں نے اس کا سوال امام باقرسے نہ کیاہواور امام باقر سے میں نے تیس ہزار حدیث تعلیم پائی اور امام جعفر سے سولہ ہزار حدیث تعلیم پائی۔
اور رجال کشی کے صفحہ 113 پر محمد بن مسلم کے بارے میں امام جعفرکا فتویٰ مندرجہ ذیل ہے
عن مفضل بن عمر قال سمعت اباعبد الله يقول لعن الله محمد بن مسلم كان يقول ان الله لا يعلم شيئا حتىٰ يكون۔
مفضل بن عمر بیان کرتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ محمد بن مسلم پر لعنت کرے کہ یہ ملعون خدا کو جاہل کہتا ہے کہ جب تک چیز پیدا نہ ہو جائے خدا نہیں جانتا ۔
اب بریدہ بن معاویہ کا حال حسب ذیل ہے۔
رجال کشی کے صفحہ 99 پر ابی یسار امام جعفر سے بیان کرتا ہے۔
قال سمعت ابا عبد الله يقول لعن الله بريده ولعن الله زرارة
ابی یسار بیان کرتا ہے امام جعفر نے فرمایاخدا کی لعنت ہو بریدہ پر اور زرارہ پر
فائدہ: معلوم ہوتا ہے کہ زرارہ سے امام کو بہت پیار تھا۔اس کو عطیہ لعنت کے ساتھ یاد فرماتے ہیں۔
اے اہلِ اسلام ! للّٰلہ انصاف سے بتاؤ!کہ مذہب شیعہ کے یہی چار ستون تھے جن پر چھت استوار تھی جب یہ چاروں ستون لعنت کی دیمک کی وجہ سے گرگئے تو فرمایئے کہ اب مذہب کی سطح کس چیز پر کھڑی ہو گی؟
اے علماء شیعہ صرف چھیالیس ہزار حدیث محمد بن مسلم ملعون کی جو آپ کی کتابوں میں درج ہے۔برائے خدا اسی کو نکال کر دیکھنا کہ باقی مذہب شیعہ میں کیا رہ جاتا ہے؟ اور پھر زرارہ کو بمعہ اسکے شاگردوں کے نکال کہ مذہب شیعہ کا منہ شیشہ میں دیکھیں کہ کیا خوب ہے۔
باقی ہشامین کا حال پہلے مذکور ہوچکا،کہ توحید باری کے قائل نہ تھے۔اوراسی طرح مؤمن طاق اور میشی وغیرہ۔پھر یہی مومن طاق فضیل،ابوبصیر اور ہشام اور یہ حضرات بمعہ کافی جماعت شیعہ کے امام جعفر کی وفات کے بعد گمراہ ہوگئے،اور خارجی مذہب کوپسند کر لیا تھا۔اصول کافی صفحہ 221 پر ہشام بن سالم سے روایت ہے۔
قال فخرجنا من عنده ضلالا لايدرى اين نتوجه انا وابو جعفر الاحول فقعدنا في المدينة باين حيارى لا ندرى الى اين نتوجه ولا الى من نقصد يقول إلى المرجيه الى القدرية الى الزيدية الى المعتزلة الى الخوارج فنحن كذلك ۔
ہشام بن سالم کہتا ہے کہ ہم امام کے لڑکے عبداللہ بن جعفر کے پاس سے گمراہ ہو کر نکلے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کس طرح جائیں میں اور احول پس بیٹھ گئے مدینہ کی گلی میں روتے ہوئے حیران پریشان لاعلم تھے کس طرح جائیں اور کس کو اپنا مقصود بنائیں کیا ہم فرقہ مرجیہ کی طرف پلٹ جائیں،قدریہ کی طرف زیدیہ کی طرف معتزلہ کی طرف،خارجی کی طرف، پس ہوگئے ہم خارجی۔
لوحضرت جی!امام جعفر کی موت نے تمام کو خارجی بنا کر مرتد کر دیا۔اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ امام کی حدیثیں ان کے پاس اس وقت کوئی موجود نہ تھیں جن پر عمل کرکے یقین حاصل کرتے کیا امام مرگیا تھا تو اس کی حدیث تو نہ مرگئی تھی۔آگے عمران و بیکر جن کو مجلسی نے راوی لکھا۔ان کا حال حسبِ ذیل ہے۔
کہ یہ دونوں زرارہ کے بھائی تھے زرارہ کے تین بھائی تھے دو مذکور اور تیسرا عبد الملک،زرارہ کے دو لڑکے تھے حسن و حسین حمران کے دولڑ کے تھے۔ حمزہ اور محمد اور عبدالملک کا ایک لڑکا عرشین تھا اور بیکرکے پانچ تھے عبد اللہ جہم ، عبد المجید، عبدالاعلی اور عمر،اور ان تمام کو آل اعین کہا جاتا ہے جیسا زراہ بن اعین، ان تمام کو رجال کشی صفحہ 102 پر یہود کی مثل لکھا ہے۔
باقی ہم کو کسی خاص خاص راوی کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں۔جب ہم نقل کرچکے ہیں کہ امام جعفر صادق کے زمانہ تک امام جعفرکوکوئی آدمی مومن سوائے عبداللہ بن یعفور کے نہ ملا تھا۔ ابان بن تغلب بھی امام جعفر کا شاگرد تھا اور انہی کے زمانہ میں فوت ہوا۔
اب ذرا جابر، یزید اور جعفی محدث کا حال سنیں۔ رجال کشی صفحہ 128 پر ہے۔
عن جابر بن يزيد الجعفی قال حدثنى ابوجعفر بسبعين الف حديث -
جابر جعفی بیان کرتا ہے کہ میں نے امام باقر سے ستر ہزار حدیث تعلیم پائی۔اوراسی رجال کشی کے صفحہ 126پرہے ۔
عن زرارة قال سئلت اباعبدالله عن احاديث جابر فقال ماراتيه عند ابی قط الأمرة واحدة وما دخل على قط۔
زرارہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے سوال کیا کہ جابر کی حدیث کے متعلق تو فرمایا کہ میرے باپ کے پاس صرف ایک دفعہ آیا تھا اور میرے پاس کبھی آیا بھی نہیں۔
فائدہ : ستر ہزارحدیث کس سے لی تھی؟جب امام نفی فرما رہے ہیں تو اے حضرات شیعه اب ستر ہزار حدیث کو اپنی کتب سے نکال ڈالیں۔
اور یہ بھی فرمایئے کہ آپ کے یہ راوی ائمہ سےحدیث نقل کرنے والے صادق ہیں یا کاذب؟ اگر صادق ہیں، تو پھر آپ کا مذہب حق بجانب اور اگر بقول مجلسی امام کی زبانی ان کا ملعون،کافر،یہودی،کاذب اورمفتری ہونا ثابت ہوچکا تو پھر تو مذہب شیعہ باطل ہوا؟
تو خود انصاف کیجیئے گا کہ صرف مرثیہ خوانی پر لوگوں کو خراب کرکےان کی عاقبت برباد نہ کریں۔
پس مختتم بات یہ ہے کہ اگر ان راویان مذہب شیعہ کو چشم بند کرکے صادق مان لیں،تو ائمہ کامذہب و دین ایسا مشکل و مشتبہ ہو جاتا ہے کہ دنیا بھرکے شیعہ مل کران راویان کو کاذب مان لیں تومذہب شیعہ دنیا میں ایک منٹ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ کیاخوب مذہب ہے جو لاعن و ملعون سے چل رہا ہے۔
ناظم صاحب ملک النجات نے انبیاء کی میراث کے بارے میں ابو البختری پر جرح کی تھی،کہ یہ کذاب ہے ، اس کے جواب میں میرے محبوب دوست پیراحمد شاہ صاحب نے جواب دیئے۔جب وہ جواب ناچیز کے سامنے آئے،تو میں نے عرض کی،کہ شاہ صاحب!آپ نے جواب میں طول دیا ہے جواب بالکل مختصر ہے، کہ دنیا بھر کے شیعہ مل کر اپنا ایک ایسا راوی پیش کریں جو ثقہ اور صادق ہو۔
ابو البختری بے چارہ نے شیعوں کی ایک ایک فریبانہ کہانی متقدمین شیعہ کی زبانی بیان کی کہ شیعہ مذہب کن کن چالاکیوں اور فریب کاریوں سے دنیا میں پھیلا سنیوں میں سنی،حنفی،شافعی،مالکی ا ورحنبلی بن کہ مدرس رہے،کتب اہلِ سنت میں دست اندازی کی۔اور موضوع روایات اہلِ سنت کی کتابوں میں درج کی گئیں نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین میں لکھا ہے۔
علما شیعه بعلت تمادی استیلائے اصحاب شقاق و استیلائے اربابِ تغلب و نفاق همواره درزاویه تقیه مخفی بوده اند خود را شافعی یا حنفی نموده اند۔ علماء شیعہ بوجہ ربا ہو جانے زمانہ کے اور تسلط مخالفین و غلبہ متغلبین و منافقین کے ہمیشہ گوشتہ تقیہ میں چھپے رہے اور اپنے کو حنفی یاشافعی ظاہر کرتے ہے۔اور علماء نے منہج الکرامہ میں فرمایا۔
كثير اما راينا من يتدين فى الباطن بدين الامامية ويمنعه من اظهاره حب الدنيا وطلب الرياسته وقد رءيت بعض ائمة الحنابلة يقول انی على مذهب الامامية فقلت لم تدرسين على مذهب الحنابلة فقال ليس فی مذهبكم الفلات والمشاهرات وكان اكبر مدرس الشافعيه في زماننا حيث توفى اوصى ان يتولى امره فى غسله وتجهيزه بعض الاماميه وان تدفن فی مشهد مولانا الكاظم واشهد عليه انه كان على مذهب الامامية۔
ہم نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں،جو باطن میں مذہب شیعہ رکھتے تھے مگر بوجہ محبت دنیا و طلب ریاست کے اس کو ظاہر نہ کرتے تھے اور میں نے دیکھا بعض ائمہ جنبلیہ کو وہ کہتے تھے کہ ہم شیعہ ہیں میں نے ان سے کہا کہ پھر اب جنبلی مذہب کی تعلیم کیونکر دیتے ہو!تو انہوں نے کہا کہ تمہارے مذہب میں آمدنی اور تنخواہ نہیں ہیں اور ہمارے زمانہ میں شافعیہ کا ایک مدرس اعلیٰ یعنی صدر مدرس تھا جب وہ مرنے لگا تو وصیت کی کہ میری تجہیز و تکفین کسی شیعہ کے سپرد کی جائے م۔اور ہم کو مشہد موسیٰ کاظم میں دفن کیا جائے اور لوگوں کو کہا کہ میں باطن میں شیعہ تھا۔
یہ فریب اس واسطے دیا کہ طلباء کو شیعہ بنانے کا یہی اچھا طریقہ ہے۔اگر شیعہ کے رنگ میں رنگے نہ گئے تو کم از کم بھگوڑے تو ضرور ہوجائیں گے۔
مجالس المؤمنین میں قاضی نور اللہ صاحب رقمطراز ہیں۔
بسیارے از اصحاب خود را دیده بودم که چوں استماع علم عامه علم خاص کردند ہر دورا کہ با هم مخلوط کردند تاآنکہ حدیث عامہ راز خاصہ روایت نموده اندو روایت خاصہ از عامہ
میں نے بہت سے شیعہ کے اصحاب کو دیکھا کہ جب علم عامہ(سُنی) اور خاصہ شیعہ کا علم حدیث حاصل کر لیا،تو دونوں کو ملا کر سُنیوں کی حدیثوں کو شیعوں سے اور شیعوں کی حدیثوں کو سنیوں سے روایت کرتے تھے۔
اس تقیہ بازی کی وجہ سے ان علماء شیعہ کے ہاتھوں سنیوں کی کوئی کتاب نہ بیچ سکی۔ آج جس قدر سُنی کتب پر شیعہ اعتراض کرتے ہیں۔اور تمام روایتیں ان کی خود ساختہ ہیں۔ان تقیہ بازوں میں حسین بن روح سفیر ثالث امام غیب ہے جس کے متعلق فصل الخطاب صفحہ 28 پر ہے۔
ورئيس هذا الطائفة الشيخ الذى ربما قيل بعصمته ابو القاسم حسين بن روح۔
قائلین تحریف قرآن کی جماعت کارئیسں وہ شیخ جس کے بارہ میں بہت دفعہ معصوم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ابو القاسم حسین بن روح ہے۔
اس نے اکیس برس امام اور شیعہ کے درمیان سفارت کی حق الیقین کے صفحہ 384 پرہے۔
وہ اکیس برس سے زیادہ سفارت و نیابت میں مشغول رہا اور تمام شیعوں کامرجع تھا۔ وہ اس طرح تقیہ کرتا تھا کہ اکثر سُنی اس کو اپنے گروہ سے جانتے تھے اور محبت کرتے تھے۔
فائدہ یہ تو علماء معصومین کا حال تھا غیر کا کیا کہنا ؟ شیعوں کے راویوں نے ہر موقعہ و ہر محل کی حدیث گھڑلی جب کوئی سوال ہوا کہ امام تو امامت سے انکار کرتے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکاہے تو ان پرزوں نے جواب دیا کہ وہ تقیہ کر کے انکار کرتے تھے۔ ورنہ ان کا مذہب تو شیعہ ہی تھا۔اور پھر اس پر سوال ہوا، مکہ تقیہ توصاف جھوٹ ہے،توجواب دیا۔
(اصول کافی باب الثواب)
التقية من ديني ومن دين ابائى لادين لمن لا تقية له .
کہ امام فرماتے ہیں کہ تقیہ ہمارا اور ہمارے باپ دادوں کا دین ہے جو تقیہ نہ کرے وہ بے دین تقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے تقیہ میں تو بڑا ثواب ہے۔
پھر سوال ہوا کہ تم پھر اپنے مذہب کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے تو جواب دیا۔
(اصول کافی صفحه 485)
انكم على دين من كتمه اعزه الله ومن اذاعه اذله الله۔
اے شیعو ! تم ایسے دین پر ہو کہ اگر اس شیعہ دین کو چھپا رکھو گے تو تم کو خدا عزت بھی دے گا اور اگر ظاہر کرو گے تو تم کو خدا ذلیل کرے گا۔پس مذہب کو ظاہر نہ کرنا۔
کیا خوب دین ہے کہ جس کے چھپانے سے عزت اور ظاہر کرنے سے ذلت حاصل ہو، پس معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے جو دین اپنے رسول کو دے کر مبعوث فرمایا وہ دین نہیں ورنہ اس کے ظاہر کرنے کا فوری حکم دیا تھا اور رسول نے آتے ہی ظاہر کرنے کا فوری حکم دیا تھا اور رسول نے آتے ہی ظاہر کردیا مگر شیعہ دین کا چھپانا ہی فرض ہے۔ قال تعالیٰ
هُوَ الَّذِي اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَى الدّیْنِ كُلّهٖ۔
خدا نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت و دین حق دے کو مبعوث فرمایا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے ۔
فائدہ: (لیظھر) کے لام کا تعلق ارسل کے ساتھ ہے۔ یعنی جب بھیجا اسی وقت دین ظاہر کیا اور شیعہ کا قرن اول میں نام تک بھی نہ تھا۔اور اب تک اس کے چھپانے میں عزت ہے پھر جب کسی نے سوال کیا کہ لوگوں سے اس دین حق پر مناظرہ کیوں نہیں کرتے؟ تو فوراً کٹھالی میں ڈال کر حدیث بنالی کہ ائمہ نے فرمایا،مناظرہ نہ کرنا ورنہ شیعہ کے دل بیمار ہو جائیں گے۔ یعنی حق کا اظہار دل کی بیماری ہے ۔
اصول کافی صفحہ 481 پرامام جعفرسے:-
لا تخاصموا بدينكو الناس فان المتخاصمة فمرضة للقلب-
لوگوں سے مناظرہ نہ کرنا،کیونکہ یہ مخاصمہ دل کو بیمار کر دیتا ہے۔
آج مولوی اسماعیل کو منع کریں۔اس کا دل تو خدا جانے کیا ہوگا پھر کسی سُنی نے سوال کیا کہ جب سُنی مسلمان نہیں اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے تو پھر سیدنا علیؓ نے ان کے پیچھے تئیس سال نمازیں پڑھ کر کیوں ضائع کیں۔
جیسا کہ احتجاج مطبوعہ ایران صفحه 54 پر ہے۔
ثم قام وتهياء وحضر المسجد وصلى خلف ابی بكر-
پھر کھڑا ہو کہ اور تیار ہو کر مسجد میں حاضر ہو کر سیدنا صدیق اکبرؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔
تو ان چلتے پرزوں نے فوراً امام کی زبانی حدیث ڈھال لی۔جیسا کہ من یحضره الفقیہہ باب الجماعت میں امام جعفر سے روایت ہے کہ سُنی کے پیچھے نماز پڑھنے میں ثواب اتنا ثواب ہے کہ جتنا نبی کے پیچھے نماز پڑھنے میں ثواب ہے۔
وروى عنه حماد بن عثمان انه قال من صلى معهم فی صف لاول كان كمن صلى خلف رسول الله فی الصف الاول۔
حماد بن عثمان نے امام جعفر سے روایت کی ہے کہ فرمایا امام نے جس نے سنیوں کے ساتھ اول صف میں نماز پڑھی وہ مثل اس شخص کے ہے جس نے رسول اللہﷺان کے پیچھے صف اول میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔
سنیوں کا شان شیعوں کی زبانی قابل قدر ہے شاباش شاباش !! الفضل ما شهدت به الاعداء فضیلت وہی ہوتی ہے جس کی گواہی دشمن دے ۔
اے شیعو ! یہ فضیلت تو تم کو تقیہ کر کے سُنیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی دولت ملی۔اگر خالص سُنی ہوکر پڑھیں تو کتنی ہوگی؟
اگر ان پر سوال ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے زمانہ میں تراویح جس کو تم حرام کہتے ہو اور متعہ جو صاف زنا ہے اس کو حلال کہتے ہو اور قرآن کو غیر معتبر ومحرف مبذول کہتے ہو۔ اگر یہ سچ تھا،تو سیدنا علیؓ نے متعہ کو رواج کیوں نہ دیا ؟ قرآن کو صحیح رائج کیوں نہ کیا؟اور تراویح کیوں نہ مٹائی؟ وغیر ذالک تو یہ جواب دیتے ہیں جیسا کہ احقاق میں نور اللہ نے دیا۔
والحاصل ان امر الخلافة ما وصل اليه الا بالاسم دون المعنى
اصل کلام یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کو خلافت برائے نام ملی تھی۔
پھر جب ان سے سوال ہوتا ہے کہ تم اپنے ان پیش کردہ مسائل کو ائمہ کے پاس جاکر تصدیق کراسکتے ہو، کہ امام معصوم ہوتا ہے مفترض الطاعتہ ہوتا ہے۔ اور خلافت سیدنا علیؓ کا حق تھا جو اصحاب ثلاثہؓ نے جبراً چھین لی وغیرہ ذالک تو فوراً حدیث بنا کر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم تصدیق مسائل کی نہیں کرسکتے اللہ ہم کو تمام مسائل بطور تقیہ کے تنہائی میں بتاتے ہیں۔جیسا کہ فروع کافی باب المواریث مطبوعہ لکھنو جلد 3 صفحہ 52 پر زرارہ سے روایت ہے
وكانت ساعتى اننی كنت اجلوا به فيها بين الظهر والعصر و كنت اكره ان اساله الاخاليا خشية ان يفتينی اجل ان يحصره بالتقية۔
اور زرارہ کہتا ہے، میرے لیے ایک وقت نماز ظہروعصر کے درمیان میں تھا سوائے تخلیہ کے میں مکروہ جانتا تھا سوال کرنا اس خوف سے کہ امام باقرمجھے فتویٰ دیدے لوگوں سامنے تقیہ کرکے ۔ پھر جب ان پر سوال ہوتا ہےکہ اگر سیدنا علیؓ کے خلیفہ خدا ورسولﷺ نے بنا کر اعلان کیا تھا تو یہ ایک پیشن گوئی تھی۔ جس کے غلط ہونے سے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ خدا اور رسولﷺجھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔اور یہ امرمحال ہےتو جواب دیتے ہیں کہ خدا کو بدا ہو جاتا ہے بھول جاتا ہے۔ جب خدا بھول جاتا ہے تو رسول تو خود بھول جائے گا۔اساس الاصول صفحہ 219 پر ہے ۔
اعلموا ان البداء لا يقول به احد لانه يلزم منه ان يتصف البارى تعالىٰ بالجهل كما لا يخفى۔
جان لوتم بہ تحقیق بداء کا کوئی قائل نہ ہو ورنہ لازم آئے گا کہ خدا تعالیٰ جاہل ہے۔
حضرات شیعہ بداء کا معنی الٹ پلٹ کرتے ہیں۔مگر علامہ دلدار علی نے واضح کر دیا کہ بداء کا معنی جہالت ہے۔ شاباش حضرات شیعہ نے قرآن کو غیر معتبر و محرف بنایا،اصل قرآن کو غار میں چھپایا رسول کریمﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرکے پھر ائمہ کوجھوٹا تقیہ باز بنایا آخر خدا کو بھی جہالت سے نہ بچایا۔شاباش!