
ثانی اثنین کے مصداق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
معزز قارئین کرام !
شیعہ حضرات جہاں بغض صحابہ میں بہت سارے حقائق کو جھٹلاتے وہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ثانی اثنین کے مصداق نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے مصداق عبداللہ بن اریقط ہیں ۔
قارئین کرام میں یہاں کوشش کروں گا کہ صحابہ کرام کی زبانی یہ بات واضح کر سکوں کہ ثانی اثنین کے مصداق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ انشا ءاللہ ۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے اپنے کلام مجید میں ثانی اثنین سے ذکر فرمایا ہے ۔ اور یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی فضیلت اور لقب ہے ۔ مفسرین یہاں یہاں ثانی کے لفظ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات مراد لیتے ہیں ۔ یہ اس کلمہ کا ایک مفہوم ہے لیکن ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ثانی اثنین کا لفظ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی دو شخصوں میں سے دوسرے شخص سمیت کافروں نے نکال دیا ۔ اس صورت میں ثانی سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مراد لینا درست ہے ۔ ذیل میں ایسے قرائن پیش کیے جاتے ہیں کہ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام اپنے کلام اور تکلم میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ثانی اثنین کے لقب سے یاد فرماتے تھے ۔
اس کی چند ایک مثالیں ۔ ان مقامات سے ظاہر اور ثابت ہو گا کہ ثانی اثنین کا لقب صحابہ کرام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں صحیح تصور فرماتے تھے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت کرنے کے موقعہ پر ایک کلام کیا تھا ۔ اس میں آں موصوف نے آپ کے صفات شمار کئے
ان ابابکر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ثانی اثنین و انہ اولی المسلمین بامورکم فقوموا فبایعو ۔ ۔ ۔ الخ
درج ذیل مقامات پر محدثین اور اہل سیرت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو
مصنف عبدالرزاق ص 438-437 باب بداء مرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بخاری شریف ۔ ص 1702 ج 2 کتاب الاحکام باب الاستخلاف طبع نور محمد
المصنف لابن شیبہ ص 566 ج 14 باب ماجاء فی خلافۃ ابی بکر
سیرت ابن ہشام ۔ ص 661-600 ج 2 تحت خطبہ عمر قبل ابی بکر عند البیعت عامہ
حضرت ابو عبیدہ کا قول
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پاک کے بعد بیعت کے معاملہ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا :
۔ ۔ ۔ اتبا یعنی وفیکم الصدیق و ثانی اثنین ۔
یعنی تم میرے ساتھ بیعت کرنا چاہتے ہو حالانکہ تم میں الصدیق اور ثانی اثنین موجود ہیں
طبقات ابن سعد ص 128 ج 3 ۔ کنزالعمال لعلی متوی الہندی ص 140 ج 3 طبع اول دکن
حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کا قول
تاریخ ابن جریر الطبری ص 209 ج 3 میں طبری نے نقل کیا ہے کہ جس وقت مہاجرین اور انصار میں خلافت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں معذرت چاہی تو اس وقت حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما دونوں نے فرمایا : اللہ کی قسم اس معاملے کا آپ کو چھوڑ کر ہم ( کسی دوسرے کو) والی نہیں بنانا چاہتے کیوں کہ آپ افضل المہاجرین ہیں اور ثانی اثنین ہیں جبکہ دونوں حضرات غار میں تھے اور نماز پر بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور قائمقام ہیں ۔ حالنکہ نماز مسلمانوں کے دین میں افضل چیز ہے ۔پس کس کے لئے مناسب ہے کہ وہ آپ سے مقدم ہو سکے ؟ یعنہ آپ سے مقدم ہونا کسی کے لائق نہیں
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول
کنزالعُمال میں بحوالہ خیثمہ بن سلیمان روایت ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
عن حمران قال عثمان ابن عفان ان ابابکر الصدیق احق النا س بہا یعنی الخلافۃ انہ صدیق و ثانی اثنین وصاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تحقیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملہ میں زیادہ حقدار ہیں ۔ وہ صدیق ہیں ثانی اثنین ہیں اور وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
کنزالعمال لعلی متقی الہندی ص 140 بحوالہ خیثمہ فی فضائل الصحابہ روایت نمبر 2331 ۔ کتاب الخلافۃ۔ طبع اول دکن
حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کا قول
جب خلافت و نیابت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تو ان دونوں حضرات نے فرمایا
۔ ۔ ۔ انا نری ان ابا بکر احق الناس بہا ۔ انہ لصاحب الغار و ثانی اثنین ۔ ۔
یعنی حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما مسئلہ خلافت کی بحث میں فرماتے ہیں کہ ہم تمام لوگوں میں سے خلافت کا زیادہ حقدار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جانتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ صاحب غار اور ثانی اثنین ہیں
السنن الکبریٰ للبیہقی ص 18 ۔ الاعتقاد علی مذہب السلف للبیہقی ص 179 طبع مصر
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کا قول
مسند امام احمد میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک بار ربیعہ بن کعب الاسلمی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کا ایک نخلہ ( کھجور) کے متعلق وقتی طور پر تنازع پیش آیا تھا ۔ ربیعہ کے قبیلے کے لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ شکوہ کرنے لگے تو ربیعہ نے ان کو فہمائش کرتے ہؤے کہا
۔ ۔ ۔ ۔ اتدرون ماھذا ؟ ھذا ابوبکر الصدیق ھذا ثانی اثنین ھذا ذو شیبہ المسلمین ۔ ۔ ۔الخ
یعنی ربیعہ نے کہا کیا تم جانتے کہ ان کا کیا مقام ہے ؟
یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ ثانی اثنین ہیں ۔ یہ مسلمانوں کے شیخ اور بزرگ ہیں ۔ ۔الخ
مسند امام احمد ص 58-59 ج رابع تحت مسندات ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار
روایات کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کو فرمایا : کہ تو نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ اشعار کہے ہیں تو کہو تا کہ ہم بھی سن لیں ۔ تو حسان کہنے لگے
وثانی اثنین فی الغار ا لمنیف
وقد طاف العدو بہ اذ صعد الجبلاء
وکان حب رسول اللہ قد علموا
من البریہ لم یعدل بہ زجلا
( دیوان حسان ص 240 طبع مصر ۔ ازالہ لشاہ ولی اللہ ص 99 جلد اول تحت مسند حسان بن ثابت)
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ ۔ بلند غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دو شخصوں میں سے دوسرے تھے اور جب یہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے اس غار کا چکر لگایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں ۔ اور لوگوں نے یقین کر لیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ان کے برابر نہیں قرار دیا ۔
مختصر یہ کہ صحابہ کرام اپنی گفتگو اور کلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثانی اثنین کے لقب سے ذکر کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثانی درجہ میں ہیں ۔ اور کلمہ ثانی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں
قاعدہ :
قاعدہ ہے کہ باب تفسیر میں اقوالصحابہ کرام حجت قرار دئیے جاتے ہیں ۔ فلہذا ثانی اثنین کے مفہوم کی وضاحت صحابہ کرام کے مندرجہ بالا اقوال حجت شرعی کے درجہ میں ہیں ۔ اس لئیے یہ بات بالکل درست ہے کہ اس مقام ثانی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور یہ ان کا لقب درست ہے اور یہ اُن کی صفت صحیح ہے ۔ اور صحابہ کرام اس چیز کا اعتراف کرتے تھے اور اس میں خلافت صدیق کی طرف اشارہ پاتے تھے
شیعہ علماء کی طرف سے تائید
شیعہ علماء میں ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ طبع قدیم میں بحث ہذا میں حضرت عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے
وہ لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔
۔فقال عمر و ابو عبیدہ ما ینبغی لاحد من الناس ان یکون فوقک انت صاحب الغار ثانی اثنین وامرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با الصلوۃ۔ فانت احق النسا بھذالامر
یعنی حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ اس وقت کوئی شخص آپ پر فائق نہیں ہے ۔ آپ صاحب غار ہیں اور ثانی اثنین ہیں ۔ اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔ پس آپ خلافت کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں






أبو بكر ثاني اثنين من كتب الشيعة
يقول الله عز وجل: إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [التوبة: 40]
- صاحب أبي بكر رضي الله عنه النبي صلى الله عليه وسلم في هجرته، و كانت من أعظم فضائل و مناقب أبي بكر رضي الله عنه، فثبت لأبي بكر منزلة عظيمة لم يبلغها أحد من الصحابة رضوان الله عنهم
- بما أن دين الإثنى عشرية قائم على بغض الصحابة رضوان الله عنهم، فإن بعضهم ينكر أن يكون أبي بكر رضي الله عنه هو صاحب النبي صلى الله عليه وسلم في الغار
- هذه أدلة من كتبهم تثبت أن أبي بكر رضي الله عنه هو صاحب النبي في الغار
1 - كتاب بصائر الدرجات للصفار (290 هـ) صفحة 442
لنک
(13) احمد بن محمد ومحمد بن الحسين عن الحسن بن محبوب عن على بن رئاب عن زياد الكناسى عن أبى جعفر ع قال لما كان رسول الله صلى الله عليه وآله في الغار و معه أبو الفصيل قال رسول الله صلى الله عليه وآله أنى لأنظر الآن إلى جعفر وأصحابه الساعة تغوم بينهم سفينتهم في البحر وأنى لأنظر إلى رهط من الأنصار في مجالسهم مخبتين بافنيتهم فقال له أبو الفضل أتريهم يا رسول الله صلى الله عليه وآله الساعة قال نعم فارينهم قال فمسح رسول الله صلى الله عليه وآله على عينيه ثم قال انظر فنظر فرآهم فقال رسول الله صلى الله عليه وآله أرايتهم قال نعم واسر في نفسه انه ساحر.
2 - تفسير القمي (329 هـ) الجزء 1 صفحة 290
لنک
قوله: {إلا تنصروه فقد نصره الله إذ أخرجه الذين كفروا ثاني اثنين إذ هما في الغار إذ يقول لصاحبه لا تحزن إن الله معنا} فإنه حدثني أبي عن بعض رجاله رفعه إلى أبي عبد الله قال لما كان رسول الله صلى الله عليه وآله في الغار قال لفلان كأني أنظر إلى سفينة جعفر في أصحابه يقوم في البحر وأنظر إلى الأنصار محتسبين في أفنيتهم فقال فلان وتراهم يا رسول الله قال نعم قال فأرنيهم فمسح على عينيه فرآهم (فقال في نفسه الآن صدقت أنك ساحر ط) فقال له رسول الله أنت الصديق
3 - كتاب الكافي للكليني (329 هـ) الجزء 8 صفحة 262
لنک
377 - حميد بن زياد عن محمد بن أيوب عن علي بن أسباط عن الحكم بن مسكين عن يوسف بن صهيب عن أبي عبد الله (ع) قال: سمعت أبا جعفر (ع) يقول: إن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أقبل يقول لأبي بكر في الغار: أسكن فإن الله معنا وقد أخذته الرعدة وهو لا يسكن فلما رأى رسول الله (صلى الله عليه وآله) حاله قال له: تريد أن أريك أصحابي من الأنصار في مجالسهم يتحدثون فأريك جعفرا وأصحابه في البحر يغوصون؟ قال: نعم فمسح رسول الله (صلى الله عليه وآله): بيده على وجهه فنظر إلى الأنصار يتحدثون ونظر إلى جعفر (ع) وأصحابه في البحر يغوصون فأضمر تلك الساعة أنه ساحر
4 - التبيان للطوسي (460 هـ) الجزء 5 صفحة 221
لنک
قرأ يعقوب وحده {وكلمة الله هي العليا} بالنصب على تقدير وجعل كلمة الله هي العليا ومن رفع استأنف، وهو أبلغ لأنه يفيد أن كلمة الله العليا على كل حال. وهذا أيضا زجر آخر وتهديد لمن خاطبه في الآية الأولى بأنهم إن لم ينصروا النبي صلى الله عليه وآله ولم يقاتلوا معه ولم يجاهدوا عدوه {فقد نصره الله} أي قد فعل الله به النصر حين أخرجه الكفار من مكة {ثاني اثنين}. وهو نصب على الحال أي هو ومعه آخر، وهو أبو بكر في وقت كونهما في الغار من حيث {قال لصاحبه} يعني أبا بكر {لا تحزن} أي لا تخف. ولا تجزع {إن الله معنا} أي ينصرنا. والنصرة على ضربين: احدهما - يكون نعمة على من ينصره. و الآخر - لا يكون كذلك، فنصرة المؤمنين تكون إحساناً من الناصر إلى نفسه لأن ذلك طاعة لله ولم تكن نعمة على النبي صلى الله عليه وآله. والثاني - من ينصر غيره لينفعه بما تدعوا إليه الحكمة كان ذلك نعمة عليه مثل نصرة الله لنبيه صلى الله عليه وآله.
5 - الإفصاح للمفيد (413 هـ) صفحة 185
لنک
جواب: قيل لهم: أما خروج أبي بكر مع النبي صلى الله عليه وآله فغير مدفوع وكونه في الغار معه غير مجحود واستحقاق اسم الصحبة معروف
6 - تفسير مجمع البيان للطبرسي (ت 548 هـ) الجزء 5 صفحة 57
لنک
المعنى: ثم أعلمهم الله سبحانه أنهم إن تركوا نصرة رسوله لم يضرُّه ذلك شيئاً كما لم يضره قلة ناصريه حين كان بمكة وهمَّ به الكفار فتولّى الله نصره فقال {إلا تنصروه فقد نصره الله} معناه إن لم تنصروا النبي صلى الله عليه وسلم على قتال العدوّ فقد فعل الله به النصر {إذ أخرجه الذين كفروا} من مكة فخرج يريد المدينة {ثاني اثنين} يعني أنه كان هو وأبو بكر {إذ هما في الغار} ليس معهما ثالث أي وهو أحد اثنين ومعناه فقد نصره الله منفرداً من كل شيء إلا من أبي بكر والغار الثقب العظيم في الجبل وأراد به هنا غار ثور وهو جبل بمكة.
{إذ يقول لصاحبه} أي إذ يقول الرسول لأبي بكر {لا تحزن} أي لا تخف {إن الله معنا} يريد أنه مطّلع علينا عالم بحالنا فهو يحفظنا وينصرنا.
7 - مختصر بصائر الدرجات لحسن بن سليمان الحلي (ق 9) صفحة 29
موسى بن عمر بن يزيد الصيقل عن عثمان بن عيسى عن خالد بن يحيي قال قلت لأبي عبد الله ع سمى رسول الله صلى الله عليه وآله أبا بكر صديقا فقال نعم انه حيث كان معه أبو بكر في الغار
8 - التفسير الصافي للفيض الكاشاني (1091 هـ) الجزء 2 صفحة 344
لنک
{(40) إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ} إن تركتم نصرته فسينصره الله كما نصره {إذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِىَ اثْنَيْنِ} لم يكن معه إلاّ رجل واحد {إذْ هُمَا فِي الغَارِ} غار ثور وهو جبل في يمنى مكة على مسيرة ساعة {إذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ} وهو أبو بكر {لاَ تَحْزَنْ} لا تخف {إنَّ اللهَ مَعَنَا} بالعصمة والمعونة.
9 - بحار الأنوار للمجلسي (1111 هـ) ج 19 ص 33 باب 6: الهجرة ومباديها ومبيت علي على فراش النبي
لنک
وقال في قوله تعالى: " إلا تنصروه فقد نصره الله ": أي إن لم تنصروا النبي صلى الله عليه وآله على قتال العدو فقد فعل الله به النصر " إذ أخرجه الذين كفروا " من مكة فخرج يريد المدينة " ثاني اثنين إذ هما في الغار " يعني أنه كان هو وأبو بكر في الغار ليس معهما ثالث وأراد به هنا غار ثور وهو جبل بمكة " إذ يقول لصاحبه " أي إذ يقول الرسول صلى الله عليه وآله لأبي بكر: " لا تحزن " أي لا تخف " إن الله معنا " يريد أنه مطلع علينا عالم بحالنا فهو يحفظنا وينصرنا
10 - بحار الأنوار للمجلسي (1111 هـ) ج 19 ص 71 باب 6: الهجرة ومباديها ومبيت علي على فراش النبي
لنک
22 - بصائر الدرجات: ابن عيسى وابن أبي الخطاب معا عن ابن محبوب عن ابن رئاب عن الكناسي عن أبي جعفر ع قال: لما كان رسول الله صلى الله عليه وآله في الغار ومعه أبو الفضيل قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إني لأنظر الآن إلى جعفر وأصحابه الساعة تعوم بهم سفينتهم في البحر إني لأنظر إلى رهط من الأنصار في مجالسهم محتبين بأفنيتهم فقال له أبو الفصيل: أتراهم يا رسول الله الساعة؟ قال: نعم قال: فأرنيهم قال: فمسح رسول الله صلى الله عليه وآله على عينيه ثم قال: انظر فنظر فرآهم فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: أرأيتهم؟ قال: نعم وأسر في نفسه أنه ساحر
بيان: أبو الفصيل: أبو بكر وكان يكنى به في زمانه أيضا لان الفصيل ولد الناقة والبكر: الفتى من الإبل والعوم: السباحة وسير السفينة.
11 - بحار الأنوار للمجلسي (1111 هـ) ج 19 ص 88 باب 6: الهجرة ومباديها ومبيت علي على فراش النبي
لنک
40 - الكافي: حميد بن زياد عن محمد بن أيوب عن علي بن أسباط عن الحكم بن مسكين عن يوسف بن صهيب عن أبي عبد الله ع قال: سمعت أبا جعفر ع يقول إن رسول الله صلى الله عليه وآله أقبل يقول لأبي بكر في الغار: أسكن فإن الله معنا وقد أخذته الرعدة وهو لا يسكن فلما رأى رسول الله صلى اله عليه وآله حاله قال له: تريد أن أريك أصحابي من الأنصار في مجالسهم يتحدثون وأريك جعفرا وأصحابه في البحر يغوصون؟ قال: نعم فمسح رسول الله صلى الله عليه وآله بيده على وجهه فنظر إلى الأنصار يتحدثون ونظر إلى جعفر رضي الله عنه وأصحابه في البحر يغوصون فأضمر تلك الساعة أنه ساحر
12 - تفسير الميزان للطباطبائي (1412 هـ) الجزء 9 صفحة 279
لنک
قوله تعالى: {إلا تنصروه فقد نصره الله إذ أخرجه الذين كفروا ثاني اثنين إذ هما في الغار} ثاني اثنين أي أحدهما، والغار الثقبة العظيمة في الجبل، والمراد به غار جبل ثور قرب منى وهو غير غار حراء الذي ربما كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يأوي إليه قبل البعثة للأخبار المستفيضة، والمراد بصاحبه هو أبو بكر للنقل القطعي.
13 - تفسير بيان السعادة في مقامات العبادة/ الجنابذي (14 هـ)
لنک
{إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ ?للَّهُ} تذكيرٌ لهم بنصرته له (ص) حين لم يكن له معاون حتّى يتحقّق عندهم نصرته بدونهم استمالةً لقلوبهم {إِذْ أَخْرَجَهُ ?لَّذِينَ كَفَرُواْ} حين شاوروا في أمره بالإجلاء والحبس والقتل في دار النّدوة كما سبق {ثَانِيَ ?ثْنَيْنِ} يعنى لم يكن معه إلا رجلٌ واحدٌ وهو أبو بكرٍ {إِذْ هُمَا فِي ?لْغَارِ} غار ثورٍ وهو جبل في يمنى مكّة على مسيرة ساعةٍ {إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ} والإتيان بالمضارع للإشارة إلى انّه كرّر هذا القول لعدم سكونه عن اضطرابه {إِنَّ ?للَّهَ مَعَنَا} ومن كان معه لا يغلب فلا تحزن من اطّلاع الأعداء وغلبتهم.