حضرت عائشہؓ لوگوں کو قتلِ عثمانؓ پرآمادہ کرتی تھیں۔ (العقد الفرید، انسان العيون، اسد الغابہ، لسان العرب، الامامہ والسیاسہ، اعلام النبلاء، الکامل فی التاريخ، ابوہریرہ)
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت عائشہؓ لوگوں کو قتلِ عثمانؓ پرآمادہ کرتی تھیں۔
(العقد الفرید، انسان العيون، اسد الغابہ، لسان العرب، الامامہ والسیاسہ، اعلام النبلاء، الکامل فی التاريخ، ابوہریرہ)
الجواب اہلسنّت
ان کتابوں کا ماخذ طبری کی وہی روایت ہے جس کا اوپر ہم ذکر کر چکے ہیں وہاں ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ چونکہ یہ اعتراض بڑے زور شور سے کیا جاتا ہے اور ان جھوٹے بناوٹی خطوط کی آڑ میں سیدہ کائنات حضرت عائشہؓ پر زبان دراز کرنے کے علاوہ آل سباء کا پر زور دفاع کیا جاتا ہے اس لئے مناسب خیال کیا گیا کہ اس افترا کی کچھ مزید وضاحت ارباب انصاف کی خدمت میں عرض کر دی جائے
علامہ ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں 35ھ کے احوال لکھتے ہوئے عبد اللہ ابن سباء کے بارے میں رقم فرماتے ہیں: عبد اللہ ابن سباء یہودی صنعاء کا باشندہ تھا اس کی ماں کالی تھی (اس لیے اس کو ابن سوداء بھی کہا جاتا ہے) حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں (منافقانہ) اسلام قبول کیا۔ یہ گورنری کا طالب ہوا مگر مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تو مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے مسلمانوں کے صوبوں میں تقریریں کرتا اور گھومتا رہا، حجاز ، بصرہ، کوفہ اور شام سے اس کی خطرناک سرگرمیوں کی وجہ سے اسے نکال دیا گیا تو یہ مصر میں جا کر آباد ہو گیا۔ اس نے اول اول عقیدہ رجعت پر گفتگو شروع کی کہ محمدﷺ عیسیؑ سے زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ دوبار دنیا میں لوٹ کر واپس آئیں ۔ جب اس کا یہ تیر کارگر ثابت ہوا تو اس نے ترقی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہر پیغمبر کا وصی ہوتا ہے اور حضرت علیؓ رسولﷺ کے وصی ہیں پھر کہا کہ حضور اکرمﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت علیؓ خاتم الاوصیاء ہیں۔ اس کے بعد کہنے لگا اس سے بڑا ظالم کون ہے جو رسول اللہﷺ کی وصیت جاری نہ کرے اور وصی رسول اللہ پر چڑھائی کر کے امت کا سربراہ بن جائے۔ اس کے بعد کہنے لگا عثمانؓ نے خلافت ناحق لی ہے رسول اللہ کے وصی (قابل خلافت) تو یہ ہیں اس کام کیلئے اٹھو تحریک چلاؤ اپنے حاکموں پر اعتراض کرنے سے آغاز کرو… لوگوں کو جب اپنا بنا لو تو انہیں انقلاب برپا کرنے کی دعوت دو چنانچہ اس نے اپنے ایجنٹ ہر شہر میں بھیج دیے اور شہروں کے فسادی لوگوں کے ساتھ خط و کتابت شروع کر دی اور خفیہ طور پر اپنے منصوبہ کو مضبوط بنانے لگے الخ ۔ (تاریخ ابن جریر طبری ص340، ص 341 ج 4)
اس سبائی تحریک کا مشن اسلامی قوت کو اپنی منافقانہ چالوں سے پاش پاش کرنا تھا چنانچہ حضرت عثمانؓ اور ان کے عمال کے خلاف جھوٹے الزامات اور جھوٹے خطوط کی بھرمار شروع ہوگئی اور طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ ایک شہر والوں کو دوسرے شہر کے عامل سے بدظن کرنے کے لئے طرح طرح کے الزام لگائے گئے مثلاً کوفہ والوں کو بصرہ کے حاکم اور بصره والوں کو شام کے حاکم اور شام والوں کو کوفہ کے حاکم کی برائیاں لکھ بھیجیں نیز مختلف اکابر صحابہ کرامؓ کی طرف خط منسوب کر کے امیر المومنین کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کی گئی جن حضرات کی طرف منسوب کرکے یہ خطوط لکھے گئے ان میں حضرت علیؓ کا اسم گرامی بھی ہے۔ حالانکہ حضرت علیؓ کو ان خطوط کے لکھے جانے کا بالکل کوئی علم نہ تھا چنانچہ مشہور مورخ نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ جب سبائی ذریت اور ان کے جھوٹے خطوط کے ذریعے ورغلائے ہوئے بلوائیوں نے مدینہ منورہ پر دھاوا بول دیا تو بلوائیوں نے کہا: اے علی آپ ہماری مدد کریں؟ حضرت علیؓ نے (مدد کرنے سے صاف) انکار کیا تو انہوں نے کہا: ” آپ نے ہمیں لکھا کیوں تھا (کہ عثمان کو شہید کر کے اقتدار چھین لو) حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے کبھی تم کو کچھ بھی نہیں لکھا۔
( تاریخ اسلام نجیب آبادی ص 394)
حضرت علیؓ کے سامنے بلوائیوں نے جن خطوط کا ذکر کیا کہ آپ ہماری مدد کیوں نہیں کر رہے حالانکہ خود آپ نے ہماری طرف خطوط لکھ کر ہمیں بلایا اور اس کام پر آمادہ کیا ہے وہ سبائیوں نے لکھے تھے جن کو حیدر کرارؓ کے پاکیزہ نام کی طرف منسوب کر دیا گیا تاریخ کا یہ اقتباس تقیہ کی چادر کو نذر آتش کر کے سبائی دجل کو طشت از بام کر رہا ہے کہ جیسے سبائی ذریت نے حیدر کرار ؒ کے نام سے جھوٹے اور فرضی خطوط لکھ کر نافہموں کو ورغلایا اسی طرح سیدہ طیبہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف منسوب کر کے بہت سارے خطوط لکھے اور عام لوگوں کو دھوکہ دیا جھوٹے خطوط سبائیوں نے خود لکھے۔ خود امیر المومنین سیدنا حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب کر کے آل سباء نے ایسے خطوط لکھے کہ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
چنانچه ابن سباء کے کارندوں نے بیت المال کی اونٹنی اور مہریں تک چرا کر ایک نیا کھیل کھیلا کہ امیر المومنین کی طرف منسوب کر کے ابن ابی سرح کے نام محمد بن ابی بکرؓ قتل کا خط لکھا اور غلام کو خط دیکر اونٹنی پر بٹھایا اور لشکر سے آگے پیچھے ایسے طریقہ سے مشکوک حالت میں گزارا کہ وہ مشکوک سمجھ کر پکڑ لیا جائے چنانچہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت یہ کرتب دکھا کر آدمی پکڑا اور اس سے خط لے لیا گیا پھر وہ لشکر واپس مد ینہ لوٹا اور اودھم مچا دیا جب تحقیق کی گئی تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا۔
دو باتیں مانو ! یا تو دو گواہ میرے خلاف پیش کرو (کہ یہ خط میں نے ہی لکھا ہے) یا (شرعی قانون عدل کے مطابق) میری قسم پر اعتبار کرو کہ خدا کی قسم جس کے بغیر کوئی معبود نہیں نہ میں نے یہ (خط لکھا، نہ لکھوایا، اور نہ مجھے اس کا کوئی علم ہے تم جانتے ہو کہ ایک خط دوسرے کی زبان اور نام سے لکھا جا سکتا ہے جعلی مہریں بنائی جاسکتی ہیں۔ (تاریخ ابن جریر طبری ج 4 ص 356۔)
♦️شرعیت کا قانون عدل یہ ہے کہ البینة على المدعی و الیمین علی من انکر. (مشکوۃ)
کہ مدعی کے ذمے گواہ پیش کرنا ہے اور (اس دعوی کا) انکار کرنے والے پر قسم ہے: یعنی جس نے دعوی کیا اس پر لازم ہے کہ شرعی نصاب و قانون کے مطابق گواہ لائے اور اگر مدعی گواه لانے سے عاجز آجائے تو پھر جو اس دعوی سے انکار کرتا ہے وہ قسم اٹھائے اس جھوٹے اور فرضی خط کی نسبت پر اختلاف ہو گیا، سبائیوں کا کہنا ہے کہ یہ حضرت عثمانؓ نے لکھا یا لکھوایا ہے اور حضرت عثمانؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے یہ خط نہیں لکھا نہ لکھوایا اور نہ ہی اس کے بارے میں مجھے کچھ علم ہے اب اس نسبت والے دعوی پر شہادت لانا ان کے ذمہ تھا جو یہ دعوی کر رہے تھے مگر وہ اس سے عاجز آگئے اس پر حضرت عثمانؓ نے قسم اٹھا کر اس خط سے براءت کا اعلان کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اور اس طرح کے کئی جھونے خطوط لکھ کر عوام میں پھیلا دیے گئے ہیں جبکہ یہ خط جن حضرات کی طرف منسوب کیے گئے ہیں انہیں اس کا کوئی علم ہی نہیں، طبری کی اس عقدہ کشائی سے اتنی بات مزید واضح ہوگئی کہ بہت سارے جھوٹے خطوط لکھے اور اسلامی خلافت کو تہہ و بالا کرنے کے منصوبے بنائے گئے تھے ان میں حضرت سیدہ عائشہؓ کی طرف سے لکھا جانے والا یہ خط بھی تھا جو طبری سے چلا اور دسیوں کتابوں میں پھیل گیا اہل تاریخ نے یہ واقعہ تقل کر کے سبائی ذریت کے ناپاک عزائم سے عقدہ کشائی کی ہے شیعہ لوگوں نے ایک نئی صورت میں ڈھال کر امت اسلامیہ کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔