Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت عائشہؓ نے حضرت عثمانؓ کو کافر اور یہودی کہہ کر واجب القتل قرار دیا۔ نعوذباللہ (تاریخ طبری)

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

حضرت عائشہؓ نے حضرت عثمانؓ کو کافر اور یہودی کہہ کر واجب القتل قرار دیا۔ نعوذباللہ

(تاریخ طبری) 

الجواب اہلسنّت 

حضرت شاہ عبدالعزيز محدث دہلوی ؒ نے تحفہ اثنا عشریہ باب مکائد شیعہ میں شیعہ لوگوں کے اہلسنّت کی کتابوں میں تصرفات پر خوب کلام فرمایا ہے شیعہ عام طور پر تاریخی کتابوں میں اپنے عقیدے لکھ کر اہل سنت کے کھاتے لگا دیتے ہیں اس لئے تاریخی روایات کی حقیقت معلوم کرنا از حد ضروری ہوتا ہے کہ یہ مواد کہاں سے آیا مقدمہ سیرت حلبی میں مصنف کتاب نے صاف لکھا ہے۔ کہ اہل سیرت (مؤرخین) ہر قسم کی صحیح سقیم، ضعیف، مرسل، منقطع، معضل وغیرہ روایات جمع کر دیتے ہیں اس میں درست روایات بھی ہوتی ہیں اور منقطع بھی۔

(مقدمہ سیرت الحلبی جلد 1 صفحہ 2 طبع ثالث مصر) 

2: ان حضرات کے ارشادات کی روشنی میں جب طبری کی مذکورہ روایت اور اس کی سند پر نظر پڑتی ہے تو مذکورہ روایت جھوٹ کا پلندہ نظر آتی ہے یہ وہی سبائی طبقہ ہے جو جھوٹی خبریں اور خط لکھ کر بلاد اسلامیہ میں پھیلا رہا تھا اور خلافت اسلامیہ کو برباد کر دینا اپنے اوپر لازم کر چکا تھا انہوں نے مختلف حضرات کی طرف خط لکھے جن کے نام یہ خط منسوب کیے جارہے تھے اور جن کی طرف سے یہ خبریں اڑائی جا رہی تھیں ان کے فرشتوں کو بھی اس صورت حال کا علم نہ تھا چنانچہ اسی طبری میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ جب شہادت حضرت عثمانؓ کی خبر ملی تو حضرت سیدہ عائشہؓ فرما رہی تھیں کہ اللہ کی قسم عثمانؓ مظلوم شہید کیے گئے ہیں ہم ان کے خون کا قصاص لیں گے

(طبری عکسی صفحہ )

3: طبقات ابن سعد میں مسروق تابعی کی طویل گفتگو منقول ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شہادت عثمانؓ کی خبر سن کر ام المومنین سیدہ عائشہؓ نے افسوس کیا۔ مسروق نے عرض کیا کہ لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کو آپ کے کہنے سے شہید کیا گیا ہے اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ بات میں نے بالکل نہیں کہی بلکہ اس ذات کی قسم جس پر مومن ایمان لائے اور جس ذات کے ساتھ کفار نے کفر کیا میں نے اس مجلس میں بیٹھنے تک (یعنی آج کے دن تک) کوئی مکتوب ہرگز نہیں لکھا۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 87 تحت ما قال رسول اللہ ﷺ)

 البدایہ لابن کثیر جلد 7 تحت حالات عثمانؓ طبع اول میں وضاحت سے لکھا ہوا ہے کہ خوارج نے اپنی طرف سے خطوط لکھ کر حضرات اکابر صحابہؓ و ام المومنین حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب کیے اور قتل عثمان پر برانگیختہ کرنے کے لئے اشتعال پھیلایا۔

4: اس میں شک نہیں کہ مذکورہ روایت اور اس طرح کی کافی روایات تاریخ و تفسیر کی کتابوں میں ملا جلا دی ہیں اور یہ کام بہت مہارت سے رافضی قوم نے سرانجام دیا مگر اہلسنّت مجلس کے دھڑوں پر گزارہ کرنے اور آواز آئی ہے کی صدا پر عقیدہ بنانے کی بجائے پہلے تحقیق کرنے کے عادی ہیں کہ وہ آواز آئی کہاں سے ہے اگر کربلا کے راوی کی طرح بس آواز آئی ہے پر گزر بسر ہوتا تو ممکن ہے کہ طبری کی جو آواز آئی ہے اس پر خاموش ہو کر ماتم ہی کرتے مگر اہلسنّت اول دیکھتے ہیں کہ طبری صاحب کو جو آواز آئی ہے کہ وہ کہی سبائی آواز تو نہیں سو تحقیق کے بعد وہ خدشہ درست نکلا اس لئے اہل سنت نے اس روایت کو دیوار پر دے مارا ہے۔