حضرت عثمانؓ نے قرآن جلانے کا حکم دے دیا۔ (بخاری)
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت عثمانؓ نے قرآن جلانے کا حکم دے دیا۔ (بخاری)
الجواب اہلسنّت
1: یہ بھی رافضی کرم فرماؤں کے اپنے مرض کا اظہار ہے ورنہ بخاری شریف کے مذکورہ عکسی صفحہ پر قرآن پاک جلانے کا حکم ہے اور نہ ہی جلایا گیا مگر کیا کیا جائے ان مریضان باطل کا جو یہود کی روش
یُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ
لفظوں کے مطلب کو بدل دیتے ہیں۔
کو داڑھوں کے ساتھ مضبوط تھام کر کھڑے ہیں۔ اور دھوکہ دینے کیلئے کبھی عبارت کا گھناؤنا مطلب تراش لاتے ہیں تو کبھی صاف صاف لفظوں کا معنی من گھڑت کرتے اور شور مچاتے ہیں کہ دیکھو فلاں گنده عقیده تو سنیوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ غور فرمائے اس پورے صفحہ میں قرآن پاک جلانے کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہو۔ اس ترجمہ کا ایک لفظ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔
2: جس طرح اہل علم ہر شے کی تعریف کرتے ہیں قرآن پاک کی بھی تعریف ہے جس میں جنس اور فصل کے ذریعے قرآن پاک کا تعارف پیش کیا جاتا ہے اگر کسی کتاب میں مثلاً قرآن پاک کی آیات وغیرہ بطور دلیل وغیرہ کے لکھی ہوئی ہوں تو اگرچہ لکھی ہوئی آیت قرآن کی سی ہے مگر اس کتاب کا نام قرآن نہیں رکھا جاتا جیسے دینی کتب میں بہت کم ایسی ہوتی ہیں جن میں قرآنی آیت لکھی ہوئی نہ ہو مگر ان تمام دینی کتابوں کو قرآن نہیں کہا جاتا باوجود اس کے کہ ان کتابوں میں قرآن کی آیت وغیرہ موجود ہے اس لئے کہ قرآن کی تعریف ان کتابوں پر صادق نہیں آتی لہذا باوجود قرآنی آیت کی موجودگی کے وہ قرآن نہیں کہلاتی۔ بعینہ اسی طرح کچھ ایسے صحیفے صحابہ کرامؓ نے لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیے ہوئے تھے جن میں تفسیری نکات، مختلف قرأتیں منسوخ شده آیات وغیرہ مختلف درج تھیں. ان صحیفوں میں اگرچہ قرآن کی آیات بھی تھیں جیسے دیگر دینی کتابوں میں درج ہوتی ہیں مگر ان پر قرآن کی تعریف صادق نہیں آتی تھی لہذا اُن کوقرآن قرار دینا جن پر قرآن کی تعریف صادق نہ آئے۔ صراحتاً جھوٹ ہے:
3: قرآن پاک جب نازل ہو رہا تھا اس وقت آپﷺ نے قرآن پاک کے علاوہ کسی دوسری چیز (حدیث وغیره) لکھنے سے وقتی طور پر اس لئے روک دیا تھا کہ کہیں قرآن پاک اور حدیث پاک آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں جس کی وجہ سے قرآن پاک میں اختلاف ہونے لگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حفاظت قرآن کی تمام تدبیریں اختیار کرنا از حد ضروری ہیں اگرچہ اس کی وجہ سے کچھ علمی نقصان بھی اٹھانا پڑے. اسی حفظ قرآن کے پیش نظر حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ دیگر اکابر صحابہ کرام نے ان تمام کتابچوں اور صحیفوں کو تلف کرنے کا حکم جاری فرمایا جن میں قرآن پاک کی آیات کے ساتھ قرأت شاذه آیات منسوخہ، تفسیری نکات اور فوائد وغیرہ لکھے ہوئے موجود تھے تا کہ اس سے اختلاف نہ پیدا ہو جائے اور غیر قرآن کو لوگ قرآن نہ جاننے لگ جائیں اسی واقعہ کو امام بخاری نے یہاں درج فرمایا ہے۔ اب ایسے صحیفے جن میں مختلف تفسیری نکات لکھے ہوئے تھے گویا ان کی حیثیت دینی کتابوں کی سی تھی مگر چونکہ صحابہ کرامؓ نے لکھا تھا اس لئے اندیشہ تھا کہ بعد میں لوگ ان صحابہ کے لکھے ہوئے صحیفوں کو بھی قرآن نہ جاننے لگ جائیں ان کو تلف کرنے کا حکم دیا۔
4: کتاب اللہ کی حفاظت اور اختلاف سے امت کو بچانے کا ایسا کارنامہ اللہ تعالی نے حضرت عثمانؓ سے صادر کروایا جو ان کی عظمت پر ہمیشہ کیلئے بطور نشان کے تابندہ رہے گا اکابرین امت نے اس عظیم الشان واقعہ پر انتہائی مسرت و خوشی کا اظہار فرمایا چنانچہ تفسیر برہان میں ہے۔
ولقد وقف الأمر العظيم و رفع الاختلاف و جمع الكلمة و اراح الأمة.
یعنی حضرت عثمانؓ کو الله تعالی نے اس عظیم خدمت کو سرانجام دینے ، اختلاف ختم کرنے اور امت کو ایک کلمہ پر جمع کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت عثمانؓ نے اہل اسلام کو (افتراق و انتشار کی مصیبت سے) راحت پہنچائی.
(تفسیر البرهان جزو اول صفحہ 339 طبع اول)
5: حضرت علیؓ کے زمانے میں بعض دشمنانِ دین نے یہ بات پھیلائی کہ حضرت عثمانؓ نے قرآن کے علاوہ صحیفوں کو جلا کر غلطی کی ہے، تو حضرت علیؓ نے فرمایا:
يقول یا ایها الناس لا تغلوا في عثمان و لا تقولوا له الأخيرا في المصاحف و احراق المصاحف فوالله ما فعل الذي فعل في المصاحف الاعن ملامنا جميعاً
یعنی (سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ سے سنا آپؓ فرماتے تھے) اے لوگو! عثمانؓ کے حق میں غلو نہ کرنا (یعنی ان پر الزام تراشیاں مت کرنا) اور ان کے بارے میں خیر و بھلائی کے علاوہ کوئی بات نہ کہنا مصاحف اور احراق مصاحف کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ ہم لوگوں کی جماعت کے مشورہ کے بغیر ہرگز نہیں کیا۔
(کتاب المصاحف لابی داؤد السجستانی ص 22 ،23،الاتقان ج 1 ص 129)
تھوڑا آگے چل کے حضرت علیؓ کا یہ قول بھی مذکورہ کتاب میں موجود ہے کہ اللہ حضرت عثمانؓ پر رحم فرمائے اگر میں بھی حضرت عثمانؓ کی جگہ حاکم ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو حضرت عثمانؓ نے کیا ہے۔
(کتاب المصاحف صفحہ 23)
اسی طرح کا حیدری ارشاد تفسیر البرہان جلد 1 صفحہ 245 پر بھی موجود ہے. ان گزارشات سے واضح ہوا کہ
1. حضرت عثمانؓ نے قرآن پاک جلانے کا حکم نہیں دیا تھا۔
2. مصاحف کا ترجمہ قرآن کرنا صرف رافضی بیمار دماغوں کی کارستانی ہے حقیقت نہیں۔
3. ان مصاحف میں تفسیری نکات وغیرہ بھی لکھے تھے جو بعد میں اختلاب کا باعث بن سکتے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے اس اختلاف کی بنیاد مٹا ڈالی۔
4. ان مصاحف کا تلف کرنا صحابہ کرامؓ کی رائے اور مشورہ اور ان کی رضاء کے بغیرنہیں ہوا۔
5. حضرت علیؓ بھی اس وقت کے حاکم ہوتے تو وہ بھی ان مصاحف کو تلف کر دیتے.
6. ان مصاحف کا تلف کرنا اتفاق امت کا سبب بنا۔
7. اس نشر قرآن میں اور متفقہ قرات ولہجہ مرتب کرنے میں اکابرین صحابہؓ پورے طور پر شریک تھے۔
8. اس متفقہ متواتر مشہور قراءت پر مشتمل کلام اللہ کے علاوہ جو قراءت شاذہ وغیرہ مختلف مصاحف میں لکھی ہوئی تھیں ان کے تلف کرنے پر تمام صحابہ کرامؓ راضی تھے اور اس عمل میں آل رسولﷺ پیش پیش تھے۔
9. ان مختلف مصاحف کے تلف کیے جانے پر ان لوگوں نے اختلاف کیا جو حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے مذہب سے دشمنی رکھتے اور اختلاف رکھتے تھے۔
10. اس واقعہ پر اختلاف کرنے والوں کی زبانیں بند کرنے کیلئے حیدر کرارؓ نے زور دار بیان فرمائے اور اختلاف کرنے والوں کو نصیحت فرمائی۔
♦️مگر افسوس صد افسوس کہ انتشار و اختلاف کے دلدادہ اور حیدر کرارؓ کا نام لے کر دھوکہ دینے والوں کو حیدری نصحیت کا کچھ اثر نہ ہوا حتی کہ پندرہویں صدی میں بھی وہی اعتراض تحقیقی دستاویز میں داغ دیا جس کو حیدر کرارؓ نے خود رفع فرما دیا تھا اور شیعہ لوگ اب تک وہی راگ الاپے جارہے ہیں جو سبائی ٹولے نے جاری کیے تھے ارباب انصاف خود ہی غور کر کے فیصلہ کر لیں کہ یہ حضرت حیدر کرارؓ کی نصیحت سے روگردانی کرنے والے ان کے دوست ہیں یا دشمن؟؟؟