ایران کی بنائی گئ اور ایران کے لئے کام کرنے والی شیعہ دہشت گرد تنظیمیں
مولانا محب اللہ قریشیایران کی بنائی گئ اور ایران کے لئے کام کرنے والی شیعہ دہشت گرد تنظیمیں
میرے محترم قارئین کرام!
ایران میں شیعہ انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی بیرونی ممالک خصوصًا اسلامی ممالک میں متعدّد شاخیں اور تنظیمیں قائم کی گئی جو ایرانی نظام کے ماتحت تھیں۔ ان کا مقصد مختلف ممالک میں شیعہ کے ذریعے ایرانی انقلاب کے لئے راہ ہموار کرنے، ان ملکوں میں ایرانی طرز پر شیعہ خمینی انقلاب لانے، اور ان ملکوں کی امن وامان کو خراب کرنے، اور وہاں پر فتنہ و فساد برپا کرنے کے ناپاک عزائم شامل تھیں۔ ان میں سے چند تنظیموں کے نام درج ذیل ہیں:
اسلامی ملکوں میں شیعہ دہشت گردوں کی بڑی بڑی پارٹیاں جن میں لبنان میں حزب اللہ، عراق میں اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل، پاکستان میں تحریک جعفریہ، افغانستان میں وحدت پارٹی، سوڈان میں Nifمصر میں الجہاد، اور الجزائر میں ISf شامل ہیں۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ39)
1: حزب الله لبناني
لبنانی شیعه تنظیم حزب اللہ لبنان میں 1982ء میں قائم ہوئی۔ اور 1985ء میں سیاست کے میدان کارزار میں باقاعدہ شامل ہوگئی۔ یہ تنظیم ایرانی کمک پر پلنے والی تنظیم حركة امل الشیعہ کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔
حزب الله: کا خطرناک کردار بالکل واضح ہو چکا ہے۔ کیونکہ گذشتہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ حزب الله ایک متعصّب شیعہ تنظیم ہے، جن کے سینوں میں سنی مسلمانوں کے خلاف حسد و نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
حزب الله دورِ حاضر میں سنی مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن جماعت کے روپ میں ابھری ہے، جو پوری دنیا میں سنیوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے۔ یہ جماعت ظاہرًا یہود و نصاریٰ کے خلاف علمِ جہاد بلند کرتی دکھائی دیتی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ عالمِ اسلام میں شیعہ مذہب کے فروغ اور خمینی ملعون کے شیعی انقلاب کو کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ حزب الله لبنان میں ایک ایرانی تنظیم ہے۔ اس کی دلیل خود اس کی تأسیسی دستاویز میں ان الفاظ میں موجود ہے کہ:
ہم حزب الله کے ارکان ہیں، جس کے ہر اوّل دستے کو اللہ تعالٰی نے کامیابی عطا کی اور دنیا میں اسلامی حکومت کی نشاۃِ ثانیہ ہوئی۔ ہم ایک مدبّر عادل حاکم کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں جو بذاتِ خود ولی، فقیہ اور امامت کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ موجودہ دور میں ہمارا لیڈر آیة الله روح اللہ الموسوی خمینی ہے۔ جن کے ذریعے سے مسلمانوں نے ایران میں اسلامی انقلاب برپا کیا اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ہوئی۔
حزب الله کے لیڈر ابراهيم الامين اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم ایران کا ایک جزو ہیں، بلکہ ہم تو لبنان میں ایران اور ایران میں لبنان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(حزب اللہ کون ہے،صفحہ 22:9)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: تمام شیعہ خمینی ملعون کے زیرِ اثر حزب الله کی نشونما ایران میں ہوئی۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ106)
2: حزب الله حجازی
1979ء میں ایران میں خمینی انقلاب کے قیام کے شروع ہونے اور اس کے غلبے کے فوراً بعد ایرانی حکمرانوں نے اپنے سعودی ایجنٹوں کو سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کا حکم دے دیا۔ ایرانی حکومت کی اس تحریض و تحریک پر 1400ہجری میں ضلع قطیف میں شیعہ آبادی نے بغاوت کر دی۔ اس بغاوت میں کچھ اس طرح کے نعرے لگائے گئے... ہم حسینی مذہب کے پیروکار ہیں، ہمارا قائد خمینی ہے، سعودی حکومت کو ختم کر کے دم لیں گے، شاہ فہد اور خالد کی حکومت کا تختہ الٹ کر رہیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
پھر جیسے ہی سعودی شیعہ قیادت اور ایرانی حکومت میں تعلقات مضبوط ہوئے اور خمینی انقلاب کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوئے تو سعودی شیعہ کو حسن الصفار کی قیادت میں ایک نئی تنظیم بنانے کا حکم دیا گیا۔ لہٰذا منظمه الثورة الاسلامية لتحرير الجزيرة العربيه کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دے دی گئی۔ جس کے لیڈر اور منتظم حسن الصفار تھے۔ اس تنظیم کا معنی ہے۔۔۔۔ جزیرۀ عرب کی آزادی کے لئے اسلامی انقلابی تنظیم۔ اور اس تنظیم کا ہیڈ آفس ایران میں تھا۔
اس تنظیم کے اغراض و مقاصد:
- ایران میں برپا ہونے والے خمینی انقلاب کی حمایت اور اسے عالمِ اسلام میں غالب کرنے کی کوششیں کرنا۔
- جزیرۂ عرب یعنی سعودی عرب کی سنّی اسلامی حکومت کو ختم کرنا اور ایرانی حکومت کے تابع خمینی حکومت قائم کرنا۔
حجازی حزب الله کا عسکری ونگ:
80 کی دہائی کے نصف ثانی میں تقریباً 1987ء میں جزیرہ عرب کی اسلامی تنظیم نے اپنا عسکری ونگ قائم کیا اور اسے حزب الله الحجازی کا متفقه نام دیا گیا۔ اور یہ عسکری ونگ سعودی عرب میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کیلئے بنایا گیا تھا، ایام حج میں فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کیلئے اس کو ایرانی گارڈ کے ساتھ وابسطہ کر دیا گیا۔
اس تنظیم کی تشکیل ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسر احمد شریفی کے زیرِ انتظام انقلابی طرز پر کی گئی۔ اس تنظیم میں بعض سعودی شیعہ طالب علموں کو بھرتی کیا گیا جو ایران کے شہر قم میں زیرِ تعلیم تھے۔
1407ء کے حج کے دنوں میں حزب الله الحجازی کے شیعہ کارکنوں نے ایرانی انقلابی گارڈ کے تعاون سے ایک بہت بڑا جلوس نکالا جس کا مقصد حجاج کرام کو قتل کرنا اور عوامی پراپرٹی کو نقصان پہنچانا اور مسجدِ حرام اور مقدس مقامات میں فتنہ و فساد بر پا کرنا تھا۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ51)
3: كويتي حزب الله
کویتی حزب الله 80 کی دہائی میں:حزب اللہ لبنانی کی تأسيس کے بعد قائم کی گئی۔
کویتی حزب الله کی اس برانچ کی بنیاد کویتی شیعہ کے ان طلباء نے رکھی جو ایرانی شہر قم کے حوزہ دینیہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
خلیجی ممالک میں حزب الله کے مؤسسين اور کارکنان کی بھرتی قم شہر ہی سے ہوتی ہے، جبکہ یہ لوگ وہاں کے حوزہ علمیہ میں شیعی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے اکثر کارکنان کے ایرانی گارڈ کے ساتھ گہرے روابط ہیں، کیونکہ انہوں نے تخریبی تربیت انہیں سے حاصل کی تھی۔
یہ تنظیم کویت میں فتنہ و فساد اور عوامی اضطراب و بےچینی پیدا کرتی، بم دھماکے، اغوا اور قتل و غارت کی خفیہ کاروائیاں کرتی تاکہ کویت میں اپنا تسلّط قائم کر کے ایران کی ہم مذہب حکومت قائم کر سکیں۔ اس جماعت نے کویت میں بہت سی تخریبی اور دہشت گردی کی وارداتیں کی ہیں۔ جن کو تاریخ نے محفوظ کر لیا ہے۔
کویتی حزب الله ایرانی شیعہ تحریک کا ایک اہم جزو شمار ہوتی ہے، جس کی قیادت آية الله العظمی خامنه ای کرتا ہے۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ60)
يمنى حزب الله :
یمن میں حزب الله کی علاقائی برانچ کا نام حزب الله رکھا گیا لیکن حزب الله لبنانی کے گھناؤنے جرائم قتل و غارت اور دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے یمن کے مسلمان معاشرے میں حزب الله کو پذیرائی نہ مل سکی جو کہ شیعہ اثنا عشریہ کے عقائد و افکار کی پیروکار تھی، لہٰذا اس برانچ کا نام تبدیل کرکے الشهاب المؤمن رکھا گیا، تاکہ یہ عوام میں مقبول ہو سکے۔ یہ تنظیم 90 کی دہائی میں قائم کی گئی۔
اس تنظیم میں شیعہ زیدی فرقے کے افراد بھی بھرتی کئے گئے جو کہ اپنے زیدی عقائد ترک کر کے اثنا عشریہ عقائد کو قبول کر چکے تھے یا وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے (تقیہ) دھوکہ دہی سے اس نئی تنظیم میں شامل ہو گئے تاکہ ایرانی شیعہ کے اثنا عشریہ عقائد کو یمن میں فروغ دیا جا سکے۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ67)
بحريني حزب الله
بحرین میں ہادی المدرسی کو الجبهة الاسلامية لتحرير البحرين کے نام سے تنظیم بنانے کی ہدایات دی گئیں۔ جس کا ہیڈ کواٹر تہران میں ہوگا۔ اس تنظیم نے ابتداء میں ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی وضاحت کی، جو درج ذیل ہیں :
- آل خلیفہ کی حکومت کا خاتمہ۔
- بحرین میں ایرانی خمینی انقلاب کے موافق شیعی نظامِ حکومت کا قیام۔
- بحرین کو خلیجی ممالک کے اتحاد سے نکال کر ایران کے ساتھ منسلک کرنا۔
یہ تنظیم ایران سے متعدّد میگزین شائع کرتی تھی۔ جیسے: الشعيب التأثر: اور الثورة الرسالة وغیرہ ہیں۔ 80 کی دہائی میں بحرین کی تحریکِ آزادی کے قائدین اور ایرانی انٹیلی جنس آفیسروں کا اجتماع ہوا جس میں تحریک آزادی کا عسکری ونگ قائم کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا۔ اس ونگ کا نام حزب الله البحرين رکھا گیا۔
اس جماعت کے قیام کی ابتداء ہی میں حجه الاسلامیہ کے جنرل سیکرٹری محمد علی محفوظ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ حزب الله کے بحرینی ونگ کو تین ہزار شیعی لشکری فراہم کرے گا، جن کی عسکری تربیت ایران اور لبنان میں ہوگی۔
اس تنظیم کا سربراہ عبد الامير الجمری کو بنایا گیا اور ان کے بعد علی سلیمان نے ان کی قیادت سنبھالی ہے۔ ہادی المدرسی تحریکِ آزادی بحرین کا قائد اس نئے ونگ کا مرشد اور امداد کننده سربراہ ہے۔ اسی طرح محمد نقی المدرسی نے اس نئے ونگ کو فکری اور اعتقادی راہنمائی دی۔
ان تمام مراحل کے بعد یہ نیا ونگ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا اور اس نے ملک میں فتنہ و فساد برپا کر دیا اور کچھ اہم علاقوں اور ان کے گرد و نواح میں اپنا غلبہ قائم کر لیا۔
اس تنظیم کا پہلا اور بنیادی مقصد موجودہ نظامِ حکومت کو ختم کر کے ایرانی شیعہ کے زیرِ اثر حکومتی نظام قائم کرنا تھا۔ اس بات کی تاکید و تصریح آية الله روحانی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ بحرین ایران کے تابع ہے اور بحرین اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس تنظیم کے اہم ترین کارنامے 1994ء میں ہونے والے فسادات، ہنگامہ آرائی اور غنڈہ گردی ہے۔ یہ بدترین ہٹلر بازی اور غنڈہ گردی مختلف تنظیمی ناموں سے کی گئی، مثلاً کبھی کاروائی منظمة الوطن السليب کی کاروائی قرار دیا گیا۔ حالانکہ حقیقت میں یہ ساری تنظیمیں اور ان کی کاروائیاں ایک ہی جماعت حزب الله البحرين کی کارستانیاں تھیں۔
بعد ازاں یہ تمام نام ایک ہی تنظیم میں مدغم ہو گئے اور نئی تنظیم جمعية الوفاق الوطني الاسلامیة کے نام سے قائم کر دی گئی۔ جس کی قیادت علی سلمان کو سونپی گئی۔ اس نئی تنظیم کو سیاسی اور صحافتی میدان میں خدمات کے لئے مختص کر دیا گیا جبکہ عسکری اور تنظیمی کاروائیاں عسکری ونگ حزب الله البحرین کے سپرد کر دی گئیں۔
(حزب اللہ کون ہے، صفحہ41)
دهشت گرد گروپ ملنگان حیدر کرار
ملنگان حیدر کرار شیعوں کا سب سے زیادہ خطر ناک گروہ ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر تبرّا کرتے ہیں اور بھیک کے بہانے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعنت کرتے ہیں۔ اس گروہ کے لوگ سیاہ کپڑوں میں ملبوس، پاؤں میں کڑے اور بالوں کی لمبی لمبی لٹیں لٹکائے رکھتے ہیں، یہ لوگ اُصولِ دین سے بالکل بے بہرہ ہیں بلکہ دینِ اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ ان کا کام صرف علی علی کے نعرے لگانا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امّہات المومنین رضی اللہ عنہن کو گالیاں دینا ہے، جو ان کے نزدیک یہی عبادت ہے۔ عام مسلمان ان کو کشتہ نفس اور تارک الدنیا سمجھتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک باوثوق ذریعہ سے پتہ چلا ہے کہ صوبہ سرحد کی شیعی آبادی پارہ چنار کے نواحی علاقہ زیڑان میں کچے مٹی اور گارے کے مکانوں کے درمیان پہاڑی پر پختہ عمارات کا ایک سلسلہ ہے جسے ایرانی حکمرانوں کے مشورے اور امداد سے تعمیر کروایا گیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ یہ اہلِ تشیع کا مدرسہ ہے لیکن درِ پردہ دراصل یہ ملنگوں کی پرورش گاہ ہے جہاں ان کو نشہ کے عادی بنا کر اور برین واش کر کے ملنگ بنایا جاتا ہے، اس جگہ اسلحہ اور بم بھی بنائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس تعلیم گاہ میں اگست 2011ء میں ایک بم بھی پهٹا تھا جس میں تین افراد ہلاک اور بہت زخمی ہو گئے تھے۔
ملک کے مختلف حصوں سے کم سن بچوں اور نوجوانوں کو اغوا کر کے یہاں لایا جاتا ہے، ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے، انہیں نشہ کا عادی بنایا جاتا ہے اور چند سالوں کی تربیت کے بعد ان کو مکمل ملنگ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر ان کو مختلف علاقوں میں شیعیت کے مقاصد کے فروغ کے لئے بھیجا جاتا ہے۔
ان ملنگانِ حیدر کرار سے حسب ذیل کام لئے جاتے ہیں
- بچوں اور نوجوانوں کو اغوا کر کے ملنگوں کی پرورش گاہوں میں پہنچانا-
- نشہ آور اشیاء یعنی بھنگ، چرس، ہیروئن وغیرہ کے استعمال کو معاشرے میں پھیلانا-
- تعویذ گنڈے کرنا اور سادہ لوح عورتوں کو ورغلانا۔
- مزاروں کو بے حیائی، زنا کاری، نشے اور جوئے کے اڈے بنانا۔
سرِ عام صحابہ کرام رضوان الله عليہم اجمعین اور امّہات المومنین رصی اللہ عنہن کو غلیظ گالیاں دینا اور ان کے خلاف نفرت پھیلانا۔
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ50)
دهشت گرد تنظیم ISO
پاکستان میں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کی قائم کردہ تنظیم، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (iso) سب سے زیادہ پُرجوش اور فعّال ہے۔ یہ تنظیم ایرانی انقلاب کے اغراض و مقاصد کو عام کرنے اور فروغ دینے کیلئے پاکستان میں ایرانی حکومت کے کارکنوں سے کہیں بہتر کام کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس نے نوجوان شیعوں کی لام بندی کیلئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس تنظیم کے فرائض میں حسب ذیل ذمہ داریاں شامل ہیں۔
- انقلابی کتابچوں اور رسالوں کی تقسیم۔
- حسّاس علاقوں میں جلوس نکالنا۔
- مختلف موقعوں جیسے ایرانی انقلاب کی برسی، یوم القدس، ایران اور شیعوں کے خلاف سازشوں پر امریکہ سعودی عرب اور سپاہ صحابہؓ پاکستان کے خلاف احتجاج اور نفرت کا اظہار، مظاہروں اور جلوسوں کا اہتمام و انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ۔
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ 76)
پاکستان میں ایرانی فنڈنگ سے چلنے والی ایک طلبہ تنظیم iso کے حوالے سے گارڈین اخبار کے تجزیہ نگار (alex vatanaka) کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ iso۔۔۔ ایک طلبہ تنظیم ہے اس تنظیم کی نظریاتی بنیادیں وہی ہیں جو خمینی ملعون نے مہیا کی ہے، اگر دیکھا جائے تو iso کا پاکستان میں وہی کردار ہے جو لبنان میں حزب اللہ اور انقلابی گارڈز کا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تنظیم پاکستان میں ایرانی انقلاب کو برپا کرنے کیلئے ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے۔
2009ء سے iso کی لیڈرشپ براہِ راست تہران میں موجود آیت اللہ خامنہ ای کے آفس سے منسلک ہے۔ (بحوالہ: نظام خلافتِ راشده دسمبر 2012، صفحہ 24)
ایرانی انقلاب کو پاکستان میں لانے کیلئے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا انتخاب:
میرے محترم قارئین کرام! مارچ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے فوراً بعد جب پاکستانی شیعوں کا وفد آیت الله خمینی ملعون کو مبارکباد دینے کی غرض سے تہران میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا تو خمینی ملعون نے ان کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان میں اپنے فرقے کے حقوق حاصل کرنے کیلئے خود کو منظّم کریں اور اس سلسلے میں اپنی جدّوجہد تیز کر دیں۔ خمینی ملعون نے اُن کو اپنی اور ایرانی حکومت کی طرف سے ہر طرح کی امداد اور پشت پناہی کا بھی یقین دلایا۔
چنانچہ آیت اللہ خمینی ملعون کی خواہش پر پاکستان واپس آکر اس وفد کے شیعہ لیڈروں نے خمینی ملعون کی ہدایت کے مطابق 12 اپریل 1979ء کو مفتی جعفر حسین کی زیرِ قیادت بھکر میں آل پاکستان شیعہ کنونشن منعقد کیا جہاں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حکومتِ پاکستان کو زور دار الفاظ میں اپنے مطالبات پیش کئے، شیعہ طالبِ علموں کیلئے الگ دینی نصاب اور ملک کے ہر شعبہ میں مساوی نمائندگی کا مطالبہ کیا اور مرنے مارنے کی باتیں کرنے لگے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے نصف درجن سے زیادہ مسلح تنظیمیں بنا دی۔ مثلاً : مختار فورس، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سپاه اولياء امل مليشيا، حسینی فورس، شیعه یوتھ فورس اور سپاه محمد وغیرہ وغیرہ۔
اس کاروائی کے بعد شیعہ اکابرین کا پاکستان میں مقیم ایرانی سفارت کاروں کے ساتھ اشتراک اور رابطوں کا عمل بھی تیز ہوگیا۔ ایران میں شائع شدہ شیعہ عقائد پر مبنی مواد سفارتِ ایران کے ذریعے پاکستان میں دھڑا دھڑ پہنچنے لگا اور پاکستان میں ان کے ایک درجن کے قریب مراکز فرہنگی اس مواد کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے لوگوں میں تقسیم کرنے لگے۔ امام باڑوں میں لاؤڈ اسپیکر پر شیعوں کا گستاخانہ اذان اور مسلمانوں کیلئے دوسری دلآزار اور شر انگیز باتوں کا بیان ہونے لگا محرم کے دوران پرامن سنی علماء کرام کی گرفتاریاں ہونے لگیں اور پولیس اور فوج کی زیرِ حفاظت سڑکوں پر ماتمی خنجر بردار تبرائی جلوسوں میں تیزی آگئی ملکی ذرائع ابلاغ ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی دس دن کیلئے اس اقلیتی فرقے کے حوالہ کیا جانے لگا اور سنی مسلمانوں کے رہائشی علاقوں کے عین درمیان میں واقع شیعہ گھروں میں مجالس ہونے لگیں۔ جہاں شیعہ ذاکر اپنے اسلام دشمن عقیدوں کا پر زور پرچار کرنے لگے۔ 1980ء میں زکوۃ اور عشر کا قانون نافذ کر دیا گیا لیکن شیعہ طبقہ زکوۃ دینا نہیں چاہتا تھا۔
چنانچہ انہوں نے پہلے اس فیصلہ پر احتجاج کیا اور پھر اسلام آباد کی انتظامیہ کے شیعه افسران کے خفیہ اشتراک سے پاکستان سیکرٹریٹ کا زبردست گھیراؤ کرلیا، تین دن کے بعد حکومت نے شیعوں کو زکوۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔
ایران کے ایک مشہور اخبار نے لکھا کہ ایران کی انقلابی تحریک سے متاثر ہو کر پاکستان کے شیعوں نے اپریل 1979ء میں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی اور ایک ہی سال میں اتنے فعّال ہو گئے کہ 1980ء میں اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایسا کارنامہ انجام دیا جس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ انہوں نے پاکستان کے مرکزی دفاتر کا گھیراؤ کیا جو تین دن جاری رہا اور پاکستان کی فوجی حکومت کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر دیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ شیعوں کی یہ کاروائی پاکستان بننے کے بعد ان کا یہ پہلا اہم کارنامہ تھا (یعنی اس طرح کی مزید اور بھی کاروائیوں کا ارادہ رکھتی)۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ91)
ایران کے ایک فارسی اخبار کیهان 13جون 1991ء کے مطابق کہ ایرانی انقلاب کے فورًا بعد پاکستانی شیعہ اکابر پنجاب کے شہر بھکر میں جمع ہوئے اور تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی، اس تحریک نے پاکستانی شیعوں کو اتنا فعّال بنایا کہ انہوں نے ایرانی انقلاب کے اصل مقاصد کے حصول کیلئے 1980ء میں پاکستان کی سیکرٹریٹ کا کامیابی سے گھیراؤ بھی کیا جو تین دن تک جاری رہا اور پاکستان کی فوجی حکومت کو ان کے مطالبات ماننے پر بھی مجبور کر دیا۔ علامہ عارف اللہ حسینی ملعون (بانی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ) کی تحریک جعفریہ کی سربراہی کا ذکر کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ وہ دیوانگی کی حد تک ایرانی انقلاب اور خمینی سے متاثر تھے، انہوں نے نجف میں خمینی کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا تھا اور وہ خمینی کو دنیائے اسلام کا امام اور ایرانی انقلاب کو مسلم ملکوں میں اسلامی تحریکوں کا محور تصور کرتے تھے۔ عارف حسینی ملعون نے ایرانی انقلاب کے مقاصد کو پاکستان میں روشناس کرانے اور ترقی دینے میں بڑا موثر کردار ادا کیا۔ اخبار کے مطابق تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ پاکستان میں ایک ایسی جفاکش، وفا شعار اور متحرک جماعت بن چکی ہے جو پاکستان میں ایران کیلئے بہت مؤثر کام کر رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان اور سپاہ صحابہؓ (جو سعودی خاندان کی پروردہ ہے) کی مخالفت کے باوجود یہ اپنی سیاست اور کارکردگی کو پاکستان کے دور دراز علاقوں تک لے گئی ہے۔ اب شمالی علاقہ جات کے سادہ لوح لوگ ایرانی انقلاب سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ ان کے ہر گھر اور مسجد میں خمینی کی تصاویر پہنچ چکی ہیں اور مقامی پولیس کی مزاحمت کے باوجود "سکردو" کی ایک مرکزی سڑک کا نام "شاہراہ خمینی" رکھا جا چکا ہے۔ تحریک جعفریہ کے سر براہ ساجد علی نقوی ملعون پاکستان میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ دینے اور ایرانی لیڈروں سے نئی ہدایات اور رہنمائی حاصل کرنے کیلئے وقتًا فوقتًا ایران جاتے رہتے ہیں۔ جہاں آیت اللہ خامنہ ای ملعون اور ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی ملعون اور (اس وقت ایران کا موجودہ صدر) ان سے ملنے کے لئے خصوصی وقت دیتے ہیں۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ 79 تا 83)
میرے محترم قارئین کرام! اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ایرانی انقلاب کی فکری پیداوار ہے جو پاکستانی شیعوں کے لئے ایک مضبوط عملی پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ یہ تحریک پاکستان میں ایرانی انقلاب کے اغراض و مقاصد کے حصول کیلئے ایسا کام کر رہی ہے جسے کرنا پاکستان میں ایرانی نمائندوں کے بس سے باہر تھا۔
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ 76)
پاکستان کی شیعہ جماعت "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ" جو ایرانی اخباروں کے مطابق ان کے انقلاب کے الہامی اثرات کے تحت قیام میں لائی گئی ہے، نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ پاکستان میں ایرانی طرز کا انقلاب لانے کیلئے اپنے کارکنوں کو ضروری دہشت گردی اور تخریب کاری کی تربیت دے رہی ہے۔ اور اس وقت ہر پاکستانی شیعہ، خمینی ملعون کو اپنا امام تصور کرتا ہے۔ ان کے گھروں میں خمینی ملعون کی تصویریں آویزاں ہیں اور یہ طبقہ ایران کے ہر حکم کو بجالانا اپنا جزو ایمان سمجھتا ہے۔
(ایران افکار و عزائم، صفحہ 83:67)
- پاکستان میں شیعه دهشت گرد تنظیم "امل ملیشیاء" کی بنیاد 1980ء میں ایران کے حکمرانوں نے تحریک فقہ جعفریہ کے سربراہ ساجد نقوی کو پاکستان میں "امل ملیشیا" نام کی ایک مسلح جماعت بنانے کا اشارہ دیا۔
تحریک جعفریہ نے اس تنظیم کا مرکزی دفتر اور تربیت گاہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات، جہاں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے، میں بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کام گلگت کے ایک متشدّد اور فعّال شیعہ لیڈر آغا ضیاءالدین رضوی، جو مرکزی انجمن امامیہ گلگت کے صدر تھے، کو سونپا گیا اُس نے پاکستان میں ایرانی سفارت کاروں جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں خصوصی طور پر دلچسپی رکھتے ہیں کے تعاون اور صلاح و مشورے سے نہایت تندہی کے ساتھ گلگت، بلتستان، سکردو اور ہنزہ کے علاقوں سے شیعہ نوجوانوں پر مشتمل کمانڈوز کا ایک خطرناک گروه "امل ملیشیا" ترتیب دیا۔ اور ان کو دہشت گردی اور تخریب کاری کی تربیت کے لئے امام علی یونیورسٹی تہران بھیجا۔ پتہ چلا ہے کہ یہ کمانڈوز پاکستان کے مختلف علاقوں میں شیعہ مخالف علماء اور دوسرے سنیوں کو قتل کرتے ہیں۔
اور ان کی فوری پناہ گاہیں قریب ترین شیعہ درس گاہیں ہوتی ہیں جو محض نام کی درسگاہیں ہیں۔ جہاں کوئی پولیس والا داخل نہیں ہو سکتا۔ اور حالات سرد پڑ جانے پر یہ کمانڈوز اپنے مستقل اڈوں پر عافیت کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل نے اطلاع دی ہے کہ ملک کے ممتاز علماء کو قتل کرنے کی سازش کے انکشاف کے بعد 35 دہشت گرد، جن کا تعلق شمالی علاقہ جات سے ہے، کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ دہشت گرد جدید اسلحہ سے لیس اور مکمل تربیت یافتہ تھے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان دہشت گردوں کی کل تعداد 90 ہے جن کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ116) شیعه دهشت گرد تنظیم "امل ملیشیاء" کے بارے میں علامہ حق نواز جهنگوی شهیدؒ فرماتے هیں که:
اب جو صورتحال ہے وہ یہ کہ اب شیعہ زیرِ زمیں تربیت حاصل کر رہے ہیں اور اس فوجی تربیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ خمینی انقلاب کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہیں، اور یہ ساری تربیت خمینی کے اشارہ پر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ شیعوں نے "*شیعہ امل ملیشیاء*" کے نام سے پاکستان میں ایک تنظیم بنالی ہے۔ جو کبھی کہیں اور بنی ہوئی تھی، اب اس کا دفتر یہاں کھل چکا ہے، جس کا باقاعدہ منشور ہے، جس کی فوٹو کاپی ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم عزاداری کے تحفظ کیلئے مسلح ہو کر آئیں گے، اور ہم پوری قوت سے مظاہرہ کریں گے۔
میرے محترم قارئین کرام ! ایک طرف انہوں نے فوجی تربیت حاصل کر لی اور دوسری طرف "شیعہ امل ملیشیاء" بنا کر یہاں پر وہی کرتوت کرنا چاہتے ہیں، جو انہوں نے فلسطینیوں کے مسلمانوں
کے ساتھ کئے ہیں۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ فسلطینیوں کو کتوں اور بلیوں کا گوشت کھانے پر مجبور کرنے والی "شیعہ امل ملیشیاء" ہیں۔ اسرائیل ضرور ظلم کر رہا ہے لیکن اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والی شیعہ امل ملیشیاء ہے، اور یہ اخبار کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ یہی حالات و واقعات ہیں جس کی وجہ سے ہمارا غفلت میں رہنا ہماری تباہی کا باعث بنے گا۔ ہمارے چند دوست کہتے ہیں کہ یہ ایک فرقہ ہے، جی جلوس نکال لیتے ہیں، ماتم کر لیتے ہیں تو کیا ہوا
ياد رکھو! یہ با قاعدہ ایک سیاسی فتنہ ہے اور بین الاقوامی فتنہ ہے، اور پوری تیاری میں ہے اور حکومت کی مشینری میں گھسے ہوئے ہیں اور یہاں بھی خمینی انقلاب لانا چاہتے ہیں، اور سنیت کو مکمل طور پر کریش کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان تمام چیزوں کی روک تھام کیلئے ہمیں مزید سپاہ صحابہؓ کو منظّم اور فعّال کرنا ہوگا اور پوری سنی قوم کو بیدار کرنا ہوگا، اور پوری سنی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہوگا۔
(میں نے سپاہ صحابہؓ کیوں بنائی، صفحہ 16)