تقیہ کتمان
ابو عبداللہتقیہ کتمان
جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا یا اپنے دین و مذہب کو چھپانا دنیا کے کسی مذہب میں کوئی اچھا کام نہیں سمجھا جاتا بلکہ بالعموم اس کو ایک معیوب فعل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بر خلاف روافض اس فعل کو نہ صرف دین کا حصہ بلکہ اساسِ دین کہتے ہیں اور اس فعل کو تقیہ یا کتمان کا نام دیتے ہیں ۔ ہم یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ روافض کا یہی عقیدہ ہے کہ جس کی وجہ سے بالخصوص حضرات اہلِ سُنّت ان کے مذہب کی گہرائیوں سے ناواقف ہیں اور اسی عقیدہ کی وجہ سے یہ ہر دفعہ حضرات اہلِ سُنّت کو دھوکہ دے کر بچ نکلتے ہیں اور ان کے عقائد اور مذہب پر پڑے تقیہ کے دبیر پردے پڑے رہ جاتے ہیں اسی عقیدہ کے مسئلہ میں کلینی ایک مستقل باب،باب کتمان کے نام سے لکھ کر ایک روایت تحریر کرتا ہے :
قال لى ابو عبد الله عليه السلام یا ابا عمیر
تسعة اعشار الدين فى التقيه ولا دين لمن لاتقية له
امام جعفر صادق نے فرمایا اے ابو عمیر دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔
(اصول کافی صفحہ 482)
کچھ ہی آگے مزید رقمطراز ہیں :
قال ابو عبدالله عليه السلام يا سليمان انكم
على دين من كتمه اعزه الله ومن اذاعه اذله الله
امام جعفر صادق نے فرمایا اے سلیمان تم ایسے دین پر ہو کہ جو اسے چھپائے گا اللہ اس کو عزت دے گا اور جو اسے ظاہر کرے گا اللہ اس کو ذلیل اور سوا کرے گا۔
(اصول کافی صفحہ 485)
اور اس روایت سے پہلے یہی کلینی اس عقیدہ میں شدت پیدا کرنے کیلئے آئمہ عظام پر بھی بہتان تراشنے سے نہیں چوکتا کہتا ہے :
قال ابو جعفر عليه السلام التقيه من دينی ودین ابائی ولايمان لمن لا تقيه له
امام باقر فرماتے ہیں تقیہ میرا اور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے جو تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان نہیں ہے۔ (اصول کافی صفحہ 484)
ابنِ بابو یہ قمی المعروف شیخ صدوق صاحب رقم طراز ہیں :
ان اكرمكم عند الله اتقاكم
اللہ کے نزدیک وہ شخص زیادہ اعزاز والا ہے جو زیادہ تقیہ کرتا ہے۔
(رساله اعتقاد یہ صدوق مترجم صفحہ202)
یہی مزید وضاحت کرتے ہوئے آگے رقمطراز ہیں :
والتقية واجبة لا يجوز رفعها الىٰ ان يخرج
القائم فمن تركها قبل خروجه فقد خرج من دين الله
تعالىٰ ومن دين الامامية و خالف الله ورسوله والائمة
تقیہ واجب ہے اور اس کا ترک کرنا جائز نہیں اس قت تک کہ امام مہدی کا ظہور نہ ہو بس جس کسی نے تقیہ کو امام کے ظہور سے پہلے چھوڑا تو وہ اللہ کے دین اور دین امامیہ سے نکل جائے گا اور وہ اللہ، اللہ کے رسول اور آئمہ کا مخالف ہوگا۔
(رسالہ اعتقادیہ صدوق مترجم صفحہ 472)
خمینی اس سلسلے میں مسائلِ نماز بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
ثانيها التكفير وهو وضع احدى اليدين على الاخرى نحو ما يصغه غيرنا ولا باس حال التقيه
دوسرا عمل جو نماز کو باطل کردیتا ہے ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھنا ہے جیسے دوسرے کرتے ہیں ہاں تقیہ کے طور پر جائز ہے۔
(تحریر الوسیله جلد1 صفحہ 186)
مزید آگے رقمطراز ہیں:
تاسعها تعمد قو امين بعد اتمام الفاتحة الامع التقيه فلا باس به
اور نویں چیز جس سے نماز باطل ہو جاتی ہے بالقصد فاتحہ کے بعد آمین کہنا ہے البتہ تقیہ کے طور پر جائز ہے۔
(تحریر الوسیله جلد1صفحہ190)
آخر میں باقر مجلسی کی حق الیقین کا ایک اقتباس نقل کرتا ہوں کیونکہ یہ خاصا طویل اقتباس ہے اور اس کا ترجمہ بھی مشہور شیعہ عالم سید بشارت حسین نے کیا ہے اس لئے اردو ترجمہ سے ان کے اقتباس کو نقل کرنے کے بعد جہاں اس موضوع پر میں اپنے بیان کو مکمل کروں گا وہاں آپ حضرات کو اس بات سے بھی بخوبی آگاہی حاصل ہوگی کہ اہلِ ایمان کے درمیان اپنی زیست کی چند گھڑیوں کو آسان بنانے کے لئے کفر کیا، کیا شعبدہ باز عقیدوں کو جنم دیتا ہے اور اس سے اس کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
مخالفین میں سب سوائے مستضعفین کے آخرت کے احکام میں کفار کا حکم رکھتے ہیں اور جہنم سے خارج نہ ہوں گے اور دنیا میں بھی کفار کا حکم رکھتے ہیں لیکن چونکہ خدا جانتا تھا کہ حکومت باطل حکومت حق پر قائم آلِ محمد سے پہلے غالب ہوگی اور شیعوں کو معاشرت و معاملات میں مخالفوں کے ساتھ رہنا ہوگا اس باطل حکومت میں اکثر احکام اسلام کو ان پر جاری کیا تا کہ ان کی جان و مال محفوظ رہے اور انکی طہارت کا حکم کریں اور ان کا ذبیحہ حلال سمجھیں اور لڑکیاں ان سے لیں اور ان کو میراث دیں اور ان سے حاصل کریں اور تمام احکام اسلام ان پر جاری کریں تا کہ شیعوں کی زندگی ان کی حکومت میں دشوار نہ ہو اور جب حضرت صاحب الامر ظاہر ہوں گے تو وہ حضرت بت پرستوں کا حکم ان پر جاری کریں گے اور وہ تمام احکام میں مثلِ کفار ہوں گے۔
( ترجمه حق الیقین جلد2 صفحہ216)