اہلِ سنت نامرد کو بہا در پر ترجیح دیتے ہیں نامرد سے مراد ابوبکر صدیقؓ لیتے ہیں، اور یہ بہادر سے مراد علیؓ استدلال میں یہ آیت پیش کرتے ہیں: لا تحزن ان الله معنا(سورۃ التوبة 40) غم نہ کر، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے
علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتیؒاہلِ سنت نامرد کو بہا در پر ترجیح دیتے ہیں نامرد سے مراد ابوبکر صدیقؓ لیتے ہیں، اور یہ بہادر سے مراد علیؓ استدلال میں یہ آیت پیش کرتے ہیں:
لا تحزن ان الله معنا(سورۃ التوبة 40)
غم نہ کر، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے
جواب:
سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرف نامردی کی نسبت کرنا باطل ہے، آیت بالا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے بارے میں اسی طرح ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے حق میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا۔
لَا تَخَفۡ اِنِّىۡ لَا يَخَافُ لَدَىَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ
ترجمہ:ڈرو نہیں، جن کو پیغمبر بنایا جاتا ہے ان کو میرے حضور کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
(سورۃ النمل آیت 10)
نیز ارشاد ہے:
فَاَوۡجَسَ فِىۡ نَفۡسِهٖ خِيۡفَةً مُّوۡسٰى قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰى
ترجمہ: اس پر موسیٰ کو اپنے دل میں کچھ خوف محسوس ہوا۔ہم نے کہا: ڈرو نہیں، یقین رکھو تم ہی تم سربلند رہو گے۔
(سورۃ طہٰ آیت 68،67)
اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے حق میں وارد ہے:
فَاَوۡجَسَ مِنۡهُمۡ خِيۡفَةً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَبَشَّرُوۡهُ بِغُلٰمٍ عَلِيۡمٍ
ترجمہ:اس سے ابراہیم نے ان کی طرف سے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا۔ انہوں نے کہا : ڈرییے نہیں، اور انہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دی جو بڑا عالم ہوگا۔
(سورۃ الذاريات آیت 28)
داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
فَفَزِعَ مِنۡهُمۡ قَالُوۡا لَا تَخَفۡۚ خَصۡمٰنِ بَغٰى بَعۡضُنَا عَلٰى بَعۡضٍ
ترجمہ: جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو داؤد ان سے گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا ڈریے نہیں، ہم ایک جھگڑے کے دو فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
(سورۃ ص،آیت 22)
نیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں ارشاد ہے:
فَخَرَجَ مِنۡهَا خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُ
ترجمہ:چنانچہ موسیٰ ڈرتے ڈرتے، حالات کا جائزہ لیتے شہر سے نکل کھڑے ہوئے۔
(سورۃ القصص،آیت 21)
آیاتِ مذکورہ بالا میں خوف و فزع کی نسبت انبیاءعلیہم السلام کی طرف کی گئی ہے
کبھی ایسا ہو جانا بشری مقتضیات سے ہے، بزدلی کی دلیل نہیں کہ اللہ کے رسول رذیل صفات سے منزہ اور پاک ہوتے ہیں۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا حزن تو رسول اللہﷺ کی جان کے لئے تھا نہ کہ اپنی زندگی کیلیئے۔
دیکھئیے سیدنا ابوبکر صدیقؓ (سیدنا زینؒ نے اس واقعے کو تخریج کیا ہے دیکھئیے مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 556 مناقب ابی بکرؓ) رسول اللہﷺ کو خود غار میں جانے سے روکتے ہیں ، اور خود اندر جا کر صفائی کرتے ہیں سوراخ بند کرتے ہیں جو سوراخ بچ جاتے ہیں، ان میں اپنے پاؤں کی انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور پھر سرورِ کائناتﷺ غار میں تشریف لاتے ہیں، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی انگلی کو سانپ ڈس جاتا ہے، آخری وقت میں اسی کے زہر سے جامِ شہادت نوش فرماتے ہیں
بخاریؒ ومسلمؒ نے براء بن عازب سے بروایت صدیقؓ روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا۔
قال بكيت قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم لم تبكی قلت
میں رو پڑا رسول اللہﷺ نےفرمایا روتے کیوں ہو؟
اما و الله ما على نفسى ابکی ولکنی ابكی عليك الحديث -
میں نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے لئے نہیں رو رہا،
آپﷺ کے لیے رونا آ گیا۔
*شجاعت سیدنا ابوبکر صدیقؓ*
سیدنا علیؓ اپنے قاتل کو پہچانتے تھے کیونکہ انہوں نے اس بارے میں رسول اللہﷺ سے سن رکھا تھا لہٰذا لڑائیوں میں جرأت و بہادری کا مظاہرہ بے دریغ ہونا چاہیئے کہ انہیں اپنی جان کا کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ احتمال ہی نہ تھا کہ وہ معلوم قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کے ہاتھ قتل ہو سکتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ باوجودیکہ انہیں اس قسم کا علم نہ تھا پھر بھی جنگوں میں جرأت کا مظاہرہ فرماتے تھے رسول اللہﷺ کی وفات کے فورا بعد مرتد قبائل کے ساتھ لڑائی کا ارادہ تنہاء سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کیا تھا۔
محمد بن عقیل بن ابی طالب(مسند بزار صفحہ327) ) سے مروی ہے کہ ایک دن سیدنا علیؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا، اور کہا
اے لوگوں سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ میں نے کہا امیرالمؤمنین آپ ہیں، سیدنا علیؓ نے کہا:
الشجع الناس ابوبکرؓ
سب لوگوں میں بہادر سیدنا ابوبکرؓ ہیں۔
اس لئے کہ بدر کے دن ہم نے رسول اللہﷺ کے لیے
ایک عریش بنادی تھی، ہم نے کہا کوئی ہے، جو عریش کے قریب کھڑا ہو اور کسی دشمن کو ادھر نہ آنے دے
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے سواء کوئی بھی اس جگہ کھڑا نہ ہوا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تلوار ننگی کی اور آپﷺ کے سرہانے کی طرف کھڑا ہوگیا، جب بھی کوئی دشمن ادھر کارخ کرتا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ اس پر حملہ کردیتے۔