Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قتل حسین رضی اللہ عنہ کی بابت یزید کا موقف

  حامد محمد خلیفہ عمان

ایسی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی، جو یہ بتلائے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ میں یزید کا حکم یا مرضی شامل تھی۔ بلکہ یزید نے جناب امام زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ سے جو کہا، وہ اس کے موقف کو واضح کرتا ہے۔ چنانچہ یزید نے علی بن حسین رحمۃ اللہ اور آل حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بے پناہ حسن سلوک کیا اور یہ کہا:

’’اللہ کی قسم! اگر میں حسین کا ساتھی ہوتا اور زندگی کا ایک حصہ خرچ کر کے بھی ان کا دفاع کر پاتا، تو میں ایسا ضرور کرتا۔‘‘ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 282 شیبانی کہتے ہیں: اس روایت کی اسناد کے رجال ثقہ ہیں، البتہ شعبی اور مدائنی سے انقطاع ہے)

پھر یزید نے ابن مرجانہ فارسیہ پر رد بھی کیا اور اسے قیدیوں کو شام بھیج دینے کا حکم دے بھیجا۔ جبکہ ابو خالد ذکوان کو پہلے بھیج دیا اور حکم دیا کہ انہیں سفر کی تیاری کے لیے دس ہزار درہم دئیے جائیں۔ (طبقات ابن سعد: جلد، 5 صفحہ 393 مواقف المعارضۃ: صفحہ 282)

گزشتہ میں یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ امیر کوفہ نے آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے ایک الگ جگہ کا حکم دیا اور انہیں نفقہ اور خلعتوں سے نوازا۔

اس باب میں مروی اصح روایات یہ امر واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ یزید کو قتل حسین رضی اللہ عنہ پر ذرا بھی خوشی نہ ہوئی تھی بلکہ یزید بے حد غم زدہ اور غمگین ہو گیا تھا، کیونکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل یزید کے والد ماجد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی وصیت کے خلاف تھا، جنہوں نے خاص طور پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیت اور ان کے حق کے اکرام کی، بے حد تاکید کی تھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے سامنے جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو خوب واضح فرمایا تھا اور بتلایا تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بے پناہ محبت و تعظیم ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حکومت کا منہج جناب حسین رضی اللہ عنہ جیسے موقف رکھنے والے شخص کے ساتھ ویسا معاملہ کرنا نہ تھا، جو شیعان کوفہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ روا رکھا تھا، جس کا نمایاں عنصر غدر و خیانت تھا۔ بلکہ اس دور میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی سیاست، جس کو ان سے ان کے بیٹے یزید نے سیکھا، یہ تھی کہ کریمانہ اخلاق کے ساتھ امت مسلمہ کے زعماء اور سربرآوردہ افراد کو اپنی طرف مائل کیا جائے اور ان کا بے پناہ اکرام کر کے ان کی رضا اور اخلاص کو حاصل کیا جائے۔

چنانچہ یزید کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر، عظیم المرتبت اور رفیع الشان صحابی رسول اور سبط رسول کو قتل کر کے اسے کن بدنامیوں اور رسوائیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا پڑے گا، جبکہ آخرت کی ذلتیں اور رسوائیاں اس کے علاوہ ہیں اور اس سب پہ مستزاد یہ کہ خود یزید کی صفوں میں وہ انتشار اور خلفشار پیدا ہو جائے گا، جس کا تدارک اس کے لیے از حد کٹھن ثابت ہو گا۔ اس لیے ہم جزم کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یزید کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے المیہ پر بے حد حزن و ملال ہوا، گو دونوں میں قرابت و رحم کا رشتہ نہ تھا۔ کیونکہ یہ امر خود اس کے والد ماجد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی جناب حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے بارے میں وصیت کے خلاف تھا اور یہی بات زیادہ صحیح اور واقعہ کے زیادہ قریب ہے۔

یزید کے حزن و ملال کا سبب یہ تھا کہ وہ جانتا تھا کہ خون حسین امت کے کسی بھی دوسرے شخص کے خون کی طرح نہیں خواہ اس کا مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اور یزید اس بات کو بھی بخوبی جانتا تھا کہ جن لوگوں نے غداری کا مرتکب ہو کر خون حسین رضی اللہ عنہ سے اپنے ہاتھ رنگے تھے، ان کا مقصد امت مسلمہ میں ایک دائمی فتنہ کی آگ بھڑکانا تھا تاکہ روئے زمین پر دوبارہ اسی جاہلیت کو دندنانے کا موقعہ فراہم کریں، جس سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ نے زمین کو پاک کر دیا تھا۔

ان کوفیوں نے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور فتنوں کو ہوا دینے اور جد حسین کے لائے ہوئے دین و عقیدہ سے جنگ کرنے کے لیے دم حسین کو استعمال کیا، جس سے امت سنت و الجماعت میں شک و ارتیاب، بے یقینی اور صحیح عقیدہ سے دُوری پیدا ہو گئی، جب کہ دوسری طرف ان حضرات نے امت سنت و الجماعت کے بیشتر بلاد و امصار پر قبضہ کر کے وہاں کتاب و سنت سے محاربہ کا میدان کارزار سجا لیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان جملہ احوال میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے والوں کا، یا جنہیں ان حضرات سے محبت کا دعویٰ ہے، ان کا حال شہودِ غیب کا ہے، جو اپنے بلاد و امصار اور عقیدہ و مذہب پر نازل ہونے والے مصائب کو ترچھی نگاہ سے دیکھتے تو ہیں، لیکن نہ تو ان میں کوئی جنبش پیدا ہوتی ہے، نہ یہ کسی دوسرے کو انگیخت کرتے ہیں اور نہ قلم و تلوار ہی کو حرکت دیتے ہیں ، جیسا کہ ان کے اکابر اسلاف اور سلف صالحین تھے، جو منکرات کو مٹانے کے لیے سربکف ہو کر میدان جہاد میں اتر آیا کرتے تھے۔ بلاشبہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت طاہرین رضی اللہ عنہم کے لیے یہ امر بھی کسی مصیبت عظمیٰ سے کم نہیں۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کی تھی جس کا کوفیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، چنانچہ ان کوفیوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے گہرے تعلق کا جھوٹا اظہار کیا، ان کے آگے اپنی جھوٹی اور باطل بیعت کا جال بن کر بچھایا، اپنے سچے جھوٹے خطوط میں احیائے سنت کے مزعومہ جذبات کو ملمع کر کے بیان کیا اور یہ سب کچھ یزید اور اس کے عاملوں پر نکتہ چینی اور حرف گیری کی آڑ میں کیا اور جناب حسین رضی اللہ عنہ کو اس بات پر ابھارا کہ وہ ان مزعومہ بگڑتے حالات کو سدھارنے میں آپ کا دست و بازو بنیں گے، اس لیے آپ کوفہ چلے آئیے۔

گزشتہ میں یہ بات بھی مفصل بیان کی جا چکی ہے کہ حضرات آل بیت رسولﷺ اور مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی جناب حسین رضی اللہ عنہ کے اس خروج کے موافق نہ تھا، ان سب حضرات نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ پر اعتبار کرنے سے منع کیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب حضرات کو کوفیوں پر اس قدر خوف اور اندیشہ ہونے کے باوجود شام میں موجود یزید پر ادنیٰ سا کھٹکا یا خرخشہ بھی نہ تھا، حالانکہ یزید کو کوفہ اور مدینہ کے جملہ احوال کی پل پل کی خبریں بھی پہنچ رہی تھیں۔

اس موقعہ پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جناب حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کو کسی فرد واحد نے بھی یزید کی بیعت کرنے پر مجبور نہ کیا تھا اور جب تک ان کوفی رافضیوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو فتنہ کی آگ میں ڈال نہ دیا تھا، کسی نے بھی جناب حسین رضی اللہ عنہ کو میلی نگاہ سے دیکھا تک نہ تھا۔ اس مرحلہ میں جناب حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایسی کوئی ظاہر و باہر وجہ جواز بھی نہ تھی، جو یہ بتلاتی کہ امت کی مصلحت خروج حسین رضی اللہ عنہ میں ہے۔ اگر جناب حسین رضی اللہ عنہ ان دغا باز،خائن اور مکار و عیار رافضی کوفیوں کے کہنے پر خروج نہ فرماتے، تو ان بدبختوں کو جناب حسین رضی اللہ عنہ سے غداری کر کے انہیں شہید کرنے کا موقعہ ہی ہاتھ میں نہ آتا اور نہ امت مسلمہ کو یہ اندوہناک، جگر پاش اور دل خراش حادثۂ فاجعہ دیکھنے کو ملتا۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو رب کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور اللہ کی تقدیر نافذ ہو کر رہتی ہے۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل فگار واقعہ امت مسلمہ کے لیے بے پناہ غم و اندوہ کا باعث ہے اور اس دل سوز واقعہ نے امت سنت و الجماعت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا المیہ حضرات خلفائے راشدین جناب فاروق اعظم، جناب عثمان غنی اور جناب علی بن ابی طالب(رضی اللہ عنہم اجمعین) کی شہادتوں کے المیوں سے ہرگز بھی بڑا نہیں۔ لیکن اگر بنظر انصاف دیکھا جائے، تو ’’حقیقی مصیبت‘‘ امت سنت و الجماعت کی ان اسباب و وسائل اور ادوار و مراحل سے کمال غفلت ہے، جن کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول کے پاکیزہ خونوں سے کھلواڑ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور قتل و غارت کے اس ہوش ربا واقعہ کو رہتی دنیا تک کتاب و سنت اور اہل اسلام پر طعن کا ایک قوی ذریعہ بنا لیا گیا اور یہ خطرناک کھیل کھیلنے والے رافضی کوفی اس واقعہ کو آڑ بنا کر آج تک امت مسلمہ کے عقیدہ کی بیخ کنی کرنے، اس کے اتفاق و اتحاد کو پراگندہ کرنے اور توحید و رسالت پر اس کے یقین و اذعان کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ 

’’بے شک قتل حسین رضی اللہ عنہ کے المیہ کا حقیقی الم ناک پہلو یہی ہے۔‘‘

یہ بات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ’’ہماری تعزیت‘‘ یہ احرار اور ان سے قبل حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے۔

منصور بن صفیہ اپنی والدہ سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوئے، جبکہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی لاش سولی پر لٹکی تھی۔ لوگوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ ’’(حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ ماجدہ) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا وہ رہیں۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و تذکیر کی اور فرمایا: ’’یہ لاش کچھ بھی نہیں، اصل تو روحیں ہیں، جو اللہ کے حضور موجود ہیں، پس آپ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔‘‘ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’بھلا مجھے صبر کرنے سے کون سی بات روک سکتی ہے، جبکہ حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کا سر قلم کر کے بنی اسرائیل کی ایک رنڈی کی طرف بھیجا گیا تھا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ: 37328)

غدار اور دغا باز و جفاکار یہود بنی اسرائیل کے ہاتھوں رب تعالیٰ کے متعدد پیغمبر شہید ہوئے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح حضرت زکریا علیہ السلام بھی قتل کیے گئے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ قَدْ جَآئَ کُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْہُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo 

(سورۃ آل عمران: آیت 183)

’’کہہ دے بے شک مجھ سے پہلے کئی رسول تمھارے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ چیز لے کر بھی جو تم نے کہی ہے، پھر تم نے انھیں کیوں قتل کیا، اگر تم سچے تھے۔‘‘

اور فرمایا:

سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo

 (سورۃ آل عمران: آیت 181)

’’ہم ضرور لکھیں گے، جو انہوں نے کہا اور ان کا نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرنا بھی اور ہم کہیں گے جلنے کا عذاب چکھو۔‘‘

محبان حسین رضی اللہ عنہ کی قتل حسین رضی اللہ عنہ کے حادثۂ فاجعہ پر خود اپنی غم گساری اور تعزیت کے لیے یہی امر بس ہے کہ رب تعالیٰ نے قاتلان حسین رضی اللہ عنہ سے بدترین انتقام لیا۔ یہ اہل کوفہ اور ان کے ہم نوا تھے، جو کتاب و سنت سے سب سے زیادہ دور، کتاب و سنت کی صحت پر سب سے زیادہ شک کرنے والے اور سلف صالحین سے جن میں سرفہرست حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، ان سے سب سے زیادہ بغض، نفرت اور کینہ رکھنے والے ہیں، ان کا حسینی عقائد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، نہ انہیں امت حسین رضی اللہ عنہ سے ہی کوئی سروکار ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بجائے صلحاء کے مشاہد و مزارات پر جانے کے ابو لؤلؤہ فیروز دیلمی (قاتل حضرت عمر رضی اللہ عنہ )کی قبر کی طرف بھاگتے ہیں۔ 

’’تو کجا من کجا‘‘

کوفی رافضی قاتلان حسین رضی اللہ عنہ سے رب تعالیٰ کی قدرت و مشیت نے کس طرح انتقام لیا؟ ذیل میں اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے:

٭ عبیداللہ بن مرجانہ فارسیہ جو اعدائے صحابہ کا مہرہ، ان کی سواری اور ان کا اسلحہ تھا، جس نے ان نامرادوں کی باتیں سنیں، ان کا مشورہ مانا اور ان کی نامسعود مراد کو پورا کرنے کے لیے سبط رسول کو قتل کیا، وہ بھی ویسے ہی حالات میں گھر کر قتل ہوا، جن حالات میں گھیر کر اس نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا تھا۔ چنانچہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

’’رب کا فیصلہ جاری ہوا۔ چنانچہ عبیداللہ بن زیاد 67 ہجری عاشوراء کے دن قتل کیا گیا۔ اسے ابراہیم بن اشتر نے جنگ میں قتل کیا۔ اس کا سرقلم کر کے مختار بن ابی عبید کے پاس بھیج دیا۔ اس نے ابن مرجانہ کا سر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے وہ سر علی بن حسین امام زین العابدین رحمۃ اللہ کے پاس بھیج دیا۔‘‘ (الاستیعاب لابن عبدالبر: جلد، 1 صفحہ 118)

جان لیجیے کہ کسی معتبر روایت سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ یزید نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے کا حکم دیا ہو، اس باب میں مروی جملہ روایات کوفیوں کی ساختہ پرداختہ اور ان کی افترا پردازیوں کا شاخسانہ ہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کے بغیر ایک زمانہ گزار دیا، مگر کسی نے بھی آپ سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا۔ البتہ جناب حسین رضی اللہ عنہ سے جب یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا گیا، تو آپ ہجرت کر کے مکہ چلے آئے تھے اور اگر آپ کوفیوں کے مکر پر متنبہ ہو جاتے تو شاید تاریخ اسلام میں ایسا درد ناک واقعہ پیش ہی نہ آتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

’’اہل نقل و روایت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یزید نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم نہ دیا تھا۔ البتہ ابن زیاد کو یہ لکھ بھیجا تھا کہ وہ انہیں ولایت عراق سے روک دے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا یہ گمان تھا کہ اہل عراق ان کی نصرت کریں گے اور جیسا کہ انہوں نے اپنے خطوط میں لکھا تھا، اس پر قائم رہ کر آپ کے ساتھ وفا کریں گے۔ پس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد مسلم بن عقیلؓ کو کوفیوں کے پاس بھیجا۔ جب کوفیوں نے انہیں گھیر کر بے بس کر کے قتل کر دیا اور آپ کے ساتھ غداری کی اور بجائے آپ کی بیعت کرنے کے ابن زیاد کی بیعت کر لی، تو آپ نے لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا، لیکن اس ظالم فوجی دستے نے آپ کا راستہ روک لیا۔ آپ نے ان تین باتوں میں سے ایک کے مان لینے کا مطالبہ کیا:

یا تو مجھے یزید کے پاس جانے دو،

یا کسی سرحد پر جا کر جہاد کرنے دو،

یا پھر مجھے اپنے شہر لوٹ جانے دو،

لیکن ان لوگوں نے آپ کو ان تینوں باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقعہ نہ دیا اور مطالبہ کیا کہ آپ گرفتاری دے دیں۔ آپ نے گرفتاری دے دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر ان ظالموں نے آپ سے قتال کیا، حتیٰ کہ آپ ظلماً شہید کر دئیے گئے۔ جب یزید کو قتل حسین رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی، تو وہ غم زدہ ہو گیا اور حرم میں جا کر رونے لگا۔ یزید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے آل بیت اور حرم میں سے کسی کو ہرگز بھی قیدی نہ بنایا، بلکہ ان کا بے حد اکرام و اعزاز کیا اور تحائف سے نواز کر ان کے شہر واپس بھیج دیا۔‘‘ (منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 472)

آلِ حسین رضی اللہ عنہ کے قیدی بنائے جانے کے بارے میں بیان کی جانے والی باتیں بھی انہی قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کی گھڑی ہوئی ہیں، جو آج تک اپنے اس بدترین جرم کے آثار کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، جس کے شواہد پکار پکار کر اپنے مجرموں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، بلاشبہ یہ وہی لوگ ہیں جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت کے دعوے کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپانے کی نامشکور سعی میں لگے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کا وظیفۂ حیات صرف اور صرف کتاب و سنت کی تعلیمات کو نابود کرنا اور جاہلی رسموں کی آڑ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و نفرت کا اظہار اور اس کی اشاعت کرنا ہے۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ دو ٹوک فرماتے ہیں:

’’جن روایات میں ان ناشائستہ باتوں کا ذکر آتا ہے کہ آل بیت رسول کی خواتین کی اہانت کی گئی، انہیں قیدی بنا کر شام لے جایا گیا اور وہاں ان کے ساتھ ذلت آمیز رویہ روا رکھا گیا، بلاشبہ یہ جملہ روایات باطل اور ساقط الاعتبار ہیں۔ بنی امیہ تو بنی ہاشم کی بے پناہ تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حجاج بن یوسف نے سیدہ فاطمہ بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کو اپنی زوجیت میں لیا، تو عبدالملک بن مروان کو اس سے بے حد گرانی ہوئی (کہ حجاج سیدہ محترمہ کے لائق نہ تھا) اس لیے عبدالملک نے حجاج کو ان سے علیحدگی اختیار کر لینے کا اور طلاق دے دینے کا فرمان جاری کیا۔ معلوم ہوا کہ بنی امیہ بنی ہاشم کا اس قدر اکرام و احترام کیا کرتے تھے۔ یہی حقیقت ہے کہ کسی ہاشمی خاتون کو ہرگز بھی قیدی نہ بنایا گیا تھا۔‘‘

آگے لکھتے ہیں:

’’متعدد لوگوں نے یہ بات نقل کی ہے کہ یزید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے کا حکم نہ دیا تھا اور نہ اسے اس بات سے کوئی غرض تھی، بلکہ وہ تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا احترام اور اکرام کرنا چاہتا تھا، جیسا کہ خود سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی یزید کو اس بات کا تاکیدی حکم دیا تھا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ولایت سے اور خروج کرنے سے روکتا تھا۔

چنانچہ میدان کربلا میں جب عراقیوں کی غداری دیکھ کر جناب حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے تین باتیں پیش کیں، جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ انہیں یزید کے پاس جانے دیا جائے، لیکن عراقیوں نے تینوں میں سے کسی ایک بات کو بھی نہ مانا اور نتیجہ بالآخر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے جاں نثار رفقاء کی شہادت کی صورت میں نکلا۔ چنانچہ جب یزید کو اور اس کے گھر والوں کو قتل حسین رضی اللہ عنہ کی دل خراش خبر پہنچی، تو وہ بے حد غم زدہ ہو کر رونے لگے اور یزید نے کہا: اللہ کی لعنت ہو ابن مرجانہ فارسیہ پر! اگر اس کا حسین (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ کوئی قرابتی رشتہ ہوتا، تو وہ انہیں ہرگز بھی قتل نہ کرتا۔ میں حسین (رضی اللہ عنہ) کو قتل کیے بغیر بھی اہل عراق کی اطاعت پر راضی تھا۔ یزید نے آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کو انعام و اکرام سے نواز کر انہیں عزت و احترام کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ یزید نے نہ تو جناب حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ لیا اور نہ قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کر دئیے جانے کا حکم ہی دیا۔ رہی وہ روایات جن میں ان باتوں کا ذکر ہے کہ یزید نے آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کی خواتین اور اولادوں کو قیدی بنایا، انہیں شام کے گلی کوچوں میں رسوا کرنے کے لیے گھمایا اور انہیں کجاوں کے بغیر اونٹوں پر سوار کیا، بلاشبہ یہ سب دروغِ بے فروغ اور باطل ہے۔ الحمد للہ کسی مسلمان نے کبھی کسی ہاشمیہ خاتون کو قیدی نہیں بنایا اور نہ امت محمدیہﷺ نے کبھی بنو ہاشم کو قیدی اور غلام بنانے کو حلال جانا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ جاہل اور خواہشات کے غلام جھوٹ کثرت سے بولتے ہیں۔ جیسا کہ ان گمراہوں کی ایک جماعت یہ تک کہتی ہے کہ حجاج بن یوسف نے … کو قتل کر دیا تھا۔ یہ سب نرا جھوٹ ہے، حجاج نے کسی ہاشمی کو کبھی قتل نہیں کیا حالانکہ اس کے ہاتھوں پر بے شمار لوگوں کا خون لگا ہے۔ چنانچہ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو حکم لکھ بھیجا تھا کہ کسی بنی ہاشم سے ہرگز بھی تعرض نہ کرنا۔ میں نے بنی حرب کا انجام دیکھا ہے کہ جب انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے تعرض کیا، تو انہیں جن عذابوں سے واسطہ پڑا سو وہ تم جانتے ہی ہو۔‘‘ 

(منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 557)

آگے لکھتے ہیں:

’’خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں یہ بات معروف ہے کہ مسلمانوں نے کسی ایسی عورت کو کبھی قیدی اور کنیز نہیں بنایا، جس کا ہاشمیہ ہونا معروف ہو اور نہ مسلمانوں نے آلِ حسین رضی اللہ عنہ میں سے کسی کو قیدی ہی بنایا تھا۔ بلکہ آل بیت حسین رضی اللہ عنہ جب شام میں یزید کے گھر پہنچے تھے، تو یزید کے گھر والوں نے قتل حسین رضی اللہ عنہ پر رونا شروع کر دیا تھا۔ یزید نے ان کا بے حد اکرام و اعزاز کیا اور انہیں اختیار دیا کہ چاہیں تو اسی کے پاس ٹھہر جائیں اور چاہیں تو مدینہ لوٹ جائیں۔ اس پر انہوں نے مدینہ لوٹ جانے کو اختیار کیا۔

رہ گیا قصہ سر حسین رضی اللہ عنہ کے گلی گلی پھرائے جانے کا اور اس جیسی دوسری اناپ شناپ باتیں، تو بلاشبہ وہ جھوٹ اور بہتان ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

رہے وہ حوادث و عقوبات جو قتل حسین رضی اللہ عنہ کا نتیجہ تھیں، تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خونِ حسین رضی اللہ عنہ سے ہاتھ رنگنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس گناہ کا ارتکاب کرنے والا، اس پر راضی رہنے والا، اس میں معاونت کرنے والا، بلاشبہ یہ سب لوگ رب تعالیٰ کے اس عقاب کے مستحق ہیں، جو ایسے ہی مجرموں کو دیا جاتا ہے۔

لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل ان سے افضل ہستیوں کے قتل سے بڑا گناہ نہیں، جیسے رب تعالیٰ کے پیغمبروں اور سابقین اوّلین مہاجرین و انصار کا قتل، مسیلمہ کذاب سے جنگ میں شہید ہونے والے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم، شہدائے احد، بیر معونہ کے مظلوم شہید اور جیسے سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قتل وغیرہ۔‘‘ (منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 559)

علامہ ابن جریر طبری کی بعض روایات ان حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں، جن میں بے شمار لوگوں کو اشتباہ پیش آیا ہے۔ ان روایات کے سامنے زبانِ زد خلائق وہ روایات پادر ہوا ہو جاتی ہیں، جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان حسد اور کینہ کے جذبات کو انگیخت کرتی ہیں۔ چنانچہ طبری ایک جگہ لکھتے ہے کہ

’’جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خواتین اور گھر والوں کو ابن زیاد کے پاس لایا گیا، تو اس نے عزت و احترام کے ساتھ انہیں ایک علیحدہ مکان میں اتارا، ان کے لیے نفقہ جاری کیا اور انہیں خلعتیں بھی دیں۔‘‘ (تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 300، جلد، 8 صفحہ 171)

طبری کے اس بیان سے ان روایات کی غیر واقعیت کا یقینی علم ہو جاتا ہے، جن میں ان محترم خواتین کی بابت ازحد نازیبا اور ناشائستہ باتیں مذکور ہیں کہ ان واجب الاحترام خواتین سے بے حد غفلت برتی گئی، ان کے مقام و مرتبہ کا کوئی پاس ولحاظ نہ کیا گیا، بغیر پالان اور کجاووں کے ان کو اونٹوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار کیا گیا، اور نہ جانے کیا کیا۔ بلاشبہ یہ سب کی سب کوفیوں کی خرافات اور دروغ بافیاں ہیں، جو ان کے اس کینہ اور نخوت کی غمازی کرتی ہیں، جو یہ مسلمانوں کے جیوں میں پھونکنا چاہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی اخوت و ہمدردی پارہ پارہ ہو اور شقاق و نفاق اور بغض و عداوت کو ان کے جیوں میں زہریلے تیر کی طرح پیوست کر دیا جائے۔ اسی طرح ان کوفیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کی بابت جن محیّرالعقول روایات کو گھڑا ہے، جن کا بیان گزشتہ میں گزر چکا ہے، جو ان کے بنیادی عقائد کا حصہ ہیں ، ان سے غرض جناب حسین رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر یا تصدیق نہیں، بلکہ اسلامی تاریخ کی جڑوں میں فتنہ اور شقاق کا بیج بونا ہے، تاکہ انجان لوگوں پر شہادت حسین کا الم ناک واقعہ ایک چیستاں بن کر رہ جائے۔

غرض ایک طرف یہ روایات ہیں، تو دوسری طرف وہ روایات بھی ہیں جو بتلاتی ہیں کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا سن کر یزید رونے لگا تھا اور بے اختیار کہہ اٹھا:

’’اگر حسین رضی اللہ عنہ ابن مرجانہ فارسیہ کے قرابت دار ہوتے تو وہ ایسا کبھی نہ کرتا۔‘‘ (تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 300، جلد، 8 صفحہ 170)

ابن مرجانہ پر یزید کو اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ اس نے اس اقدام کی جرأت کیونکر کی، لیکن مجوسیت اور فارسیت کے اس بغض اور کینہ کا کیا کیجیے جو ابن زیاد کی رگ رگ میں پیوست تھا اور یہ اس کا نسبی ورثہ تھا۔ بلاشبہ ابن زیاد نے اپنی ایرانی ماں کے مجوسی خون کے اثرات کو بدن کے روئیں روئیں میں محفوظ کر رکھا تھا، جس میں عربوں کے لیے رحم نام کی کوئی چیز نہ پائی جاتی تھی، چاہے وہ جو بھی ہو!!!

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:

’’گمانِ غالب ہے کہ اگر قتل و شہادت سے قبل یزید حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر قابو پا لینے میں کامیاب ہو جاتا، تو انہیں ضرور معاف کر دیتا، جیسا کہ اسے ان کے والد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جناب حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں کڑی تاکید تھی اور جیسا کہ خود اس نے بھی یہ روح فرسا خبر سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے دل کے خیالات کا برملا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ ابن زیاد کو لعنت و ملامت کرتے ہوئے بظاہر یزید نے انہی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ اس سب کے باوجود یزید نے نہ تو ابن مرجانہ کو معزول کیا، نہ اس پر کوئی عتاب کیا اور نہ کسی کو بھیج کر اس کے اس قبیح فعل پر کسی غم و غصہ کا اظہار ہی کیا۔ و اللہ اعلم۔‘‘ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 202)

ابن زیاد کو عتاب نہ کرنے کے اسباب معروف ہیں۔ یزید کو بدلتے حالات کے پل پل کی خبریں پہنچ رہی تھیں، فتنے کی آگ بلند سے بلند ہوتی جا رہی تھی، بلاد و امصار سے آنے والی خبریں خوش کن نہ تھیں۔ یزید کو سردست ابن مرجانہ اور اس کے کوفی اعوان و انصار سے اپنے تعلقات کشیدہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ بات بھی معروف ہے کہ یزید کو ابن مرجانہ پر بے حد غم و غصہ تھا اور یزید نے اسے کوفہ کی ولایت پر بھی مجبوراً تعینات کیا تھا۔

جیسے تاریخ کے اوراق میں یہ بات بھی محفوظ ہے کہ جناب امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شہید مظلوم خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قاتل موجود تھے اور لوگوں کے بے پناہ اصرار اور مطالبہ کے باوجود امن اور اطمینان اور وحدت کے قائم ہونے سے قبل انہوں نے نہ تو ان میں سے کسی پر حد جاری فرمائی اور نہ کسی سے قصاص ہی لیا تھا اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جناب علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حالات میں نہ استقرار پیدا ہوا نہ استحکام، نہ امن قائم ہو سکا اور نہ اطمینان کی دولت ہی نصیب ہو سکی۔ اسی لیے جناب علی رضی اللہ عنہ نے کسی پر حد بھی قائم نہ فرمائی اور نہ ان اشرار وفجار قاتلوں میں سے کسی سے قصاص ہی لیا۔

ہاں سیدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے بصرہ خروج کے دوران میں جن جن سے قصاص لیا سو لیا اور جن پر اللہ کا حکم ہوا، ان پر حد جاری کی، یا جس نے ان بزرگوں سے قتال کیا اور اس دوران میں مارا گیا۔ غرض ان لوگوں کے سوا کسی کو بھی قصاص یا حد میں قتل نہ کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس بات سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیں کہ جناب علی رضی اللہ عنہ قاتلانِ عثمان کو قصاص میں قتل کرنے کے بے حد حریص تھے۔

یزید نے کوفہ کے والی ابن زیاد کو جو خط لکھا تھا، اس میں کسی جگہ بھی خاص سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے کی طرف اشارہ تک نہ تھا، بلکہ اس کے برعکس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے مقام و مرتبہ کو پہچاننے اور اس کا پاس لحاظ کرنے اور آپ کے ساتھ معاملہ کرنے میں ازحد حزم و احتیاط سے کام لینے کے واضح اشارے پائے جاتے ہیں۔

یزید نے اس بات کی تاکید بھی لکھ بھیجی تھی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنے سے قبل یزید کو اس کی اطلاع ضرور دی جائے۔ یہ جملہ امور بتلاتے ہیں کہ یزید جناب حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں کافی خوف زدہ تھا۔

ذیل میں اس مراسلہ کی عبارت کے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں، یزید لکھتا ہے:

’’مجھے اس بات کی خبر پہنچی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ بے شک تمہارا زمانہ اور تمہارا شہر اس آزمائش میں مبتلا ہو گئے ہیں اسی طرح اپنے عاملوں میں سے تمہیں اس آزمائش کا سامنا ہے۔ انہی مواقع پر یا تو لوگ آزاد ہوتے ہیں یا پھر غلام بنا لیے جاتے ہیں۔‘‘

لیکن ابن زیاد نے یزید کی اس فہمائش کی مطلق پروا نہ کی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے ان کا سر یزید کے پاس بھیج دیا۔

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:

’’میں کہتا ہوں کہ صحیح یہ ہے کہ ابن زیاد نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام نہ بھیجا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو خط میں لکھ بھیجا کہ ’’مجھے اس بات کی خبر پہنچی ہے کہ حسین (رضی اللہ عنہ) عراق کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ ان پر نگران اور مسلح افراد مقرر کر دو، ان پر پہرا رکھو، کوئی گمان ہو تو قید میں ڈال دینا اور کوئی تہمت ملے تو دار و گیر کرنا، البتہ ان کے خون سے ہاتھ رنگنے سے سخت گریز کرنا، ہاں جو تم سے قتال کرے اسے قتل کر دینا اور مجھے پل پل کی خبر بھیجتے رہنا۔ و السلام!‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: جلد، 8 صفحہ 145 علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ کو اس مسئلہ میں تردد ہوا ہے۔ دیکھیں: تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 293)

لیکن ابن مرجانہ فارسیہ نے یزید کے خط کی ہدایات کی مطلق پروا نہ کی اور ان سب فہمائشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے بھی قتال کیا، جنہوں نے قتال میں پہل نہ کی تھی اور انہوں نے تو صلح کی پیش کش کی تھی۔ گویا اس کی رگوں میں ٹھاٹھیں مارتے ایرانی مجوسی خون نے اس کی بصیرت و بصارت دونوں کو اندھا کر دیا تھا، اور اسے حسد و کینہ کی اندھی کھائی میں جا گرایا۔ چنانچہ ابن مرجانہ فارسیہ نے صلح کی پیش کش کو ٹھکرا کر مجوسی نسل کی لاج رکھتے ہوئے شر کو اختیار کیا اور ان اہل فتنہ کی معاونت و مساعدت پر کمربستہ ہو گیا، جنہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو فتنہ کا جال بن کر اور ان کی جائے قرار سے نکال کر غدار کوفیوں کے آگے لا کھڑا کیا۔ جبکہ ابن زیاد ان کی تلواروں اور آراء کے ہم نوا تھا۔

کیا یہ وہی لوگ نہیں تھے، جو جناب امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں فتنہ کا بیج بونے، امن و سلامتی کو غارت کرنے اور باہمی اتفاق و اتحاد کو جلا کر خاکستر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تھا اور انہیں جب بھی کسی نئے فتنہ کی بنیادیں رکھنے کا موقع ملا، انہوں نے وہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے کمال چابک دستی سے کام لیتے ہوئے ابن زیاد کی مجوسی رگ کو چھیڑا اور اسے صلح و سلامتی کی راہ سے بڑی خوبی کے ساتھ موڑ لیا، حتیٰ کہ اسے خود اپنے امیر اور خلیفہ کی رائے کے خلاف چلنے پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ ان حضرات کے بھڑکانے اور اکسانے پر ابن مرجانہ نے یزید کو کسی بات سے آگاہ کرنا گوارا نہ کیا اور کوفیوں کی انگیخت پر حسینی قافلہ کو تلواروں پر رکھ لیا اور قتل حسین رضی اللہ عنہ کے رسوائے زمانہ جرم کا ارتکاب کر لیا۔ اسی بات کو تاکید کے ساتھ یزید نے جناب علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رحمۃ اللہ کے سامنے بیان کیا تھا کہ اسے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش کا مطلق علم نہ تھا اور اسے یہ روح فرسا خبر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہو جانے کے بعد ملی تھی۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 300)

حالات و واقعات کا اگر استقرائی اور معروضی جائزہ لیا جائے، تو یہی حقیقت الم نشرح ہو کر سامنے آتی ہے۔ پھر ان سب کے ساتھ ساتھ بنو امیہ کے حلم و بردباری کو بھی ہر وقت سامنے رکھیے، جو سب قبائل عرب میں ان کا طرۂ امتیاز اور امتیازی وصف تھا، جس کی شہادت جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی دیتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملنے شام گئے، تو ان کے آنے کی خبر سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جا کر حاضر ہو۔ چنانچہ یزید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید کو خوش آمدید کہا اور خوب گفتگو رہی۔ جب یزید جانے لگا، تو جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید سے ارشاد فرمایا:

’’جب بنو حرب (یعنی بنو امیہ) نہ رہیں گے، تو سمجھ لینا کہ لوگوں کے علماء رخصت ہو گئے۔‘‘

پھر یہ شعر پڑھا:

مغاض عن العوراء لا ینطقوا بہا

و اصل وراثات الحلوم الاوائل

(البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 229 تاریخ دمشق: جلد، 65 صفحہ 403)

’’برائیوں سے چشم پوشی کرنے والے اور ان کو دیکھ کر بھی ان پر لب کشائی نہ کرنے والے، اور بردباروں کی پہلی وراثتوں کے اصل وارث۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:

’’جب بنو امیہ ختم ہو جائیں گے، تو سمجھ لینا کہ لوگوں میں حلم و بردباری جاتی رہی ہے۔‘‘ (العقد الفرید: جلد، 4 صفحہ 337 لابن عبد ربہ۔ الکامل لابن اثیر: جلد، 3 صفحہ 262 الانصاف للخلیفۃ: 535)

پھر جب ان سب امور کے ساتھ خود سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی یزید کو جناب حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس تاکیدی وصیت کو بھی ملا لیا جائے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ازحد خیال رکھنا اور ان کے ساتھ حسن معاملہ کرنا، چنانچہ جب یزید کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کر دئیے جانے کی خبر پہنچی، تو بے اختیار رونے لگا، کہ یہ جملہ امور اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینا یا کروا دینا یزید کی اس سیاست اور ان قواعد و ضوابط کے برملا خلاف تھا، جن کی نیو یزید نے اپنے والد ماجد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد معارضہ و مخالفت کا مقابلہ کرنے کے لیے رکھی تھی۔

اس امر کی تاکید کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ میں یزید کی مرضی، کوئی سیاست، اشارہ یا کوئی حکم شامل نہ تھا، جناب علی بن حسین رحمہ اللہ کے موقف سے بھی ہوتی ہے کہ کسی صحیح نص میں یہ مروی نہیں کہ انہوں نے یزید کے خلاف خروج میں کسی کے ساتھ مشارکت کی ہو، یا انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد اس بارے میں یزید کو کبھی برا بھلا کہا ہو، یا جب یزید نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کی بابت اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا، تو انہوں نے یزید کے اس اعتذار کو تشکیکی نگاہ سے دیکھا ہو، یا اس کی عذر خواہی میں کسی تردد کا شکار ہوئے ہوں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، جناب محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ، آل بیت کے سردار جناب عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما اور دوسرے اجل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مواقف کو بھی ملا لیجیے۔ یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں کہ ان بزرگ ہستیوں میں سے کسی ایک نے بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار یزید کو ٹھہرایا ہو۔

امت کے اہل علم اور ارباب دانش و بینش کو اس امر سے باخبر ہونا لازم ہے، تاکہ وہ امت مسلمہ کے قابل اعتبار اکابر و اصاغر اور اسلاف و اخلاف کی سیرت و بصیرت اور اسوہ و قدوہ کی پیروی کریں اور باطل روایات پر کان دھرنے سے سخت گریز کریں اور جرأت بے جا کی اس دلدل میں گرنے سے بچیں، جس میں گرانے کے لیے یہ دشمنان صحابہ صدیوں سے کوشش کر رہے ہیں اور مذموم مقصد کے حصول کے لیے مکر و فریب کی ہر چال چلنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔

رب تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے:

وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo

(سورۃ الصف: آیت 8)

’’اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے، اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔‘‘