Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ابوذرؓ کو مدینہ سے دور ربذہ مقام پر جلا وطن کر دیا

  علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتیؒ

سیدنا ابوذرؓ کو مدینہ سے دور ربذہ مقام پر جلا وطن کر دیا۔

جواب:

یہ سب جھوٹ ہے ابنِ جواری اور ابنِ عبدالبر روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوذرؓ سیدنا ابوبکرؓ کی وفات کے بعد مدینہ سے شام کی طرف چلے گئے اور سیدنا عثمانؓ کی خلافت تک وہیں رہے سیدنا ابوذرؓ اظہارِ حق میں سخت مزاج رکھتے تھے دورِ خلافتِ سیدنا عثمانؓ میں سیدنا معاویہؓ نے سیدنا عثمانؓ کو اس بارے میں لکھا:

سیدنا عثمانؓ نے سیدنا ابوذرؓ کو مدینہ میں طلب فرمایا اور انہیں نصیحت کی سیدنا ابوذرؓ نے حج یا عمرہ کے لئے مکہ جانے کی اجازت چاہی اس عبادت سے فارغ ہو کر وہ از خود ربذہ چلے گئے اور تا وقتِ وفات وہیں رہے یہ بات نہ تھی کہ انہیں کسی نے مدینہ سے نکالا تھا اگر فرضاً (یہ جدلی انداز پر مفروضہ ہے ورنہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی واقعاتی دنیا میں مفروضات کے جواب دینے کی ضرورت ہے) ضرب اور جلا وطن کرنا ثابت ہو جائے تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کی رائے اجماع کے خلاف تھی دیکھئے سیدنا کعب احبارؓ کو سیدنا ابوذرؓ نے ایک بار ایک حق کہنے پر لاٹھی سے مارا اور بعض کہتے ہیں سیدنا کعبؓ کو زخمی کر دیا ایسی صورت میں سیدنا ابوذرؓ کی تعزیر یا جلا وطنی اگر ہو گئی ہو تو اس میں امام ہی حق پر ہے۔  

روایت مذکورہ کا متن یہ ہے:

عن مالك بن عبد الله يحدث عن أبى ذرؓ انه جاء یستاذن عثمان بن عفانؓ فاذن له وبيده عصاه فقال عثمانؓ يا كعبؓ! ان عبد الرحمان توفک وترك مالا فما تری فيه فقال ان كان يصل فيه حق الله عزوجل فلا بأس به فرفع ابوذرؓ عصاه فضرب كعباؓ وقال سمعت رسول اللهﷺ يقول ما احب لو ان لی هذا الجبل ذهبا انفقه ويتقبل منی اذن خلفی ست اواتی انشدك الله يا عثمانؓ اسمعته ثلاث مرات اخرجه احمد۔

مشکوۃ المصابیح صفحہ 166 باب الانفاق و کراہتہ الامساک۔

مالک بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں سیدنا ابوذرؓ سیدنا عثمانؓ کے پاس آئے اجازت طلب کی اجازت مل گئی ان کے ہاتھ میں لاٹھی تھی سیدنا عثمانؓ نے فرمایا سیدنا کعبؓ عبدالرحمٰن فوت ہو گیا ہے اور کثیر مال چھوڑ گیا تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے سیدنا کعبؓ نے کہا اگر وہ اللہ کا حق ادا کرتا تھا تو کوئی حرج نہیں سیدنا ابوذرؓ نے لاٹھی اٹھائی اور سیدنا کعبؓ کو دے ماری اور کہا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا فرماتے تھے اگر میرے لئے یہ پہاڑ سونا بن جائے تو میں اسے خرچ کر ڈالوں اور میرے سے قبول ہو جائے اپنے پیچھے چھ اوقیے بھی نہ چھوڑوں اے سیدنا عثمانؓ میں تجھے خدا کا واسطہ دیتا ھوں تو نے یہ حدیث سنی ہے؟ تین بار فرمایا:

قرآن پاک میں ہے:

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِی سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔ (التوبہ: 24) 

وہ لوگ جو سونا چاندی جمع رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں عذاب الیم کی خوشخبری سنا۔

سیدنا ابوذرؓ فرماتے ہیں اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ مال مطلقاً رکھنا ناجائز ہے کل مال کا اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا لازم ہے مگر حق مذہب یہ نہیں ہے سیدنا ابوذرؓ کی پیش کردہ روایت جس پر سیدنا عثمانؓ کو گواہ بنایا اس بارے میں خاموش ہے کہ یہ امر استحباب ہے یا فرض ہے مفروض انفاق زکوٰۃ کے قدر ہے زائد نہیں سیدنا ابوذرؓ اپنے قول سے باز نہ آئے سیدنا کعبؓ سے مذکورہ بالا حرکت کی اور انہیں یہودی کہا ہو سکتا ہے سیدنا عثمانؓ نے اس پر ان کو سزا دی ہو۔