Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا عثمانِ غنیؓ نے تختِ خلافت سنبھالتے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معزول کردیا کا الزام:

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

سیدنا عثمانِ غنیؓ نے تختِ خلافت سنبھالتے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معزول کردیا کا الزام

الجواب:

سیدنا عثمانِ غنیؓ نے جب خلافت سنبھالی تو آپؓ نے ان تمام عُمال کو اپنے اپنے عہدوں پر باقی رکھا جو سیدنا عمرؓ کے دٙور سے چلے آرہے تھے پھر کچھ عرصہ بعد جب بعض علاقوں سے شکایات ملیں اور پھر ان شکایتوں میں اضافہ ہوگیا اور حالات بھی کچھ اس کی شہادت دینے لگے تو آپ نے بعض مصالح کے پیش نظر انہیں اپنے عہدوں سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے حضرات کو وہاں متعین کر دیا ان میں سے سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ کو بصرہ سے سیدنا عمرو بن عاصؓ کو مصر سے سیدنا عمار بن یاسرؓ کو کوفہ سے واپس بلوا لیا واپس آنے والوں میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ اور سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ بھی تھے سیدنا ابوموسٰی اشعریؓ کے بارے میں بصرہ کے لوگوں کے درمیان کافی اختلاف پیدا ہوگیا تھا اور قریب تھا کہ اس سے ایک بڑا فتنہ بھڑک اُٹھے آپ نے اس مصلحت سے سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ کو واپس بلا لیا تھا اسی طرح سیدنا عمرو بن عاصؓ کے بارے میں مصری لوگ کافی شکایات رکھتے تھے اور انہوں نے خراج بھی دینا کم کر دیا تھا خطرہ تھا کہ کہیں وہ بغاوت پر نہ آجائیں آپؓ نے انہیں معزول کرنے میں مصلحت سمجھی اور آپؓ کو معلوم تھا کہ سیدنا عمرؓ نے بھی انہیں پہلے وہاں سے انہیں شکایات پر معزول کیا بعد ازاں شکایات کے دور ہونے پر پھر انہیں وہاں مقرر کر دیا تھا آپؓ بھی اسی راہ پر چلنے میں مصلحت سمجھتے تھے سو آپؓ نے جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کو اپنے عہدوں سے معزول کیا اس میں آپؓ کی اپنی کوئی ذاتی غرض اور مفاد نہ تھا۔

حافظ ابنِ حجر مکی شافعیؒ (973ھ) لکھتے ہیں کہ :

 ان المجتهد لا يعترض عليه فی اموره الاجتهادية (صواعقِ محرقة صفحہ 113)۔

 آپؓ مجتہد تھے اور آپؓ نے انہیں معزول کرنے میں مصلحت سمجھی اور مجتہد پر اجتہادی امور پر اعتراض نہیں کیا جاتا (صواعقِ محرقہ صفحہ 389)۔

 آپ سے پہلے علامہ حافظ ابنِ تیمیہ (728ھ) بھی یہ بات لکھ آئے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ مجتہد تھے (المنتقى صفحہ 570 اردو)۔

 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (1176ھ) اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں عمال کے عزل اور نصب کو اللہ نے خلیفہ کی رائے پر چھوڑا ہے خلیفہ کے لئے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور نصرتِ اسلام کے پیش نظر غور کر لینا ضروری ہے اور وہ اسی صواب دید کے مطابق عمل میں لائے اگر مصیب رہا تو اس کا اجر دوگنا ہے اور اگر صواب دید میں خطا واقع ہوگئی تو اس کو ایک اجر پھر بھی ملے گا اور یہ بات رسول اللہﷺ سے تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ بعض اوقات حضور ﷺ نے ایک سردار کو معزول کر دیا اور دوسرے کو جو اس سے کمتر ہوا اس کی جگہ مصلحت کی بناء پر نصب فرمایا جیسا کہ انصار کا جھنڈا آپؓ نے سیدنا سعد بن عبادہؓ سے بہ سبب ایک کلمہ کے جو ان کی زبان سے نکل گیا تھا لے لیا اور ان کے بیٹے قیس کو دے دیا اور کبھی آپ نے افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کو صاحب منصب بنا دیا جیسا کہ سیدنا اسامہؓ کو امیر لشکر بنا دیا تھا اور کبار مہاجرین کو ان کے ماتحت کر دیا تھا آخر حال میں ایسے ہی حضرات شیخینؓ بھی اپنے ایام خلافت میں عمل میں لائے ہیں اور سیدنا عثمانؓ کے بعد سیدنا علیؓ اور دوسرے خلفاء بھی اس دستور پر کاربند رہے ہیں تو سیدنا ذی النورینؓ سے اس وجہ سے کسی باز پرس کا سوال نہیں پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی صواب دید کے مطابق نوجوانوں میں سے کسی شخص کو معزول کر دیا ہو خصوصاً ان واقعات میں جو ہم بیان کر آئے ہیں جب غور کیا جاتا ہے تو سیدنا ذوالنورینؓ کا صاحب الرائے ہونا دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ روشن اور واضح نظر آتا ہے کیونکہ ہر عزل اور نصب یا تو لشکر اور رعیت کے اختلاف کے فتنہ کو فرد کرنے کی مصلحت سے ہوا ہے یا دار الکفر کی ولایتوں میں سے کسی فتح پر منتج ہوا ہے مگر افسوس کہ خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنے والے مبتدعین کی آنکھیں اندھی ہوگئیں ہیں (ازالۃُ الخلفاء جلد 4 صفحہ 388)۔

 حضرت شاہ صاحب قدس سرہ العزیزؒ نے یہی بات اپنی دوسری کتاب "قرة العینين" میں بھی لکھی ہے اہلِ علم کے لئے آپ کی عبارت درج ذیل ہے:

 می گوئیم که عزل و نصب مفوض است برائے خلیفہ اگر اجتهاد خلیفہ مؤدی شودبا آنکه از فلاں شخص کار امت سر انجام می یا بدلازم می شود بروے نصب او (قرة العینین صفحہ 272)۔

ہم کہتے ہیں عُمال کی تقرری اور ان کی معزولی کا معاملہ خلیفہ وقت کے سپرد ہوتا ہےاگر خلیفہ کا اجتہاد انہیں یہ بتاتا ہے کہ فلاں شخص کے ذریعہ امت کی بہتری کا کام بخوبی ہوسکتا ہے تواس پر ایسے آدمی کا تقرر کرنا لازم ہو جاتا ہے آپ اسی صفحہ پر یہ بھی لکھتے ہیں:

می گوئیم ہرچہ ازایشاں بوقوع آمدنہ بامر ذی النورینؓ بووونہ بوفق صلاح دیدے دور خلافت علم غیب خود شرط نیست آنچه شرط خلافت است اجتهاد است وذی النورین در اجتهاد تقصیر نه کرد (ایضا)۔

 ہم کہتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ نے جنہیں مقرر کیا ان سے جو کچھ بھی (اچھا یا برا) وقوع میں آیا وہ نہ تو آپؓ کے حکم سے ہوا اور نہ انہوں نے آپؓ کے مشورہ سے ایسا کیا کیونکہ خلافت میں علمِ غیب کا حامل ہونا شرط نہیں ہے ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ خلیفہ صاحبِ اجتہاد ہو اور سیدنا ذی النورینؓ نے اس باب میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی آپؓ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں بعض نکتہ چینوں نے اس واقعہ کو محل بحث قرار دیا در حقیقت اس عزل و نصب میں جو خیر اور بھلائی مضمر تھی وہ ظاہر ہے افریقہ اور اندلس کے سلسلہ میں جو حرکت و سعی کا اس سے ظہور ہوا اس کے سبب سے تو یہ فتح میسر آئی اب اس کی بھلائی میں کیا شبہ ہوگا اسی طرح سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ کا معزول ہونا اور ان کی بجائے سیدنا عبداللہؓ بن عامر کا نصب ہونا جبکہ وہ خراسان کی فتح کا بھی باعث ہوا تو اس کے خیر اور بھلائی ہونے میں کیا شبہ ہوگا (ازالةُ جلد 4 صفحہ 343)۔

مسند المند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (1239 ھ) شیعہ کے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

 اس طعن کا بے محل ہونا ہر سمجھ دار پر واضح ہے کہ اگر ائمہ و خلفاء کو کسی ماتحت کے عزل و نصب کا اختیار نہ ہو تو پھر اس کی کیا عزت و وقار رہ جائے گا یہ ان کے اختیاری امور میں سے ہے جس کو چاہیں مقرر کریں جس کو چاہیں معزول کریں نہ ان پر یہ لازم ہے اور نہ اس کے وہ پابند ہیں کہ سابقہ عُمال ہی کو برقرار رکھیں ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ بلاقصور اور بلاسبب انہیں معزول نہ کریں اور وہ اب ذاتی کمزوری ہی نہیں مملکت کے مفاد اور انتظامی وسیاسی معاملات بھی ہوسکتے ہیں اور ان حضرات کی (جنہیں سیدنا عثمانؓ نے معزول کیا تھا) بلاوجہ نہ تھی ان کے متعدد اسباب تھے جن کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے جن پر نظر کرنے سے سیدنا عثمانؓ کے حُسن تدبیر کا پتہ چلتا ہے درحقیقت ان حضرات کی معزولی اور دوسرے حضرات کا ان کی جگہ انتظام واستحکام مملکت کے ساتھ دوسرے علاقوں کی فتح کا بھی سبب بنا تھا اور خلافت کی شان کچھ سے کچھ ہوگئی تھی لشکر وافواج میں اس قدر اضافہ ہوا ولایت و مملکت کا دائرہ وسیع ہوا اور قلمرو اسلامی کا حلقہ اس قدر پھیلا کہ قیصر و کسریٰ کی نسلوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا اسلامی مملکت کا طول اگر اندلس سے کابل تک تھا تو عرض قسطنطنیہ سے عدن تک پھیلا ہوا تھا (تحفہ اثنا عشریه صفحہ 605)۔

 سوال: یہ ہے کہ آپؓ نے جن بزرگوں کو معزول کیا اور ان کی جگہ دوسرے حضرات کو (خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ تھے) مقرر فرمایا تو انہوں نے وہ کام ذمہ داری سے نبھایا یا نہیں؟ آپؓ کے اس طرزِ عمل سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ تاریخ گواہ ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے جن لوگوں کو عہدے دیئے تھے مسلمانوں کو ان سے نفع ہی پہنچا تھا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہے موصوف لکھتے ہیں اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ اپنے خاندان کے جن لوگوں کو سیدنا عثمانؓ نے حکومت کے یہ مناصب دیے انہوں نے اعلیٰ درجے کی انتظامی اور جنگی قابلیتوں کا ثبوت دیا اور ان کے ہاتھوں بہت سی فتوحات ہوئیں (خلافت و ملوکیت صفحہ 108)۔ 

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے جن لوگوں کو آگے کیا اور انہیں عہدے دیے وہ سب ان امور کو چلانے کی پوری مہارت رکھتے تھے اور انہوں نے نہایت دور اندیشی اور مہارت سے وہ خدمات انجام دیں اور اسلامی مملکت کا دائرہ بڑھایا نیز آپؓ نے جن لوگوں کو معزول کیا اسکے پیچھے ہرگز کوئی ذاتی غرض یا اقرباء پروری نہ تھی آپ نے بعض مصالح کی بناء پر ایسا کیا تھا جس کا فائدہ پھر سب نے دیکھا بھی تھا۔