سیدنا عثمانِ غنیؓ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو محبوس رکھنے کا الزام
کلینی الرازیسیدنا عثمانِ غنیؓ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو محبوس رکھنے کا الزام
سوال: سیدنا عثمانؓ نے اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو محض اس لئے قید کر دیا تھا کہ وہ آپؓ پر تنقید کرتے تھے؟ سیدنا ابوذر غفاریؓ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ آپؓ کے اختلافات کیوں رہے اور وہ آپؓ سے ناراض کیوں تھے؟۔
الجواب: سیدنا عثمانؓ پر یہ الزام کہ انہوں نے اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے ذاتی مفادات کی بناء پر محبوس رکھا تھا درست نہیں یہ صحیح ہے کہ سیدنا عثمانؓ کے ساتھ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بعض امور میں اختلاف تھا اور کبھی ان اختلافات میں شدت بھی پیدا ہوجاتی تھی ان امور میں سیدنا عثمانؓ کا اپنا ایک موقف تھا آپؓ مجتہد تھے اور انتظامی امور بھی آپؓ کے ذمہ تھے آپؓ صرف ایک علاقہ یا ایک شہر کے امیر نہ تھے آدھی دنیا سے زیادہ زمین کے امیر اور خلیفہ تھے آپؓ کے نزدیک دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا موقف گو صحیح تھا مگر ضرورت اور حالات کا تقاضا اس کے برعکس تھا اس لئے آپؓ نے اپنے موقف پر عمل کرنا ضروری جانا اور اس میں آپؓ نے کسی کی رعایت نہ برتی تھی اس لئے کہ اگر ہر درست موقف پر عمل کی اجازت دی جائے تو پھر انتظامی امور سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہتا پریشانی اور معاشرے میں بدمزگی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مارنے کا تعلق ہے تو یہ جھوٹ ہے آپؓ نے کبھی کسی صحابی پر نہ کوئی ظلم کیا اور نہ کسی کو مارا پیٹا حتیٰ کہ آپؓ نے کھل کر کہا کہ اگر میری طرف سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہو تو وہ مجھ سے قصاص لے سکتا ہے میں اس کے لئے حاضر ہوں تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں کسی صحابی نے آپؓ کے اس پیغام پر آپؓ سے قصاص لیا ہو اور کہا ہو کہ آپؓ نے مجھ سے زیادتی کی تھی اس لئے اس کا قصاص لینا چاہتا ہوں البتہ آپؓ کے اپنے موقف پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی بناء پر اگر کسی دوسرے صحابی کو کوئی تکلیف پہنچی تھی یا آپؓ کے لفظوں سے کسی کو کوئی دکھ پہنچا تھا تو آپؓ نے انہیں راضی کرنے کی کوشش فرمائی اور ان سے معافی چاہی تھی اور ان بزرگوں نے بھی لوجہ الله آپؓ کو معاف کر دیا تھا سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ آپ سے تین سال 32 ھ میں قبل وفات پاگئے تھے کیا آپؓ نے سیدنا عثمانؓ کے بارے میں یہ نہیں کہا تھا کہ اگر تم نے انہیں شہید کر دیا تو ان جیسا تمہیں ڈھونڈ نے پر بھی نہیں ملے گا سیدنا ابوذر غفاریؓ بھی آپؓ سے پہلے وفات پاچکے تھے کیا انہوں نے آپؓ کے بارے میں یہ نہیں کہا تھا کہ سیدنا عثمانؓ اگر مجھے حکم دیں تو میں سر کے بل چل کر ان کے پاس جاؤں گا اور ان کی بات سنوں گا اور مانوں گا ان حقائق کے باوجود بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا رہے کہ سیدنا عثمانؓ نے دوسرے صحابہؓ پر زیادتی کی تھی تو ہم اسے اس کی شرارت کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
مسند المند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (1239ھ) نے تفصیل سے اس سوال کا جواب دیا ہے اور جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نام لے کر سیدنا عثمانؓ کو مطعون کیا جاتا ہے ان سب واقعات کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور سب کی عزت اور عظمت ملحوظ رکھی ہے اہلِ سنت کا ہمیشہ سے طریقہ رہا ہے کہ اختلافات میں تطبیق کی ایسی راہ اپنائی جائے جس سے کسی صحابی کی ذات مجروح نہ ہو یہ سب کے سب ان اختلافات کے باوجود مغفور و ماجور ہیں حضرت شاہ صاحب قدس سرہؒ لکھتے ہیں:
خلافت و امامت کا معاملہ اتنا اہم اور مہتم بالشان ہے کہ اس کی حفاظت و بقاء کے لئے اور اس کو انتشار سے بچانے کے لئے یا اس کی حرمت پر اثر اندازی کے موقع پر کسی قسم کا لحاظ نہیں کیا جاتا اور نہ اس باب میں سُستی اور غفلت برتنا مناسب اور زیبا نہیں ہے خود سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اس بارے میں حرمِ رسول ام المؤمنینؓ کا لحاظ و پاس نہ کیا تھا سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ جو حضورﷺ کے حواری اور قدیم الاسلام رشتہ دار تھے وہ بھی اس بارے میں قتل ہوگئے ورنہ تو یہ بات سیدنا علیؓ خود بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ حضرات آپؓ کی جان کے دشمن نہ تھے وہ تو صرف قاتلانِ سیدنا عثمانؓ کا مطالبہ کر رہے تھے مگر سیدنا امیر کے خیال مبارک میں لشکر سے اس قدر فوج کا کٹ کر علیحدہ ہو جانا خلافت و مملکت میں خلل پیدا کرنا ہے اور اس سے خلیفہ وقت کا حکم ناقابل عمل ٹھہرتا تھا اس لئے آپؓ نے ان سے جنگ کی اور رشتہ داری سسرال زوجیت اور صحبت رسولﷺ وغیرہ سارے ہی علاقے نظر انداز کر دیئے تھے معلوم ہوا کہ امیر خلافت کے استحکام و حفاظت کے سلسلہ میں چھوٹی موٹی مصلحتیں تلف ہو جاتی ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وجودِ خلافت اور استحکامِ خلافت سب سے زیادہ مقدم اور نہایت ہی اہم مصلحت ہے سو اگر سیدنا عثمانؓ نے اس کی حفاظت و صیانت کے لئے بعض اصحابِ رسولﷺ کو ڈرایا ہو یا (بفرضِ محال) اہانت کی ہو تو آپؓ کو موجبِ طعن کیوں بنایا جائے جبکہ یہ ڈرانا قتل سے تو بہرحال کم ہی ہے (تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 612)۔
آپ شیعہ علماء کو ان کے عقیدے کی روشنی میں اس طرح جواب دیتے ہیں:
(شیعوں کو تو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ آپؓ نے انہیں معزول یا محبوس کیا) کیونکہ شیعہ کے ہاں تو یہ سب واجبُ القتل تھے وہ عزت و احترام کے لائق ہی کب تھے استغفر الله کیونکہ بقول ان کے ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کے فرمان صریح کو چھپایا اور ظالموں کی مدد کر کے اہلِ بیت کے حقوق چھیننے اور حق کی گواہی دینے سے خاموش رہے اور ایسے لوگوں سے جو برتاؤ سیدنا علیؓ کو کرنا چاہیے تھا وہ اگر سیدنا عثمانؓ نے کیا (اور ان سے کم کیا) تو ان پر شیعہ کو اعتراض کیوں ہے؟ ان کی تو تعریف کرنی چاہیے تھی (ایضاً صفحہ 611)۔
حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ (1225 ھ) لکھتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ پر یہ الزام کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کو مارا تھا جس سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں جھوٹ اور افتراء ہے اور اگر کہیں کوئی تادیب ثابت ہو جائے تو بھی حق سیدنا عثمانؓ کی جانب ہوگا سیدنا عمار بن یاسرؓ نے ایک مرتبہ سیدنا عثمانؓ سے ایسی گفتگو کی جو ان کے لائق نہ تھی تاہم انہیں کچھ نہ کہا البتہ ان کے بعض نوکروں نے جنہیں سیدنا عمارؓ کے مقام و مرتبہ کا علم نہ تھا انہوں نے ان سے گستاخی کی تھی جس کا آپؓ کو علم نہ تھا جیسے ہی یہ بات آپؓ کے علم میں آئی تو آپؓ نے ان سے معذرت فرمائی اور قسم کھا کر فرمایا کہ یہ بات میرے علم میں نہ تھی اور نہ میں نے ایسا کہا تھا آپؓ معافی کے خواستگار ہوئے چنانچہ آپؓ ان سے راضی ہو گئے تھے (سیف مسلول صفحہ 337)۔
علامہ حافظ ابنِ تیمیہؒ (728 ھ) بھی اس قسم کی باتوں کو جھوٹ بتاتے ہیں آپ لکھتے ہیں:
فهذا كذب باتفاق اهل العلم ( منهاج السنة جلد 6 صفحہ 655)۔
آپ ایک اور جگہ لکھتے ہیں یہ بڑا ذلیل جھوٹ ہے (المنتقی صفحہ 575 اردو)۔
قاضی ابوبکر بن العربی المالکیؒ (543 ھ) بھی لکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں جھوٹ اور تہمت ہیں ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
واما ضربه لعمارؓ وابن مسعودؓ ومنعه عطاؤه فزور وضربه لعمارؓ افك مثله (العواصم من القواسم صفحہ 78)
امام شمس الدین ذہبیؒ (748 ھ) لکھتے ہیں:
فهذا من اسمج الكذب المعلوم (المنتقى للذهبی صفحہ 394)۔
یہ خود تراشیدہ کھلا جھوٹ ہے۔
شیخ حسین محمد بن الحسن الدیار البکری (960ھ) لکھتے ہیں فكله بهتان واختلاق لا يصح منه شئی (تاریخ خميس جلد 2 صفحہ270)۔
یہ سب کا سب بہتان اور مٙن گھڑت ہے اس میں کوئی بات صحت تک نہیں پہنچتی(ماخوذ از آثار التنزیل جلد 1صفحہ161)۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ازالۃُ الخلفاء میں سیدنا ابوزرغفاریؓ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی وفات کے بعد مال جمع کرنے کے مسئلہ میں اختلاف ہوا (یعنی کہ مسلمان کو مال اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہے یا سب کا سب الله کے راستہ میں خرچ کر دینا چاہئے سیدنا ابوزرؓ کا موقف دوسرا تھا کہ مؤمن کو اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھنا چاہیئے جبکہ دوسرے حضرات کا موقف یہ تھا کہ اس کی اجازت ہے یہ شرعاً منع نہیں تو امیر المؤمنینؓ نے جانب راجح کو جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے سامنے رکھتے ہوئے سیدنا ابوذرؓ کو (اپنے موقف کی تشہیر اور اس پر شدت سے کام لینے سے منع فرمایا مگر جب بات بہت بڑھ گئی تو پھر آپؓ نے انہیں ملک شام سے مدینہ بلالیا اور ربذہ کی جانب روانہ فرما دیا کہ آپ وہاں رہیں اس فعل میں کونسی نامناسب بات وقوع میں آئی اجتماعی مسئلہ وہی ہے جس سے سیدنا ذی النورینؓ نے تمسک فرمایا سیدنا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ جب ہمارے درمیان اختلاف ہوا تو سیدنا عثمانؓ نے مجھے لکھا کہ مدینہ آجاؤ تو میں مدینہ آگیا آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو تنہائی اختیار کرو (مقام ربذہ میں چلے جاؤ اس طرح مدینہ سے قریب بھی رہو گے اس طرح میں آگیا اگر وہ مجھ پر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کر دیں تو میں اس کی بات سنوں گا اور اس کی اطاعت کروں گا (ازالۃ جلد 5 صفحہ 345)۔
چنانچہ سیدنا ابوزرؓ خوشی سے وہاں تشریف لے گئے کہ دنیاوی بکھیڑوں سے یہ تنہائی اچھی ہے سیدنا عثمانؓ نے آپؓ کے لئے وہاں ایک مسجد بنائی اونٹ اور غلام بھیجے اور ان کے لئے کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا تھا۔
وبنى بها مسجدا واقطعه عثمان صرمة من الابل واعطاه مملوكين واجرى عليه كل يوم عطاء (تاریخ ابنِ الاثیر جلد 3 صفحہ 115)۔
ملاباقر مجلسی شیعی کا بیان ہے کہ سیدنا عثمانؓ یہ سب سے اپنے ذاتی مال سے بھیجا کرتے تھے (بحار الانوار جلد 22 صفحہ 398)۔
شیعه عالم ملاباقر مجلسی نے بحارُ الانوار اور حیاتُ القلوب میں نیز مؤرخ مسعودی شیعی نے مروجُ الذہب اور دوسرے شیعہ علماء نے بھی سیدنا ابوذر غفاریؓ کی درویشانہ اور زاہدانہ زندگی اور آپؓ کے اس بارے میں سخت موقف کو تفصیل سے لکھا ہے اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ اور حضرت سیدنا ابوزرؓ میں کسی قسم کی کوئی ذاتی رنجش اور دشمنی نہ تھی آپؓ مال و دولت کے متعلق ایک سخت موقف رکھتے تھے اور اس کی سر عام تبلیغ کرتے تھے اس باب میں چونکہ دوسرے موقف کی تردید ہوتی تھی اس لئے سیدنا عثمانؓ نے انہیں اس سختی سے روک دیا تاہم ان کے ساتھ حُسن سلوک اور احسان و مروت میں کوئی کمی نہ آنے دی اگر ان سے کبھی کسی نے سیدنا عثمانؓ کے خلاف کوئی بات کہلوانے کی کوشش کی اور چاہا کہ ان کے نام پر سیدنا عثمانؓ کو بدنام کیا جائے تو آپؓ اس کے لئے ہرگز تیار نہ ہوئے آپؓ نے ان کو سخت جواب دیا تھا ایک موقع پر عراقیوں کے ایک گروہ نے چاہا کہ آپؓ کے نام پر سیدنا عثمانؓ کے خلاف تحریک اٹھائی جائے تو آپ نے فرمایا:
يا اهل الاسلام لا تعرضوا على ذاكم ولا تذلوا السلطان فانه من اذل السلطان فلا توبة له والله لوان عثمانؓ صلبنی على اطول خشبة او اطول جبل لسمعت واطعت وصبرت واحتسبت ورئيت ان ذاك خير لی ولو سيرنی مابين الافق الى الافق اوقال مابين المشرق والمغرب لسمعت واطعت وصبرت واحتسبت ورئيت ان ذاك خير لی ولو ردنی الى منزلى لسمعت واطعت وصبرت و احتسبت ورایت ان ذاك خير لی (طبقات ابنِ سعد جلد 4،صفحہ171)۔
اے مسلمانوں میرے سامنے اس طرح کی بات نہ کرو اور نہ ہی مسلمان خلیفہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کرو جس نے خلیفہ کو ذلیل کیا اس کی توبہ اللہ کے حضور قبول نہیں الله کی قسم اگر سیدنا عثمانؓ مجھے ایک لمبی لکڑی پر لٹکا دیں یا اونچے پہاڑ سے گرا دیں مجھے دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے بھیج دیں مشرق سے مغرب بھیج دیں تو بھی میں ان کی بات سنوں گا ان کی بات مانوں گا ان کے حکم اور فیصلہ کو تسلیم کروں گا اور میں یہی سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی بہتر تھا جو سیدنا عثمانؓ نے کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ سیدنا عثمانؓ کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں کسی قسم کی بات سننے کے روادار نہ تھے اسی طرح سیدنا عثمانؓ کے دل میں بھی آپؓ کے لئے کوئی بوجھ نہ تھا آپؓ انہیں زاہدِ امت سمجھتے تھے اور ان کی درویشانہ اور زاہدانہ زندگی کے قدر داں تھے اگر آپؓ ان کے بارے میں ذرہ بھی بوجھ رکھتے تو ان کی وفات کے بعد آپؓ ان کی اولادوں کے ساتھ کبھی حُسن سلوک نہ فرماتے جب سیدنا عثمانؓ کو سیدنا ابوذرؓ کی وفات کی خبر ملی تو آپؓ نے ان کے لئے دعائے رحمت و مغفرت فرمائی اور خود ربذہ تشریف لے گئے اور ان کے اہلُ و عیال کو لے کر آئے اور اپنے پاس رکھا اور ان سے بہترین سلوک فرمایا تھا:
فقال يرحم الله أبا ذرؓ ويغفر له نزوله الربذة ولما صدر خرج فأخذ طريق الربذة فضم عياله الى عياله وتوجه نحو المدينة (تاریخ طبرى جلد 5 صفحہ 314)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ بھی سیدنا عثمانؓ کے اختلافات رہے مگر آپؓ نے کبھی سیدنا عثمانؓ کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کی جس سے ان کی ذات یا ان کی خلافت زیر بحث آتی ہو آپؓ ان ختلافات کے باوجود ان کا ادب و احترام کرتے تھے کوفہ کے کچھ لوگوں نے چاہا کہ اس اختلاف سے فائدہ اٹھایا جائے اور سیدنا عثمانؓ کو بدنام کیا جائے وہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہمیں پتہ چلا کہ آپؓ کو سیدنا عثمانؓ نے مدینہ بلایا ہے آپؓ نہ جائیں یہیں رہیں فکر نہ کریں ہم آپؓ کے ساتھ ہیں ہم آپؓ کا دفاع کریں گے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ سن کر کہا:
ان له على حق الطاعة وانها ستكون امور وفتن فلا احب ان اكون اول من فتحها فرد الناس وخرج اليه (اسدُ الغابة جلد 1 صفحہ387)۔
مجھ پر سیدنا عثمانؓ کی بات ماننی لازم ہے اور عنقریب بہت سے فتنے اور اختلافات اٹھیں گے میں نہیں چاہتا کہ میں ان اختلافات کا بانی ہو جاؤں آپؓ نے ان کی بات نہ مانی اور سیدنا عثمانؓ کے پاس مدینہ آگئے اب آپؓ کے پہلے کے جو بھی اختلافات رہے وہ سب ختم ہوگئے تھے اگر ان میں سے کوئی ایک اختلاف بھی ان کے درمیان وجہ بعد ہوتا تو آپ ہی انصاف کریں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ آپؓ کے بلانے پر کبھی مدینہ تشریف لاتے؟ نہیں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے مرضُ الوفات میں سیدنا عثمانؓ آپؓ کی عیادت کو آتے رہے ایک مرتبہ آپؓ نے پوچھا کیا تکلیف ہے کہا کہ میرے گناہ پوچھا کیا چاہتے ہیں کہا اپنے رب کی رحمت چاہتا ہوں پھر آپؓ نے کہا کہ اگر آپؓ کو کچھ چاہئے تو بھجوا دوں کہا کہ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں سیدنا عثمانؓ نے فرمایا کہ آپؓ کی صاحبزادیوں کے کام آئے گا سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا میں نے اپنی بچیوں کو سورہ واقعہ سکھا دیا ہے اور اس کے پڑھتے رہنے کی تاکید کی ہے کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جس نے رات کو سورہ واقعہ کی تلاوت کا معمول بنالیا الله اسے فقر و فاقہ کی آفت سے بچائے گا (اسد الغابۃ جلد3 صفحہ387)۔
تاہم سیدنا عثمانؓ کے اصرار پر آپؓ نے سیدنا زبیرؓ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ سیدنا عثمانؓ سے میرا سالانہ وظیفہ لے آنا چنانچہ سیدنا زبیرؓ وصیت کے مطابق سیدنا عثمانؓ کے پاس آئے اور سیدنا عثمانؓ نے ان کے بال بچوں کے لئے ان کا جمع شدہ سارا وظیفہ دے دیا جو تقریبا بیس پچیس ہزار درہم تھا (طبقات ابنِ سعد جلد 3 صفحہ 119)۔
اور سیدنا زبیرؓ نے وہ رقم ان کے ورثاء تک پہنچا دی تھی (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 387)۔
سو اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ آخر دم تک سیدنا عثمانؓ کو تمام مسلمانوں سے افضل و برتر سمجھتے تھے اور کبھی ان کے ادب و احترام میں پیچھے نہ رہے اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ پر یہ الزام کہ آپؓ نے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو محبوس رکھا تھا اور ان کے ساتھ زیادتی کی تھی بالکل جھوٹ ہے۔