سیدنا عثمان غنیؓ پر قرآن جلانے کا الزام
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدنا عثمان غنیؓ پر قرآن جلانے کا الزام
سیدنا عثمانِ غنیؓ نے جب قرآن جمع کرنے کا کام پورا کر لیا تو آپؓ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ان کے پاس جو قرآن ہیں وہ جلا دو کیا ان کا قرآن کو جلانا جائز تھا ؟
الجواب:
سیدنا عثمانِ غنیؓ اور ان کی قرآنی خدمات کے ذیل میں ہم یہ بات تفصیل سے بیان کر آۓ ہیں کہ جب جمع قرآن کا کام مکمل ہوگیا اور ایک ہی مصحف پر سب جمع ہوگئے تو آپؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ کے بعد یہ طے فرمایا کہ جن لوگوں کے پاس قرآن مختلف قراتوں اور لغات (یا تفسیری نوٹ) کے ساتھ الگ الگ اوراق میں موجود ہیں اب ان کی ضرورت نہیں رہی اس لئے انہیں پانی سے دھو کر مٹا دیا جائے اور اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر انہیں نذرِ آتش کر لیا جائے یہ صرف آپؓ کی رائے نہ تھی سیدنا علی المرتضیٰؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپؓ سے متفق تھے اور اس باب میں ان کا آپؓ سے کوئی اختلاف نہ تھا اگر بات اختلاف کی ہوتی تو وہ ضرور کھل کر سامنے آتی سیدنا علی المرتضیؓؓ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں سیدنا عثمانِ غنیؓ کی جگہ والی حکومت ہوتا تو میں بھی وہی کام کرتا جو انہوں نے کیا ہے۔
لا تقولوا فی عثمانؓ الا خيرا فوالله ما فعل الذی فعل فی المصاحف الا عن ملأ منا (فتح الباری جلد 9 صفحہ 22 عمدۃ جلد 20صفحہ 18 الاتقان جلد 1صفحہ 160)۔
سیدنا عثمانِ غنیؓ کے متعلق سوائے کلمہ خیر کے اور کوئی بات نہ کہو خدا کی قسم انہوں نے مصاحف کے سلسلے میں جو کام کیا وہ ہمارے مشورہ اور ہمارے سامنے کیا ہے آپؓ کا ارشاد ہے:
رحم الله عثمانؓ لقد صنع فی المصاحف شيئا لووليت الذی ولى قبل ان يفعل فی المصاحف ما فعل لفعلت كما فعل
(تاریخِ دمشق ابنِ عساکر جلد 16 صفحہ 172)۔
لو وليت مثل ما ولی لفعلت بالمصاحف الذی فعل
(البدایہ جلد 7 صفحہ 218)
اگر میں حکمران ہوتا تو میں بھی مصاحف کے متعلق وہی کچھ کرتا جو سیدنا عثمانِ غنیؓ نے کیا ہے۔
سوید بن غفلۃ کہتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے مجھ سے کہا کہ اگر سیدنا عثمانِ غنیؓ ایسا نہ کرتے تو میں اسے کرتا لو لم يصنعه هو لصنعته (البدايه جلد 7صفحہ 218)۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ اس وقت جو اوراقِ منتشرہ مختلف علاقوں میں موجود ہیں اور ہر علاقہ کے لوگ اپنی اپنی لغات اور زبان کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو خطرہ ہے کہ اس سے امت ایک بڑے اختلاف کا شکار ہو جائے گی اور آئندہ ہر گھر سے کہیں ایک نیا قرآن نہ نکل آئے اور دوسری لغات پر پڑھے جانے والے قرآن کی تکفیر و تضلیل نہ شروع کر دی جائے اللہ تعالیٰ نے ان سب کے دلوں پر اپنی بات اتاری اور سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا اور پھر سیدنا عثمانِ غنیؓ نے اس بات کا حکم فرما دیا ہم نے یہ بات اس صورت میں لکھی ہے کہ روایت یحرق (ح) کے ساتھ ملے صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں (خ) کے ساتھ ہے محدث شیر حافظ ابنِ حجرؒ (852 ھ) اور محدث جلیل حافظ عینیؒ ( 855 ھ) نے اسی کو زیادہ ثابت کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا عثمانِ غنیؓ نے سب سے پہلے ان لفظوں کو کھرچنے اور صاف کرنے کا حکم دیا اگر اس کے بعد بھی کوئی چیز رہ گئی ہو تو پھر اسے نذرِ آتش کرنے کی ہدایت کی تاکہ امت فتنہ و اختلاف سے محفوظ رہے۔
قاضی ابوبكر بن العربی المالکیؒ (543 ھ) لکھتے ہیں:
واما ماروى انه حرقها أو خرقها بالحاء المھملة أو الخاء المعجمة وكلاهما جائز اذا كان في بقائها فساد أو كان فيها ما ليس من القرآن أو ما نسخ منه أو على غير نظمه وقد سلم في ذلك الصحابةؓ كلهم
(العواصم من القواصم صفحہ 83)۔
یہ جو روایت کیا گیا ہے کہ آپؓ نے اسے جلانے کا حکم دیا یا اسے کھرچنے کا حکم فرمایا سو دونوں جائز ہیں جبکہ اس کے باقی رہ جانے میں کسی فساد کا خطرہ ہو یا اس میں وہ الفاظ ہوں جو قرآن کے نہیں یاوہ ہیں جو منسوخ ہو چکے ہیں یاوہ صحیح طریقے پر مرتب نہیں اور آپؓ کی اس بات سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتفاق کیا قدوة المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد مہاجر مدنی قدس سرهؒ (1346ھ) شیعہ عالم مولوی عمار علی کے الزام کا جواب دیتے ہوئے تمام علماء شیعہ سے اس طرح سوال کرتے ہیں کیا فرماتے ہیں علماء امامیہ اثناء عشریہ اس صورت میں کہ ایک شخص نے ایسی حالت میں کہ اس کے نزدیک قرآن شریف میں کلمات تفسیر بھی لکھے ہوئے تھے اصل قرآن کو ان سے جدا کر کے جمع و تالیف کیا اور بعد جمع و تالیف کے اس کو تمام اطراف واکناف عالم میں شائع کیا اور اس کو موافقین و مخالفین نے بلا اعتراض صحیح قرآن تسلیم بھی کیا پھر اس شخص نے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ وہ قرآن جو بمنزلہ مسودہ کے تھا اور جس میں کلمات تفسیر درج تھی مبادا ظاہر ہو کر باعث اختلاف ونزاع امت ہو اس کو جلادیا تو یہ شخص ماجور ہے یا آثم ہے اگر آثم ہے تو کس گناہ کا مرتکب ہوا بينوا بالدلائل الشرعية توجروا
(ہدایات الرشید الی افحام العنيد صفحہ 638)۔
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مہاجر مدنیؒ کے اس سوال کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر ابھی تک کسی شیعہ عالم کو ہمت نہ ہوسکی کہ وہ دلائل کے ساتھ حضرت مرحوم کے اس سوال کا جواب دیں
نوٹ:
حضرت اقدسؒ کی مذکورہ کتاب آٹھ سو سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں شیعہ علماء کے تمام بڑے اعتراضات کا نہایت محققانہ جائزہ لیا گیا ہے چاچڑاں شریف کے بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید چشتی مرحومؒ نے اس کتاب کو بہت پسند فرمایا تھا آپ نے حضرت محدث مرحوم کے نام ایک تائیدی خط بھی ارسال کیا جو اس کتاب کے آخر میں مطبوع ہے۔