سیدنا عثمانِ غنیؓ نے خائن لوگوں کو بڑے عہدے دیے تھے؟
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدنا عثمانِ غنیؓ نے خائن لوگوں کو بڑے عہدے دیے تھے؟
سیدنا عثمانِ غنیؓ نے جن لوگوں کو مختلف علاقوں پر امیر بنایا وہ خائن تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کا ارتکاب کیا تھا؟
الجواب:
سیدنا عثمانِ غنیؓ پر یہ الزام کے آپؓ نے خائن لوگوں کو مسلمانوں پر امیر بنایا تھا ہرگز صحیح نہیں ہے سیدنا عثمانِ غنیؓ کا جن کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ ملکی اور انتظامی معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں اور ان امور کو چلانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں تو آپ دیگر صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے مشورے کے بعد انہیں اس علاقہ کا منتظم اور امیر بناتے تھے اور آپؓ انہیں بھیجنے سے پہلے اس بات کی بھی تحقیق کر لیتے تھے کہ وہ پہلے کہیں کسی خرابی میں تو ملوث نہیں رہے ہیں۔ان سب کے باوجود اگر کہیں سے کسی کی خیانت کی اطلاع ملتی تو آپ اس کی تحقیق کرتے اور خبر درست ہونے کی صورت میں فوراً اسے معزول کر دیتے مسند المند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (1239) لکھتے ہیں:
امام کی ذمہ داری ہے کہ جس کو جس کام کا اہل سمجھے اس کو وہی کام سپرد کرے امام کے لیے علمِ غیب رکھنے کی شرط شیعوں کے ہاں ہے اہلِ سنت کے ہاں نہیں اور نہ ہی کوئی اور طبقہ و طائفہ اس کا قائل ہے اور ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے حُسن ظن رکھنا بھی اسلامی شعار ہے سیدنا عثمانِ غنیؓ نے یہی کیا انہوں نے جس کو کام کا آدمی سمجھا اس کے سپرد وہی کام کیا ہے جس کو اپنے حُسن و ظن سے امین عادل مطیع و اطاعت شعار پایا اسی کو امور حکومت سپرد کیے اہلِ سنت کے نزدیک نہ تو سیدنا عثمانؓ خلیفہ شہید معصوم تھے نہ ان کے عمال و حکام بےخطا وہ بھی ان سازشیوں اور غوغا آرائی کرنے والوں کی طرح انسان تھے اگر کوئی عامل و حاکم خائن یا بد دیانت نکلا اس نے ظلم و ستم روا رکھا تو اس میں سیدنا عثمانؓ کا کیا قصور جب کہ ان سے متعلق شکایات آپؓ نے کبھی نظر انداز بھی نہیں کی جب کسی شکایت کی تحقیق کے بعد ثابت ہوا کہ شکایت درست ہے تو آپؓ نے متعلقہ فرد سے باز پرس بھی کی اور اس کو معزول بھی فرمایا (تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 590)۔
مفسرِ قرآن حضرت مولانا قاضی ثناء الله پانی پتیؒ (1225 ھ) لکھتے ہیں سیدنا عثمانِ غنیؓ علم غیب نہیں رکھتے تھے جس شخص کو جس کام کے لائق سمجھا اس کے ذمے حکومت کے کام سپرد کیے اگر ان میں سے کسی فرد سے کوئی خیانت ظاہر ہوگئی اسے معزول کر دیا۔ والمره انما يعرف عند المعاملة (سیف مسلول صفحہ 327)۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے کبھی کسی خائن یا ظالم کو کوئی عہدہ نہ دیا تھا ہاں اگر آپ نے ان خیانتوں اور ظلم و زیادتیوں کے باوجود کسی کو اپنے عہدوں پر برقرار رکھا تو پھر آپؓ پر یہ اعتراض درست ہے اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص سیدنا عثمانِ غنیؓ کو نشانہ تنقید بنائے تو پھر اسے یہ بھی بتانا پڑے گا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عُمال اور ان کے دور کے عہد دار اور ان کے قریبی رشتے دار کیا کسی جرمُ و زیادتی میں ملوث نہ پائے گئے اگر سیدنا عثمانِ غنیؓ محض اس لیے لائق و تنقید و تعزیز ہیں کے ان کے دور میں بعض عُمال کسی گناہ کے مجرم تھے تو سیدنا علی المرتضیٰؓ بدرجہ اولیٰ اس گناہ کے مرتب سمجھے جائیں گے خود آپؓ نے اس کا اعتراض بھی کیا تھا کہ آپؓ نے جنہیں والی بنایا تھا وہ دھوکہ مکر اور خیانت کے جرم میں مرتکب ہوئے ہم یہاں اس کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں نہج البلاغہ میں آپؓ کا ایک خط آپؓ کے ایک قریبی عزیز کے نام ملتا ہے آپؓ اس خط کی ابتدا سے انہیں جرائم کا مرتب کہتے چلے جا رہے ہیں آپ لکھتے ہیں:
اما بعد فانی اشركتك في امانتی وجعلتك شعاری و بطانتی ولم يكن فی اھلى رجل اوثق منك في نفسي لمواساتی وموازرتی واداء الأمانة إلى فلما رايت الزمان على ابن عمك فيه كلب والعدو قد حرب وامانة الناس قد خربت وهذه الأمة قد فتكت شغرت قلبت لابن عمك ظهر المجن ففارقته مع الفارقين وخذلته مع الخاذلین وخنته مع الخائنين وكانک انما تكيد هذه الأمة عن دنياهم وتنوى غرتهم عن فيهم فلما امكنتك الشدة فی خيانة الأمة اسرعت الكرة وعاجلت الوثبة واختطفت ما قدرت عليه من أموالهم المصونة لاراملهم وایتامهم اختطاف الذئب الازل دامية المعزی الكبيرة فحملته إلى الحجاز وحیب الصدر بحملہ غير متاثم من اخذہ كانک لا ابا لغيرك حدرت إلى أهلك تراثك من ابيك وامك فسبحان الله اما تومن بالمعاد او ماتخاف نقاش الحساب ايها المعدود كان عندنا من ذوى الألباب كيف تسيخ شرابا وطعاما وانت تعلم انك تاكل حراما وتشرب حراما وتبتاع الاماء وتنكح النساء من مال اليتامى والمساكين والمؤمنين المجاهدين الذين افاء الله عليهم هذه الأموال واحرز بهم هذه البلاد فاتق الله واردد الى ھؤلاء القوم اموالهم (نہج البلاغہ صفحہ 947 مع فیض الاسلام ایران خط نمبر 41)۔
ترجمہ: میں نے تمہیں اپنی امانت میں شریک کیا میں نے تجھے اپنا اوڑھنا بچھؤنا بنایا میں نے تمہیں میرے اہلُ و عیال میں غم خواری رفاقت اور امانت داری میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد سمجھا لیکن جب تم نے میرا برا وقت دیکھا اور دشمن کو مادہ پیکار پایا اور لوگوں کی امانت داری خیانت میں بدل گئی اور یہ امت خون ریزی میں ڈوب گئی تو تم منہ پھاڑ کر رہ گے اور عین غم کے وقت تو اس کو دھوکہ دے گیا اور دوسروں کی طرح تم نے بھی اسے چھوڑ دیا تو بھی خیانت کرنے والوں کا خیانت میں ساتھی بن گیا گویا تو مکرو فریب سے دنیا کمانا چاہتا ہے اور دھوکہ سے امت کے خزانے اڑانے کے چکر میں ہے جب حالات نے تجھے خیانت کا موقع دیا تھا تو اس پر جھپٹ پڑا اور بےصبر ہو کر ان کا مال جس قدر لے سکتا تھا لے بیٹھا یہ وہ مال تھا جو امت کی بیواؤں اور یتیموں کے لیے محفوظ رکھا گیا تھا جس طرح بدحال بھیڑیا خون آلود ہڈی ٹوٹی ہوئی بکری کو لے بھاگتا ہے اب تم وہ مال سمیٹ کر حجاز کو نکل گیا اور اسے یوں اٹھائے ہوئے ہیں گویا اس کے لینے میں تو نے کوئی گناہ نہیں کیا تیرا باپ مرے گویا وہ تیرا جوڑا ہوا مال تھا یا تجھے اپنے ماں باپ کا کوئی ورثہ ملا تھا کیا تو آخرت سے بے خوف ہوگیا ہے اور حساب لکھنے والے فرشتوں کا تجھے کوئی خوف نہیں رہا تو تو میرے نزدیک عقلمند تھا تیرے حلق سے کس طرح لقمہ اترتا ہے جب کہ تو جانتا ہے کہ حرام کھا رہا ہے اور حرام پی رہا ہے یتیموں مسکینوں مومنوں مجاہدین کو الله نے جو مال دیا تھا اور جن کی خاطر اس نے ان شہروں کو سرسبز کیا تھا اس مال سے تو لونڈیاں خرید رہا ہے عورتوں سے شادیاں رچا رہا ہے الله سے ڈر اور حق داروں کا مال واپس لوٹا۔
نہجُ البلاغہ میں موجود سیدنا علی المرتضیٰؓ کے اس خط سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ نے جنہیں عہدہ دیا تھا انہوں نے پھر آپؓ سے کوئی وفا کی نہ مسلمانوں کا کوئی لحاظ کیا سیدنا علی المرتضیٰؓ کے بقول بیتُ المال کو انہوں نے اپنی ذاتی جائیداد سمجھا اور مسلمانوں کے مال میں خیانت کا ارتقاب کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ہم سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اس کا مجرم سمجھیں کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو کس طرح عہدہ دیا جس نے مسلمانوں کے مال سے اس طرح کھلواڑ کیا تھا؟ شیعہ علماء ہمیں یہ جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش نہ کریں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اس کا پتہ اس وقت چلا جب انہوں نے ایسے کام کیے تھے اگر انہیں پہلے سے اس بات کا علم ہوتا تو اپ ایسے لوگوں کو کبھی عہدہ نہ دیتے عرض ہے کہ یہ بات اہلِ سنت تو کہہ سکتے ہیں شیعہ علماء نہیں کیونکہ ان کے عقیدہ میں سیدنا علی المرتضیٰؓ علم غیب رکھتے تھے اور "ماکان و مایکون" سےپوری طرح با خبر تھے (اس عقیدہ پر ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں) سیدنا علی المرتضیٰؓ نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایسا کریں گے اور وہ مسلمانوں کے مال میں خیانت کریں گے انہیں عہدہ دیا اب صرف آپ کا عہدے دار مجرم نہیں اس عطا سے خود سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ذات بھی نشانہ میں آجاتی ہے۔
جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ آپؓ کا یہ خط پہلے دور کے خلیفہ کے کسی عامل کے نام تھا آپؓ کے عامل ایسے نہ تھے انہیں چاہیے کہ وہ نہجُ البلاغہ میں اس خط کا عنوان ہی ملاحظہ کر لیں "ومن کتاب له علیہ السلام الی بعض عماله" نہجُ البلاغہ کے معروف شارح سید علی نقی اس پر لکھتے ہیں۔
ازنامہ ہائے آنحضرت علیہ السلام است ہیکےازکار قدر کہ اور ابر اثر پیمان شکنی و خورون از بیت المال سرزنش نمودہ است (نہج البلاغۃ صفحہ 949)۔
ترجمہ: یہ صرف ایک خط اور عہدیدار کی بات نہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے دیگر عمال بھی اس قسم کی خیانت اور زیادتیوں میں ملوث ہوئے ہیں اور آپؓ نے ان کی سرزنش بھی کی تھی منزر بن جاردو کی جب خیانت اور چوری ظاہر ہوئی تو آپ نے انہیں بھی ایک خط لکھا تھا (دیکھیے تحفہ صفحہ 593)۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے تو اس شخص کو بھی عہدہ دیا تھا جو شیعہ عقیدے اور بیانات کے مطابق ولدُ الزنا تھا آپؓ نے اس سے بھی امیر بنا دیا اور ایک فاسد کے پیچھے لوگوں کو نماز پڑھنے اور خطبات جمعہ سننے پر مجبور کر رکھا تھا فارس وشیراز کا گورنر ابن زیاد کو کیا سیدنا عثمانِ غنیؓ نے مقرر کیا تھا؟ شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہؒ (728ھ) لکھتے ہیں:
اگر یہ کہا جائے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عُمال نے سیدنا عثمانِ غنیؓ کے عُمال کی بانسبت زیادہ خیانتیں کیں اور ان کی نافرمانیاں کیں ہیں تو غلط نہ ہوگا اور لوگوں نے اس پر کتابیں لکھیں اور بتایا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جن کو عہدے دیے تھے انہوں نے کس طرح آپؓ کی نافرمانی کی اور وہ خیانتوں کے مرتکب ہوئے اور کون کون انہیں چھوڑ کر کاتبِ قرآن سیدنا معاویہؓ سے جا ملے؟
ان يقال نواب على خانوه و عصوه أكثر مما خان عمال عثمانؓ له وعصوه وقد صنف الناس كتبا فيمن ولاہ على فاخذ المال وخانه وفیمن تركه وذهب إلى معاويةؓ وقد ولى علىؓ زياد بن ابی سفیان ابا عبيد الله بن زياد قاتل الحسينؓ وولى الأشتر النخعی وولی محمد بن ابی بکر وامثال هولاء (منہاج السنۃ جلد6 صفحہ 184)۔
ترجمہ: ان حقائق کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص سیدنا عثمانِ غنیؓ کو نشانہ طعن بناتا ہے اور آپؓ کے متعلق بدزبانی کرتا ہے تو اس کا زہر براہِ راست سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ذاتِ گرامی قدر پر گرتا ہے معلوم نہیں شیعہ علماء کو بار بار سیدنا علی المرتضیٰؓ کو ہدف تنقید بنانے میں کیا لذت ملتی ہے۔ (استغفر اللّٰه العظیم)