Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ولید بن عقبہؓ کو عہدہ دینے پر اعتراض کا جواب

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

سیدنا ولید بن عقبہؓ کو عہدہ دینے پر اعتراض کا جواب

سیدنا ولید بن عقبہؓ سیدنا عثمانِ غنیؓ کے قریبی عزیز تھے آپؓ نے انہیں بھی بڑا عہدہ دیا حالانکہ آپؓ اچھے آدمی نہ تھے؟۔

 الجواب:

سیدنا ولید بن عقبہؓ حضورﷺ کے صحابی ہیں آپؓ فتحِ مکہ کے وقت اسلام لائے تھے حضورﷺ نے انہیں قبیلہ مصطلق کے صدقات کی وصولی پر مقرر فرمایا سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دور میں بھی انہیں قبیلہ بنی قضاة کے صدقات وصول کرنے پر مقرر فرمایا تھا اور آپؓ کی جنگی خدمات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا آپؓ سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں بھی اسی عہدہ پر رہے اور قبیلہ بنی تغلب کے صدقات وصول فرماتے تھے آپؓ کو سیدنا عمرؓ نے تقریباً پانچ سال تک الجزیرہ کا امیر بنایا اور آپؓ نے اس خوش اسلوبی کے ساتھ وہاں فرائض انجام دئے کے عوام و خواص سب آپؓ سے خوش تھے سیدنا عثمانِ غنیؓ کے دورِ خلافت میں کوفہ میں مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ اور سپہ سالار سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کے درمیان ایک معاملہ پر تنازع پیدا ہوگیا اور ان کے معتقدین دو گروپ میں بٹ گئے سیدنا عثمانِ غنیؓ نے سپہ سالار سیدنا سعدؓ کو معزول کر دیا اور ان کی جگہ سیدنا ولید بن عقبہؓ کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا تا کہ مسلمانوں کا اجتماع برقرار رہے آپؓ نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اس ذمہ داری کو سنبھالا مگر کوفہ کے سازشی نہیں چاہتے تھے کہ یہاں سیدنا عثمانِ غنیؓ کی خلافت کامیاب ہو وہ کسی نہ کسی بہانے سے سیدنا عثمانِ غنیؓ اور ان کے عُمال کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے رہے انہی دنوں چند شر پسند عناصر نے ایک شخص کو اس کے گھر میں داخل ہو کر قتل کر دیا حضورﷺ کے صحابی سیدنا ابو شریح خزاعیؓ اور ان کے لڑکے نے قاتلوں کو دیکھ لیا اور انہوں نے گواہی دی چنانچہ قاتل قصاص میں مارے گئے اس سے اہلِ کوفہ سیدنا ولید بن عقبہؓ کے خلاف ہوگئے اس دوران ایک دو اور واقعات ظہور میں آئے اور انہوں نے چاہا کہ اس آڑ میں سیدنا ولید بن عقبہؓ کو بدنام کریں اور علاقے میں فتنہ و فساد کو خوب ہوا دیں مگر اس میں بھی کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے پھر ایک سازش کے ذریعے سیدنا ولید بن عقبہؓ کی انگوٹھی چرا لی اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کی خدمت میں آکر کہا کہ ہم یہ انگوٹھی ان سے اس حالت میں اتار کر لائے کہ وہ شراب کے نشے میں دھت پڑے تھے تو سیدنا عثمانِ غنیؓ نے پوچھا کہ کوئی گواہ؟ انہوں نے وہیں اپنے دو گواہ بھی پیش کر دیئے سیدنا عثمانِ غنیؓ نے حکم دیا کہ انہیں اپنے عہدے سے معزول کر دیا جائے آپؓ نے ان کی جگہ کاتبِ وحی سیدنا سعید بن العاصؓ کو مقرر کر دیا (تاریخِ طبری جلد 4 صفحہ 271)۔ 

یہ پروگرام کس طرح ترتیب دیا گیا اسے دیکھیئے مؤرخ طبری لکھتے ہیں:

 اجتمع نفر من اهل الکوفة فعملوا فی عزل الولید فانتدب ابو زینب بن عوف ابو مورع بن الاسدی  للشھادۃ علیه (طبری جلد 5 صفحہ 61)۔

اہلِ کوفہ کی ایک جماعت ایک جگہ جمع ہوئی اور انہوں نے سیدنا ولیدؓ کو معزول کرنے کا پروگرام بنایا اور موقع پاکر ان میں سے ایک نے آپؓ کی مہر والی انگوٹھی چرا لی اور نکل بھاگے فتناول احدھما خاتمه ثم خرجا الخ۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیدنا ولیدؓ کی شراب نوشی کا قصہ حقیقت نہیں ایک سازش تھی جو سیدنا ولیدؓ کے مخالفین نے اپنی پے در پے ناکامیوں کی بناء پر ان کے خلاف کی اس کے پیچھے وہ لوگ تھے جن کے ایک قاتل کو قصاص میں آپؓ نے قتل کیا تھا۔

وهم یحقدون مذ قتل ابنائهم و یضعون له العیوب (تاریخِ طبری جلد 5)۔

حافظ ابنِ کثیر نے بھی یہی بات لکھی ہے کان بینھم و بینه شنان (البدایہ جلد 7صفحہ 155)۔

انہوں نے سیدنا ولیدؓ سے بدلہ لینے کے لیے ان کے خلاف یہ سازش رچائی اور انہیں اپنے عہدے سے برخاست کرا کے چھوڑا سیدنا عثمانِ غنیؓ نے انہیں اپنے پاس بلایا اور اس بارے میں ان سے تفتیش کی تو انہوں نے قسم کھا کر اس امر کی نفی فرمائی اور آپؓ کو بتایا کہ اس سازش کے محرک کون لوگ ہیں کاتبِ وحی سیدنا سعید بن العاصؓ نے بھی اسے مخالفین کی سازش قرار دیا تاہم وہ لوگ چونکہ دو گواہ لے آئے تھے آپؓ نے اس گواہی پر ان پر حد جاری کرنے کا حکم دیا اور آپؓ نے سیدنا ولیدؓ سے فرمایا:

نقيم الحدود ويبرء مشاهد الزور بالنار فاصبر اخى۔

 ہم حد لگائیں گے اور جھوٹے گواہ دوزخ کی سزا بھگتیں گے میرے بھائی دنیا کی اس معمولی تکلیف پر صبر کرنا۔ 

آپؓ نے کاتبِ وحی سیدنا سعید بن عاصؓ سے فرمایا کہ تم حد جاری کرو ہم تک جو چیز پہنچی ہے ہم اس کے مطابق عمل کریں گے جس نے کسی پر زیادتی کی ہے اللہ تعالیٰ خود اس کے بدلے میں اس سے نمٹ لے گا اور مظلوم کو اس کی جزا دے گا (طبری جلد 4 صفحہ 267)۔ 

اس میں سیدنا عثمانِ غنیؓ نے یہ بات کھول دی کہ سیدنا ولیدؓ پر جو جرم عائد کیا جا رہا ہے یہ درست نہیں یہ سازش معلوم ہوتی ہے مگر چونکہ اسلامی قانون کے تقاضے پورے کرنے تھے اس لیے آپؓ نے حد لگانے کا حکم دیا اور انہیں صبر کرنے کی ہدایت کی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سیدنا ولیدؓ مجرم نہ تھے تو آپؓ کو سزا نہ دینی چاہئیے تھی اس کا جواب ہم دے چکے ہیں کہ چونکہ قانونی کارروائی پوری کرنی تھی اس لئے آپؓ نے اس پر عمل کیا ہم آئے دن عدالتوں میں جھوٹے گواہوں کے بیانات پر مجرم کو چھوٹتے اور بےگناہ کو سزا پاتے دیکھتے ہیں جج حضرات یہ جاننے کے باوجود کہ جس پر فردِ جرم عائد کیا گیا ہے وہ مجرم ہے یا بےگناہ قانونی تقاضے پورے ہونے پر فیصلہ کر دیتے ہیں اور سزائیں جاری کر دی جاتی ہیں عدالت کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اسے کیا علم ہے اور کیا نہیں؟ جج حضرات صرف شہادتوں پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی روشنی میں فیصلہ کر دیتے ہیں کیا چرب زبانی سے مقدمات کے غلط فیصلے حاصل نہیں کئے جاتے؟۔

ایک مرتبہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ایک زرہ چوری ہوگئی آپؓ نے اسے ایک یہودی کے پاس دیکھا اور قاضی کے پاس دعویٰ کردیا سیدنا علی المرتضیٰؓ اس مقدمہ میں گواہ نہ لاسکے قاضی شریح نے آپؓ کا دعویٰ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور زرہ یہودی کے پاس ہی رہنے دی (خلافت و ملوکیت صفحہ 96)۔

سوال: یہ ہے کہ کیا قاضی شریح سیدنا علی المرتضیٰؓ کے مقابلے میں یہودی کو سچا سمجھتے تھے؟ نہیں آپؓ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی بات اس لئے مسترد کردی کہ آپؓ قانونی تقاضے پورے نہ کر پائے تھے ٹھیک اسی طرح سیدنا عثمانِ غنیؓ کو معلوم تھا اور اس کے قرائن بھی موجود تھے کہ کوفہ کے سازشی سیدنا ولیدؓ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور انہیں اپنے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں اس لئے وہ یہ جھوٹ بنا لائے مگر چونکہ وہ قانونی تقاضے پورے کر رہے تھے آپؓ نے ان کو معزول کردیا اور ان پر سزا بھی نافذ کی۔

رہی یہ بات کہ آپؓ نے ان پر حد جاری کرنے میں کیوں توقف کیا تھا تو عرض یہ ہے کہ آپؓ کا توقف کرنا اس لئے نہیں تھا کہ آپؓ انہیں بچانا چاہتے تھے بلکہ حقیقتِ حال معلوم کرنے کی غرض سے توقف فرمایا کہ اگر وہ مجرم نہ ہوں تو ایک بے گناہ پر سزا کیوں جاری کی جائے ہاں جب گواہی دی گئی تو آپؓ نے پھر سزا نافذ کرنے میں کوئی توقف نہ کیا اور ان پر حد لگائی گئی شیخُ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ (728ھ) لکھتے ہیں جو شخص معزول ہونے کا مستحق ہوتا آپؓ اسے ضرور معزول کر دیتے اور جو سزا کا مستحق ہوتا اس پر سزا بھی جاری کرتے تھے اس میں آپ کسی کی کوئی رعایت نہ کرتے تھے۔

 وكان يعزل من يراه مستحقا للعزل ويقيم الحد على من يراه مستحقا لإقامة الحد عليه (منہاجُ السنہ جلد 6 صفحہ 241)۔ 

جن لوگوں نے سیدنا ولیدؓ کے خلاف گواہی دی انہوں نے کیا کہا؟ ان کا بیان یہ تھا کہ سیدنا ولید بن عقبہؓ نے شراب پی اور حالت نشہ میں نماز کی امامت کی اہلِ کوفہ نے فجر کی دو رکعت کے بجائے چار رکعات پڑھیں پھر آپؓ ان کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا کیا میں نے نماز زیادہ پڑھا دی ہے۔

یہاں چند سوالات حل طلب ہیں سیدنا ولیدؓ جب نماز کی امامت کے لئے آئے تو ان میں سے کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ شراب پئے ہوئے ہیں؟ موجودہ دور میں شراب نے گو کتنی ہی مشینی ترقی کیوں نہ کر لی ہو آس پاس اس کی بدبو پہنچ جاتی ہے مگر حیرت ہے ان میں سے کسی کو بھی یہ پتہ نہ چلا کہ آپؓ شراب پی کر آرہے ہیں آپؓ اس قدر نشہ میں تھے کہ دو اور چار میں تمیز تک نہ کر سکے اور نماز فجر بڑے اطمینان کے ساتھ دو کے بجائے چار پڑھالی معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کے سب مقتدی بھی اسی حال سے دو چار تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی تیسری رکعت پر سبحان اللہ نہ کہا اور امام کے ساتھ وہ بھی خوشی خوشی دو کے بجائے چار رکعات پڑھنے لگے نیز یہ بات بھی کہیں نہیں ملتی کہ سیدنا ولیدؓ نے دوبارہ فجر کی دو رکعت پڑھائی یا انہیں گھر بھیج دیا گیا اور کسی دوسرے نے نماز فجر کی دوبارہ امامت کرائی تھی دن کے شروع حصے میں یہ واقعہ پیش آجائے اور تاریخ اس کی تفصیل پیش کرنے سے قاصر ہو تو پتہ چلتا ہے کہ آپؓ پر شراب نوشی کا صرف الزام تھا حقیقت نہیں۔ 

سیدنا عثمانِ غنیؓ نے معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر آپؓ کو معزول کردیا اور جب دونوں فریق آپؓ کے پاس آئے تو آپؓ نے الزام لگانے والوں سے پوچھا:

اتشهد انكما رايتماه يشرب فقالا لا قال فكيف قالا اعتصرنا من لحيته وهو يقىء الخمر (ابنِ اثير جلد 3 صفحہ 106)۔

کیا تم دونوں نے انہیں شراب پیتے دیکھا ہے انہوں نے کہا نہیں آپؓ نے پوچھا کے تم نے ان پر یہ الزام کیوں لگایا؟ کہنے لگے ہم نے اس کی داڑھی سے شراب کے قطرے نچوڑے ہیں اور اس نے شراب کی قے بھی کی۔

مؤرخ طبری نے بھی یہ بات نقل کی ہے کہ ان دونوں نے کہا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں شراب پیتے نہیں دیکھا ہے تاہم وہ بڑے ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں غلط گواہی میں ہم پکڑے نہ جائیں (طبری جلد 5 صفحہ 60)۔

پورے اہلِ کوفہ میں سے یہ دو شخص تھے جنہوں نے آپؓ کے خلاف گواہی دی چونکہ گواہی کا اصول پورا ہورہا تھا اس لئے آپؓ کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راہ نہ تھی کہ انہیں بےگناہ سمجھنے کے باوجود ان پر حد جاری کریں اس سے آپؓ خود اندازہ کر لیں کہ سیدنا ولید بن عقبہؓ پر لگایا گیا الزام کس قدر درست ہوسکتا ہے؟۔

معروف مصری فاضل شیخ محمد خضری بک (انسپکٹر تعلیمات اسلامیہ مصر) لکھتے ہیں:

 اگر تم ان اتہامات میں غور کرو تو اس میں کوئی بھی امر ایسا نہیں ہے جو آپؓ کے دامن کو داغدار کردے آپؓ نے کسی امر میں حدود سے تجاوز نہیں کیا تھا (ترجمہ اتمامُ الوفاء صفحہ 264)۔