سیدنا عثمانؓ نے سیدنا ولید بن عقبہؓ کو کوفہ کا عہدہ کیوں دیا؟ کیا آپؓ پر فسق کا الزام نہیں؟
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدنا عثمانؓ نے سیدنا ولید بن عقبہؓ کو کوفہ کا عہدہ کیوں دیا؟ کیا آپؓ پر فسق کا الزام نہیں؟
الجواب:
آیت نمبر (6) میں جس واقعہ کے متعلق مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے اس میں قطیعت کے ساتھ سیدنا ولید بن عقبہؓ کو فاسق بتانا درست نہیں ہے جن تفسیری روایات میں آپؓ کا نام ملتا ہے وہ تمام روایت اسنادِ اضعف سے خالی نہیں ان روایات کے تمام طرق بتاتے ہیں کہ کوئی روایت بھی فنی طور پر اس پائے کی نہیں کہ اس کی رو سے ایک صحابی پر انگلی اٹھائی جاسکے یہ روایت مرسل ہیں یا ان میں کوئی ایسا راوی ہے جسے علماء جرح و تعدیل نے ضعیف بتایا ہے حافظ ابنِ کثیرؒ نے باوجود اس لکھنے کہ اس آیت میں سیدنا ولید بن عقبہؓ کا واقعہ ذکر ہے ساتھ ہی ابنِ جریر طبری کی روایت بھی نقل کی جس میں رجل کے الفاظ ملتے ہیں گویا یہ کوئی غیر معروف شخص تھا جس سے یہ عمل سرزد ہوا تھا نہ کہ سیدنا ولیدؓ اس جرم کے مجرم تھے۔
نیز یہ بات بھی لائقِ غور ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں انہیں ایک اسلامی لشکر کا امیر بنایا گیا کیا یہ حکم قرآن کے خلاف نہ تھا؟ جب فاسق کی امامت مکروہ ٹھہری تو اسے ایک اسلامی لشکر کا امیر بنا دینا کہاں کی دانش مندی تھی اور سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ ایک صوبہ کے گورنر تھے اور ایک بڑا عہدہ آپؓ کے پاس تھا اگر سورۃ حجرات میں بیان ہونے والے واقعے میں قطعی طور پر سیدنا ولیدؓ ہوتے تو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کس طرح اتنے اعلیٰ مناصب پر فائز کرتے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو ان سے بہتر ہوتا پھر یہ سوچئے کہ ان کی تقرری کے موقع پر سیدنا علی المرتضیؓ یا کسی دوسرے صحابی نے یہ کہا کہ قرآن نے تو انہیں فاسق کہا ہے آپؓ انہیں ان اہم عہدوں پر فائز کر رہے ہیں؟ مولانا ابو الاعلی مودودی تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا ولیدؓ شیخین کریمینؓ کے دور میں عامل رہے ہیں موصوف لکھتے ہیں: سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے انہیں پھر خدمت کا موقع دیا اور سیدنا عمرؓ کے آخری زمانہ میں وہ الجزیرہ کے عرب علاقے پر جہاں قبیلہ بنی تغلب رہتے تھے عامل مقرر کئے گئے (خلافت و ملوکیت صفحہ 112)۔
ندوةُ العلماء لکھنؤ کے سابق مہتمم مولانا محمد اسحاق صاحب مرحوم سندیلویؒ لکھتے ہیں:
سیدنا ولیدؓ کو کسی شخص نے راستے میں مل کر یہ خبر سنائی کہ بنی المصطلق باغی ہوگئے ہیں وہ تمہارے قتل کے درپے ہیں اس سے انہیں خوف پیدا ہوا اور وہ واپس آگئے اس جھوٹے مخبر کو جس نے سیدنا ولیدؓ کو غلط خبر دی ہے قرآن میں فاسق کہا گیا ہے نہ کہ سیدنا ولید بن عقبہؓ کو انہوں نے جو خبر سنی وہ بارگاہِ رسالتﷺ میں پہنچائی ان کا زیادہ سے زیادہ قصور یہ تھا کہ انہوں نے ایک فاسق کی خبر پر اعتماد کر لیا یہ نہ کوئی فسق ہے نہ معصیت خدارا کوئی بتائے یہ غلطی کس دلیل سے تقویٰ و دینداری اور دیانت داری کے خلاف ہے اور دنیا میں کون سا منصف مزاج اس کی بناء پر کسی کو مجروح قرار دے گا۔
خود قرآنِ کریم کی آیت پڑھئے تو اس کا صاف اشارہ اسی حقیقتِ حال کی طرف معلوم ہوگا اسی روایت میں ہے کہ جب سیدنا ولیدؓ نے جناب آنحضرتﷺ کو یہ خبر دی توحضورﷺ کو غصہ آیا اور آپﷺ نے ان کی طرف ایک لشکر بھیج دیا۔
"فغضب رسول اللہﷺ و بعث البعث الی الحارثؓ"۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر سے متاثر خود سرورِ کائناتﷺ ہوئے تھے اور انہوں نے بنی المصطلق کے خلاف اقدام کا ارادہ بھی فرمایا تھا اب کسی کے زعم میں باطل میں آیت میں نباء (خبر) سے مراد وہ خبر ہوتی جو سیدنا ولیدؓ نے دی تھی اور فاسق سے مراد معاذاللہ وہی ہوتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بجائے آیت میں خطاب آنحضرتﷺ کو ہوتا اور یایھا الذین آمنو" کی بجائے "یایھا النبی" کے الفاظ ہوتے لیکن خطاب ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی صحابی نے کسی فاسق کی خبر پر اعتبار کر لیا ہے اس پر تنبیہ فرمائی جا رہی ہے روایت پر نظر کرتے ہوئے یہ معنیٰ اسی وقت مستقیم ہوسکتے ہیں جب یہ مانا جائے کہ سیدنا ولیدؓ نے کسی فاسق کی خبر پر اعتماد کر لیا تھا خود سیدنا ولیدؓ کو اس کا مصداق سمجھنا بتاتا ہے کہ یہ لوگ نہ قرآنِ پاک کی آیت کو سمجھے نہ اس روایت کو۔
حافظ ابنِ کثیرؒ نے جو روایت طبری سے نقل کی ہے اس میں مذکور ہے:
وانہ لما حدث الولیدؓ انھم خرجوا یتلقونہ رجع الولیدؓ (تفسیر ابنِ کثیر جلد 4 صفحہ 209)۔
اور جب سیدنا ولیدؓ سے بیان کیا گیا کہ وہ (بنی المصطلق) ان سے ملنے کے لیے نکلے ہیں تو وہ واپس ہو گئے۔
اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے نکلنے کی خبر کسی نے انہیں دی ہے ظاہر ہے کہ اگر یہ اطلاع ان تک صحیح صورت میں پہنچتی اور مخبر یہ بیان کرتا کہ وہ لوگ ان کے اکرام اور استقبال کے لئے نکلے ہیں تو وہ خائف کیوں ہوتے؟ اور واپس کیوں ہو جاتے اس سے صاف ثابت ہے کہ کسی منافق نے دور اندازی کی اور سیدنا ولیدؓ کو غلط خبر دے کر واپس کر دیا (تجدیدِ سبائیت صفحہ 208)۔
شیخُ الاسلام حافظ ابنِ قیم خیلیؒ (751 ھ) لکھتے ہیں کہ یہ شخص جس نے سیدنا ولیدؓ کو دھوکہ میں ڈالا وہ شیطان تھا۔
فحدثه الشيطان انهم يريدون قتله فهابهم (مدارجُ السالكين جلد1 صفحہ 360)۔
شیطان نے اسے بتایا کہ یہ لوگ تمہیں قتل کرنے کی نیت سے آرہے ہیں یہ بات صرف حافظ علامہ حافظ ابنِ قیمؒ نہیں کہتے تفسیر طبری تفسیر حافظ ابنِ کثیرؒ تفسیر بغوی (جلد 2 صفحہ 212) اور تفسیر خازن میں بھی میں بات بیان ہوئی ہے اس سے بھی سیدنا ولیدؓ پر لگائے جانے والے الزام کی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے شیعہ عالم علامہ طبری نے مجمعُ البیان میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس موقع پر اتری جب کسی نے حضورﷺ کو سیدہ ماریہؓ کے بارے میں ایک غلط خبر پہنچائی تھی اور حضورﷺ نے اس خبر کی رو سے اس شخص کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے سیدنا علیؓ کو بھیج بھی دیا تھا دیکھئے (تفسیر مجمعُ البیان جلد 5 صفحہ123)۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ پر لگائے جانے والے اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں کہ آپؓ نے ایک غلط کار شخص کو کوفہ کا گورنر بنا دیا تھا سچ یہ ہے کہ سیدنا عثمانؓ ہی نہیں سیدنا ولید بن عقبہؓ کا دامن بھی ان الزامات سے بری ہے۔