سیدنا مروان بن حکمؓ کی جلا وطنی کا قصہ
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدنا مروان بن حکمؓ کی جلا وطنی کا قصہ
سوال: سیدنا عثمانؓ نے اپنا سیکرٹری سیدنا مروانؓ کو کیوں بنایا جبکہ حضورﷺ نے انہیں بھی جلاء وطن کیا تھا؟
الجواب:
سیدنا مروان بن الحکمؓ حضورﷺ کی وفات کے وقت آٹھ سال کے بچے تھے شیعہ عالم محمد ہاشم خراسانی نے منتخبُ التواریخ میں بتایا ہے کہ ان کی پیدائش 2 ہجری میں ہوئی تھی (دیکھیۓ کتاب مذکور صفحہ 145) آپؓ حسنین کریمینؓ کے ہم عمر تھے محدثین کا بیان ہے کہ انہیں رویتِ نبویﷺ اور سماع دونوں کی سعادت ملی ہے جبکہ بعض حضرات کے ہاں ان کا سماع ثابت نہیں (سیر اعلام النبلاء) حافظ ابنِ کثیر کا بیان ہے: کہ اکثر علماء کے ہاں آپؓ صحابی کی فہرست میں شامل ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں علم میں کمال عطا فرمایا تھا ان کے دورِ گورنری میں جب بھی کوئی اہم مقدمہ اور مسئلہ پیش آتا تو آپؓ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے ان سے مشورہ فرماتے اور جس پر ان سب کا اتفاق ہوتا آپؓ وہی فیصلہ کرتے تھے (البدایہ جلد 8 صفحہ 258)۔
سیدنا معاویہؓ انہیں کتاب اللہ کا قاری اللہ کے دین کا فقیہ اور حدود اللہ قائم کرنےمیں مضبوط کہا ہے (ایضاً)۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی (852 ھ) نے آپؓ کو رجال بخاری میں شمار کیا ہے جبکہ موطا امام مالک موطاء امام محمد مصنف عبد الرزاق مسند احمد میں آپؓ کے کئی فیصلے اور فتاویٰ پائے جاتے ہیں امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں: کہ سیدنا مروانؓ کے پاس جو مقدمات آتے تھے آپؓ سیدنا عمر فاروقؓ کے فیصلوں کی روشنی میں اسکا فیصلہ کیا کرتے تھے "و كان يتتبع قضايا عمر بن الخطابؓ" (البدايه جلد 8 صفحہ 260)۔
اس سے آپؓ کی علمی جلالت اور فقہی عظمت کا پتہ چلتا ہے آپؓ کچھ عرصہ بحرین کے علاقہ پر حاکم رہے
(تاریخِ خلیفہ جلد 1 صفحہ 159)۔
اور افریقہ کی جنگ کے لئے جانے والے لشکر میں بھی آپؓ شریک تھے (کتابُ البیان صفحہ3)۔
محدث شہیر علامہ ظفر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ سیدنا مروانؓ حدیث میں متہم نہ تھے سہل بن ساعدی نے صدق پر اعتماد کر کے ان سے روایت کی ہے اور وہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ سیدنا علی بن الحسینؓ (سیدنا زین العابدینؓ) اور سیدنا عروہ بن زبیرؓ و سیدنا ابوبکر بن عبد الرحمٰنؓ بن حارث اور سیدنا سعید بن مسیبؓ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ اور مجاہد اور ابی سفیان مولیٰ بن ابی احمد نے ان سے روایت کی ہے رضی اللہ عنہم اور وہ سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ و سیدنا علیؓ اور زید بن ثابت ابو ہریرہ اور بسرہ بنت صفوان عبد الرحمٰن بن الاسود سے روایت کرتے ہیں اور رسول اللہﷺ سے بھی مرسلاً روایت کی ہے (براتِ سیدنا عثمانؓ صفحہ 43)۔
سلیمان بن یسار سہل بن سعد عامر بن عبداللہ عراک بن مالک بھی آپں کے تلمیذ ہیں آپؓ سے روایت کرنے والوں میں بڑے پایہ کے اہلِ علم اور فقہاء ہیں۔
اس بات کا شیعہ علماء کو بھی انکار نہ ہوگا کہ سیدنا زین العابدینؓ نے سیدنا مروانؓ سے روایت لیں ہیں سیدنا زین العابدینؓ حدیث میں سیدنا مروانؓ کے تلمیذ ہوئے ابنِ ابی حاتم رازی (327ھ) لکھتے ہیں:
روى مروانؓ عن عمرؓ وعثمانؓ وعلىؓ وروى عنه سہل بن سعد على بن الحسينؓ وعروة بن الزبيرؓ وابوبكر بن عبدالرحمٰنؓ (كتاب الجرح والتعدیل جلد 4 صفحہ 271)۔
حافظ ابنِ تیمیه حنبلیؒ (728 ھ) سیدنا مروانؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:
اخرج اهل الصحاح عدة احاديث عن مروان وله قول مع اهل الفتيا (منهاجُ السنة جلد 3 صفحہ 189)۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ (852ھ) لکھتے ہیں:
فانما حمل عنه سہل بن سعدؓ و عروة بن الزبيرؓ و على بن الحسينؓ و ابوبكر بن عبدالرحمٰنؓ بن الحارث وهؤلاء اخرج البخاری أحاديثهم عنه فی صحيحه (مقدمه فتحُ الباری جلد 2 صفحہ 164)۔
قاضی ابوبکر بن العربی المالکیؒ (543ھ) لکھتے ہیں:
مروانؓ رجل عدل من كبار الامة عند الصحابة والتابعين وفقهاء المسلمين أما الصحابة فان سہل بن سعد الساعدی روى عنه واما التابعون فاصحابه فی السنن وإن كان جازهم باسم الصحبة فی احدالقولين وأما فقهاء الامصار فكلهم على تعظيمه وإعتبار خلافه والتفت الى فتواه والانقياد إلى روايته وأما السفهاء من المؤرخين والادباء فيقولون على أقدراهم (العواصم صفحہ102)۔
سیدنا مروانؓ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعینؒ اور فقہاء اسلام کے ہاں عادل اور ثقہ شخص ہیں۔
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعینؒ نے ان سے روایت کی ہے اور سب فقہاء ان کی جلالت اور عظمت کے قائل ہیں اور اس کے خلاف کا اعتبار نہیں کرتے اور ان کے فتاویٰ کی طرف التفات کرتے ہیں اور ان کی روایت قبول کرتے ہیں جبکہ بے وزن مؤرخین اور بے وقعت ادیب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان پر کلام کرتے ہیں۔
(نوٹ) سیدنا زین العابدینؓ سے آپ کی روایت صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 212 سنن نسائی جلد 2صفحہ 13
سنن دارمی جلد 2 صفحہ96 اور مسند احمد جلد 1 صفحہ 153 پر موجود ہیں۔
اب ذرا سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ساتھ ان کی رشتہ داریاں بھی ملاحظہ کریں۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ایک صاحبزادی رملہ کا دوسرا نکاح سیدنا مروانؓ کے لڑکے معاویہ کے ساتھ ہوا تھا (کتاب نسب قریش صفحہ 45)۔
سیدنا حسنؓ کی پوتی زینب سیدنا مروانؓ کے بیٹے عبد الملک کے نکاح میں تھی (ایضاً صفحہ 52)۔
وزینب را عبد الملک بن مروان کا بین بست (ناسخُ التواریخ جلد 2 صفحہ 336)۔
سیدنا حسنؓ کی پوتی (سیدنا زید بن حسن کی) صاحبزادی نفیسہ کی شادی سیدنا مروانؓ کے پوتے ولید بن عبدالملک کے ساتھ ہوئی تھی اور ان کے ہاں اولاد بھی ہوئی سیدنا حسنؓ کے بیٹے سیدنا زید اکثر ان کے ہاں آتے جاتے تھے اور آپ ان کا بڑا احترام بھی کرتے تھے سید جمال الدین شیعی (828) لکھتے ہیں کہ:
ووهب له ثلاثين الف دينار دفعة واحدة (عمدةُ الطالب صفحہ 70 منتهی الامال جلد 1 صفحہ 244 ناسخُ التواریخ جلد 2 صفحہ 279)۔
ایک مرتبہ ولید نے انہیں (یعنی زید بن حسن کو) تیس ہزار دینار یک مشت دیئے تھے سیدنا مروانؓ کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس سے کیجئے کہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ان کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے رہے ہیں اور ان کے اہلِ بیت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے تھے سیدنا جعفر اپنے والد سیدنا باقر سے روایت کرتے ہیں:
كان الحسنؓ والحسينؓ يصليان خلف مروان بن الحكم فقالوا لاحدهما ما كان ابوك يصلى اذا رجع الى البيت فقال لا والله ما كان يزيد على الصلوة (بحارُ الانوار جلد 44 صفحہ 123)۔
حسنین کریمینؓ سیدنا مروانؓ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپؓ کے والد سیدنا علیؓ گھر جا کر نماز دہرا لیتے تھے؟ انہوں نے کہا نہیں وہ اس پڑھی گئی نماز پر زیادتی نہ کرتے تھے (یعنی آپ نے کبھی یہ نماز گھر آکر نہ دہرائی) اب اہلِ بیت کے نماز جنازہ پڑھانے کی روایت بھی دیکھیں سیدنا باقر کہتے ہیں: کہ جب سیدنا علیؓ کی صاحبزادی امکلثوم کا انتقال ہوا تو سیدنا مروان بن الحکمؓ بھی جنازہ کے ہمراہ تھے۔
عبداللہ بن جعفر حمیری قمعی شیعی لکھتے ہیں:
وهو امير يومئذ على المدينة فقال الحسين عليه السلام لولا السنةما تركته يصلى عليها (قرب الاسناد صفحہ 210 )۔
ان دنوں سیدنا مروانؓ مدینہ کا گورنر تھا سیدنا حسینؓ نے اس وقت فرمایا کہ اگر وہ رسول اللہﷺ کی یہ سنت نہ ہوتی کہ خلیفہ یا اس کا گورنر ہی نماز پڑھائے تو میں انہیں نماز جنازہ پڑھانے نہ دیتا (مگر چونکہ حکم یہی ہے اسلئے وہی پڑھائیں گے) شیعہ کی کسی کتاب میں یہ نہیں ملتا کہ سیدنا حسینؓ نے اپنی بہن کی نماز جنازہ دوبارہ پڑھی تھی یا گھر اگر انہوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی۔
یہ صرف سیدنا زیدؓ کی بات نہیں سیدنا حسینؓ کے صاحبزادے سیدنا زین العابدینؓ کے بھی سیدنا مروان بن حکمؓ کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات رہے ہیں سیدنا مروانؓ ان کے خیر خواہ تھے ایک مرتبہ سیدنا مروانؓ نے آپ سے شادی کے بارے میں بات کی اور کہا کہ اس سے آپ کے ہاں اولاد کی کثرت ہوگی تو انہوں نے اپنے حالات کی مجبوری کا ذکر کیا۔
فاقرضه مائة الف فاشترى له السواری فولدت له وكثر نسله ثم لما مرض مروانؓ اوصىٰ ان لا يوخذ من على ابن الحسين شئى مما كان اقرضه فجميع الحسينين من نسله رحمه الله (البدایہ جلد 9 صفحہ 105)۔
سیدنا مروانؓ نے پھر انہیں ایک لاکھ درہم بطورِ قرض بھجوا دیئے اس سے انہوں نے ایک لونڈی خریدی اس سے اللہ نے آپ کو اولاد دی اور آپ کی نسل بہت پھیلی جب سیدنا مروانؓ بیمار ہوا تو اس نے وصیت کی کہ میں نے جو رقم بطورِ قرض انہیں دی تھی وہ ان سے واپس نہ لینا تمام حسینی سیدنا زین العابدینؓ کی اولاد ہیں چنانچہ سیدنا مروانؓ کے بیٹے عبدالملک نے آپ کو اپنے والد کا پیغام پہنچایا مگر آپ دینے پر اصرار کرتے رہے عبدالملک کے بار بار اصرار پر وہ راضی ہوگئے اور وہ پھر آپ نے درہم واپس نہیں کئے۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ سیدنا مروانؓ کے اہلِ بیت کے ساتھ بڑے اچھے اور گہرے تعلقات رہے ہیں اور دونوں خاندانوں کے درمیان رشتہ داری بھی تھی اگر اہلِ بیتِ نبوت کو معلوم ہوتا کہ حضورﷺ سیدنا مروانؓ سے خوش نہ تھے اور یہ سیدنا عثمانؓ کے بڑے قریبی رشتہ دار ہیں نیز ان کے دور میں وہ مسلمانوں کے مال پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں (معاذ اللہ) تو آپ ہی بتائیں کیا سیدنا حسنؓ کی اولاد اور سیدنا حسینؓ کے صاحبزادے ان کے ساتھ محبانہ تعلقات رکھتے؟ اور ان کے ساتھ رشتہ داری میں آتے یہ واقعات بتاتے ہیں کہ سیدنا مروانؓ کے بارے میں پھیلائے گئے الزامات غلط ہیں محض سیدنا عثمانؓ کو بد نام کرنے کے لئے اس قسم کے واقعات وضع کئے گئے ہیں۔