Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا مروانؓ کو افریقہ کا خُمس دینے کی حقیقت

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

 سیدنا مروانؓ کو افریقہ کا خُمس دینے کی حقیقت

 جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے انہیں افریقہ کا سارا خُمس کا مال محض اس لئے بخش دیا تھا کہ وہ اِن کے قریبی رشتہ دار تھے تو یہ بات صحیح نہیں سیدنا عثمانؓ کے بارے میں یہ تصور دینا کہ وہ بیتُ المال کو اپنے رشتہ داروں کے لئے کُھلا رکھتے تھے کہ جس کا جو چاہے لے لے اور آپؓ جس کو جو چائیں دے دیں ایک نہایت خوفناک اور بھیانک الزام ہے سیدنا عثمانؓ نے سیدنا مروانؓ کو خُمس کا مال بخشنے اور اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے عطیات دینے کی بات سب سے پہلے کہاں سے اٹھی؟ واقدی سے اور مؤرخ واقدی کا حال دیکھئے سیرتُ النبیﷺ کے مصنف علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

واقدی کی لغو بیانی مسلمہ عام ہے اور اس لئے ان کی شہرت بدنامی کی شہرت ہے (سیرت النبیﷺ جلد 1 صفحہ 23)۔

علامہ شبلی کی بات نا مانیں کہ وہ کہیں کے سیدنا عثمانؓ کے وکیل صفائی نہ ہوں امام احمدؒ اور امام ابنِ معین امام ابوحاتم اور امام نسائی کی بات تو مان لیں یہ سب واقدی کو باتیں گھڑنے والا بتاتے ہیں ناقد فنِ رجال امام شمس الدین ذہبی (748 ھ) لکھتے ہیں: 

 قال أحمد بن حنبل هو كذاب يقلب الاحاديث قال ابن معين ليس بثقة قال البخارى متروك قال ابو حاتم و النسائى يضع الحديث (میزانُ الاعتدال جلد 3 صفحہ 110)۔

دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق مہتمم مولانا محمد اسحاق سندیلوی مرحومؒ لکھتے ہیں (سیدنا مروانؓ کو خُمس کا مال بخشنے کی) روایت کا مدار طبری طبقات ابنِ سعد دونوں میں واقدی پر ہے جس کا کذاب اور وضاع ہونا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے بعد کی کتابوں میں یہ بات انہی دو کتابوں سے ماخوذ ہے یہاں بحث نفسِ روایت سے ہے جس پر راۓ کی بنیاد قائم ہے جب یہی ثابت نہیں تو ان کی یا کسی دوسرے کی راۓ رائی کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی واقعات محض راۓ سے ثابت نہیں ہوتے بلکہ روایت سے ثابت ہوتے ہیں علاوہ ازیں اس روایت میں سخت اضطراب بھی پایا جاتا ہے ابنِ اثیر سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے افریقہ کے مالِ غنیمت کا خُمس سیدنا مروانؓ کو دے دیا تھا مگر طبری اسی واقدی سے نقل کرتا ہے کہ جب ان لوگوں سے عبداللہ بن سعدؓ نے تین سو قنطار سونے پر صلح کی تھی تو سیدنا عثمانؓ نے یہ سب کا سب آلِ حکم کو ایک ہی دن میں دے دیا میں نے پوچھا کہ کیا سیدنا مروانؓ کو دیا تھا اس نے کہا میں نہیں جانتا (طبری) پھر طبقات میں اسی واقدی سے یہ روایت ملتی ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے سیدنا مروانؓ کے لئے مصر کا خُمس لکھ دیا تھا یہ تیسرا اختلاف و اضطراب ہے ایک جگہ افریقہ کا خُمس لکھتا ہے دوسری جگہ مصر کا آخر کس کی بات کا اعتبار کیا جاۓ؟ واقدی کا وضاع ہونا اس کے ساتھ روایت میں اختلاف و اضطراب اس حقیقت کو الم نشرح کر رہا ہے کہ سیدنا مروانؓ کو عطاۓ خُمس کا یہ پورا قصہ مَن گھڑت افسانہ اور جھوٹی کہانی ہے (تجدیدِ سبائیت صفحہ 238تا340)۔

قاضی ابوبکر ابنِ العربی المالکیؒ(543ھ) لکھتے ہیں:

اما اعطاؤه خمس افريقيه لواحد فلم يصح (العواصم من القواصم صفحہ 111)۔

 سیدنا عثمانؓ کا ایک آدمی کو افریقہ کا خُمس دینے کا قصہ صحیح نہیں ہے شیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیار البکریؒ (960 ھ) بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں:

واما طعنهم على عثمانؓ انه وهب خمس افريقيه لمروان بن الحكمؓ فهو غلط منهم (تاریخ الخمیس) ۔

 سیدنا عثمانؓ پر یہ اعتراض کہ انہوں نے غنائمِ افریقہ کا خُمس سیدنا مروانؓ کو دے دیا تھا ان کی غلط بیانی ہے

یہی نامور مؤرخ سیدنا عثمانؓ کے متعلق اس قسم کے جملہ اعتراضات کے متعلق اپنی کلی راۓ کا اس طرح اظہار کرتے ہیں:

واما ما ادعوه من اسرافه فی بيت المال فأكثر ماتقلده عنه مفترى عليه محتلق وماصح منه فعذره فيه واضح (ايضاً)۔

معترضین نے سیدنا عثمانؓ پر بیتُ المال میں اسرافِ صرف بےجا کا جو اعتراض کیا ہے اس کا یہ حال ہے کہ اس قسم کی اکثر روایتیں جو انہوں نے نقل کی ہیں ان پر محض افتراء اور بہتان ہیں اور وہ روایتیں مَن گھڑت ہیں (ایضاً صفحہ347)۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (1239ھ) لکھتے ہیں: 

سیدنا مروانؓ کو افریقہ کے خُمس کی بخشش کی داستان بھی جھوٹی اور سراسر افتراء ہے (تحفہ اثناعشریہ صفحہ 601)۔

اگر خدا نخواستہ سیدنا عثمانؓ نے انہیں غلط طریقے سے کسی چیز کا مالک بنا لیا تھا یا انہیں بیتُ المال سے بڑی دولت دے دی تھی یا خود سیدنا مروانؓ کسی ایسے جرم کے مرتکب ہوئے تھے جو شرافت و دیانت کے خلاف تھے تو آپ ہی بتائیں کہ حضراتِ ائمہ اہلِ بیت ان کی اس قدر عزت و احترام کیوں کرتے تھے؟ اور کیوں ان سے حدیث روایت کرنے کو پسند کرتے تھے؟ محدثین اور ائمہ اہلِ بیت کہ یہ واقعات سیدنا مروانؓ کی شرافت و دیانت اور ان کی جلالتِ علمی کا منہ بولتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے؟۔