Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا عثمانؓ پر منیٰ میں خلافِ سنت نماز ادا کرنے کا الزام

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

سیدنا عثمانؓ پر منیٰ میں خلافِ سنت نماز ادا کرنے کا الزام

سوال: حضورﷺ نے منیٰ میں قصر نماز ادا کی تھی مگر سیدنا عثمانؓ نے وہاں قصر کے بجاۓ پوری چار رکعتیں پڑھیں کیا یہ خلافِ سنت کام نہیں تھا؟۔

 *الجواب:

 سیدنا عثمانؓ نے حج کے موقع پر منیٰ میں دو کے بجائے جب چار رکعات نماز ادا کی تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپؓ سے اس کی وضاحت چاہی سیدنا عثمانؓ نے اس کے جواب میں فرمایا:

يا ايها الناس إنی تاهلت بمكة منذ قدمت والى رسول اللهﷺ يقول من تأهل ببلد فليطل صلوةالمقيم فيها (مسند احمد جلد 1 صفحہ 101)۔

 فلذلك صليت أربعا (مسند احمد طحاوی جلد 6 صفحہ 139)۔

اے لوگو میں نے یہاں مکہ میں شادی کر رکھی ہے اور یہاں میرے گھر والے رہتے ہیں اس لئے اب میں یہاں مقیم ہوں مسافر نہیں اور یہ بات میں نے رسول اللہﷺ سے سنی ہے جو شخص کسی شہر میں گھر بسالے وہ اس میں مقیم کی طرح نماز ادا کرے اس لئے میں نے چار رکعت ادا کی ہے۔

بعض علماء کا خیال ہے کہ آپؓ نے منیٰ میں پوری نماز اس لئے ادا کی تھی کہ اس سال دیہاتی لوگ ایک بڑی تعداد میں حج کے لئے آۓ تھے آپؓ نے انہیں چار رکعات نماز پڑھا کر یہ بتانا چاہا کہ نماز ظہر دو رکعت نہیں چار رکعات ہوتی ہیں امام زہریؒ یہی کہتے ہیں (سنن بیہقی جلد 3 صفحہ 44 المغنی جلد 2 صفحہ 286)۔

 جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپؓ کے نزدیک سفر میں قصر واجب نہیں ہے اور یہ مسافر کی صواب دید پر موقوف ہے تاہم بعد میں آپؓ نے سفر میں قصری نمازوں کا معمول بنالیا تھا (ایضاً)۔

 سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی نے آپؓ کے اس عمل پر کوئی اعتراض کرتے ہوۓ آپؓ کو برا بھلا کہا؟ نہیں۔ جب آپؓ نے کوئی عمل خلافِ سنت کیا ہی نہیں تو آپؓ کو مخالفِ سنت بتانا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟

 (2)۔ سیدنا عثمانؓ مجتہد تھے آپ کا قرآن کی آیت (فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلوة) کی روشنی میں یہ موقف تھا کہ سفر میں اکمال بھی جائز ہے اور قصر بھی۔

چنانچہ آپؓ نے سفر میں اکمال کیا قصر نہیں کیا اس باب میں امام مالکؒ امام احمدؒ اور امام شافعیؒ کا موقف بھی یہی ہے (سیفِ مسلول صفحہ 324) امام قاضی ابوبکر بن العربی المالکیؒ (543 ھ) لکھتے ہیں کہ اس بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف تھا کہ قصر کرے یا پوری نماز پڑھے (العواصم صفحہ 93)۔ 

 محمد بن یحییٰ اشعریؒ ( 741ھ) لکھتے ہیں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سیدنا سلمان فارسیؓ اور دوسرے چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سفر میں اکمال کے قائل رہے ہیں (التمہیدوالبیان فی مقتل الشہید عثمانؓ صفحہ 23)۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بھی اس موقع پر وہاں موجود تھے آپؓ کا موقف سیدنا عثمانؓ کے موقف سے مختلف تھا تاہم آپؓ نے ان کی مخالفت نہیں کی اس لئے کہ آپؓ کے نزدیک سیدنا عثمانؓ مجتہد تھے آپؓ سے کسی نے پوچھا تو فرمایا:

 لكن عثمانؓ أمام اؤ اخالفہ والخلاف شر (ازالةُ الخفاء جلد 4 صفحہ 384)۔

لیکن سیدنا عثمانؓ امام ہیں کیا میں ان کی مخالفت کروں اور ایسا کرنا شر ہے  

اس سے پتا چلتا ہے کہ آپؓ نے سیدنا عثمانؓ کو مجتہد سمجھا اور اسے شریعت کی کسی حد سے ٹکراؤ نہ جانا آپؓ غیر نبی کو امام کہنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے اور آپؓ یہ بھی جانتے تھے کہ مجتہد کے ہوتے ہوئے ان کے خلاف عمل کرنا اچھی روش نہیں ہے اس سے امت میں انتشار پیدا ہوتا ہے شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ:

 سیدنا عثمانؓ مجتہد تھے (المنتقی صفحہ 570)۔