Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام

  امام ابنِ تیمیہؒ

مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام 

[رافضی مصنف کا خیال ہے کہ اہل سنت و الجماعت عصمت انبیائے کرام علیہم السلام کے منکر ہیں ؛ اس عقیدہ پر رد]

[اعتراض]: رافضی مضمون نگار لکھتا ہے: امامیہ و اسماعیلیہ کے علاوہ دیگر اسلامی فرقوں کا نقطۂ نظریہ ہے کہ انبیاء و ائمہ غیر معصوم ہیں ۔ بنا بریں ان کے خیال میں ایک نبی کاذب و سارق اور سہو و نسیان کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ [نعوذ باللّٰہ من ذلک]۔توپھر عوام الناس کو ان کی باتوں پر کون سا اعتماد باقی رہ جائے گا؟ اور لوگ کیسے ان کی بات مانیں گے؟ نیز ان کے ماننے والوں پر انبیاء کی اتباع کیونکر واجب ہوگی جب کہ ان کے لیے غلط حکم دینے کو بھی جائز سمجھتے ہیں ؟ ۔نیز انہوں نے ائمہ کی تعداد مقرر نہیں کی؟بلکہ ان کے نزدیک جو بھی قریش کی بیعت کرے اس کی امامت و خلافت درست ہوگی۔ اور تمام مخلوق پر اس کی اطاعت واجب ہوجائے گی اگرچہ وہ مستور الحال ہی کیوں نہ ہو۔اور بھلے وہ کفر ؛ فسق اور نفاق کی حدوں کو چھوتا ہو ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔

[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : 

پہلی بات :....شیعہ مصنف نے جمہور کے متعلق جو ذکر کیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کو معصوم نہیں مانتے ؛ اور ان کے لیے خطاء ؛ جھوٹ ؛ اور چوری کے صادر ہونے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ:’’ یہ مسلک جمہور پر عظیم افترا ہے۔ خوارج کے ایک گروہ کے سوا مسلمانوں کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ انبیاء اللہ تعالیٰ کے احکام امر و نہی پہنچانے میں معصوم تھے اور ان کی اطاعت واجب ہے۔اور اس پر بھی تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس چیز کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں اس کی تصدیق کرنا واجب ہوجاتی ہے۔

جمہور کے نزدیک انبیاء سے صغائر کا صدور ممکن ہے تاہم وہ صغائر پر قائم نہیں رہتے۔

انبیائے کرام علیہم السلام جس بات کی خبر دیں ؛ باجماع مسلمین اس کی تصدیق کرنا واجب ہوتی ہے۔اور جس چیز کا حکم دیں اور جس چیز سے منع کریں اس میں ان کا حکم ماننا واجب ہوجاتا ہے۔اس پر تمام مسلمان فرقوں کا اتفاق ہے۔ سوائے خوارج کے ایک گروہ کے ۔وہ کہتے ہیں : ’’ نبی اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے میں معصوم ہوتا ہے ؛ اپنی طرف سے حکم دینے اور منع کرنے میں معصوم نہیں ہوتا۔ اہل سنت والجماعت کا اس فرقہ کے گمراہ ہونے پر اتفاق ہے۔

ہم اس سے پہلے کئی بار ذکر کرچکے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں سے کچھ لوگ کوئی غلط بات کہہ دیں تو ان کی اس غلطی کی وجہ سے تمام مسلمانوں پر قدح وارد نہیں ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر رافضیوں کی خطاؤوں کی مسلمانوں کے دین میں عیب سمجھا جاتا ۔ تمام فرقوں اور گروہوں میں رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹا اور خطأ کار فرقہ کوئی دوسرا نہیں ۔ مگر اس کے باوجود اس سےمسلمانوں پر کچھ ضرر نہیں آتا۔ ایسے ہی اگر رافضیوں کے علاوہ کوئی دوسرا خطا کار بھی ہو تو اس سے مسلمانوں کے دین میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اکثر لوگ ۔انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے۔ کبیرہ گناہ کو جائز نہیں سمجھتے ۔جمہور مسلمین جو کہ صغیرہ گناہ کے صدور کو جائز سمجھتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو ان غلطیوں پر مستمر نہیں رہنے دیا جاتا۔ [فوراً اللہ تعالیٰ اس پر آگاہ کردیتے ہیں ] ۔ نیز توبہ کرنے کی وجہ سے انہیں پہلی منزلت سے زیادہ عالیشان اور بڑی منزلت نصیب ہوتی۔جیسا کہ پہلے بیان گزر چکا ہے۔

خلاصہ کلام ! مسلمانوں میں کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ : ’’ خطأکے جواز کے ساتھ ان امور میں رسولوں کی اطاعت واجب ہے۔ بلکہ سب کا اتفاق ہے کہ صرف صحیح حکم میں ہی رسول کی اطاعت واجب ہے۔ پس رافضی کا یہ کہنا :’’ان کے ماننے والوں پر انبیاء کی اتباع کیونکر واجب ہوگی جب کہ ان کے لیے غلط حکم دینے کو بھی جائز سمجھتے ہیں ۔‘‘ امت میں سے کسی پر لازم نہیں آتا۔[اور نہ ہی کسی ایک کا یہ عقیدہ ہے۔]

اجتہادی مسائل میں انبیاء کرام علیہم السلام سے چوک ہوجانے کے مسئلہ میں لوگوں کے دو معروف قول ہیں :

۱۔ ان سب کا اتفاق ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو خطا پر باقی نہیں رہنے دیا جاتا ۔

۲۔ انبیاکرام علیہم السلام کی اطاعت ان امور میں ہوگی جن پر انہیں باقی رہنے دیا جائے ؛ ان امور میں نہیں ہوگی جن میں تبدیلی کردی جائے یا جن امور سے منع کردیا جائے ؛ اور ان امور میں بھی نہیں جن میں اطاعت کرنے کا حکم نہیں ملا۔

البتہ عصمت آئمہ کے بارے میں شیعہ مضمون نگار کا بیان درست ہے؛ اسماعیلیہ اور امامیہ کے علاوہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں ۔اور اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ امامیہ و اسماعیلیہ کے سوا مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ ائمہ کو معصوم قرار نہیں دیتا۔ اس دعویٰ عصمت کے بے بنیاد ہونے پر آپ کے لیے اتنی ہی گواہی کافی ہے کہ منافقین اور ملحدین؛ جن کے بڑے شیوخ یہودونصاری اور مشرکین سے بڑے کافرہیں ؛ان کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلہ میں ان کاساتھ نہیں دیا۔ یہ رافضیوں کی فطرت ثانیہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے اقوال و افعال؛ موالات اور قتال میں مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر یہود و نصاری اور مشرکین سے جاملتے ہیں ۔

کیا اس قوم سے بڑھ کر بھی کوئی گمراہ ہوگا جو مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین سے تو نفرت اور دشمنی کرتے ہیں ‘ مگر یہو دو نصاری او رمنافقین سے محبت کرتے اور دوستی رکھتے ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اَلَمْ تَرَ اِِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ مِنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ oاَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا اِِنَّہُمْ سَائَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ oاتَّخَذُوْا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ oلَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَا اَوْلَادُہُمْ مِّنْ اللّٰہِ شَیْئًااُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ oیَوْمَ یَبْعَثُہُمْ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہٗ کَمَا یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْئٍ اَ لَا اِِنَّہُمْ ہُمُ الْکَاذِبُوْنَoاسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمْ الشَّیْطَانُ فَاَنسَاہُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ حِزْبُ الشَّیْطَانِ اَ لَا اِِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ oاِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّونَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ فِی الَاذَلِّینَ oکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌoلَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیرَتَہُمْ اُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُوْلٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَ لَا اِِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ (المجادلۃ۱۳۔۲۲)

’’کیاآپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے ان لوگوں کو دوست بنا لیا جن پر اللہ غصے ہو گیا، وہ نہ تم سے ہیں اور نہ ان سے اور وہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں ، حالانکہ وہ جانتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے بہت سخت عذاب تیار کیا ہے، بے شک یہ لوگ جو کچھ کرتے رہے ہیں ، وہ بہت برا ہے ۔انھوں نے اپنی قسموں کو ایک طرح کی ڈھال بنا لیا، پس انھوں نے اللہ کی راہ سے روکا، سو ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ان کے اموال اللہ کے مقابلے میں ہرگز ان کے کسی کام نہ آئیں گے اور نہ ہی ان کی اولاد کام آئے گی۔ یہ لوگ آگ میں جانے والے ہیں ، اوراس میں ہمیشہ رہیں گے ۔جس دن اللہ ان سب کو اٹھا ئے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمھارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ بے شک وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں ، سن لو! یقیناً وہی اصل جھوٹے ہیں ۔شیطان ان پر غالب آگیا، سو اس نے انھیں اللہ کی یاد بھلا دی، یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں ۔ سن لو! یقیناً شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسو ل کی مخالفت کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ ذلیل ہونے والوں میں سے ہیں ۔اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، یقیناً اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے ۔آپ ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا ان کے بیٹے ،یا ان کے بھائی، یا ان کے اہل خاندان۔ یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اس نے ایمان لکھ دیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے اور انھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں ، یاد رکھو! یقیناً اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔‘‘

یہ آیات منافقین کے متعلق نازل ہوئیں ۔منافقین کی تعدادرافضیوں سے زیادہ کسی دوسرے گروہ میں نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ روافض میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس میں نفاق کا ایک شعبہ نہ پایا جاتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’ جس شخص میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو کہ اس میں منافق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی جب تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔جب عہد کرے تو توڑ ڈالے ۔جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے اور جب جھگڑا کرے تو آپے سے باہر ہو جائے۔‘‘ [صحیح مسلم:کتاب ایمان :باب منافق کی خصلتوں ....:ح۲۱۲]البخارِیِ ۱؍۱۲ ؛ ِکتاب الإِیمانِ باب علامِۃ النِفاقِ ۴؍۱۰۲؛ کتاب الجِزیِۃ والموادعِۃ، باب ِإثمِ من عاہد ثم غدر، سننِ أبِی داود ۴؍۳۰۵ ؛ کتاب السنۃِ، باب الدلِیلِ علی زِیادۃِ الإِیمانِ ونقصانِہِ۔]

نیزاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ oوَ لَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ النَّبِیِّ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْہُمْ اَوْلِیَآئَ وَ لٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ (المائدۃ۸۰۔۸۱)

’’ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں ، جو کچھ انہوں نے اپنے لئے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے کہ اللہ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے ۔ اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر؛ اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں اکژ لوگ فاسق ہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مریم ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ oکَانُوْا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا....﴾ [المائدۃ۷۸۔۸۰]۔

بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داد علیہ السلام اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی کرتے تھے یقیناً بہت برا تھا۔تو ان میں سے بہت سوں کو دیکھے گا وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جنھوں نے کفر کیا ....‘‘

غالب طور پر رافضی برائی سے منع نہیں کرتے ۔ بلکہ شیعہ کے علاقوں میں سب سے زیادہ جوروستم ‘ ظلم اور فحاشی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اور یہ ان کفار سے دوستی لگاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے۔ پس یہ لوگ نہ ہی مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں ا ور نہ ہی کفار کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿اَلَمْ تَرَی اِِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ مِنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ

(المجادلۃ ۱۳) 

’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے ان سے دوستی کی ان پر اللہ غضبناک ہو چکا ہے نہ یہ(منافق) تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں ۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ جمہور مسلمین انہیں ایک دوسری قوم شمار کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب ان کے ساتھ ان کے دیار میں جبال بلاد ساحل شام میں جنگ کی گئی؛ کیونکہ یہ [وہاں سے گزرنے والے] مسلمانوں کا خون بہاتے تھے ‘ اور ان کا مال و اسباب چھین لیتے؛ راہزنی کی وارداتیں کرتے؛ اور اسے وہ اپنے مذہب میں حلال سمجھتے تھے۔ ترکمان کے ایک گروہ نے ان سے جنگ کی ؛ تو یہ لوگ دہائیاں دینے لگے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ مگر انہوں نے کہا: نہیں تم کو ئی اور قوم ہو۔ ان لوگوں نے اپنے دلوں کی سلامتی کی وجہ سے سمجھ لیا تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے جداگانہ طور و اطوار رکھتے ہیں اس لیے یہ مسلمان نہیں ؛ بلکہ کوئی اور قوم ہیں ۔ [بھلے یہ لوگ اپنی زبانی اسلام اور مسلمان ہونے کا دعوی کرتے رہیں ](کیونکہ ان کی پہچان ہی جدا ہے) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (المجادلۃ:۱۳)

’’باوجود علم کے پھر بھی جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں ۔‘‘

رافضیوں کا یہی حال ہے۔ ایسی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اتَّخَذُوْا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ........لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ﴾ (المجادلۃ۱۶۔۲۲)

’’انھوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا لیا، پس انھوں نے اللہ کی راہ سے روکا ....آپ ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔‘‘

ان میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے مسلمانوں سے بڑھ کر کفار سے محبت و دوستی رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب مشرق کی طرف سے ترک کفار کا خروج ہوا ؛ اور انہوں نے بلاد خراسان عراق ‘ شام‘اور الجزیرہ وغیرہ میں مسلمانوں کا خون بہایا ‘ اور انہیں قتل کیا ۔تواس موقع پر رافضی مسلمانوں کے خلاف تاتاریوں کی مدد کر رہے تھے۔ حکومت بغداد کا وزیر ابن علقمی [شیعہ] اور اس جیسے دوسرے لوگ اس وقت میں مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے والے سب سے بڑے اور اہم ترین عنصر تھے۔ ایسے ہی جب عیسائیوں نے بلاد شام میں مسلمانوں سے جنگ چھیڑی تو اس وقت رافضی ان کے سب سے بڑے مدد گار تھے۔ اور جب یہودیوں نے بلاد شام میں یہودی سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی تو اس وقت رافضی ان کے سب سے بڑے حمایتی اور مدد گار تھے۔ رافضیوں کا ہمیشہ کے لیے وطیرہ رہاہے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے یہود و نصاری اور مشرکین کا ساتھ دیتے آئے ہیں ۔

[عصمت ائمہ کے بے دلیل دعویٰ]

باقیشیعہ مصنف نے جو ائمہ کے معصوم ہونے کا دعوی کیا ہے اور اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ سوائے اس کے کہ روافض کا یہ قول ہے ’’ یہ عالم ارضی ائمہ کے وجود سے کبھی خالی نہیں رہتا، کیونکہ کائنات ارضی کی بھلائی اور ان کے ساتھ مہربانی اسی میں مضمر ہے۔‘‘

ہم کہتے ہیں کہ:یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ شیعہ جس امام منتظر کے لیے زحمت انتظار میں ہیں اس کے وجود سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچااور نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی۔ خواہ ہماری طرح انہیں مردہ[معدوم] تصور کیا جائے ؛ جیسے جمہور کا مسلک ہے‘ یا شیعہ کی طرح انہیں زندہ قرار دیں ۔ اسی طرح امام غائب کے اجداد کے وجود سے بھی دنیا کو کوئی [ایسا]فائدہ حاصل نہیں ہوا، جس طرح یہ خاک دان ارضی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود سے ہجرت کے بعد نفع اندوز ہوا تھا ۔ اس لیے کہ آپ اس وقت مؤمنین کے امام تھے جن کی اطاعت واجب تھی۔ اسی وجہ سے سعادت حاصل ہوئی۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سعادت مہد کے بعددعوی عصمت کی سعادت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی۔

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں مسلمانوں کو جو سکون و آرام نصیب ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پر آشوب و تفرقہ دور خلافت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ۔امامیہ فرقہ والے جن ائمہ کے لیے معصوم ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان میں سے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛کسی بھی امام کی بیعت اہل حل و عقد نے نہیں کی ۔ اور آپ کے عہد مسعود میں مکلفین کے لیے جو دینی ودنیاوی لطف و مہربانی اور مصلحتیں حاصل ہوئیں ‘ وہ اس سے بہت کم تھیں جو آپ سے پہلے تین خلفاء کے دور میں حاصل ہوئیں ۔یہ بات ضرورت کے تحت سبھی لوگ جانتے ہیں کہ امامیہ فرقہ والے اپنے ائمہ معصومین کے ذریعہ جس لطف و مہربانی کا دعوی کرتے ہیں وہ قطعی طور پر باطل ہیں ۔

یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ لبنان کے پہاڑوں میں روپوش کسی مہدی پر ایمان رکھتے ہیں ‘ اور اس کے ذریعہ ہدایت حاصل ہونے کے دعویدار ہیں ۔ایسے ہی دعوے کچھ اورپہاڑوں کے متعلق بھی کیے جاتے ہیں ؛ جیسے : دمشق میں جبل قاسیون؛ اور مغارۃ الدم ؛ مصر میں جبل فتح ؛ اور اس طر ح کے دیگر پہاڑ اور غار۔ ایسے مقامات پر جنات بسیرا کرتے ہیں ۔اور وہاں پر شیاطین بھی ہوتے ہیں ۔کبھی کبھار یہ شیاطین اور جنات لوگوں کونظر بھی آجاتے ہیں ؛ جب کہ اکثر اوقات آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔جاہل لوگ انہیں [نیک ]انسان گمان کرنے لگتے ہیں ؛ حالانکہ وہ جنات ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِِنسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الجن فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ﴾ (الجن: ۶)

’’بیشک چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔‘‘

یہ لوگ ان رجال غیب پر اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنے والے گمراہ فرقوں کے مشائخ پر ایمان رکھتےہیں ۔ مگر وہ مشائخ جو کہ رجال غیب پر ایمان رکھتے ہیں ؛ ان کی وجہ سے اتنا فتنہ و فساد پیدا نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو امام معصوم کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اس امام کے ماننے والے ہر طرح سے کثرت کے ساتھ فتنہ و فساد کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ لوگ ایسے امام معصوم کی طرف دعوت دیتے ہیں [جس امام کی کوئی حقیقت نہیں ]۔ اور ان کے ہاں کوئی صاحب سیف و قوت حکمران نہیں پایا جاتا جس سے مدد حاصل کریں [اوروہ ان کی اصلاح کے کام کرے ] ؛ سوائے کچھ کفار و فجار اورفاسقین اور منافقین اور جہلاء کے۔ان کے سردار اور بڑے ان اصناف سے باہر نہیں ہوسکتے۔

اسماعیلیہ فرقہ کے لوگ ان میں سب سے زیادہ برے ہیں ۔ وہ [ظاہر میں ]تو امام معصوم کی طرف دعوت دیتے ہیں ‘ مگر حقیقت میں ان کی دعوت فاسقین اور منافقین کی طرف ہوتی ہے جو اپنے باطن میں یہود و نصاری سے بڑے کافر ہوتے ہیں ۔پس امام معصوم کی دعوت دینے والے حقیقت میں حاکم معصوم نہیں بلکہ ایسے کافر حکمرانوں کی طرف بلاتے ہیں جو کفر و ظلم میں انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں ۔یہ مسئلہ اتنا مشہور ہے کہ لوگ اپنے تجربات کی روشنی میں اسے اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا

’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو(رسول اللہ علیہ و سلم)کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹا، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جب تنازع پیدا ہو تو اللہ و رسول کی طرف رجوع کیا جائے اگر مسلمانوں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور بھی معصوم ہوتا تو اس کی طرف مراجعت کرنے کا حکم صادر کیا جانا ضروری تھا۔ پس قرآنی آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی دوسرا معصوم نہیں ہے۔