مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام
امام ابن تیمیہمسئلہ عصمتِ انبیاء علیہم السلام
(رافضی مصنف کا خیال ہے کہ اہلِ سنت والجماعت عصمت انبیائے کرام علیہم السلام کے منکر ہیں اس عقیدہ پر رد)
اعتراض:
رافضی مضمون نگار لکھتا ہے: امامیہ و اسماعیلیہ کے علاوہ دیگر اسلامی فرقوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام و ائمہ غیر معصوم ہیں۔ بنا بریں ان کے خیال میں ایک نبی کاذب و سارق اور سہو و نسیان کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
(نعوذ باللہ من ذلک)
تو پھر عوام الناس کو ان کی باتوں پر کون سا اعتماد باقی رہ جائے گا؟ اور لوگ کیسے ان کی بات مانیں گے؟ نیز ان کے ماننے والوں پر انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کیوں کر واجب ہو گی جب کہ ان کے لیے غلط حکم دینے کو بھی جائز سمجھتے ہیں؟ نیز انہوں نے ائمہ کی تعداد مقرر نہیں کی؟ بلکہ ان کے نزدیک جو بھی قریش کی بیعت کرے اس کی امامت و خلافت درست ہو گی۔ اور تمام مخلوق پر اس کی اطاعت واجب ہو جائے گی اگرچہ وہ مستور الحال ہی کیوں نہ ہو۔ اور بھلے وہ کفر فسق اور نفاق کی حدوں کو چھوتا ہو۔‘‘
(انتہیٰ کلام الرافضی)
جواب:
اس کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے:
پہلی بات: شیعہ مصنف نے جمہور کے متعلق جو ذکر کیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کو معصوم نہیں مانتے اور ان کے لیے خطاء جھوٹ اور چوری کے صادر ہونے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ: یہ مسلک جمہور پر عظیم افترا ہے۔ خوارج کے ایک گروہ کے سوا مسلمانوں کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے احکام امر و نہی پہنچانے میں معصوم تھے اور ان کی اطاعت واجب ہے۔ اور اس پر بھی تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس چیز کی خبر رسول اللہﷺ دے دیں اس کی تصدیق کرنا واجب ہو جاتی ہے۔
جمہور کے نزدیک انبیاء کرام علیہم السلام سے صغائر کا صدور ممکن ہے تاہم وہ صغائر پر قائم نہیں رہتے۔
انبیائے کرام علیہم السلام جس بات کی خبر دیں باجماع مسلمین اس کی تصدیق کرنا واجب ہوتی ہے۔اور جس چیز کا حکم دیں اور جس چیز سے منع کریں اس میں ان کا حکم ماننا واجب ہو جاتا ہے۔ اس پر تمام مسلمان فرقوں کا اتفاق ہے۔ سوائے خوارج کے ایک گروہ کے وہ کہتے ہیں: ’’نبی اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے میں معصوم ہوتا ہے اپنی طرف سے حکم دینے اور منع کرنے میں معصوم نہیں ہوتا۔ اہلِ سنت والجماعت کا اس فرقہ کے گمراہ ہونے پر اتفاق ہے۔
ہم اس سے پہلے کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں سے کچھ لوگ کوئی غلط بات کہہ دیں تو ان کی اس غلطی کی وجہ سے تمام مسلمانوں پر قدح وارد نہیں ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر رافضیوں کی خطاؤں کو مسلمانوں کے دین میں عیب سمجھا جاتا۔ تمام فرقوں اور گروہوں میں رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹا اور خطأ کار فرقہ کوئی دوسرا نہیں۔ مگر اس کے باوجود اس سے مسلمانوں پر کچھ ضرر نہیں آتا۔ ایسے ہی اگر رافضیوں کے علاوہ کوئی دوسرا خطا کار بھی ہو تو اس سے مسلمانوں کے دین میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اکثر لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے کبیرہ گناہ کو جائز نہیں سمجھتے۔ جمہور مسلمین جو کہ صغیرہ گناہ کے صدور کو جائز سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو ان غلطیوں پر مستمر نہیں رہنے دیا جاتا۔ (فوراً اللہ تعالیٰ اس پر آگاہ کر دیتے ہیں۔) نیز توبہ کرنے کی وجہ سے انہیں پہلی منزلت سے زیادہ عالیشان اور بڑی منزلت نصیب ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان گزر چکا ہے۔
خلاصہ کلام! مسلمانوں میں کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ: خطأ کے جواز کے ساتھ ان امور میں رسولوں کی اطاعت واجب ہے۔ بلکہ سب کا اتفاق ہے کہ صرف صحیح حکم میں ہی رسول کی اطاعت واجب ہے۔ پس رافضی کا یہ کہنا: ان کے ماننے والوں پر انبیاء علیہم السلام کی اتباع کیوں کر واجب ہو گی جب کہ ان کے لیے غلط حکم دینے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ امت میں سے کسی پر لازم نہیں آتا۔ (اور نہ ہی کسی ایک کا یہ عقیدہ ہے۔)
اجتہادی مسائل میں انبیاء کرام علیہم السلام سے چوک ہو جانے کے مسئلہ میں لوگوں کے دو معروف قول ہیں:
1: ان سب کا اتفاق ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو خطا پر باقی نہیں رہنے دیا جاتا۔
2: انبیاء کرام علیہم السلام کی اطاعت ان امور میں ہو گی جن پر انہیں باقی رہنے دیا جائے ان امور میں نہیں ہو گی جن میں تبدیلی کر دی جائے یا جن امور سے منع کر دیا جائے اور ان امور میں بھی نہیں جن میں اطاعت کرنے کا حکم نہیں ملا۔
البتہ عصمتِ ائمہ کے بارے میں شیعہ مضمون نگار کا بیان درست ہے اسماعیلیہ اور امامیہ کے علاوہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں اور اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ امامیہ و اسماعیلیہ کے سوا مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ ائمہ کو معصوم قرار نہیں دیتا۔ اس دعویٰ عصمت کے بے بنیاد ہونے پر آپ کے لیے اتنی ہی گواہی کافی ہے کہ منافقین اور ملحدین جن کے بڑے شیوخ یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے بڑے کافر ہیں ان کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلہ میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ رافضیوں کی فطرتِ ثانیہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے اقوال و افعال موالات اور قتال میں مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے جا ملتے ہیں۔
کیا اس قوم سے بڑھ کر بھی کوئی گمراہ ہو گا جو مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین سے تو نفرت اور دشمنی کرتے ہیں مگر یہود و نصاریٰ اور منافقین سے محبت کرتے اور دوستی رکھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمؕۡ مَّا هُمۡ مِّنۡكُمۡ وَلَا مِنۡهُمۡۙ وَيَحۡلِفُوۡنَ عَلَى الۡكَذِبِ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ عَذَابًا شَدِيۡدًا اِنَّهُمۡ سَآءَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ اِتَّخَذُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ جُنَّةً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَلَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ لَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡهُمۡ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـئًـا اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ يَوۡمَ يَبۡعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيۡعًا فَيَحۡلِفُوۡنَ لَهٗ كَمَا يَحۡلِفُوۡنَ لَـكُمۡ وَيَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ عَلٰى شَىۡءٍ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡكٰذِبُوۡنَ اِسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ الشَّيۡطٰنُ فَاَنۡسٰٮهُمۡ ذِكۡرَ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ الشَّيۡطٰنِؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّيۡطٰنِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحَآدُّوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗۤ اُولٰٓئِكَ فِى الۡاَذَلِّيۡنَ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىۡؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
(سورۃ المجادلة: آیت، 14-22)
ترجمہ: کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسے لوگوں کو دوست بنایا ہوا ہے جن پر اللہ کا غضب ہے؟ یہ نہ تو تمہارے ہیں اور نہ ان کے، اور یہ جانتے بوجھتے جھوٹی باتوں پر قسمیں کھا جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت برے ہیں وہ کام جو یہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا لیا ہے۔ پھر وہ دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ایسا عذاب ہے جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ یہ دوزخ والے ہیں۔ یہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ جس دن اللہ ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا تو اس کے سامنے بھی یہ اسی طرح قسمیں کھائیں گے جیسے تمہارے سامنے کھاتے ہیں، اور یہ سمجھیں گے کہ انہیں کوئی سہارا مل گیا ہے۔ یاد رکھو یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔ ان پر شیطان نے پوری طرح قبضہ جما کر انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے۔ یہ شیطان کا گروہ ہے۔ یاد رکھو شیطان کا گروہ ہی نامراد ہونے والا ہے۔ بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ذلیل ترین لوگوں میں شامل ہیں۔ اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب آئیں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ بڑا قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔ جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے، اور اپنی روح سے ان کی مدد کی ہے، اور انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں۔ یہ اللہ کا گروہ ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔
یہ آیات منافقین کے متعلق نازل ہوئیں۔ منافقین کی تعداد رافضیوں سے زیادہ کسی دوسرے گروہ میں نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ روافض میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس میں نفاق کا ایک شعبہ نہ پایا جاتا ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’جس شخص میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو کہ اس میں منافق کی ایک خصلت پیدا ہو گئی جب تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب عہد کرے تو توڑ ڈالے۔ جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے اور جب جھگڑا کرے تو آپے سے باہر ہو جائے۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب ایمان، باب منافق کی خصلتوں: ح 212، صحیح البخاری: جلد، 1 صفحہ، 12 کتاب الإِیمان باب علامۃ النفاق: جلد، 4 صفحہ، 102، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب إثم من عاہد ثم غدر، سنن أبی داؤد: جلد، 4 صفحہ، 305، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإِیمان ونقصانہ)
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تَرٰى كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ يَتَوَلَّوۡنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَبِئۡسَ مَا قَدَّمَتۡ لَهُمۡ اَنۡفُسُهُمۡ اَنۡ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ وَفِى الۡعَذَابِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ وَلَوۡ كَانُوۡا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِىِّ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَا اتَّخَذُوۡهُمۡ اَوۡلِيَآءَ وَلٰـكِنَّ كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ فٰسِقُوۡنَ
(سورۃ المائدة: آیت، 80-81)
ترجمہ: تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے یقیناً جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں اپنے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے، کیونکہ (ان کی وجہ سے) اللہ ان سے ناراض ہو گیا ہے، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبیﷺ پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے تو ان (بت پرستوں) کو دوست نہ بناتے، لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لُعِنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ كَانُوۡا لَا يَتَـنَاهَوۡنَ عَنۡ مُّنۡكَرٍ فَعَلُوۡهُ لَبِئۡسَ مَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ تَرٰى كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ يَتَوَلَّوۡنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا
(سورۃ المائدة: آیت، 78-80)
ترجمہ: بنو اسرائیل کے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی تھی یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی تھی، اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے۔ وہ جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرزِ عمل نہایت برا تھا۔ تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے۔
غالب طور پر رافضی برائی سے منع نہیں کرتے۔ بلکہ شیعہ کے علاقوں میں سب سے زیادہ جور و ستم‘ ظلم اور فحاشی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اور یہ ان کفار سے دوستی لگاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے۔ پس یہ لوگ نہ ہی مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور نہ ہی کفار کے ساتھ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمؕۡ مَّا هُمۡ مِّنۡكُمۡ وَلَا مِنۡهُمۡ
(سورۃ المجادلة: آیت، 14)
ترجمہ: کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسے لوگوں کو دوست بنایا ہوا ہے جن پر اللہ کا غضب ہے؟ یہ نہ تو تمہارے ہیں اور نہ ان کے،
یہی وجہ ہے کہ جمہور مسلمین انہیں ایک دوسری قوم شمار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان کے ساتھ ان کے دیار میں جبال بلاد ساحل شام میں جنگ کی گئی کیونکہ یہ (وہاں سے گزرنے والے) مسلمانوں کا خون بہاتے تھے اور ان کا مال و اسباب چھین لیتے راہزنی کی وارداتیں کرتے اور اسے وہ اپنے مذہب میں حلال سمجھتے تھے۔ ترکمان کے ایک گروہ نے ان سے جنگ کی تو یہ لوگ دہائیاں دینے لگے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مگر انہوں نے کہا: نہیں تم کوئی اور قوم ہو۔ ان لوگوں نے اپنے دلوں کی سلامتی کی وجہ سے سمجھ لیا تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے جداگانہ طور و اطوار رکھتے ہیں اس لیے یہ مسلمان نہیں بلکہ کوئی اور قوم ہیں۔ (بھلے یہ لوگ اپنی زبانی اسلام اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں) (کیونکہ ان کی پہچان ہی جدا ہے) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَيَحۡلِفُوۡنَ عَلَى الۡكَذِبِ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ
(سورۃ المجادلة: آیت، 14)
ترجمہ: اور یہ جانتے بوجھتے جھوٹی باتوں پر قسمیں کھا جاتے ہیں۔
رافضیوں کا یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِتَّخَذُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ جُنَّةً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَلَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ لَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡهُمۡ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـئًـا اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ يَوۡمَ يَبۡعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيۡعًا فَيَحۡلِفُوۡنَ لَهٗ كَمَا يَحۡلِفُوۡنَ لَـكُمۡ وَيَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ عَلٰى شَىۡءٍ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡكٰذِبُوۡنَ اِسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ الشَّيۡطٰنُ فَاَنۡسٰٮهُمۡ ذِكۡرَ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ الشَّيۡطٰنِؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّيۡطٰنِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحَآدُّوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗۤ اُولٰٓئِكَ فِى الۡاَذَلِّيۡنَ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىۡ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ
(سورۃ المجادلة: آیت، 16-22)
ترجمہ: انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا لیا ہے۔ پھر وہ دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ایسا عذاب ہے جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ یہ دوزخ والے ہیں۔ یہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ جس دن اللہ ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا تو اس کے سامنے بھی یہ اسی طرح قسمیں کھائیں گے جیسے تمہارے سامنے کھاتے ہیں، اور یہ سمجھیں گے کہ انہیں کوئی سہارا مل گیا ہے۔ یاد رکھو یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔ ان پر شیطان نے پوری طرح قبضہ جما کر انہیں اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہ شیطان کا گروہ ہے۔ یاد رکھو شیطان کا گروہ ہی نامراد ہونے والا ہے۔ بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ذلیل ترین لوگوں میں شامل ہیں۔ اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب آئیں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ بڑا قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔ جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے،
ان میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے مسلمانوں سے بڑھ کر کفار سے محبت و دوستی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرق کی طرف سے ترک کفار کا خروج ہوا اور انہوں نے بلادِ خراسان عراق شام اور الجزیرہ وغیرہ میں مسلمانوں کا خون بہایا اور انہیں قتل کیا۔ تو اس موقع پر رافضی مسلمانوں کے خلاف تاتاریوں کی مدد کر رہے تھے۔ حکومتِ بغداد کا وزیر ابنِ علقمی (شیعہ) اور اس جیسے دوسرے لوگ اس وقت میں مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے والے سب سے بڑے اور اہم ترین عنصر تھے۔ ایسے ہی جب عیسائیوں نے بلادِ شام میں مسلمانوں سے جنگ چھیڑی تو اس وقت رافضی ان کے سب سے بڑے مدد گار تھے۔ اور جب یہودیوں نے بلادِ شام میں یہودی سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی تو اس وقت رافضی ان کے سب سے بڑے حمایتی اور مدد گار تھے۔ رافضیوں کا ہمیشہ کے لیے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔
(عصمتِ ائمہ کا بے دلیل دعویٰ)
باقی شیعہ مصنف نے جو ائمہ کے معصوم ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ سوائے اس کے کہ روافض کا یہ قول ہے یہ عالم ارضی ائمہ کے وجود سے کبھی خالی نہیں رہتا، کیونکہ کائنات ارضی کی بھلائی اور ان کے ساتھ مہربانی اسی میں مضمر ہے۔‘‘
ہم کہتے ہیں کہ یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ شیعہ جس امام منتظر کے لیے زحمتِ انتظار میں ہیں اس کے وجود سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی۔ خواہ ہماری طرح انہیں مردہ (معدوم) تصور کیا جائے جیسے جمہور کا مسلک ہے یا شیعہ کی طرح انہیں زندہ قرار دیں۔ اسی طرح امامِ غائب کے اجداد کے وجود سے بھی دنیا کو کوئی (ایسا) فائدہ حاصل نہیں ہوا، جس طرح یہ خاک دان ارضی سرورِ کائناتﷺ کے وجودِ مسعود سے ہجرت کے بعد نفع اندوز ہوا تھا۔ اس لیے کہ آپ اس وقت مؤمنین کے امام تھے جن کی اطاعت واجب تھی۔ اسی وجہ سے سعادت حاصل ہوئی۔ سرورِ کائنات حضرت محمدﷺ کے عہدِ سعادت مہد کے بعد دعویٰ عصمت کی سعادت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں مسلمانوں کو جو سکون و آرام نصیب ہوا حضرت علیؓ کے پُر آشوب و تفرقہ دورِ خلافت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ امامیہ فرقہ والے جن ائمہ کے لیے معصوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے سوائے سیدنس علی رضی اللہ عنہ کے کسی بھی امام کی بیعت اہلِ حل و عقد نے نہیں کی۔ اور آپؓ کے عہدِ مسعود میں مکلفین کے لیے جو دینی و دنیاوی لطف و مہربانی اور مصلحتیں حاصل ہوئیں وہ اس سے بہت کم تھیں جو آپؓ سے پہلے تین خلفاء کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں حاصل ہوئیں۔ یہ بات ضرورت کے تحت سبھی لوگ جانتے ہیں کہ امامیہ فرقہ والے اپنے ائمہ معصومین کے ذریعہ جس لطف و مہربانی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ قطعی طور پر باطل ہیں۔
یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ لبنان کے پہاڑوں میں روپوش کسی مہدی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ ہدایت حاصل ہونے کے دعویدار ہیں۔ایسے ہی دعوے کچھ اور پہاڑوں کے متعلق بھی کیے جاتے ہیں جیسے: دمشق میں جبلِ قاسیون اور مغارۃ الدم مصر میں جبلِ فتح اور اس طرح کے دیگر پہاڑ اور غار۔ ایسے مقامات پر جنات بسیرا کرتے ہیں اور وہاں پر شیاطین بھی ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ شیاطین اور جنات لوگوں کو نظر بھی آ جاتے ہیں جب کہ اکثر اوقات آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ جاہل لوگ انہیں (نیک) انسان گمان کرنے لگتے ہیں حالانکہ وہ جنات ہوتے ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے:
وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ يَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ فَزَادُوۡهُمۡ رَهَقًا
(سورۃ الجن: آیت، 6)
ترجمہ: اور یہ کہ: انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے کچھ لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے، اس طرح ان لوگوں نے جنات کو اور سر چڑھا دیا تھا۔
یہ لوگ ان رجالِ غیب پر اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنے والے گمراہ فرقوں کے مشائخ پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر وہ مشائخ جو کہ رجالِ غیب پر ایمان رکھتے ہیں ان کی وجہ سے اتنا فتنہ و فساد پیدا نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو امام معصوم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس امام کے ماننے والے ہر طرح سے کثرت کے ساتھ فتنہ و فساد کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ ایسے امام معصوم کی طرف دعوت دیتے ہیں (جس امام کی کوئی حقیقت نہیں) اور ان کے ہاں کوئی صاحب سیف و قوت حکمران نہیں پایا جاتا جس سے مدد حاصل کریں (اور وہ ان کی اصلاح کے کام کرے) سوائے کچھ کفار و فجار اور فاسقین اور منافقین اور جہلاء کے۔ ان کے سردار اور بڑے ان اصناف سے باہر نہیں ہو سکتے۔
اسماعیلیہ فرقہ کے لوگ ان میں سب سے زیادہ برے ہیں۔ وہ (ظاہر میں) تو امام معصوم کی طرف دعوت دیتے ہیں مگر حقیقت میں ان کی دعوت فاسقین اور منافقین کی طرف ہوتی ہے جو اپنے باطن میں یہود و نصاریٰ سے بڑے کافر ہوتے ہیں۔ پس امام معصوم کی دعوت دینے والے حقیقت میں حاکم معصوم نہیں بلکہ ایسے کافر حکمرانوں کی طرف بلاتے ہیں جو کفر و ظلم میں انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ اتنا مشہور ہے کہ لوگ اپنے تجربات کی روشنی میں اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا
(سورۃ النساء: آیت، 59)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولﷺ کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں ان کی بھی۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کر دو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جب تنازع پیدا ہو تو اللہ و رسول اکرمﷺ کی طرف رجوع کیا جائے اگر مسلمانوں میں رسولﷺ کے سوا کوئی اور بھی معصوم ہوتا تو اس کی طرف مراجعت کرنے کا حکم صادر کیا جانا ضروری تھا۔ پس قرآنی آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے علاوہ کوئی دوسرا معصوم نہیں ہے۔