علامہ الکشی اور اس کی کتاب رجال الکشی کی اہل تشیع کے ہاں قدر و منزلت!
جعفر صادقعلامہ الکشی اور اس کی کتاب رجال الکشی کی اہل تشیع کے ہاں قدر و منزلت!
⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️
میری پہلی دلیل کی تین صحیح روایات رجال الكشی میں موجود ہیں، یاد رہے کہ شیعہ کی اصول اربعہ کی تمام روایات کا دارومدار *شیعہ کی اسماء الرجال* کتب پر ہے۔ ان کتب میں *رجال الکشی* شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مزید یہ کہ شیعہ کا ایک اور بڑا عالم *طوسی* آیا تو اس نے اس کتاب (رجال الكشی) کی تہذیب و تنقیح کی، چناں چہ اب یہ شیعہ کے نزدیک پہلے سے بھی زیادہ معتبر اور محکم کتاب بن چکی ہے، کیوں کہ ایک تو یہ کشی کی تالیف ہے، جو تشیع کے نزدیک ثقہ اور اخبار و رجال شیعہ پر گہری نظر رکھنے والا ہے اور دوسرا *طوسی* بھی اس کی تالیف میں شریک ہے، یاد رہے کہ طوسی کا مرتبہ بھی اہل تشیع کے ہاں بہت زیادہ ہے کیونکہ شیعہ کی اصول اربعہ میں سے دو کتب *(تہذیب اور استبصار)* کا مصنف بھی یہی ہے اور شیعہ اسماء الرجال کی دو کتب *(رجال طوسی اور الفھرست)* کا بھی مؤلف جن پر شیعہ علم الرجال کا دارومدار ہے۔
⬅️ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ رجال کشی بھی درحقیقت علامہ طوسی کی تصنیف شدہ ہے۔یعنی *دو کتب اربعہ اور تین شیعہ اسماء الرجال کتب کا مصنف صرف یہ ایک عالم طوسی صاحب ہیں۔*
ابن سبا کے وجود اور اس کی طرف سے گھڑے گئے عقائد کا اعتراف علامہ کشی کے قلم سے اور اس پر شیعہ کے معتبر ترین عالم طوسی کا ٹھپہ ، ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کا انکار کرنے کے نتیجے میں شیعہ متقدمین علماء اور ان کی تمام معتبر ترین کتب کی تکذیب ہوتی ہے، جن میں بہ کثرت ابن سبا کا ذکر اور اس کے عقائد کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
کتب شیعہ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ ابن سبا ہی وہ پہلا شخص تھا، جو سیدنا علی رض کے حق میں وصیت اور ان کی رجعت کا قائل تھا اور اسی نے سب سے پہلے خلفائے ثلاثہ اور صحابہ کرام کے بارے میں زبان طعن دراز کی تھی۔ یہی وہ عقائد و نظریات ہیں، جن کو جھوٹ اور بہتان سے کام لیتے ہوئے روایات و احادیث کی شکل میں ڈھال کر اہل بیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ شیعہ مذہب کی اساس ٹھرے اور بدقسمتی سے عوام بالخصوص عجم (غیر عرب) میں بڑی قبولیت سے ہم کنار ہوئے، اس طرح اس شاطر یہودی کی سازش سے امت مسلمہ میں فتنہ و فساد کی شروعات ہوئی۔
اگر میرا استدلال تخیل کا نتیجہ ہے تو آپ ذرا منطقی انداز سے وضاحت کردیں کہ ابن سبا حقیقت تھا اور حضرت علی کے اصحاب میں شامل بھی تھا تو *اس کے مسلمان ہونے کا مقصد کیا تھا؟* سُنی و شیعہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ یہودی سچے دل سے مسلمان ہی نہیں ہوا تھا تو آخر اس کا یہ مقصد تو نہیں ہوگا کہ قبول اسلام کے بعد حضرت علی کے سامنے خدائی کا دعوی کردے اور پھر اسے زندہ جلادیا جائے ، میں تیسری دلیل میں متفق علیہ صحیح روایات بمعہ تائید جیّد علمائے کرام سے ثابت کروں گا کہ کس طرح ان مرتدین کو حضرت علی نے زندہ جلا دیا تھا۔
دوسری بات۔۔۔ اہل تشیع کے فرقوں کی تاریخ پر شیعہ متقدمین علماء کی کتب پڑھیں۔۔ ابن سبا نے صرف ان پانچ عقائد کی شروعات نہیں کی تھی، اس کے کچھ عقائد دوسرے بھی تھے، چونکہ وہ آج اہل تشیع اثنا عشریہ فرقے کے عقائد نہیں ہیں تو ان کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے، لیکن میں یہاں مختصر بتادوں کہ جتنے بھی شیعہ فرقے زمانہ قدیم سے آج تک وجود میں آئے ہیں، سب نے اپنے اپنے عقائد ابن سبا کی تعلیمات سے ہی اخذ کئے ہیں حتی کہ آج بھی جو غالی اور نصیری شیعہ موجود ہیں انہوں نے بھی ابن سبا کے عقائد کو ہی سینے سے لگایا ہے۔ گفتگو اس رخ پر ہوئی تو میں اس پر بھی چند دلائل پیش کردوں گا۔ان شاء اللہ
محترم! کوئی بھی عالم سیاق و سباق کے مطابق اپنی رائے شامل کرتا ہے۔ میں نے رجال کشی کے چاروں پیجز بھیجے ہیں۔تینوں صحیح روایات میں عبداللہ ابن سبا کا مکمل نام بیان ہوا ہے۔ انہی روایات کے بعد علامہ کشی نے بھی عبداللہ ابن سبا کا مکمل نام لکھ کر بیان کیا ہے کہ یہ فلاں فلاں عقائد اسی نے شروع کئے تھے۔
یہ استدلال میرا ذاتی ہرگز نہیں ہے۔۔۔ خیانت پر مبنی ہے تو اس کی حقیقت آپ ثابت کردیں۔ میں اتنا کم ظرف نہیں ہوں کہ اپنی ضد پر اڑا رہوں۔ یہ موضوع ایسا بھی نہیں ہے کہ میں ثابت نہ کرسکا تو اہل سنت مسلک پر کوئی حرف آئے گا، ویسے بھی جو حق بات ہو اسے قبول کرنے میں ہی عافیت ہے۔
⬅️ یہ قول مجہول الحال ہوتا تو تین متقدمین ثقہ شیعہ علماء(علامہ کشی ،نوبختی اور سعد بن عبداللہ قمی) اس قول پر ایک دوسرے کی تائید نہ کر رہے ہوتے۔ بعد میں آنے والے کسی ایک شیعہ عالم نے بھی ان اقوال کی تردید بیان نہیں کی بلکہ ان اعترافات کو قبول کیا ہے ۔ اگر کسی نے تردید بیان کی ہے تو آپ کو حق ہے کہ ہم تک وہ تردید پہنچائیں۔
⬅️ میں نے وضاحتیں اپنی ضرور لکھی ہیں لیکن ان کی بنیاد وہ صحیح روایات اور شیعہ علمائے کرام کے اعترافات ہیں۔
♦ کتاب میں مصنف( عالم) کی اپنی بات کی سند کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ اصحاب علی کے ذکر سے جو مؤقف متقدمین شیعہ علماء نے بیان کیا ہے وہ بطور مذمت یا تردید میں بیان ہوا ہوتا تو میں ضرور تسلیم کر لیتا لیکن بدقسمتی سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ مزید تحقیق کریں۔ وقت درکار ہو تو شرائط میں گنجائش رکھی ہے تاکہ گفتگو جلد بازی میں نہ ہو بلکہ تحقیق کا حق بھی ادا کیا جاسکے، مجھے کہیں ضرورت محسوس ہوئی تو مزید تحقیق اور تصدیق کے لئے وقت طلب کر سکتا ہوں، گذشتہ ایک دو مکالموں میں ضرورت پڑی تھی، ہم سب کا علم ناقص ہے، حق تک پہنچنے کے لئے تگ و دو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ یہ انا کا مسئلہ ہے۔
بھائی میرے۔۔ ترتیب نیچے سے اوپر یا اوپر سے نیچے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔۔۔ مقصد سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ اپنی توجہ اسی پر رکھیں۔
قدیم کتب میں جس عالم نے خود بنفس نفیس وہ کتاب لکھی ہے اس کے قول کی سند مانگنا ایسا ہی جیسے میں آپ سے آپ کے ہی قول کی سند مانگنا شروع کردوں۔
⬅️ مصنف اپنی ذمہ داری سے کتاب لکھتا ہے، اس میں روایات پر تحقیق کی جاتی ہے، کوئی قول ضعیف روایات کی روشنی میں ہو تو قابل التفات نہیں ہوتا۔لیکن اگر عالم صحیح روایات بیان کرے گا تو پھر اس کے مؤقف کو بغیر دیگر صحیح روایات اور قرائن کے یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اسی لئے میں آپ کو آپشنز بتاتا آ رہا ہوں، شرائط میں بھی یہی باتیں مذکور ہیں۔ آپ کو میرے دلائل کا علمی رد بھی اسی طرح پیش کرنا ہے۔
*یہ جواب دے کر آپ نے پھر شرط 1 کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔*آپ نے بار بار ذاتیات پر حملے کئے ہیں ۔ کیا میں نے آپ کی شان میں کوئی گستاخی کی ہے؟ حالانکہ یہی الفاظ کہنے میں حق بجانب بھی ہوں گا۔
میں آپ کے اہم جوابات کے اسکرین شاٹ بھی محفوظ کرتا آ رہا ہوں، اس کے باوجود میرا فوکس صرف موضوع پر ہے۔
ایڈمنز سے گذارش ہے کہ شیعہ مناظر کو پابند کریں کہ وہ شرائط کے مطابق گفتگو کرے۔۔ اگرچہ اس نے ہر ٹرن میں تین جوابات والی شرط کا بھی لحاظ نہیں رکھا لیکن گفتگو کی اہمیت کے پیش نظر میں نے انہیں زیادہ کچھ نہیں کہا، لیکن میں مجبور ہوں کہ اپنے جوابات بھی اسی طرح ترتیب سے دوں۔
سوال یہ ہے کہ کیوں لکھا ؟علامہ کشی کو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
اور نہ صرف ایک عالم کشی نے لکھا بلکہ نوبختی نے بھی وہی عبارت لکھی، سعد بن عبداللہ القمی نے بھی وہی بات بیان کی۔۔۔۔ اور سب نے عبداللہ ابن سبا کی وہ تمام روایات بیان کر کے ہی یہ نقل کیا ہے، اس کے علاوہ اہل علم کا لفظ بذات خود یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے کوئی مجہول قول سن کر نقل نہیں کیا، سب نے تصدیق فرمائی ہے کہ دور قدیم کے اہل علم اشخاص کا یہ متفقہ نظریہ ہے کہ ابن سبا نے ان عقائد کی شروعات کی تھی۔ اگر کسی ایک کا قول ہوتا تو یہ گمان ہوتا کہ شاید اسے ابہام ہوا ہو، یا اس اکیلے کی رائے پر نتیجہ کیسے نکالا جائے، لیکن یہاں اکثریت اہل علم کے نظریے کو بیان کیا گیا ہے، اور اس کے بعد ہر زمانے کے شیعہ جید علماء نے اس نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے ان اقوال کو نقل در نقل کیا ہے۔ کیا ایسی مضبوط حقیقت جھٹلانا ممکن ہے؟
صحیح روایات بیان کر کے تین متقدمین شیعہ علماء نے جو تشریح بیان کی ہے اس کی تردید ذاتی رائے سے ممکن نہیں ہے۔شرائط میں بھی ہم نے یہی طئے کیا تھا۔
⬅️ کوئی مؤرخ یا محدث ضعیف روایت پر کوئی رائے دے تو آپ اعتراض وارد کر سکتے ہیں۔
صحیح روایات پر رائے دے تو اس کا علمی رد کرنے کے بھی مختلف طریقے ہیں، مثال کے طور پر دوسری صحیح روایات، دوسرے علماء کے اقوال اور مختلف منطقی قرائن وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کچھ پیش تو کریں۔
آپ تو ابھی تک ذاتی تاویلات کرتے آ رہے ہیں۔ کیا متقدمین جیّد علماء کے سامنے آپ کی ذاتی رائے قبول کی جائے؟ کمال ہے۔
اس کے بعد تو آپ نے حد کردی ہے۔ اپنے ہی ثقہ شیعہ عالم نوبختی کو متنازعہ مؤرخین کی صف میں شامل کردیا ہے۔ کہاں مسعودی، ابن قتیبہ اور واقدی جیسے بدنام زمانہ مؤرخ اور کہاں شیعہ کے ہاں ثقہ صحیح العقیدہ جیّد عالم نوبختی!