Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمۃ اللہ

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمۃ اللہ

قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے شیعیت کا مرکز چکڑالہ ضلع میانوالی تھا۔اللہ پاک کی شان کہ شیعیت کی سرکوبی کے لئے منتخب ہونے والی شخصیت کا تعلق چکڑالہ سے تھا۔جس نے علمی کتابیں لکھ کر اور مناظرے کر کے رفض و الحاد کو خوب پچھاڑا اور شکست روافض کا مقدر بنی۔ آپؒ نے پوری زندگی مذاہب باطلہ کے رد میں گزاری۔ آپؒ چوٹی کے مناظر تھے، صاحب علم و تحقیق مصنف تھے، مشہور منکر حدیث عبداللہ چکڑالوی کے باطل مذہب کی بیخ کنی بھی آپؒ کے حصے میں آئی چودہ سو سالہ حق وباطل کی جنگ میں جہاں محققین اہلسنّت نے ناموسِ صحابہؓ کے لیے زندگیاں قربان کی انہیں ہستیوں میں ایک نامور محقق ،امام یگانہ، مقبول اہل زمانہ ،مجتہد فی التصوف ، مجدد طریقت، فاتح اعظم رافضیت، مناظر اسلام، حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمتہ اللہ کی ذات بابرکت ہے 
نام و نسب
آپؒ کا نامِ اسمِ گرامی الله یار ہے عقیدت مند اور شاگرد آپ کو ادب سے شیخِ مکرم کہہ کر پکارتے۔آپ کے والد بزرگوار کا نام ذوالفقار تھا۔ آپؒ کا مولد و مسکن پنجاب کے شہر میانوالی سے تقریباً 45 میل کے فاصلے پر واقع موضع چکڑالہ ہے۔ جہاں 1904ء میں ایک متوسط زمیندار گھرانے میں آپؒ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ 
سِلسلۂ نسب
آپؒ کا تعلق قبیلہ اعوان سے ہے۔قبیلہ اعوان کا سلسلۂ نسب سادات ہاشمیہ علویہ سے بتایا جاتا ہے۔واقعہ کربلا کے بعد سادات بنی فاطمہؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی دوسری بیویوں کی اولاد مدینہ منورہ سے ہجرت کر کے پہلے دمشق اور پھر مصر چلی گئ۔پھر ان میں سے بعض بنی اُمیّہ اور عباسی خاندان کے عہدِ حکومت میں خراسان اور ایران چلے گئے۔قبیلہ ہاشمیہ علویہ نے اپنی خاندانی حشمت و امارت کے سبب موقع پاکر ہرات کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔جب امان شاہ اپنے باپ شاہ حسین کے بعد مسند نشین ہوئے تو وہ سادات بنی فاطمہؓ کی بہت اعانت کرتے تھے ۔اسی وجہ سے ان کی اولاد کا لقب "اعوان" یعنی معاون سادات مشہور ہوگیا ۔تین چار پُشت کے بعد جب مغلوبیت کا دور شروع ہوا تو اس قبیلہ کے لوگ سرحد پار کرکے اٹک اور مالا باغ کے علاقے میں چلے گئے۔اور یہاں اپنی شجاعت اور دلیری سے ہندو راجاؤں کو شکست دے کر کوہستان کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور پھر یہیں مستقل آباد ہوگئے۔
آپؒ نے خود بھی ایک مکتوب میں اسی طرف اشارہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں 
دوسری دنیا خواہ کچھ کرے ،مگر خلفاء اربعہؓ کی نسل خاص کر سیدنا علی المرتضیٰؓ اور خاص کر حضرت فاطمہ الزہراؓ کی اولاد کا اوّلین فرض ہے کہ وہ اپنی جدّی میراث کو سنبھالیں ۔عزیزم! میں بھی سیدنا علی المرتضیٰؓ کی اولاد سے ہوں۔
(مکتوب مؤرخہ 7جولائی  1972ء بنام کیپٹن امان شاہ) 
والدہ کا خواب
ابھی آپؒ کی عمر تقریباً بیس سال ہی کی تھی ایک دن اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دینی علوم کے لیے اجازت طلب کی۔حُسنِ اتفاق دیکھئے کہ اسی رات آپؒ کی والدہ صاحبہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ان کے گھر تشریف لائے ہیں اور انہوں نے دو تھیلیاں پیش کر کے فرمایا کہ یہ تمہارے بیٹے کے لیے ہیں۔در حقیقت یہ آپؒ کےلئے علومِ باطنی کی غائبانہ بشارت تھی۔چنانچہ بعد کے حالات سے اس خواب کی تعبیر کی بھرپور تصدیق ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو ان دونوں نعمتوں سے خوب خوب سیراب فرمایا حتیٰ کہ آپؒ علوم میں کمال کی حدود پر پہنچ گئے۔ 
تعلیم و تربیت
آپؒ ابتدائے عمر سے ہی بے حد ذہین اور محتنی تھے۔اس لیے جب آپکی توجہ تعلیم کی طرف ہوئی تو پرائمری جماعتوں کا نصاب مکمل کرنے میں آپؒ کو کوئ مشکل پیش نہ آئی۔اس وقت اس علاقہ میں باقاعدہ مدرسے نہ تھے اس لیے جس گاؤں میں بھی آپؒ کو کسی فن کا استاد کا پتا لگتا آپؒ فوراً ان کی پاس تحصیلِ علم کے لیےچلے جاتے۔اسی سلسلہ میں آپؒ موجودہ  ضلع چکوال کے ایک نواحی قصبہ موڑہ کورچشم تشریف لے گئے۔ اور پھر ضلع جھنگ کے ایک قصبہ لنگر مخدوم کے نزدیک واقع چک نمبر 10 میں دینی تعلیم حاصل کی۔چونکہ آپؒ میں خدا داد صلاحیتیں پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھیں، اس لیے تھوڑے ہی عرصہ میں صرف و نحو، منطق، فلسفہ، عربی اور فارسی زبان میں مہارت حاصل کر لی۔
آپؒ کی حافظہ اور یادداشت کا یہ عالم تھا کہ اپنے استاد سے جو سبق ایک بار سن لیتے وہ یاد ہو جاتا۔اس لیے آپکو کسی استاد کے پاس چند ماہ سے زیادہ عرصہ گزارنے کی ضرورت پیش نہ آئی اور تین سال سے بھی کم عرصہ میں علومِ ظاہری کی تعلیم مکمل کرلی،حتٰی کہ اپنے زمانے کے چوٹی کے مناظروں میں آپ کا شمار کیا جانے لگا۔
دورہ حدیث کے لیے آپؒ دہلی تشریف لے گئے جہاں مدرسہ امینیہ میں مختلف اساتذہ سے استفادہ کیا۔یہ مدرسہ مشہور عالمِ دین مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کی  زیرِ سر پرستی چل رہا تھا۔وہاں اس وقت دارالعلوم دیوبند کے علماء کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔کیونکہ ان دنوں ریشمی رومال تحریک کے سبب دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کا سلسلہ تعطل کا شکار تھا۔ چنانچہ اس کے اساتذہ انگریزی حکومت کے ظلم وستم کے باعث قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار تھے اور جو بچ گئے وہ مدرسہ امینیہ دہلی سے منسلک ہوگئے۔ آپؒ نے مفتی کفایت اللٰہ دہلوی رحمۃ اللہ سے دورہ حدیث کیا جب آپؒ کو سند ملی تو اس پر لکھا "یہ میرا ایسا شاگرد ہے جس سے مجھے بھی بہت فائدہ ہوا" آپؒ کو بائیبل اور ہندوؤں اور سکھوں کی مذہبی کتابوں پر بھی عبور حاصل تھا۔اس سلسلہ میں گرُمکھی اور سنسکرت زبانیں بھی سیکھیں۔
آپؒ نے کچھ عرصہ قاسم العلوم ملتان کے ایک مدرسہ میں مدرس کے فرائض انجام دیے۔ 
آغاز رد شیعیت
اپ نے ابتداً شیعیت کے خلاف تقریراً و تحریراً خوب کام کیا، ایک دن دل میں خیال آیا کہ شیعہ کی غلاظت بھری کتب پڑھ کر کام کرنا پڑتا ہے ۔اس خیال سے شیعہ کتب کا مطالعہ ترک کر دیا،اور کام میں بھی کمی واقع ہوئی 
چنانچہ اپنی کتاب ’’الدین الخالص‘‘ صفحہ 338 رقم طراز ہیں:
میں نے علوم ظاہری سے فارغ ہو کر علوم باطنیہ کی طرف توجہ کی، منازل سلوک طے کرتے ہوئے جب دربار نبویﷺ تک رسائی ہوئی تو ارادہ کیا کہ اب بقیہ عمر تخلیہ میں بیٹھ کر یاد الٰہی کروں گا۔ ایک روز سحری کے وقت اپنے معمول میں دربارِ نبویﷺ میں حاضر ہوا تو اچانک حضور نبی کریمﷺ کی طرف سے یہ القائے روحانی میرے قلب پر شروع ہوا…! *حضورﷺ نے فرمایا: اسلام کا مکان پتھروں اور اینٹوں سے تیار نہیں ہوا اس میں میرے صحابہ کی ہڈیاں لگائی گئیں، پانی کی جگہ میرے صحابہ کا خون لگایا گیا اور گارے کی جگہ میرے صحابہ کا گوشت لگایا گیا، اب لوگ (شیعہ) اس مکان کو گرانے پر لگے ہوئے ہیں، میرے صحابہ کی توہین کی جا رہی ہیں اور جو شخص اس کے انسداد کی قدرت رکھتے ہوئے خاموشی سے بیٹھا رہے کل قیامت میں خدا کے سامنے کیا جواب دے گا ایک صوفی عارف عالم کو ہمیشہ خدا پر بھروسہ اور توکل چاہیے، جب تک خدا تعالیٰ نے اس کے وجود سے کام لینا ہے اس کو محفوظ رکھے گا، جب اس کی ڈیوٹی پوری ہو گئی اس کو بلا لے گا۔‘‘
آپؒ کے بقول یہ واقعہ تقسیم ملک (پاکستان) کے بعد پیش آیا۔ اس کے بعد سے آپ نے نہایت جرأت کے ساتھ عظمت صحابہؓ کرام کا دفاع کیا اور میدان مناظرہ میں مخالفین کو پے درپے فاش شکستوں سے دوچار کیا۔ آپؒ کے ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں مناظرے ہوئے۔ ان تمام مناظروں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ حق کو غالب رکھا۔ جن لوگوں نے آپؒ کے مناظرے دیکھے ہیں انہیں علم ہے کہ ہر میدان میں فتح وکامیابی نے آپ کے قدم چومے تبھی اس دور میں فاتح اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے 
آپؒ نے ایک زمانہ تک دین اسلام کے مخالفین و معترضین اور صحابہؓ  کی عصمت وعظمت پر گندگی اچھالنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا، اور دین اسلام اور اصحابِ رسولﷺ کا دفاع کیا، یہی خدمات بارگاہ ایزی میں شرف قبولیت پا گئی کہ آپؒ کو وہ روحانی منصب و مرتبہ عطا ہوا جو اس وقت کسی اور کو حاصل نا ہوا
پنجند کو ربوہ ثانی بنانے کی قادیانی کوشش
1963ء میں آپؒ نے اپنے علاقے میں قادیانی مذہب کے رد میں ایک یادگار جلسہ منعقد کیا
تلہ گنگ میانوالی روڈ پر پنجند ایک مشہور قصبہ ہے وہاں قادیانیوں کا بہت اثر ہو گیا نا صرف چند بڑے بڑے با اثر زمیندار قادیانی ہو گئے۔ بلکہ ان کے زیر اثر کئی سادہ دیہاتی بھی گمراہ ہو گئے چنانچہ انہوں نے وہاں ربوہ سے دو قادیانی خواتین مبلغہ بھی متعین کیں اور مردوں کا بھی پروگرام ترتیب دیا کہ یہاں سکول اور خیراتی ہسپتال بنایا جائے۔ ختم نبوت تحریک کے جلسے بھی زوروشور سے ہوتے تھے مگر کوئی تدارک نہ ہوپا رہا تھا۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب آدمی نے آ کر آپؒ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے جلسہ کرنے کی دعوت دی۔ آپؒ وہاں پیدل تشریف لے گئے رات وہاں ٹھہرے آپ ؒ کے لئے روکھی سوکھی روٹی کا اہتمام کیا گیا اور رات ہم نے زمین پر لیٹ کر بسر کی۔ صبح جلسہ ہوا۔ آپؒ نے فرمایا کہ یہ ان پڑھ لوگ ہیں علمی دلائل کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے تحریک کے جلسے کوئی اثر پیدا نہیں کر پا رہے۔ چنانچہ آپؒ نے اس کی اپنی کتب اور سوانح سے اس کی شخصیت‘ کردار اور عقائد کا نقشہ کھینچا تو وہ لوگ تائب ہو گئے اور پنجند کو ربوہ ثانی بنانے کا قادیان منصوبہ خاک میں مل گیا۔ الغرض آپؒ کے ۶۰ سالہ مناظرانہ دور کے شب وروز ایسے ہی درخشاں اور زریں کارناموں سے عبارات مرقوم ہیں جو یقیناً آپ کی تبحر علمی‘ حاضر دماغی اور قوت ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مذاہب باطلہ کا کوئی بھی فرقہ آپ ؒ کی ایمانی یلغار کے سامنے اپنے باطل عقائد ونظریات کو منوانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 
تصانیف
آپؒ نے عقائد، تصوف اور تردیدِ روافض پر درجنوں کتب لکھیں جو انتہائی دقیق تحقیق کے نچوڑ پر مشتمل ہیں۔  ان کے بعد رہتی دنیا تک مزید کسی کو تحقیق کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور یہ کتب امتِ مسلمہ کی دینی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
1.تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین
تحذیر المسلمین میں اہلسنت والجماعت اور شیعہ مذہب کے دینی عقائد کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور دونوں جانب کی مستند اور دین کی بنیادی تعلیمات ونظریات کی حامل کتابوں کے حوالہ جات سے مختلف عقائد مثلاً عقیدہ بداء،عقیدہ رسالت و خلافت،عقیدہ امامت،حکومتِ آئمہ ،عقیدہ آخرت وغیرہ جیسے مضامین پر قرآن وحدیث اور تاریخی حقائق کی روشنی میں بحث کی گئی ہے تاکہ دینِ اسلام اور دینِ شیعہ کے متعلق عوام کی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔تحقیق کی رُو سے یہ ایک نادر تصنیف ہے۔

2۔ایمان بالقرآن
 آپؒ کی ایک اور مایہ ناز تصنیف"ایمان بالقرآن" ہے۔اس کی مقبولیت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کئ بار طبع ہو چکی ہے۔آپؒ نے مسلمانوں کو یہودی اور اہل شیعہ کی اس سازش سے باخبر کرنا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ الله کی کتاب  قرآن کریم محرف ہے۔اس لئے یہ قرآن قابلِ اعتبار نہیں۔حضرت جیؒ ایک بڑے پایہ کے عالم ربانی تھے۔آپؒ نے مناظروں کے دوران علمائے شیعہ کو بار بار چیلنج کیا تھا کہ وہ قرآن پر اپنا ایمان ثابت کریں۔ آپ فرماتے ہیں کہ " حقیقت یہ ہے کہ شیخین بالخصوص اور صحابہؓ بالغموم کو مسلمان تسلیم نہ کرنے کے بعد قرآن کو اللہ کی کتاب ثابت کرنا۔نبی کریمؐ کی رسالت کو ثابت کرنا اور حضرت علیؓ کی خلافت حقہ ثابت کرنا ممکن ہی نہیں کیونکہ نزول قرآن کے اور نبوت کے عینی گواہ یعنی صحابہ کرامؓ کو شیعہ حضرات امین تو کیا صاحب ایمان بھی نہیں سمجھتے ۔
لہذا آپؒ نے علماء اہلسنت والجماعت کو دعوت دی کہ وہ ایسی سازشوں کے ہتھکنڈوں سے باخبر ہو کر اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی اہمیت سے آشنا ہوں۔
3۔ الجمال والکمال
 (شیعہ مجتہد علی اطہر نے ایک رسالہ ارسال الیدین تصنیف کر کے الفاروق کے دفتر بھیجا اور اس کا جواب لکھنے کی دعوت دی، سید احمد شاہ بخاری رحمۃ اللہ نے اس کا جواب لکھنے کی ذمہ داری آپؒ کو دی، ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے متعلق شیعہ جتنے دلائل دیے تھے ان سب کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب اس کتاب میں موجود ہے)
3۔ فقہ جعفریہ کی تاریخی سرگزشت
4۔ نفاذ شریعت و فقہ جعفریہ
(جب جنرل ضیاء الحق شہید کے دورِ حکومت میں بعض اسلامی قوانین اور اسلامی حدود کے نفاز کا تاریخ ساز اعلان ہوا تو دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کے مختلف معروف فرقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی مہم شروع کردی۔ ایک آواز یہ اٹھائی گئ کہ فقہ جعفریہ کا نفاذ الگ کیا جائے۔ چنانچہ صدر مملکت نے اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مختلف فقہی مکاتب فکر کے نمائندگان پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دی۔جون 1979میں فقہ جعفریہ کے متعلق ایک اجتماع اسلام آباد میں ہونے والا تھا ۔ مولانا رحمتہ اللہ نے فقہ اسلامی کے نفاذ کی راہ میں سے ایک سنگین سازش قرار دیا۔چنانچہ آپ نے وقت کی کمی کے باوجود ایک علمی تحقیقی مقالہ "نفاذِشریعت" مرتب فرمایا لیکن بہتر قانونی پیش نظر یہ جناب چودھری امان اللہ صاحب ایڈوکیٹ کے نام سے شائع ہوا، اور اس کی کاپیاں صدر مملکت وزیر قانون ممبران کمیٹی وغیرہ کو فوری طور پر دستی پہنچائی گئیں۔ مگر حقائق تسلیم کرنے کی بجائے حوالہ جات کے صحیح ہونے کے متعلق شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔لہذا آپؒ نے فقہ جعفریہ کی مستند کتابوں کے متعلقہ اقتباسات کے فوٹو سٹیٹ کرا کر مقالہ میں شامل کرکے دوسرا ایڈیشن شائع کرا دیا۔جس نے متعلقہ حلقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا۔بعض شیعہ یہ کہتے سنے گئے کہ اگر یہی فقہ جعفریہ ہے تو پھر ہمارے مذہب میں کیا باقی رہ گیا۔
اس مقالہ میں آپؒ نے "تاریخ فقہ جعفریہ" کے عنوان کے تحت ایک اہم اضافہ بھی فرمایا اور ثابت کیا کہ کسی اسلامی حکومت نے کسی دور میں فقہ جعفریہ کو اپنے دستور یاقانون میں جگہ نہیں دی۔بلکہ فقہ جعفریہ کی سب سے پہلی کتاب "اصول کافی"اس وقت لکھی گئ جب خلفائے عباسیہ کے اکیسویں خلیفہ المتقی باللہ کا دور خلافت تھا،گویا پانچویں صدی ہجری کے آخر تک تو اس فقہ کے کسی حکومت میں نافذ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اسکے بعد خلافت عثمانیہ یا براعظم پاک و ہند میں آخری مغل بادشاہ تک کسی وقت بھی اس فقہ کے نفاذ کا کوئ تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔خلفائے ثلاثہ کے عہد میں وہی فقہ جعفریہ رائج تھا جو رسول کریمؐ نے کتاب الٰہی کی روشنی میں رائج فرمایا۔حضرت علیؓ نے بھی عہد خلافت میں اس فقہ سے بال برابر بھی انحراف نہیں کیا ۔یہی وہ فقہ ہے جو خلفائے عباسیہ کے عہد میں آکر باقاعدہ فقہی ترتیب سے مدون ہوکر "فقہ حنفی "کے نئے نام سے تمام اسلامی سلطنتوں میں نافذ ہوتی رہی۔لہذا حضرت رحمتہ اللہ کو سخت صدمہ تھا کہ جس نظام اور طریقہ کار کو حضور نبی کریمؐ نے اپنی 23 سالہ نبویؐ زندگی میں عملاً نافذ کرکے دکھادیا تھا آج اسی کے متعلق نزاعی صورت پیدا کی جارہی ہے اس مقالہ کے ذریعہ کسی کے عقائد کو مجروح کرنا ہرگز مقصود نہ تھا بلکہ غور وفکر کے لیے آپؒ نے مستند حقائق بڑی جرات کے ساتھ پیش کر دیے اور حکومت کی صحیح راہنمائی کا فریضہ بر وقت اور بڑے احسن طریقے سے انجام دیا۔)
5. حرمت ماتم
اس کتاب میں مشہور تبرائی شیعہ مجتہد اسماعیل گوجروی کی کتاب "براہین ماتم" کا دندان شکن جواب لکھا اور قرآن و حدیث و اہلبیت کی روشنی میں رد کیا گیا ہے۔
6۔ تحقیق حلال و حرام" در جواب "متعہ اور اسلام
اس کتاب میں شیعہ مجتہد ملا علی نقی لکھنوی کی کتاب "متعہ اور اسلام" کا جواب دیا گیا اور متعہ (زنا) پر شیعہ کے تمام دلائل کا علمی محقق اور مدلل رد پیش کیا گیا ہے۔
  جس پر تقریظ سید احمد شاہ بخاری رحمۃ اللہ نے ان الفاظ میں تحریر فرمائی 
تمام اہلِ اسلام کی خدمت میں گزارش ہے کہ سید علی نقی صاحب شیعی لکھنوی نے ایک چھوٹا سا رسالہ نامی متعہ اور اسلام اہلسنت والجماعت کے خلاف لکھا جس کو امامیہ مشن لاہور نے شائع۔اس رسالے میں سید موصوف نے متعہ کے حلال ہونے کو بزعمِ خویش قرآن و حدیث سے ثابت کیا۔اور اہلسنت والجماعت کے مسلک کو عقل ونقل کے خلاف قرار دیا ہے سخت ضرورت تھی کہ اس مسئلہ میں مسلک حقہ اہلسنت والجماعت کے دلائل و براہین کو آسان اردو عبارت میں واضح کیا جائے۔اور سید صاحب کے اعتراضات کے عام فہم اور مضبوط جواب تحریر کیے جائیں تاکہ عام الناس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر دین و ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں خداوند تبارک تعالیٰ تمام اہلِ اسلام خصوصاً طالبان تحقیق کی طرف سے مولانا اللہ یار خاں صاحب کو جزائے خیر عطا کرے جنہوں نے باوجود مشاغل  کثیرہ کےاس  دینی ضرورت کو باحسن وجوہ پورا کیا ہے 
میں نے اول سے آخر تک اس مضمون کو دیکھا ہے بفضلہٖ تعالیٰ مضمون کیا ہے۔ایک دریائے تحقیقات ہے جو ساون کے دریاؤں کی طرح موجیں مار رہا ہے حق یہ ہے کہ مولانا اللہ خاں صاحب مداللہ ظلہ،العالی نے حق تحقیق ادا کر دیا ہے اس لئے اہل اسلام سے درخواست ہے کہ اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ شائع کرنے کی کوشش کریں۔اور اس کے مضامین کو محفوظ رکھنے میں سُستی سے کام نہ لیں۔مجھے تسلیم ہے کہ اس کتاب کی زبان اہل زبان کے محاورات کے مطابق نہیں ہے مگر آپ اس رسالہ کو ادبی رسالہ تصور نہ کریں بلکہ ایک علمی اور تحقیقی مضمون خیال کر کے اس کا مطالعہ کرکے اس کے مطالعہ سے شرف اندوز ہوں"
7. دامادِ علی رضی اللہ عنہ

 (ام کلثوم بنت علی و فاطمہؓ کا نکاح حضرت عمرؓ سے محقق کتاب علماء کرام کی فرمائش پر لکھی گئی)
8. شکستِ اعدائے حسین رضی اللہ عنہ
اس کتاب کے بارے آپؒ نے تحریر فرمایا کہ 
 (یکم اکتوبر 1955 کو بمقام میرپور (آزاد کشمیر) "قاتلان حسینؓ"کے موضوع پر اہلسنت والجماعت اور اہل تشیع کے مابین ایک مناظرہ ہونا طے پایا تھا۔اہلسنت والجماعت کی طرف سے جناب ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب اور اہل تشیع کی طرف سے جناب احمد علی شاہ صاحب مناظرہ کے منتظم و مہتمم تھے۔شیعہ حضرات نے اس مناظرہ کے لیے اپنے معروف مناظر مولوی محمد اسماعیل گوجروی کو دعوت دی تھی جبکہ اہلسنت والجماعت کی طرف سے مجھے مدعو کیا گیا تھا۔
حسب عادت جب شیعہ مناظر مولوی محمد اسماعیل دعوت و وعدہ کے باوجود وقت مقررہ اور مقام مقررہ پر بغیر کسی جواز کے تشریف نہ لائے تو منتظمین اور حاضرین نے بے حد مایوس ہوئے۔شیعہ منتظمین نے وقت مقررہ پر اپنے کسی دوسرے مناظر کو بھی نہ بلا کر اپنی شکست تسلیم کر لی۔شیعہ حضرات نے بغیر مناظرہ کی شکست اس لئے قبول کر لی تھی کہ ان کے لئے ایسی شکست دانے مناظرہ کی یقین شکست سے بدر جہاں بہتر تھی۔
میں نے اس مناظرہ کے لئے جو دلائل مرتب کیے تھے وہ مختصر طور پر اس کتابچے میں شائع کر رہا ہوں۔اہل تشیع کی اس سکشت کی یادگار کے طور پر میں نے اس کتابچے کے نام سکشت اعدائے حسینؓ رکھا ہے۔امید ہے کہ ہر مکتب فکر کے لوگ اس سےکماحقہ، مستفید اور مستفیض ہوں گے ۔
9. ایجاد مذہب شیعہ
(اس کتاب میں یہ تحقیق سے پیش کیا گیا ہے کہ شیعہ ایک الگ مذہب ہے جو نہ نبی پاک سے چلا اور نہ بارہ آئمہ سے بلکہ اسکی بنیاد ایک دشمنِ اسلام نے رکھی)
10: بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم

(رسول اللہ کی چار بیٹیاں دلائل شیعہ کتب سے اور اہلسنت کا شیعہ کو 1956 کا چیلنج )
11۔تفسیر آیات اربعہ
(خلفاء راشدین کی خلافت پر قرآن پاک سے دلائل)
12. ایمان بالقرآن
(یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے جس میں تحریف قرآن پر روافض (شیعہ) سے مناظرے کے اصول بیان کیے گئے ہیں) 
13. الدین الخالص
ایک اور نایاب تصنیف" الدین الخالص کے مرتب کرنے میں ایک عجب جذبہ محرک ہوا جو آپؒ کے قلب پر روحانی طور پر وارد ہوا۔آپؒ فرماتے ہیں کہ اس جذبہ نے مجھے اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ ایک ایسا رسالہ لکھوں جس میں مذہب اہلسنت والجماعت کی حقانیت کو قرآن کریم کی ظاہر نصوص قطعیہ سے ثابت کیا جائے اور جو مسئلہ بیان کیا جائے وہ آیت قرآنی کا مدلول مطابقی ہو اور اس مدلول پر ایک آیت قرآنی دال ہونے میں کسی حدیث کی محتاج نہ ہو ۔  کیونکہ آیت قرآنی اگر اس مدلول پر دلالت کرنے میں محتاجِ حدیث ہوگی تو وہ مدلول ظنی ہو جائے گا۔البتہ جو حدیث آیتِ قرآنی کی مؤید ہے وہ تائید میں پیش کی جائے گی،مگر استدلال مدعا آیت سے ہی ہوگا ۔چنانچہ آپؒ نے اس کتاب میں کتابِ الٰہی کے بعض حصوں کی مستند علمی اور عملی تفسیر پیش کرکے خالص دین کی وہ صورت پیش کی جس میں کسی غل وغش کی کوئ گنجائش نہیں رہنے دی۔آیاتِ جہاد،اہل بیت ،بنات رسولؐ،ثبوت نکاح اُم کلثومؓ،خلفائے ثلاثہ اور صحابہؓ کا ایمان، شیخین کی فضیلت۔آیت رضوان ،آیت اظہار دین وغیرہ مسائل زیرِ بحث لائے گئے۔اس کتاب میں ایسے خطرناک موڑوں کی نشاندہی بھی فرمائی جہاں سے انسانیت کا قافلہ غلط سمت مڑتا رہا۔
14: عقائد و کمالات علمائے دیوبند
جس میں تمام عقائد کا بہت عمدہ انداز میں لکھا گیا ہے 
تصوف و سلوک:
آپؒ کو جیسے علوم ظاہری میں اللہ تعالیٰ کمال عطاء فرمایا تھا ایسے ہی علوم میں باطنی میں آپ مجدد اور مجتہد فی التصوف تھے آپ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ تھے یہ سلسلہ 12 واسطوں سے رسول صلی الله عليه وسلم سے جا ملتا ہے اسی موضوع پر آپ کی مشہور زمانہ کتاب دلائل االسلوک ہے جو کہ اُردو، عربی، انگلش،  سندھی، ہندی، پشتو میں اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی جعلی پیروں کی دکانیں بند ہو گئیں، اس کتاب میں صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرایا گیا ہے
جہاں تک تصوف کے علمی پہلو کا تعلق ہے تو بقول مولانا رحمہ اللہ صحیح اسلامی تصوف کے خد و خال کا تعین اور اسکی حقیقت سے علمی حلقوں کو روشناس کرانا نہایت ضروری ہے کیونکہ آجکل جس چیز کو تصوف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اسے تصوف اسلامی سے دور کا تعلق نہیں" یہی وجہ ہیکہ تصوف اور صوفیاء کرام کے متعلق عوام بلکہ علماء کے دلوں میں بھی شکوک وشبہات پاۓ جاتے ہیں لٰہذا آپ نے غلط فہمیوں کے ازالہ اور عوام و خواص کی علمی تشفی کی خاطر اور عامۃالمسلمین کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا جسکی اساس قرآن و حدیث پر ہو تاکہ عام لوگ بھی اپنی فکری اور عملی اصلاح کرسکیں 
آپؒ کی یہ مشہور زمانہ اور موکۃالارا تصنیف "دلائل السلوک" جو پہلی مرتبہ سنہ 1964 میں طبع ہوئی تصوف اور سلوک پر ایک سند اور اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ ایک کرامت ہے اس لیے آپؒ تاکید فرماتے کہ "یہ کتاب کسی ذی علم کو ہی دکھائی جائے کیونکہ جو شخص علم سے اندھا ہے وہ کسی روشنی سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا"
چونکہ اس تصنیف کا مقصد تصوف و سلوک کو دلائل شرعیہ سے ثابت کرنا مقصود تھا اس لیۓ اس کا اسلوب بیان سادہ و سلیس ہونے کے ساتھ نہایت مدلل اور محققانہ ہے
رد منکرین حیات النبیؐ
حیات النبیؐ کے موضوع پر آپ نے چار کتب تحریر فرمائی جو کہ منکرین حیات النبیؐ کی کتب کا رد ہے ایسی گہری دقیق تحقیق سے لکھی آج تک جواب نہیں دیا 
18: حیاتِ برزخیہ
اس کتاب میں ندائے حق کا رد کیا گیا ہے منکرین حیات النبیؐ کے تمام دلائل کا قرآن وحدیث سے رد کیا گیا ہے
19: سیف اویسیہ
20: حیات النبیؐ
21: حیات انبیاء
ان چاروں کتب میں آپؒ نے مسلئہ حیات النبیؐ پر تفصیل سے بحث فرمائی اور قرآنی آیات اور حدیث سے ثابت کیا کہ حیات انبیاء یا حیات بعد موت ایسی حقیقت ہے جسکی نشاندہی خود خالقِ کائنات نے فرما دی ہے کہ بل احیاء عند ربھم یرزقون یعنی وہ صرف زندہ ہی نہیں بلکہ انکی حیات قائم رکھنے کے لیے انہیں رزق دیا جاتا ہے اور بقول حضرت رحمتہ اللہ یہ ایک تو سلسلہ حقیقت ہے غذا یا رزق صرف زندہ لوگ ہی کھاتے ہیں  دراصل منافقین اور مشرکین اس غلط عقیدہ کا شکار تھے کہ وہ مرگئے اور موت ان کے نزدیک ایک علمی چیز تھی یعنی وہ بالکل نابود ہوگئے۔اس کے برعکس خالقِ حقیقی نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ مرے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں یہ عقیدہ راسخ ہونا چاہیے  کہ وہ زندہ ہیں اور حضرت جیؒ نے یہ بھی ثابت کیا کہ انبیاء کرامؑ قبور میں نماز پڑھتے ہیں۔
22: اسرار الحرمین
اسرار الحرمین میں آپؒ نے حرمین شریفین کے مبارک سفر کے دوران اولیاء اللہ کے مختلف گروہوں اور انکی اہمیت وتصرفات کے علاوہ اپنے بعض مشاہداتِ باطنی کا تذکرہ فرمایا ہے۔نیز جن دینی مسائل پر آپ کا حضور نبی کریمؐ سے ہم کلام ہوا انکی تفصیلات بھی خاص وعام کے فائدے اور واقفیت کے لیے اس تصنیف میں بیان کی گئی ہیں۔اس کتاب کے سلسلہ میں حضرت رحمتہ اللہ نے خود ایک واقعہ سنایا۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک مولوی صاحب اکثر اپنی تقاریر اور واعظ میں ہمارے سلسلہ پر اعتراض کیا کرتے تھے ۔انکے ایک بھائی ہمارے زکر تربیت میں شامل ہوگئے ۔ان کے حالات جب بدلے ہوئے دیکھے تو سوچ میں پڑ گئے یہ ہوا کیا؟ ہماری کتاب اسرار الحرمین ایک عمر رسیدہ عالم دین کے پاس لے گئے۔یہ بزرگ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور مجاز ہیں۔سرگودھا سے دور ایک دیہات میں اپنی زرعی آراضی پر رہتے ہیں۔مولوی صاحب نے کتاب کے وہ حصے جن میں حرمین شریفین کا بیان ہے ان کے سامنے رکھا اور پوچھا! کیا یہ باتیں درست ہیں اور ایسا ممکن ہے؟ چنانچہ آپ کتاب کے ان حصوں کا مطالعہ فرماتے رہے اور پھر فرمایا ہاں بھائی یہ سب درست اور صحیح ہے لیکن بات یہ ہے کہ اب ایسے لوگ کہاں ؟اس دور میں اس قسم کے لوگ نہیں پائے جاتے۔مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اس کتاب کے مصنف جن کے احوال کا کچھ ذکر اس کتاب میں ہے اس وقت زندہ موجود ہیں تو آپ نے فرمایا بھائی اگر ایسا شخص کہیں موجود ہے تو اس کے پاؤں دھو کر پینا چاہیئں۔ وہ صاحب کہاں تشریف فرما ہیں ؟
آپؒ کی تصانیف کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ تاثیر باطنی بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔یہ آپؒ کے فضل و کمال اور تفقہ فی الدین کی زبردست شہادت ہے۔اسی سے پتا چلتا ہے کہ احیائے دین کے لئے آپؒ کوئ لمحہ ضائع کیے بغیر دن رات کس قدر مصروف رہے۔
الفاروق رسالہ میں معاونت
شیعہ مناظر مبلغ اسماعیل گوجروی جب مناظروں میں آپؒ اور سید احمد شاہ بخاریؒ سے زچ ہونے لگا تو اس نے گوجرہ سے صداقت کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس میں حقائق ودلائل کو توڑ مروڑ کر مناظروں کی غلط رُوداد پیش کی جاتی۔اس کے تدارک کے لئے ضرورت محسوس کی گئی النجم کی طرز پر اہلسنت کا بھی ایک ترجمان رسالہ ہو۔ سید احمد شاہ بخاریؒ کی زیرِ صدارت دارالہدی چوکیرہ ضلع سرگودھا سے یکم نومبر 1956 کو پندرہ روزہ الفاروق کا اجرا ہوا تو اس کی مجلسِ عامہ نے حضرت مولانا رحمتہ اللہ سے معاونت کی درخواست کی جو آپؒ نے قبول فرمائی اور الفاروق کے پہلے شمارے سے لے کر 15 جولائی 1960کے آخری شمارے تک مسلسل مدیرِ معاون کے فرائض سرانجام دئیے۔
اگست 1957 کے شمارے میں آپؒ کا معرکۃالآرا مضمون، داعیانِ حسینؓ وقاتلانِ حسینؓ کی خانہ تلاشی شائع ہوا۔اس وقت تو اس مضمون پر کوئی ردّعمل نہ ہوا کیونکہ آپؒ نے تاریخی حقائق بیان فرمائے تھے لیکن تین سال بعد اسی مضمون کو بنیاد بناتے ہوئے گورنر پنجاب کے حکم سے الفاروق بند کر دیا گیا۔ 
وفات
علوم ظاہر و باطنی کا بےتاج بادشاہ 18 فروری 1984 کو غروب آفتاب کے ساتھ ہی غروب ہو گیا۔ اس سانحہ عظیم پر ہم کیا رؤے پوری کائنات روئی اور حدیث مبارک کے الفاظ میں آپؒ کی وفات موت العالم، موت العالم کی مصداق بن گئی
آپؒ کے بعد آپؒ دو خلفاء حضرت محمد احسن بیگ صاحب دامت برکاتہ اور سید بنیاد حسین شاہ رحمہ اللہ (اکتوبر 2021 میں وفات پا گئے ہیں) نے سلسلے کی باگ ڈور سنبھالی جو سالکین کی تربیت و منازل سلوک طے کروا رہے ہیں۔