Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نبی کریم ﷺ کا خودکشی کا ارادہ اور شیعہ دجل

  مولانا محمد حسین میمن

نبی کریمﷺ کا خودکشی کا ارادہ اور شیعہ دجل

مصنف قرآن مقدس، صحیح بخاری کی ایک حدیث ذکر کرتا ہے کہ:

مراراً کئی یتردی من رؤوس شواھق الجبال فکلما أوفی بذروۃ جبل لکی یلقی منہ نفسہ۔

(صحیح بخاری کتاب التعبیر: رقم الحدیث، 6982)

ترجمہ: ’’وحی نہ آنے کی وجہ سے رنج کے مارے کئی بار آپﷺ خودکشی کرنے پر تیار ہو گئے اگر حضرت جبریل علیہ السلام آ کر دلاسہ نہ دیتے کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپﷺ خودکشی کرنے پر کئی بار تیار ہو گئے تھے۔‘‘

اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مصنف آگے لکھتا ہے کہ ’’یہ ہے امام بخاری اور ان کے معتمد علیہ استاذ امام زہری کا مذہب جو بڑی خوشی کے ساتھ امام بخاری نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے بار بار آپﷺ سے کفر کی تیاری کرواتے (معاذاللہ) نہ بخاری کو قرآن کا علم نہ ان کے امام زہری کو علم نہ امام بخاری کو آپ (ﷺ) کی حیثیتِ نبوی کا پاس نہ زہری جیسے بکواسی آدمی کو! دونوں نے مل کر آپﷺ سے کئی بار کفر پر مرنے کی تیاری کروائی۔

(قرآن مقدس: صفحہ، 14-13)

جواب:

قارئین کرام آپ نے دیکھا کس قدر بکواس اور لفاظی کے ساتھ مصنف نے نبی کریمﷺ کی حدیث اور محدثین کی جماعت کو نشانہ بنایا تف ہے ایسی لفاظی پر۔ مصنف نے اس حدیث کو پیش کرنے سے پہلے ایک قاعدہ ذکر کیا کہ خودکشی کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر سورۃ یوسف کی آیت 87 ذکر کی۔ مصنف نے بڑے دھڑلے سے امام بخاری رحمۃ اللہ کو اور امام زہری رحمۃ اللہ کو بکواسی اور لاعلم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ دونوں تو اتنے عظیم عالم تھے پوری امت ان پر آج تک رشک کرتی ہے۔ اور رہا سوال مصنف علامہ احمد سعید کا تو ان کی قابلیت تو یہیں سے آشکارا ہو جاتی ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث جس پر وہ اپنا زہر گھول رہا ہے وہ تو ابتدائی وحی تھی اور سورہ یوسف تو کافی سالوں بعد نازل ہوئی جس سے وہ خودکشی کی حرمت ثابت کر رہے ہیں۔ اندازہ کیجئیے! مصنف کس قدر جاہل اور بکواسی ہے۔

دوسری بات صحیح بخاری کی حدیث میں ’’ارادے‘‘ کا ذکر ہے یعنی اس ارادے کے ساتھ پہاڑ پر نبی کریمﷺ چڑھ جایا کرتے تھے لیکن حضرت جبریل علیہ السلام آ کر انھیں دلاسا دیتے تو نبی کریمﷺ ارادے سے باز آ جاتے تھے کیونکہ ابھی نبی کریمﷺ کو وحی کے ذریعے اس ارادے سے نہیں روکا گیا تھا۔ اس کی مثال میں قرآن سے پیش کرتا ہوں کہ: نبی کریمﷺ نے اپنے لیے شہد حرام قرار دیا تھا قرآن کریم سورہ تحریم میں فرماتا ہے کہ:

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ‌

(سورۃ التحريم: آیت، 1)

ترجمہ: اے نبی! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے، تم اسے کیوں حرام کرتے ہو؟  

بتائیے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریمﷺ نے ایک چیز کو اپنے لیے حرام کر دیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا تھا۔ یقیناً ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریمﷺ کو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریمﷺ کو اس فعل (ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا۔ اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

حضرت مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹھہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے۔

قَالَتۡ يٰلَيۡتَنِىۡ مِتُّ قَبۡلَ هٰذَا وَكُنۡتُ نَسۡيًا مَّنۡسِيًّا 

 (سورۃ مريم: آیت، 23)

ترجمہ: وہ کہنے لگیں: کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی، اور مر کر بھولی بسری ہو جاتی۔

غور طلب بات ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا۔ اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں؟ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لیے اپنی کتاب کے صفحہ 13 پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہﷺ نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرما دیا۔‘‘

قارئین کرام مندرجہ بالا حدیث جس سے مصنف نے حجت پکڑی ہے اسے امام الدنیا، امیر المحدثین، شیخ الاسلام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی تصنیف صحیح بخاری میں نقل کی ہے۔ مصنف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 14 پر امام بخاری رحمۃ اللہ کو دشمنِ رسالت باور کرایا ہے مصنف کی اس حالت کو کیا کہیں یہ تو نشہ اور مستی کی حالت ہے یا تو یہ مصنف کی جہالت اور کم علمی کا نشہ ہے یا پھر یہ یہود و نصاریٰ کا آلہ کار ہے۔ یہ صرف شیطان کی پیروی ہے اس کے سوا کچھ نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ امام المحدثین ہیں جن کی عظمت کو امتِ مسلمہ تسلیم کرتی ہے مصنف نے جو ان پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے وہ کوشش ان شاء اللہ تباہ و برباد ہو کر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے:

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّـفۡسَكَ اَلَّا يَكُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ 

(سورۃ الشعراء: آیت، 3)

ترجمہ: (اے پیغمبر) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جا رہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔

اس آیت کے بارے میں مصنف کا کیا جواب ہے؟ کیا اس آیت کے بارے میں بھی مصنف وہی روّیہ رکھے گا جو حدیث کے بارے میں ہے نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں؟ اسی لیے کہ مصنف جاہل ہے۔ مصنف کا اعتراض بے ادبی، لغویات اور بکواس پر مبنی ہے جو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم پر بھی عیاں ہے۔