Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضور ﷺ پر جادو کا اثر ہونا۔(اعتراض کا رد)

  مولانا محمد حسین میمن

حضور اکرمﷺ پر جادو کا اثر ہونا

مصنف اپنی کتاب قرآن مقدس اور بخاری محدث کے صفحات 15، 16، 17 اور 18میں حدیثِ سحر پر اعتراض کرتا ہے اور ہشام کو کذاب مدلس کہتا ہے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ پر جو جادو ہوا اسے مشتبہ بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
جواب:
کاش مصنف قرآن کریم کو عقل کی آنکھ جو کہ حالتِ سکر ( نشہ) کی وجہ سے غائب ہے سے پڑھ لیتا تو اسے صحیح بخاری کی یہ حدیث مشتبہ نظر نہ آتی اور نہ ہی وہ لفاظی کرتا۔ مصنف نے بڑی چالاکی سے آیت کے ترجمہ اور مفہوم کو کچھ کا کچھ بنا دیا۔ کیونکہ مصنف خائن ہے مصنف نے اپنے مؤقف پر چند آیات سے غلط استدلال کیا ہے۔
وَلَا يُفۡلِحُ السّٰحِرُ حَيۡثُ اَتٰى‏ 
(سورۃ طه: آیت، 69)
ترجمہ: اور جادوگر چاہے کہیں چلا جائے، اسے فلاح نصیب نہیں ہوتی۔
اِلَّا عِبَادَكَ مِنۡهُمُ الۡمُخۡلَصِيۡنَ 
 (سورۃ الحجر: آیت، 40)
ترجمہ: سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے اپنے لیے مخلص بنا لیا ہو۔
وَقَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا 
(سورۃ الفرقان: آیت، 8)
ترجمہ: اور یہ ظالم (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ: تم جس کے پیچھے چل رہے ہو، وہ اور کچھ نہیں، بس ایک شخص ہے جس پر جادو ہو گیا ہے۔
1: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جادو گر کبھی بھی کامیاب نہ ہو گا تو یقیناً کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے کہ لبید بن اعصم جس نے نبی کریمﷺ پر جادو کیا تھا وہ کامیاب ہو گیا بلکہ اسے تو منہ کی کھانی پڑی۔
2: آیت مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ (شیطان کہتا ہے کہ) تیرے مخلص بندوں پر میرا کوئی زور نہ ہو گا اگر ہم صحیح حدیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ شیطان نے بہت کچھ چاہا لیکن وہ پوار نہ ہو سکا اور وہ جادو نبیﷺ کی دینی زندگی پر اثر انداز نہ ہو سکا اور اللہ نے اپنے نبی کو بچا لیا۔
3: جہاں تک سورہ فرقان کی آیت کا تعلق ہے تو وہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور جادو نبی کریمﷺ پر مدینہ میں ہوا تھا لہٰذا اس آیت سے استدلال غلط ہے دوسری بات یہ ہے کہ مسحوراً کے لغوی معنی ہے۔
’’ذاھب العقل مفسرا‘‘
’’عقل کا جانا اور بگاڑ پیدا ہونا‘‘
(لسان العرب: جلد، 6 صفحہ، 186)
یعنی جس کی عقل ہی ختم ہو گئی ہو۔ (جیسا کہ سعید خان ملتانی کی) لیکن جب ہم اس باب میں صحیح احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ایسی کوئی بات کسی حدیث میں نہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ اعتراض نبیﷺ پر قرآن پیش کرنے کی وجہ سے کفار کرتے تھے نہ کہ جادو کی وجہ سے۔ اب ہم ان شاء اللہ مفصل جواب دیں گے۔
جادو کی حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں!
(کتاب الجھاد باب ھل یعفی عن الذمی اذا سحر، رقم الحدیث 3175)
(کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ: رقم الحدیث، 3268)
(کتاب الطب باب السحر: رقم، 5763، 5766
کتاب الطب باب ھل یستخرج السحر: رقم الحدیث، 5765)
(کتاب الادب باب قول الله ان الله یأمرکم بالعدل: رقم الحدیث، 6063)
کتاب الدعوات باب تکریر الدعا: رقم الحدیث، 6391
موصوف نے حدیث کے مرکزی راوی ہشام رحمۃ اللہ پرطعن کیا اور انہیں کاذب گردانا ہے۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ جرح کس سے نقل کی ہے ایک تو نبی کریمﷺ پر الزام لگایا دوسرے قرآن کریم کے معنی میں تحریف کی جہاں تک تعلق امام ہشام کا ہے تو ان کو ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
"وقد احتج بھشام جمیع الائمۃ"
(مقدمہ فتح الباری: صفحہ، 625)
ترجمہ: یقیناً ہشام سے تمام ائمہ نے احتجاج پکڑا ہے۔ (یعنی ہشام کی روایت کو بطور دلیل و حجت پکڑا ہے) 
محمد بن سعد نے کہا:
"کان ثقۃ ثبتا کثیر الحدیث حجۃ"
ترجمہ: "ثقہ تھے ثبت تھے زیادہ احادیث روایت کرنے والے تھے حجت تھے۔"
ابو حاتم نے کہا:
"ثقۃ امام فی الحدیث"
ترجمہ: "ثقہ اور حدیث کا امام ہے"
(تہذیب الکمال امام مزی، الکاشف امام ذھبی، تقریب التہذیب ابنِ حجر العسقلانی، طبقات ابنِ سعد)
مصنف نے جو الزام امام ہشام رحمۃ اللہ پر لگایا ہے وہ بلا دلیل ہے یا تو مصنف اسماء رجال کے علم سے بالکل ناواقف ہے یا پھر مصنف انتہائی درجے کا بدنیت ہے۔ دوسرا اعتراض مصنف کا یہ ہے کہ آپﷺ علیل ہو گئے خلاف واقعہ باتیں کرنے لگے آپﷺ نڈھال ہو گئے۔
(قرآن مقدس اور بخاری محدث: صفحہ، 17)
قارئین کرام ہم ذیل میں صحیح بخاری کی مکمل حدیث نقل کر دیتے ہیں روایت نقل کرنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ یہ شیطانی چال اور مکر و فریب مصنف کا ہے جو حدیث دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
"خود تو بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں"
عن ھشام عن أبیہ عن عائشۃ رضی الله عنہا قالت سحر رسول الله صلی الله علیہ وسلم رجل من بنی زریق یقال لہ لبید بن الاعصم حتی کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یخیل الیہ۔ 
(صحیح بخاری کتاب الطب باب السحر: رقم الحدیث، 5763)
ترجمہ: ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بنی زریق کے ایک شخص (یہودی) لبید بن الاعصم نے نبی کریمﷺ پر جادو کر دیا آپﷺ کا یہ حال ہو گیا کہ ُآپﷺ کو خیال ہوتا جیسے ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کام آپﷺ نے نہیں کیا ہوتا، ایک دن یا ایک رات ایسا ہوا کہ آپﷺ میرے پاس تھے مگر میری طرف متوجہ نہ تھے بس دعا کر رہے تھے اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا عائشہؓ میں اللہ تعالیٰ سے جو بات دریافت کر رہا تھا وہ اس نے (اپنے فضل سے) مجھ کو بتلا دی میرے پاس دو فرشتے آئے (حضرت جبریل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام) ایک تو میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا میرے قدموں کے پاس اب ایک دوسرے سے پوچھنے لگا یہ تو کہو ان صاحب (محمدﷺ) کو کیا بیماری ہو گئی اس نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے پہلے فرشتے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے دوسرے نے کہا لبید بن الاعصم نے۔‘‘
خط کشیدہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ قارئین کرام جادو کا اثر نبی کریمﷺ پر صرف اتنا ہوا کہ آپﷺ کا دنیاوی معاملہ متاثر ہوا یعنی آپﷺ کو خیال ہوتا کہ کوئی کام آپﷺ نے کیا جبکہ وہ کام نہیں کیا ہوتا۔ افسوس مصنف نے انتہائی غلو سے کام لیا اور پیغمبرﷺ کی حدیث کی عبارت میں خیانت کی اور اس کے مفہوم کو تبدیل کر دیا۔ حالانکہ اسی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میں نے اللہ سے دعا کی یعنی عبادات اسی طرح جاری تھیں جس طرح بقیہ زندگی میں۔ اگر جادو اتنا ہی اثر انداز ہو جاتا (جیسے مصنف نے باور کرانے کی کوشش کی) تو آپﷺ اللہ سے دعا ہی نہیں کرتے۔ ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ مصنف نے بغیر کسی دلیل کے حدیث پر اعتراض کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپﷺ کو لوگوں کی ایذا سے محفوظ رکھے گا۔ اسی وجہ سے جادو کے باوجود نبی کریمﷺ نے نہ کبھی نماز چھوڑی نہ ہی چار کی جگہ دو رکعت پڑھی، اور نہ کبھی ایسا ہوا کہ مغرب کی جگہ عشاء پڑھ لی یہ جادو صرف نبی کریمﷺ کے دنیاوی معاملات پر اثر انداز ہوا تھا نہ کہ دینی کیونکہ دینی معاملات کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ 
(سورۃ الحجر: آیت، 9)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
نوٹ: (ذکر سے مراد یہاں قرآن اور صحیح حدیث دونوں ہیں۔)
ایک اور بات کہ جادو کے اثر سے نبی کریمﷺ بھول جایا کرتے تھے اگر یہ بھول نبوت کے منافی ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے:
فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَيۡنِهِمَا نَسِيَا حُوۡتَهُمَا 
(سورۃ الكهف: آیت، 61)
ترجمہ: چنانچہ جب وہ ان کے سنگھم پر پہنچے تو دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے، 
بلکہ قرآن کریم تو یہاں تک فرماتا ہے:
سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓى اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ‌ 
(سورۃ نمبر 87 الأعلى: آیت، 6، 7)
ترجمہ: (اے پیغمبر) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم بھولو گے نہیں۔ سوائے اس کے جسے اللہ چاہے۔  
جب بھول اور نسیان قرآن سے ثابت ہے تو پھر صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراض کیوں؟ مولانا مؤدودی مرحوم اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں راقم ہیں کہ:
"کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں (یعنی جادو کی کیفیت کے دوران) آپﷺ قرآن مجید بھول گئے ہوں، یا کوئی آیت غلط پڑھی ہو۔ یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپﷺ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہو گیا ہو یا کوئی ایسا کلام وحی کی حیثیت پیش کر دیا ہو۔ جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آ جاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملکِ عرب اس سے واقف ہو جاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کر سکی تھی اسے ایک جادوگر کے جادو نے چت کر دیا۔ لیکن آپﷺ کی حیثیتِ نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپﷺ اپنی جگہ محسوس کر کے پریشان ہوتے رہے۔"
(تفہیم القرآن: جلد، 6 صفحہ، 554، 555)
الحمد لللہ یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ نقشہ جو مصنف نے اپنی کتاب میں کھینچا وہ بالکل لغو بکواس اور سراپا الزام ہے نبی کریمﷺ پر قرآن کریم جادو کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ جب حضرت موسٰی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا‌ فَاِذَا حِبَالُهُمۡ وَعِصِيُّهُمۡ يُخَيَّلُ اِلَيۡهِ مِنۡ سِحۡرِهِمۡ اَنَّهَا تَسۡعٰى فَاَوۡجَسَ فِىۡ نَفۡسِهٖ خِيۡفَةً مُّوۡسٰى 
(سورۃ طه: آیت، 66، 67)
ترجمہ: موسیٰ نے کہا: نہیں، تم ہی ڈالو۔ بس پھر اچانک ان کی (ڈالی ہوئی) رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں موسیٰ کو ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں۔ اس پر موسیٰ کو اپنے دل میں کچھ خوف محسوس ہوا۔ 
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا سَحَرُوۡۤا اَعۡيُنَ النَّاسِ وَاسۡتَرۡهَبُوۡهُمۡ 
(سورۃ الأعراف: آیت، 116)
ترجمہ: چنانچہ جب انہوں نے (اپنی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا، ان پر دہشت طاری کر دی، 
ان دونوں آیات سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب جادوگروں نے اپنی رسیاں ڈالیں تو جادو کے اثر سے لوگ بھی خوف زدہ ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی، یعنی لوگوں پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوا۔ جب حضرت موسٰی علیہ السلام پر جادو اثر کر سکتا ہے تو نبی کریمﷺ پر کیوں کر نہیں کر سکتا؟ حالانکہ قرآن کریم نے موسٰی علیہ السلام کو نبی کریمﷺ کا مماثل قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡكُمۡ رَسُوۡلًا شَاهِدًا عَلَيۡكُمۡ كَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا 
(سورۃ المزمل: آیت، 15)
ترجمہ: (جھٹلانے والو!) یقین جانو ہم نے تمہارے پاس تم پر گواہ بننے والا ایک رسول اسی طرح بھیجا ہے، جیسے ہم نے فرعون کے پاس ایک رسول بھیجا تھا۔
انبیاء علیہم السلام تو بے شمار گذرے لیکن جتنی مماثلت حضرت موسٰی علیہ السلام اور نبی کریمﷺ کے درمیان تھی اتنی مماثلت کسی اور نبی کے ساتھ نہ تھی۔ مثلاً دونوں ماں باپ سے پیدا ہوئے دونوں کی شادی اور ان کے ہاں اولاد ہوئی حضرت موسٰی علیہ السلام نے ہجرت کی تو آپﷺ نے بھی ہجرت کی حضرت موسٰی علیہ السلام کے دور کا فرعون ہلاک ہوا تو نبی کریمﷺ کے دور کا فرعون ابوجہل بھی ہلاک ہوا، حضرت موسٰی علیہ السلام نے جہاد کیا نبی کریمﷺ نے بھی جہاد کیا، حضرت موسٰی علیہ السلام کے جانشین ان کے خاندانِ نبوت کا فرد نہیں بلکہ صحابی یوشع بن نون بنے تو آپﷺ کے جانشین بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اسی طرح حضرت موسٰی علیہ السلام پر جادو ہوا تو نبی کریمﷺ پر بھی جادو ہوا یہ وہ حقائق ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آتا ہے اب ان حقائق سے انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ملحد ہو گا یا اس کا تعلق دین محمدیﷺ سے نہیں ہو گا۔
لہٰذا مصنف کے تمام اعتراضات صرف اورصرف حدیث دشمنی کی وجہ سے ہے باقی حق آپ کے سامنے ہے۔