Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مرسلین علیہم السلام کی بعثت کا مقصد عادلانہ نظام کا قیام بھی ہے

  امام ابنِ تیمیہؒ

مرسلین علیہم السلام کی بعثت کا مقصد عادلانہ نظام کا قیام بھی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾ [ الحدید:25]

ترجمہ:’’ بلا شبہ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیْبٌ ﴾ [شوری:18]

ترجمہ:’’ اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب نازل کی اور میزان بھی، اور تجھے کون سی چیز آگاہ کرتی ہے، شاید کہ قیامت قریب ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْل﴾ [النساء:58]

ترجمہ:’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَاِنْ جَآئُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًا وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ [المائدۃ:42]

ترجمہ:’’ پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر، یا ان سے منہ پھیر لے اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے تو ہرگز تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائیں گے اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر ، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ہُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ﴾

ترجمہ:’’ پس ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر، اس سے ہٹ کر جو حق میں سے تیرے پاس آیا ہے۔‘‘

پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ انصاف کریں ؛ اور لوگوں کے مطابق اللہ کے نازل کردہ احکام کی روشنی میں فیصلے کریں ۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام عادلانہ ہیں ۔انصاف اس کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

فریقین کے مابین فیصلہ کرنے والے پر یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ عادلانہ فیصلہ کرے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْل﴾ [النساء:58]

ترجمہ:"اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔‘‘

حاکم کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی صورت میں ظلم کرے۔ وہ شریعت جو مسلمان حکمرانوں پر واجب ہے؛ وہ ساری کی ساری عدل ہے۔ شریعت میں اصل میں کوئی ظلم نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام سب سے بہترین احکام ہوتے ہیں ۔ شریعت وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہو۔پس ہر وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے؛ وہ عادلانہ فیصلے کرتا ہے۔ لیکن عدل مختلف قسم کا ہے۔ جو کہ شریعت اور منہج کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔پس ہر شریعت میں اس کے حساب سے عدل ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَoوَ کَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَ عِنْدَ ہُمُ التَّوْرٰیۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ مَآ اُولٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآئَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [المائدۃ:42:44]

ترجمہ:’’ اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر ، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔اور وہ تجھے کیسے منصف بنائیں گے، جبکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے پھر وہ اس کے بعد پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ۔بے شک ہم نے تورات اتاری، جس میں ہدایت اور روشنی تھی، اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے، ان لوگوں کے لیے جو یہودی بنے اور رب والے اور علماء، اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے۔ تو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں ۔‘‘

آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ہُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ o وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ہُمْ وَ احْذَرْہُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ oاَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾ [المائدۃ:50:47]

ترجمہ:’’ اور لازم ہے کہ انجیل والے اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں ۔ اور ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو کتابوں میں سے اس سے پہلے ہے اور اس پر محافظ ہے۔ پس ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر، اس سے ہٹ کر جو حق میں سے تیرے پاس آیا ہے۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا اور لیکن تاکہ وہ تمہیں اس میں آزمائے جو اس نے تمہیں دیا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر اور ان سے بچ کہ وہ تجھے کسی ایسے حکم سے بہکا دیں جو اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے، پھر اگر وہ پھر جائیں تو جان لے کہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں ان کے کچھ گناہوں کی سزا پہنچائے اور بے شک بہت سے لوگ یقیناً نافرمان ہیں ۔پھر کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے، ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں ۔‘‘

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تورات اور انجیل کا حکم بیان فرمایا ہے؛ اور پھر بیان کیا کہ اس نے قرآن نازل کیا ہے؛ اوراپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ ان لوگوں میں قرآن کے مطابق فیصلے کریں ؛ اور کتاب اللہ کی تعلیمات کو چھوڑ کر ان کی خواہشات پر نہ چلیں ۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نبی کے لیے ایک شریعت اور منہج ہوا کرتا تھا۔ پس موسی علیہ السلام کا اپنا منہج تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنا منہج تھا۔ یہ منہج وشریعت تورات اور انجیل میں موجود تھے۔ اور جو کچھ قرآن میں ہے؛ اسے اپنے نبی اکرمﷺ کے لیے شریعت و منہج مقرر کیا تھا۔ اور آپ کو حکم دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے کیا کریں ۔ اوراس بات سے خبردار کیا تھا کہ کہیں لوگ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تعلیمات سے فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے؛ وہی اس کا حکم ہے۔اور جو کوئی اس کے علاوہ کوئی دوسرا حکم چاہتا ہے تو یقیناً وہ جاہلیت کے احکام کے مطابق فیصلے کروانا چاہتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [المائدۃ:44:42]

ترجمہ’’جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں ۔‘‘

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو کوئی رسول اللہﷺ پر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام واجب نہ ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو؛ وہ کافر ہے۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر اپنی رائے کے مطابق لوگوں کے مابین فیصلہ کرنے کو عادلانہ نظام سمجھتا ہو؛ وہ بھی کافر ہے۔ بیشک کوئی بھی امت ایسی نہیں ہے جو عدل و انصاف کا حکم نہ دیتی ہو۔ اور بسا اوقات ان کے دین میں عدل وہی ہوتا ہے جسے ان کے بڑے عدل خیال کرتے ہیں ۔ بلکہ بہت سارے اسلام کی طرف منسوب لوگ اپنی ان عادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جن کی کوئی دلیل اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کی۔جیسا کہ اہل بادیہ ؛ میں ان کے بڑے وڈیروں کے فیصلے ۔ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں اسی طرح کے فیصلے کرنے چاہیے۔ اور وہ کتاب و سنت کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ ایسا کرنا کفر ہے۔ بیشک بہت سارے وہ لوگ جنہوں نے اسلام تو قبول کیا ہے؛ مگر اس کے باوجود وہ اپنے مابین چلتی ہوئی عادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔ جب ان لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر فیصلہ؍قانون سازی جائز نہیں ہے؛ تو وہ اس کا التزام نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے برعکس قانون سازی کو حلال سمجھتے ہیں ۔یہ لوگ بھی کافر ہیں ؛ اگر ان سے جہالت کا عنصر ختم ہو جائے تو؛ جیساکہ اس سے پہلے ان کی بابت گزر چکا۔

اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب ان کے مابین کسی معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو وہ اس کے حل کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ [النساء:59]

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [النساء:65]

’’ پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کر لیں ، پوری طرح تسلیم کرنا۔‘‘

پس جو کوئی اپنے باہمی جھگڑوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے فیصلوں کا التزام نہ کرتا ہو؛ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم اٹھاکر فرمایا ہے کہ وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ اور جو کوئی ظاہری اور باطنی طور پر اللہ تعالیٰ اس کے رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہو؛ لیکن اپنی خواہشات کے بہکاوے میں آ کر نافرمانی کر بیٹھے ؛ تو یہ بھی دوسرے گنہگاروں کی طرح ہے۔

یہ وہ آیت ہے جس سے خوارج نے ان مسلمان حکمرانوں کے کافر ہونے پر استدلال کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے۔ اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا اعتقاد اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اور لوگوں نے اس سلسلہ میں طویل کلام کیا ہے؛ جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔

شریعت کے فیصلوں کی پابندی واجب ہے

مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضا کے مطابق فیصلہ صادر کرنا ہر زمان و مکان میں ہر شخص پر ہر ایک کے لیے واجب ہے ۔ خصوصاً شریعت محمدی کی روشنی میں حکم صادر کرنا ایک خاص قسم کا عدل ہے جو عدل کے جملہ انواع سے اکمل و احسن ہے۔ یہ فیصلہ نبی کے لیے بھی ضروری ہے اور اتباع نبی کے لیے بھی۔ اس کی پابندی نہ کرنے والا یقیناً کافر ہے۔ ایسا فیصلہ امت کے جملہ متنازعہ امور میں ضروری ہے؛ خواہ وہ اعتقادی ہوں یا عملی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیّٖنٰتُ﴾ [البقرہ:213]

ترجمہ:’’لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں اختلاف انہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکیں۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہُ اِِلَی اللّٰہِ﴾ [الشوری:10]

’’ اور وہ چیز جس میں تم نے اختلاف کیا، کوئی بھی چیز ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾ ( النساء:59)

ترجمہ:’’اگر کسی بات میں تمہارے یہاں تنازع پیدا ہو جائے تو اسے اللہ و رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘

امت کے درمیان جملہ امور مشترکہ میں صرف اور صرف کتاب و سنّت کا فیصلہ ناطق ہو گا نہ کہ کسی عالم و امیر یا کسی شیخ و سلطان کا فیصلہ ۔اور جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ وہ لوگوں کے مابین کچھ بھی فیصلہ کرسکتا ہے؛ اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے مطابق فیصلہ نہ کرے؛ تو وہ کافر ہے۔ مسلمان حکمران چند متعین امور میں فیصلے کرتے ہیں ۔ وہ کلی امور میں فیصلے نہیں کرتے۔ اور جب متعین امور میں فیصلے کرتے ہیں تو ان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں ۔ اگر کتاب اللہ میں حکم نہ ملے تو پھر سنت رسول اللہﷺ کے مطابق ؛ اور اگر وہاں بھی کوئی حکم نہ ملے تو پھر حکمران اپنی رائے سے اجتہاد کرے۔

نبی کریمﷺ فرماتے ہیں : ’’قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ، دو قاضی دوزخی اور ایک جنتی ہو گا۔‘‘

¹۔ جو قاضی حق کو معلوم کر کے اس کے مطابق فیصلہ کرے وہ جنت میں جائے گا۔

²۔ جو قاضی حق کو جاننے کے باوجود اس کے برخلاف فیصلہ کرے وہ جہنمی ہو گا

³۔ جو جہالت کی بنا پر لوگوں کا فیصلہ کرے وہ دوزخ میں جائے گا۔[سنن ابی داؤد۔ کتاب الأقضیۃ، باب فی القاضی یخطیٔ(حدیث:3573)، سنن ابن ماجۃ، کتاب الاحکام۔ باب الحاکم یجتھد فیصیب الحق(حدیث:2315)۔ ] جب کوئی شخص علم و عدل کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اس کا اجتہاد مبنی بر صواب ہو تو اسے دو اجر ملیں گے اور اگر اس کا اجتہاد درست نہ ہو تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے۔[صحیح بخاری، کتاب الاعتصام باب اجر الحاکم اذا اجتھد ....‘‘ (حدیث:7352)، صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتھد (حدیث:1716)۔] جیساکہ صحیحین میں دو مختلف اسناد سے نبی کریمﷺ سے ثابت ہے۔ 

یہاں پر مقصود یہ ہے کہ جب عام اہلِ ایمان پر واجب ہے کہ اپنے جھگڑوں میں صرف علم اور عدل پر مبنی بات کریں ۔اور اختلافی مسائل کو حل کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دیں ۔ جب دوسرے لوگوں کے باہمی معاملات میں عدل کو یہ اہمیت حاصل ہے تو صحابہؓ دوسروں کی نسبت عدل و انصاف کیے جانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ اگر کوئی طعنہ زنی کرنے والا حکمرانوں پر طعنہ زنی کرے؛ کسی بادشاہ پر؛ یا حکمران پر؛ یا امیر یا والی پر یا شیخ پر؛ یا اس طرح کے دیگر کسی انسان پر طعنہ زنی کرے؛ اور اسے کافر اور دوسروں کی ولایت یا کسی بھی معاملہ پر سرکشی کرنے والا قرار دے؛ اور کسی دوسرے کو عالم ؛عادل او رہر خطاء اور گناہ سے مبراء گردانے؛اور پھر جو بھی انسان اس پہلے انسان[حاکم یا والی] سے محبت اور دوستی رکھے؛ تو اسے کافر اور ظالم اور سبُّ وشتم کا مستحق جانے؛ اور اسے گالی دینا شروع کر دے۔تو بلاشک و شبہ ایسے انسان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ عادل و علم پر مبنی بات کریں ۔