نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں کہ امید ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع ہو۔
مولانا محمد حسین میمن
اعتراض:
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 25 پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو مشتبہ بنا رہا ہے یعنی مصنف کی تحریر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ شاتم رسولﷺ ہے ایسے شخص کی سزا اسلام میں صرف اور صرف قتل ہے مصنف مزید اعتراض پیش کرتا ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں:
’’لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیٰمۃ ‘‘
ترجمہ: کہ امید ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع ہو۔
اس حدیث کو رد کرنے کے لیے مصنف نے قرآن پاک کی آیت پیش کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ماکان للنبی والذین آمنوا (سورۃ التوبہ: آیت، 113)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر واضح ہو گیا کہ مشرکین جہنمی ہوتے ہیں۔
جواب:
قارئین کرام یہاں پر مصنف نے جو جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے ،وہ قابل غور ہے !
قیامت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفارش کریں گے اور مصنف یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ سفارش ناجائز ہے حالانکہ سورۃ التوبہ میں استغفار کرنے کی ممانعت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت کے حکم کے بعد آپ نے کبھی ان کے لیے استغفار کیا ہو۔ استغفار کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے آخرت میں نہیں۔ اور آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفارش کرینگے اپنے چچا کی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش ابو طالب کو فائدہ دے گی تو اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب مناقب الأنصار باب قصۃ ابی طالب رقم الحدیث، 3885 )
پس کر دیا جائے گا وہ(ابو طالب) آگ کے پایاب چشمے میں اور آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھولے گا۔
یعنی ابو طالب کو اس کے ٹخنوں تک آگ پہنچے گی جس سے اسکا دماغ کھولے گا۔ استغفار تو یہ ہے کہ معاف کر دیا جائے یہاں تو کسی قسم کی معافی کا کوئی سوال ہی نہیں انکو ٹخنوں تک عذاب کیوں دیا جائے گا اس کا جواب یہ ہے کہ جرم جتنا بڑا ہو گا اس کی سزا اتنی ہی سخت ہو گی ابوطالب نے پوری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کی یعنی ابو جہل، ابو لہب کے مقابلے میں انکا جرم کم تھا لہٰذا جتنا جرم اتنی سزا، مصنف کا اعتراض اس وقت صحیح ہوتا کہ جب ابو طالب کو معاف کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ آگ ہی میں رہے گا۔ اگر مصنف اس سزا کو معافی پر محمول کرتا ہے تو میرا مصنف سے سوال ہے کہ کیا وہ ان آگ کی جوتیوں کے لیے تیار ہے؟ (ویسے حرکتیں تو اسکی یہی ثابت کر رہی ہیں) لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔