صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کرتا ہوا معترض ہے۔ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے: ’’اے رب تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ زندہ کرنے کے دن میں تجھ کو ذلیل نہ کرونگا چنانچہ اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو گی کہ میرا باپ جہنم میں چلا جائے۔ ‘‘(صحیح بخاری کتاب الانبیاء: 474) آگے رقمطراز ہے قرآن میں عدم بصیرت کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو امام بخاری رحمۃ اللہ نے اللہ کا وعدہ بنا دیا حالانکہ قرآن میں کتنا صاف لکھا ہوا ہے کہ خلیل اللہ نے دنیا ہی میں اپنے باپ سے برأت کا اعلان کر دیا تھا تو قیامت میں کیسے کہہ سکتے تھے۔
مولانا محمد حسین میمناعتراض
مصنف اپنی جہالت اور بدنیتی کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 24 پر صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کرتا ہوا معترض ہے۔ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے:
’’اے رب تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ زندہ کرنے کے دن میں تجھ کو ذلیل نہ کرونگا چنانچہ اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو گی کہ میرا باپ جہنم میں چلا جائے۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء474 )
آگے رقمطراز ہے:
قرآن میں عدم بصیرت کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو امام بخاری نے اللہ کا وعدہ بنا دیا حالانکہ قرآن میں کتنا صاف لکھا ہوا ہے کہ خلیل اللہ نے دنیا ہی میں اپنے باپ سے برأت کا اعلان کر دیا تھا تو قیامت میں کیسے کہہ سکتے تھے۔
جواب: قارئین کرام اس مسئلہ میں دو باتیں ہیں اول یہ کہ مصنف کا فہم اللہ نے سلب کر لیا ہے اور وہ احادیث کو سمجھ نہیں سکتا اور دوئم مصنف خیانت اور غلو میں اتنا آگے پہنچ چکا ہے کہ حق اسے نظر ہی نہیں آتا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں اس طرح سے ذکر کیا ہے :’’عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:یلقی ابراھیم اباہ آزر یوم القیٰمۃ وعلی وجہ آزرقترۃ وغبرۃ۔‘‘
(صحیح بخاری: کتاب الانبیاء باب قول اللّٰه تعالیٰ واتخذ اللّٰه ابراھیم خلیل ارقم الحدیث، 3350)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار ہو گی، ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا، آزر کہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تو نے (میری دعا قبول کی تھی ،جو سورہ شعراء: 27 ، 26 میں ہے ) مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسوا نہیں کرونگا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہوگی۔ میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کر دی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کو کہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہوا ہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کردوزخ میں ڈال دیں گے۔‘‘
حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:
- ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ انکی رسوائی نہ ہو۔
- سورہ شعراء میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ اے اللہ مجھ کو رسوا نہ کرنا۔
- اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو رسوائی سے بچایا نہ کہ آزر کو۔
- آزر کے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوئی بجو کی صورت میں ہی اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
مذکورہ بالا نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے اور الحمد للہ کسی محدث یا مفسر نے اس حدیث کو قرآن کے خلاف نہیں سمجھا، لیکن مصنف کو نامعلوم یہ حدیث قرآن کے خلاف کیسے نظر آئی۔ یقیناً یہ ایک بدنیت انسان ہے۔
لہٰذا حدیث مبارکہ قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ مصنف حدیث کے خلاف ہے۔