امام بخاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرآن کی صریح مخالفت لگاتے ہیں کہ آپ نے اپنے اصحاب کو شہوت رانی کے لئے اور چھپی یاری کے لئے زنا کی یعنی متعہ کی اجازت عام دے دی تھی۔
مولانا محمد حسین میمناعتراض
مصنف صفحہ 28 پر لکھتا ہے:
متعہ جیسی لعنت کو زنا میں داخل کیا اور فواحش کی مد میں اس کو ذکر کیا اور فرمایا: لا تقربوا الزنا صفحہ 30 پر مزید لکھتا ہے: لیکن امام بخاری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ قرآن کی صریح مخالفت لگاتے ہیں کہ آپﷺ نے اپنے اصحابؓ کو شہوت رانی کے لئے اور چھپی یاری کے لئے زنا کی یعنی متعہ کی اجازت عام دے دی تھی۔
جواب: مصنف نے یہ ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے کہ کسی بھی طریقے سے متعہ کو زنا قرار دے دیا جائے قارئین کرام اگر ہم متعہ کی اجازت کے بارے میں اس کے پس منظر کا مطالعہ کریں تو یقیناً ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ متعہ صرف تین یوم کے لئے جائز رکھا اس کے بعد قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ مصنف نے متعہ کی اجازت کی حدیث تو پیش کر دی لیکن اس کی حرمت والی روایت کو ہڑپ کر گیا، صحیح بخاری ہی میں یہ حدیث موجود ہے:
’’ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم نھی عن المتعۃ وعن لحوم الحمر الأھلیۃ زمن خیبر ‘‘
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نکاح المتعۃ آخرارقم الحدیث، 5115)
’’نبی کریمﷺ نے خیبر کی جنگ میں متعہ اور سدھائے ہوئے گدھوں کے گوشت سے منع کیا۔‘‘
یعنی خیبر کے دن ہی متعہ کی حرمت ثابت ہو چکی تھی، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ متعہ کی اجازت کیوں دی گئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافی عرصے سے میدانِ جہاد میں گامزن تھے اور وہ اپنی ازواج سے دور رہے ان کی اس مجبوری کو دیکھ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 دن کے لئے متعہ کی اجازت دے دی پھر قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ متعہ اور نکاح میں کیا فرق ہے دراصل ان دونوں میں قدر مشترک اللہ کی اجازت ہے نکاح جو کہ عمومی حالت میں انسان کرتا ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم عورتوں کی شرمگاہوں کو اللہ کے حکم سے حلال کرتے ہو۔ یعنی نکاح میں جو اصل چیز ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے اور جہاں تک متعہ کا تعلق ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے اور اس کی اجازت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور اب اس کے بعد اسے حرام کر دیا گیا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے یعنی دونوں کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے۔ لہٰذا امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ متعہ کی تین یوم تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تھی اس کے بعد قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: سبل السلام شرح بلوغ المرام للصنعانی، نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار للشوکانی)
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
’’وقد وردت عدۃ احادیث صحیحۃ صریحۃ بالنھی عنھا بعد الاذن فیھا‘‘
ترجمہ: ’’کئی احادیث صحیحہ صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں، متعہ کی ممانعت میں اس کی اجازت کے بعد‘‘
(فتح الباری: جلد، 9 صفحہ، 208)
لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔