Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت پر قیاس کا طعنہ اور اس کا رد

  امام ابن تیمیہ

اشکال
شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’تمام اہلِ سنت نے رائے و قیاس کو اختیار کر کے اس چیز کو دین کا جزو قرار دیا ہے جو اس میں سے نہیں۔ علاوہ ازیں احکامِ شریعت میں تحریف کا ارتکاب کیا، مذاہبِ اربعہ ایجاد کیے، جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں موجود نہ تھے، اور اقوالِ صحابہؓ کو ترک کیا۔ حالانکہ ان سب نے قیاس ترک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور انہوں نے کہا تھا: ’’سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے۔ ‘(‘انتہیٰ کلام الرافضی ۔)
 جواب: اس کاجواب کئی ایک طرح سے دیا جاسکتا ہے۔
پہلی وجہ: شیعہ کا یہ دعویٰ کہ تمام اہلِ سنت والجماعت جو کہ سابقہ تین خلفاء کی خلافت کو درست مانتے ہیں ‘ وہ قیاس کے قائل ہیں یہ ایک باطل دعویٰ ہے۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو قیاس کو نہیں مانتے جیسے معتزلہ اور بغدادیہ اورظاہریہ جیسے داؤد اور ابنِ حزم وغیرہ اور ایک گروہ اہلِ حدیث میں اور صوفیاء کا ایک گروہ قیاس کو نہیں مانتے۔
خود زیدیہ شیعہ قیاس کے قائل ہیں ۔تو اس معاملہ میں شیعہ کے مابین بھی نزاع ایسے ہی ہوگیا جیسے اہل سنت کے مابین۔
دوسری وجہ: قیاس کو اگرچہ ضعیف کہا گیا ہے تاہم یہ ان لوگوں کی تقلید کرنے سے کہیں بہتر ہے جو علم میں مجتہدین کے پایہ کو نہ پہنچ سکے ہوں جس انسان کو بھی ادنیٰ انصاف حاصل ہو‘اور علم سے اس کا شغف ہو وہ جانتا ہے کہ آئمہ مجتہدین جیسے امام مالکؒ، لیث بن سعدؒ، اوزاعیؒ اور ابو حنیفہؒ ثوری، ابن ابی لیلی اور جیسے کہ امام شافعیؒ، احمدؒ اسحقؒ اور ابو عبیدؒ جیسے عظیم القدر مجتہدین رحمہم اللہ امام حسن عسکری رحمہ اللہ کے اتباع اور ان کے نظائر و امثال سے بڑے عالم اور مجتہد ہیں۔
نیز یہ علمائے کرام و مجتہدین عظام اس امام منتظر سے ہزار درجہ بہتر ہیں جس کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کیا کہتا ہے (اورکیا کرتا ہے) حالانکہ ان آئمہ مذکورین کے پاس نبی کریمﷺ سے منقول نصوص موجود ہیں اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ رسول اللہﷺ سے منقول نص کو قیاس پر ترجیح و برتری حاصل ہے اگر اس کے پاس نص نہ ہو‘ اور قیاس سے بھی نہ کہے تو پھر یہ انسان جاہل ہو گا۔ وہ قیاس جس سے انسان کو گمان (ظن،علم) حاصل ہو وہ اس جہالت سے بہتر ہے جس کے ساتھ نہ کوئی علم ہو اور نہ ہی ظن۔
 اگر کوئی یہ کہے کہ: یہ (آئمہ) وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پاس نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ ہوتا ہے ۔‘‘
 تو اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ قول اس انسان کے قول سے کمزور ہے جو کہتا ہے: ’’مجتہد کی ہر بات نبی کریمﷺ کا قول ہوتی ہے۔ اہلِ رائے میں سے ایک گروہ کا یہی خیال ہے۔ ان لوگوں کا قول بھی رافضیوں کے قول کے قریب تر ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کا قول ایک صریح جھوٹ ہے ۔‘‘
مزید برآں یہ ان لوگوں کا قول ہے جو اہلِ مدینہ کے عمل کو (بطور حجت) لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ اعمال صحابہ کرامؓ سے حاصل کیے ہیں ‘اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اعمال نبی کریمﷺ سے حاصل کیے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو صحابہ کرامؓ میں قیاس کو نہیں مانتے، اس لیے کہ صحابی صرف وہی بات کہہ سکتا ہے جو اسے نبی کریمﷺ کی جانب سے پہنچی ہو۔ ایسے ہی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مجتہدکا قول اور عارف کا الہام اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں ان کی اتباع کرنا واجب ہوتا ہے۔
اگر اس پر اعتراض کیا جائے کہ ’’ ان کا آپس میں اختلاف ہے ۔‘‘ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فریق مخالف کا بھی ایسے ہی آپس میں اختلاف ہے۔ پس رافضہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی باطل دعویٰ کریں مگر اس جیسے یا اس سے بہتر دعویٰ کا ساتھ اس کا معارضہ کیا جائے گا۔
اور ان میں کوئی سچی بات کہنے والا ایسا نہیں ہو گا جس سے بہتر اور بڑھ کر حق کہنے والا اہلِ سنت والجماعت میں موجود نہ ہو۔ اس لیے کہ بدعت کی سنت کے ساتھ مثال ایسے ہی ہے جیسے کفر کی مثال ایمان کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَا يَاۡتُوۡنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰكَ بِالۡحَـقِّ وَاَحۡسَنَ تَفۡسِيۡرًا ۞(سورۃ الفرقان: آیت، 33)
ترجمہ: ’’یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتا دیں گے۔‘‘
تیسری وجہ: باقی رہا شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اہلِ سنت نے دین میں وہ باتیں داخل کر دیں جو اس میں شامل نہ تھیں، اور احکامِ شریعت میں تحریف کا ارتکاب کیا۔ ‘‘تو یہ بات شیعہ میں سب فرقوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے۔ شیعہ نے اللہ کے دین میں رسول علیہ الصلاۃ و السلام تک کو جھوٹ کا نشانہ بنانے سے گریز نہ کیا جب کہ دوسرا کوئی اسلامی فرقہ یہ جسارت نہ کر سکا اور لاتعداد ایسی صداقتوں کو تسلیم نہ کیا جن کو رد کرنے کی جرأت کوئی دوسرا نہ کر سکا اور انہوں نے قرآن میں ایسے تحریف کی کہ کوئی دوسرا اس تحریف کا ارتکاب نہ کر سکا۔
(شیعہ کی تحریف کا اندازہ ان کے مندرجہ ذیل تفسیری اقوال سے لگائیے)
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ‏ ۞(سورۃ المائدة: آیت، 55)
ترجمہ: ’’تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔
‘‘کہتے ہیں یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب آپؓ نے نماز میں اپنی انگوٹھی زکواۃ میں ادا کر دی۔
مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ يَلۡتَقِيٰنِ ۞(سورۃ 55 الرحمن: آیت، 19)
اس سے بقول شیعہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں ۔
يَخۡرُجُ مِنۡهُمَا اللُّـؤۡلُـؤُ وَالۡمَرۡجَانُ‌ ۞(سورة الرحمن: آیت، 22)
لؤلؤو مرجان سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔
وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ ۞( سورۃ يس: آیت، 12)
اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
 اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰۤى اٰدَمَ وَنُوۡحًا وَّاٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاٰلَ عِمۡرٰنَ ۞(سورۃ آل عمران: آیت، 33)
آل عمران سے آل ابی طالب مراد ہے ابو طالب کو عمران سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اَلشَّجْرَۃُ الْمَلْعُوْنَۃُ فِيْ الْقُرَآنِ 
اس سے مرادبنو امیہ ہیں ۔
فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ 
اس سے مراد طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما ہیں ۔
إِنَ اللّٰہَ یَأْمَرُکُمْ اَنْ تَذبَحُوْا بَقَرَۃً
بقرہ (گائے) سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں ۔
لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ 
یعنی اگر تو نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ولایت میں شریک کیا۔
شیعہ مذہب کی کتابوں میں ایسی لاتعداد تحریفات پائی جاتی ہیں۔ شیعہ کے فرقہ اسماعیلیہ والوں نے واجبات و محرمات تک میں تحریف کرنے سے اجتناب نہ کیا، بنا بریں اگر ان کو آئمہ تحریف کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ لوگ آیات کو اپنے اصل مقصود سے بدل دیتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے پاس مبلغ علم پر غور کرے تو اسے جھوٹی منقولات اور حق بات کی تکذیب آیات کے معانی میں تحریف کے علاوہ کچھ بھی نہ ملے گا۔یہ باتیں اس طرح آپ کو کسی دوسرے اسلامی فرقہ میں نہیں ملیں گی۔
شیعہ نے یقینی طور پر اللہ کے دین میں ہر فرقہ سے بڑھ کر چیزیں داخل کی ہیں اور کتاب اللہ میں ایسے تحریف کی ہے کہ دوسرے لوگوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔