امّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
جعفر صادقاُمّ المؤمنین زینب بنت جحشؓ
نام زینب
کنیت ام الحکم
والد جحش بن رباب
والدہ اُمیمہ بنت عبدالمطلب
سن پیدائش بعثت نبوی سے20 سال قبل
قبیلہ بنو اسد
زوجیت رسول 5 ہجری
سن وفات 20 ہجری
مقامِ تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ
کل عمر 53 سال تقریباً
نام ونسب
آپ کا پیدائشی نام بَرَّہ تھا جسے آپﷺ نے تبدیل فرما کر زینب رکھ دیا،والد کی طرف سے سلسلۂ نسب اس طرح ہے: زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرة بن مرة بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ۔ جبکہ والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: زینب بنت امیمہ بن عبدالمطلب بن ہاشم۔
ولادت
آپؓ کی ولادت آپﷺ کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 20 سال قبل ہوئی۔خاندانی پس منظر
سیدہ زینب بنت جحشؓ کی والدہ اُمَیْمَہ خواجہ عبدالمطلب کی دوسری بیوی فاطمہ بنت عمرو کی بیٹی ہیں۔ آپﷺ کے والد عبداللہ، حضرت علی کے والد ابو طالب، زبیر بن عبدالمطلب اور ان کے علاوہ عاتکہ، برہ، بیضاء اور اَرویٰ یہ سب فاطمہ بنت عمرو سے ہیں۔ آپؓ کی دو بیوہ بھابھیاں سیدہ اُم حبیبہ بنت ابی سفیانؓ (زوجہ عبیداللہ بن جحشؓ) اور زینب بنت خزیمہؓ (زوجہ عبداللہ بن جحشؓ) ازواج مطہرات میں شامل تھیں۔قبولِ اسلام
آپؓ ابتدائی طور پر اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔
پیغامِ نکاح
رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ زید بن حارثہؓ کے نکاح میں حضرت اُم ایمنؓ موجود تھیں۔ آپﷺ نے حضرت زیدؓ کا دوسرا نکاح سیدہ زینب بنت جحشؓ سے کرنا چاہا اور ان کے گھر پیغام بھیجوا دیا۔ پیغام ملنے کے بعد سیدہ زینبؓ اور ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن جحش نے اس کو خاندانی فوقیت کے پیشِ نظر اور اُس وقت کے حالات کے تناظر میں اسے ناپسند سا خیا ل فرمایا کہ قریش کی ایک آزاد معزز خاتون کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سے ہو۔ چونکہ اُس وقت کی معاشرتی روش یہی تھی کہ دو ایسے خاندان جن میں مالی و خاندانی برتری و کمتری پائی جاتی ہو نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا تھابزرگی کا معیار تقویٰ ہے
اسلام نے دنیا میں مساوات کی جو تعلیم رائج کی ہے اور خاندانی برتری و کمتری کی تفریق کو جس طریقے سے ختم کیا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ قریش اور خصوصاً۔ خاندان بنی ہاشم کو کعبہ کا متولی ہونے کی وجہ سے عرب میں جو مقام حاصل تھا اس کے لحاظ سے شایان یمن بھی ان کے ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتے تھے لیکن اسلام نے بزرگی کا معیار محض تقوی کو قرار دیا اور فخر و مباہات کو جاہلیت کی علامت ٹھہرایا۔
اس اسلامی کسوٹی پر دیکھا جائے تو اگرچہ حضرت زیدؓ بظاہر غلام تھے لیکن چونکہ وہ تقویٰ و للہیت کے اعتبار سے ایک صالح مسلمان تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے پیغامِ نکاح سیدہ زینب بنت جحشؓ کے گھر بھیجا۔
تاہم سیدہ زینبؓ اور آپ کے گھر والے معاشرتی طور پر اسے پسند نہیں فرما رہے تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِيْنًا۔
سورۃ احزاب آیت نمبر 36
ترجمہ: اورجب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ فرما دیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے اور نہ ہی کسی مومنہ عورت کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو باقی رکھیں۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
نکاح کا انعقاد
سیدہ زینب بنت جحشؓ اور ان کے بھائی کو اس آیت کے نازل ہونے کی خبر لگی تو دونوں اس پر راضی ہو گئے کہ حضرت زیدؓ سے ان کا نکاح ہو جائے۔ چنانچہ نبیِ کریمﷺ نے حضرت زیدؓ سے سیدہ زینبؓ کا نکاح فرما دیا اور10 دینار اور 60 درہم حق مہر بھی نبی کریمﷺ نے حضرت زیدؓ کی طرف سے خود ادا فرمایا۔ چونکہ اس وقت حضرت زیدؓ ،آپﷺ کے گھر میں ایک فرد کی حیثیت سے رہتے تھے۔ شادی کے بعد ان کی الگ رہائش کے لئے رسول اللہﷺ نے علیحدہ مکان کا انتظام فرمایا، کھانے پینے اور پہننے کی بنیادی ضروریات زندگی کا بندوبست بھی فرمایا۔نوٹ: فائدے کے طور پر حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ام ایمنؓ کا مختصر تعارف ذکر کیا جاتا ہے تاکہ سارے واقعے کی صورتحال کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
زید بن حارثہؓ کا مختصر تعارف
زید بن حارثہؓ کے والد کانام حارثہ اور والدہ کا نام سُعدیٰ تھا۔ حضرت زید بن حارثہؓ کی عمر اس وقت 8 برس تھی آپ اپنی والدہ کے ہمراہ ننھیال جا رہے تھے راستے میں قبیلہ قین کے چند لٹیروں نے آپؓ کو ان کی والدہ سے چھین لیا اور مکہ کے بازار عکاظ میں بیچ دیا۔اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے بھتیجے حکیم بن حزامؓ نے زیدؓ کو 400د رہم میں خرید لیا اور اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہؓ کو دے دیا۔
جب سیدہ خدیجہؓ کا نکاح آپﷺ سے ہوا تو انہوں نے زید بن حارثہؓ کو تحفے کے طور پر نبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نبی کریمﷺ نے زید کو آزاد فرما کر اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور وہ زید بن محمدﷺ کے نام سے پکارے جانے لگے۔حضرت زید بن حارثہؓ کو نبی کریمﷺ کی صحبت و شفقت نے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔ آپؓ کے والد حارثہ اور چچا کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ مکہ مکرمہ ان کو لینے کے لیے آئے۔ آپﷺ نے حضرت زیدؓ کو اختیار دیا کہ اگر وہ جانا چاہیں تو چلے جائیں لیکن اگر وہ نہ جانا چاہیں تو میں مجبور بھی نہیں کر سکتا۔ حضرت زیدؓ کے والد اور چچا اس بات سے بہت خوش ہوئے لیکن ان کی یہ خوشی تھوڑی ہی دیر میں تعجب میں تبدیل ہوگئی جب حضرت زیدؓ نے اپنے والد اور چچا کو ساتھ چلنے سے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا کہ میں محمدﷺ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اس وقت حضرت زید کی عمر 15 برس تھی اور ابھی نبی کریمﷺ نے اعلانِ نبوت نہیں فرمایا تھا (چنانچہ والد اور چچا واپس چلے گئے۔آپﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ کو غلامی سے آزاد فرما دیا۔
حضرت زیدؓ نے بچپن سے بلوغ میں قدم رکھا تو نبی کریمﷺ نے ان کا نکاح اپنی باندی’’ برکہ‘‘سے کردیا۔ جن کی کنیت اُمِ ایمن تھی۔
اُمِّ اَیْمَنْ کا مختصر تعارف
آپ کا نام”برکہ“اور کنیت”ام ایمن“ہے۔سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے: برکہ بنت ثعلبہ بن عروہ بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان۔آپؓ حبشہ کی رہنے والی تھیں اور رسول اللہﷺ کے والد محترم جناب عبداللہ کی کنیز تھیں۔ حضرت عبداللہ کی وفات کے بعد رسول اللہﷺ کی والد ہ ماجدہ حضرت آمنہ سے منسلک ہوگئیں۔ جب حضرت آمنہ کی بھی وفات ہوگئی تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہنے کی لگیں۔ چونکہ ام ایمنؓ آپﷺ کے والد اور والدہ کی کنیز تھیں۔ مزید یہ کہ آپﷺ کی ولادت مبارکہ ان کے سامنے ہوئی تھی،اس لئے انہیں آپﷺ کی ابتدائی تربیت اور پرورش کا شرف بھی حاصل تھا۔سیدہ اُم ایمنؓ نے ابتداءً نبی کریمﷺ کی دعوتِ اسلام کو قبول فرمایا۔ قبولِ اسلام کے بعد انتہائی مشکلات اور مصائب سے دو چار بھی ہوئیں آپؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی فرمائی۔ حبشہ سے واپس آئیں اور جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا تو سیدہ ام ایمنؓ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت بھی کی۔
سیدہ ام ایمنؓ نہایت دلیر اور شجاعت کی پیکر تھیں۔ آپؓ نے غزوہ احد میں بھی شرکت کی اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ مشکیزہ کندھوں پر اٹھا کر زخمیوں کو پانی پلاتیں، مرہم پٹی کرتیں۔ غزوہ احد میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں پر جب آثار ہزیمت نمودار ہونا شروع ہوئے اور میدان جنگ سے ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو اُم ایمنؓ نے مسلمانوں کو اسلا می غیرت اور رسول اللہﷺ کی جان کی حفاظت کا واسطہ دے کر کہا کہ موت سے بھاگ کر کدھر جارہے ہو؟ کیا موت میدان جنگ سے باہر نہیں آئے گی؟ میدان جنگ سے باہر کی موت ذلت اور بزدلی کی موت اور میدان جنگ کی موت شہادت اور عزت کی موت ہوگی۔ آپؓ نے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بات کا احساس نہیں کہ رسول اللہﷺ میدانِ کارزار میں مخالفین کا مقابلہ کر رہے ہیں اور تم انہیں چھوڑ کر بھاگے جا رہے ہو،چنانچہ صحابہ کرامؓ واپس پلٹے۔ اُمِ ایمنؓ نے غزوہ خیبر میں بھی شرکت کی تھی اور مخالفین اسلام کا پورے زور اور ہمت سے مقابلہ کیا تھا۔
سیدہ اُمِ ایمن کی نبی کریمﷺ بہت عزت فرماتے ایک بار آپﷺ نے فرمایا: میری والدہ کے بعد اُمِ ایمنؓ میری والدہ ہیں ایک دوسرے موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اُم ایمنؓ میرے خاندان کا بقیہ ہیں۔
سیدہ ام ایمنؓ کا پہلا نکاح عبید بن زیدؓ سے ہوا جو حارث بن خزرج کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔عبید بن زیدؓ نعمت اسلام سے مالا مال ہوئے اور جنگ حنین میں شہادت پائی۔ان کی شہادت کے بعد زید بن حارثہؓ کے عقد میں آئیں۔ سیدہ اُم ایمنؓ سے زیدؓ کے بیٹے اسامہ پیدا ہوئے جو کہ اسامہ بن زیدؓ کے نام سے مشہور ہیں۔
تکوینی واقعات میں مضمر ایک بڑی حکمت
سیدہ زینب بنت جحشؓ نکاح کے بعد تقریباً ایک سال تک زیدؓ کے پاس رہیں۔ چونکہ اللہ کریم آپﷺ کے لیے سیدہ زینب بنت جحشؓ کے انتخاب کا فیصلہ فرما چکے تھے۔ مزید یہ کہ رسول اللہﷺ کے سیدنا زینبؓ سے نکاح کے فوائد و مضمرات اور بھی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔اس لیے تکوینی طور پر ایسے واقعات صادر ہونا شروع ہوئے جو دونوں کی جدائی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن خدائی حکمتوں پر نظر رکھنے والوں کو اس میں بھلائی ہی نظر آتی ہے۔
طلاق دینے کا پس منظر
ہوا یوں کہ نکاح کےبعد حضرت زیدؓ کے ساتھ سیدہ زینبؓ کا مزاج روکھا روکھا رہا پھر کچھ عرصہ بعد اس روکھے پن میں مزید شدت آئی اور سیدہ زینبؓ کا رویہ ترش ہو گیا۔ حضرت زیدؓ کا مزاج مبارک چونکہ حلم وحوصلہ والا تھا اس لیے برداشت فرماتے رہے۔ آپؓ کو یہ بحیثیت شوہر ہونے کے یہ شکایت تھی کہ ان کی اہلیہ کے دل سے احساس برتری مٹ نہیں سکا۔ چنانچہ ایک دن حضرت زیدؓ نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ بطور مشورہ کے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ کیا میں زینب کو طلاق دے دوں؟نبویﷺ مشورہ اور پوشیدہ امر
رسول اللہﷺ کو اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ سیدہ زینبؓ آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ لیکن ان سے نکاح کرنے کی ابھی تک واضح طور پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے آپﷺ نے حضرت زیدؓ کو وہی مشورہ دیا جائے جو ایسے حالات میں زوجین کو دیا جاتا۔ آپﷺ نے فرمایا:أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللهَ۔
ترجمہ: اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں ہی رہنے دو اور اللہ سے ڈرو۔
آپﷺ نے حضرت زیدؓ سے اس بات کا اظہار نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما رکھا ہے کہ زیدؓ تم اپنی بیوی کو طلاق دو گے اور اس کے بعد بحکم الہٰی وہ میری بیوی بنے گی۔ اس بات کا تذکرہ سورۃ احزاب کی آیت نمبر 37 میں موجود ہے۔
تُخْفِي فِي نَفْسِكَ
کہ آپ اپنے دل میں یہ بات چھپائے ہوئے تھے۔
بالآخر طلاق ہو گئی
جیسے کاتبِ تقدیر نے لکھا تھا ویسے ہی ہوا، زیدؓ اور سیدہ زینبؓ کے ایک سالہ ازدواجی سفر کا اختتام ہوا،5 ہجری میں زیدؓ نے سیدنا زینب بنت جحشؓ کو طلاق دے دی۔
سیدہ زینبؓ ام المومنین بنتی ہیں
5 ہجری ذیقعدہ کا مہینہ تھا سیدہ زینبؓ کی عمر 38 سال ہو چکی تھی،طلاق کے بعد ایام عدت پورے ہوئے تو آپﷺ نے زید بن حارثہؓ کو بلایا اور فرمایا کہ زید!آپ جاؤ اور زینب کو میری طرف سے پیغام نکاح دے دو۔چنانچہ زیدؓ فوراً سیدنا زینبؓ کے مکان کی طرف چل پڑے۔ ابھی پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، خود فرماتے ہیں:جب میں سیدہ زینبؓ کے گھر پہنچا تو وہ میری نگاہ میں نہایت قابلِ عزت و احترام تھیں کہ میں ان کی طرف نظر نہ اٹھا سکا یہاں تک کہ ادب و احترام کی وجہ سے میں ان کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوا اور کہا:”آپ کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے، رسول اللہﷺ نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں رسول اللہﷺ کی طرف سے آپ کو نکاح کا پیغام دوں۔”سیدہ زینبؓ نے فرمایا: میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی یہاں تک کہ میں اپنے رب سے اس بارے مشورہ نہ کرلوں اور پھر اٹھ کر نماز استخارہ پڑھنا شروع کی۔
ادھر دوسری طرف آپﷺ پر وحی اترنا شروع ہو گئی، آپﷺ فرمانے لگے:’’ کون ہے جو زینب کو یہ خوشخبری سنائے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح ان سے کر دیا ہے’’ اس کے بعد آپﷺ نے سورۃ احزاب کی یہ آیت تلاوت فرمائیں:
فَلَمَّا قَضي زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْنٰکَها لِکَيْ لَا يَکُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنيْنَ حَرَجٌ فِيْ أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَ کانَ أَمْرُ اللهِ مَفْعُوْلاً۔
’’جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کر لیا تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کرا دیا تاکہ مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں اُس وقت کوئی تنگی نہ رہے جب انہوں نے اپنی بیویوں سے تعلق ختم کر لیا ہو اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اس پر تو عمل ہو کر ہی رہنا تھا۔”
حضرت سلمیٰؓ آپﷺ کی خادمہ موجود تھیں، انہوں نے سنا تو وہ خوشخبری سنانے کے لیے سیدہ زینبؓ کے گھر تشریف لے گئیں۔ اور فرمایا:اے زینب! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح اپنے رسول اللہﷺ کے ساتھ آسمانوں پر کردیا ہے۔آپؓ نے جب یہ عظیم ترین خوشخبری سنی تو آپؓ نے اپنے زیور اتار کر حضرت سلمیٰؓ کو دے دیے۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور نذر مانی کہ میں دو ماہ روزہ رکھوں گی۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ آپؓ کے گھر آئے اور 400 درہم حق مہر ادا کیا۔
دعوتِ ولیمہ
نکاح کے دوسرے دن آپﷺ نے ولیمے کی دعوت رکھی۔ ایک بکری ذبح فرما کر ولیمہ کیا۔ حضرت انس فرماتے تھے سیدہ زینبؓ سے شادی کرکے آپﷺ نے جو ولیمہ کیا اس سے بہتر ولیمہ کسی اور بیوی سے شادی کرنے پر آپﷺ نے نہیں کیا۔‘‘چنانچہ آپﷺ نے بھی بکری ذبح فرمائی اور حضرت انسؓ کی والدہ حضرت اُم سلیمؓ نے بھی اس موقع پر آپﷺ کی خدمت میں حریرہ عرب کی مشہور سوغات بناکر ایک برتن میں بھیج دیا اور تقریباً 300 افراد نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔
آپﷺ نے حضرت انسؓ سے فرمایا کہ جاؤ فلاں فلاں کو اور ان کے علاوہ جو تم کو ملے ولیمہ کے لیے بلا کر لاؤ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے لوگوں کو رسول اللہﷺ کے ولیمے میں آنے کی دعوت دی۔ کچھ دیر بعد آپﷺ کا گھر لوگوں سے بھر گیا۔ آپﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ دس دس کا حلقہ بنالو اور ہر شخص اپنی طرف سے کھائے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں:نبی کریمﷺ نے اپنا دستِ مبارک اس کھانے میں رکھا اور برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد اس میں اتنی برکت ہوئی اتنی برکت ہوئی کہ سب لوگوں نے خوب سیر ہوکر کھا لیا کھانا تب بھی ختم نہ ہوا۔ جب سب لوگ کھا چکے تو مجھے جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اے انس! اس کھانے کو اٹھا لو!حضرت انسؓ فرماتے ہیں: جب میں نے اسے اٹھایا تو میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ جب یہ کھانا میں نے لوگوں کے سامنے کھانے کے لیے رکھا تھا اُس وقت زیادہ تھا یا اب زیادہ ہے۔؟ اس میں اتنی برکت ہوئی کہ سینکڑوں آدمیوں کے کھا لینے پر بھی بچ گیا۔ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ معلوم ہوتا تھا۔