مختصر تبصرہ (مناظرہ بعنوان فدک)
جعفر صادقبسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مناظرہ بعنوان فدک
اہل تشیع مناظر: بخش حسین حیدری صاحب
اہل سنت مناظر: فخرالزمان معاویہ صاحب
تبصرہ:-
تبصرہ شروع کرنے سے پہلے معاویہ صاحب کو مشورہ دوں گا کہ آپ اب مناظرے کرنا چھوڑ دیں یہ آپ کے بس کی بات نہیں۔ آپ نہ صرف اپنی علمی یتیمی سب کے سامنے لے کر آ رہے ہیں بلکہ اپنے مسلک و مذہب کو بھی اچھا خاصا رسوا کروا رہے ہیں۔ آپ نے پچھلے مناظرے ( جو کہ میرے ساتھ ہوا تھا) کی شکست کا بدلہ لینے کے جلدی سے مناظرہ رکھا اور بدلہ کیا لینا تھا ایک مرتبہ پھر آپ منہ کے بل گرے اور ایک اور مناظرہ آپ کے گلے پڑ گیا۔
اب میں آتا ہوں تبصرے کی طرف:-
دعوی اہل تشیع
میرا یہ دعوی فدک جناب رسالت ماب ﷺ نے جناب سیدہ کو عطا کیا اور حاکم وقت نے فدک دینے سے انکار کر دیا جس سے جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ ناراض ہوگئی اور مرتے دم تک کلام نہ کیا.
جواب دعوی اھل السنت
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ فاطمہ رض کو فدک عطا کرنا جھوٹ ھے.
سیدہ فاطمہ رض کی ناراضگی ثابت نہیں البتہ سیدنا علی رض سے ان کا ناراض ہونا شیعہ کتب سے ثابت ھے
اور شیعہ کتاب سے ثابت ھے کہ سیدہ رض نے وفات سے پہلے بات کی.
-معاویہ صاحب کا جواب دعویٰ ہی ثابت کر رہا ہے کہ وہ شروع سے ہی بوکھلاہٹ کا شکار تھے اور وہ اسی تیاری سے آئے تھے کہ نکتہ دلیل پر بات کرنے کی بجائے بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیں یہ معاویہ صاحب کی پہلی شکست تھی
- مناظرے میں فدک کے عنوان سے جو نکتہ زیر بحث رہا وہ "ہبہ" کا تھا۔
جس پر بخش حسین صاحب نے ایک صحیح السند حدیث پیش کی جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارک میں ہی فدک جناب سیدہ کو ہبہ کر دیا تھا۔
معاویہ صاحب کو اس روایت پر جرح کرنی تھی اور اس کا بطلان ثابت کرنا تھا لیکن موصوف نے ایک مفروضہ قائم کر لیا اور اس پر بھی قائم نہ رہ سکے۔
معاویہ صاحب کی علمی یتیمی اور حماقتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1- سب سے پہلے معاویہ صاحب نے اعتراض کیا کہ عطیہ شیعہ ہے جب اس بات پر گرفت ہوئی تو خود ہی قلابازی لگا لی اور مان لیا کہ شیعہ ہونا کوئی جرح نہیں۔ ( یہ معاویہ صاحب کی جواب دعویٰ کے بعد دوسری شکست تھی).
2- دوسرا بھونڈا اور بے تکا اعتراض یہ قائم کیا کہ عطیہ بدعتی ہے لیکن پورے مناظرے میں کوئی ایک قول نی پیش کر سکے جس سے واضح ہو جاتا کہ عطیہ واقعی بدعتی ہے۔
3- اس پر بخش حسین صاحب نے حوالہ دے کر ثابت کیا کہ بدعتی کی روایت بھی قبول ہے اور ساتھ یہ بھی سوال کیا کہ عطیہ اگر آپ کے مطابق بدعتی ہے تو وہ کس کیٹگری میں آتا ہے کیا بدعت صغریٰ کا مرتکب ہے یا بدعت کبریٰ کا؟ لیکن پورے تین دن گزر جانے کے باوجود معاویہ صاحب اس کا جواب نہ دے سکے۔
4- اس کے بعد معاویہ صاحب نے پینترا بدلا اور موقف اختیار کیا کہ بدعتی کی وہ رائے جو اس کے مذہب کے موافق ہو وہ قبول نہیں۔
اس بات پر بھی کوئی تسلی بخش دلیل معاویہ صاحب پورے تین دن میں پیش نہ کر سکے۔ بلکہ اپنے مفروضے کو احتمال کی بنیاد پر لے کر چلتے رہے جبکہ مناظرے میں احتمال کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
معاویہ صاحب کی خدمت میں چند گذارشات ہیں۔
یہ کہ اگر آپ کے نزدیک شیعہ ہونا جرح نہیں تھی تو آپ کو یہ بے تکا اعتراض کرنا ہی نہیں چاھیے تھا۔
اگر آپ کی نظر میں عطیہ واقعی بدعتی تھا تو آپ کو اس پر دلیل پیش کرنی تھی اپنے اکابرین میں سے کسی کا قول نقل کرتے جس میں عطیہ کو واضح بدعتی کہا گیا ہوتا لیکن یہ آپ سے نہ ہو سکا۔
تیسرا اگر آپ کا اعتراض عطیہ کے بدعتی ہونے پر تھا تو آپ کو پتہ ہونا چاھیے تھا کہ عطیہ کس نوعیت کا بدعتی ہے تاکہ آپ حکم واضح کر سکتے کیونکہ بخش صاحب نے آپ کو دکھا دیا تھا کہ بدعتی کی روایت بھی قبول ہے مگر آپ سے یہ بھی نہ ہو سکا۔
اب آپ کا یہ بہانہ کہ بدعتی کی رائے اس کے مذہب کے حق میں قبول نہیں یہ آپ کی علمی یتیمی کو ثابت کر رہا ہے اس کی چند وجوہات بیان کر رہا ہوں۔
اگر عطیہ بدعتی شیعہ تھا اور اپنے مذہب کے حق میں روایت کرتا تھا تو آپ کے اکابرین نے اس کی توثیق کیوں کی؟
کیا ایسے شخص کی توثیق کردی جو کذب بیانی سے کام لیتا تھا ( کیونکہ معاویہ صاحب کا عقیدہ یہ ہے کہ فدک جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو ہبہ نہیں کیا گیا جبکہ عطیہ نے روایت کی کہ ہبہ کیا گیا لہذا معاویہ صاحب کے مطابق عطیہ نے جھوٹ بولا ) اب ایک جھوٹے کی توثیق متعدد اہل سنت اکابرین نے کیوں کی؟
مزید یہ کہ معاویہ صاحب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ بدعتی کی وہ کونسی روایت قبول نہیں کی جائے گی جو اس کے مذہب کے حق میں ہو۔
جواب اس کا یہ ہے کہ ایسی روایت جو بدعتی کے مذہب کی اصول دین کی حمایت میں ہو وہ قبول نہیں ہوگی جبکہ فدک کا ہبہ ہونا کسی بھی طرح اہل سنت کے اصول دین سے تعلق نہیں رکھتا۔
اب آتے ہیں معاویہ صاحب کی ان حماقتوں کی طرف جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ اصول مناظرہ سے ہی سرے سے ناواقف ہیں۔
اول یہ کہ معاویہ صاحب ہبہ کے رد میں اپنی کتابوں کے حوالے لگاتے رہے۔
او بھائی جب تمہارا یہ نظریہ ہے کہ فدک ہبہ نہیں ہوا تو کچھ نہ کچھ حوالے تو تمہاری کتابوں میں اس پر موجود ہوں گے ہی۔ ان حوالوں کو اٹھا کر شیعہ مناظر پر حجت قائم کرنا چاہ رہے ہو۔
دوسرا سب سے بڑی احمقانہ بات جس پر ہنسی آرہی ہے کہ اپنے دفاع میں معاویہ صاحب کو جو سب سے بڑی کتاب ملی وہ "تحفہ اثنا عشریہ" ہے اور معاویہ صاحب اس کو جواز بنا کر تشیع پر اعتراض اٹھاتے رہے یہاں تک کہ شیعہ کی اقسام بھی تحفہ اثنا عشریہ سے پیش کیں ۔
اور اس کے باوجود یہ نہ بتا سکے کہ عطیہ کس قسم میں شمار ہوتا ہے۔
ایک اور جہالت جو معاویہ صاحب نے دکھائی وہ یہ کہ عطیہ اور فضیل شیعہ ائمہ علیہم السلام کی صحبت میں رہے اس لیے شیعہ امامی تھے
معاویہ صاحب اس طرح تو ابو حنیفہ بھی بدعتی شیعہ ہوا اور پورا حنفی مسلک نیست و نابود ہو گیا۔
لہذا یہ پورا مناظرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ معاویہ صاحب ادھر سے ادھر بھاگتے رہے اور موقف بدلتے رہے لیکن رد نہ کر پائے۔
بطور مدافع جو واحد رد وہ اپنی کتب سے پیش کر سکتے تھے وہ یہ تھے کہ عطیہ کی ثقاہت پر جرح کرتے وہ یہ نہ کر سکے بلکہ الزامی جواب اپنی کتب سے پیش کرتے رہے
میں مبارکباد پیش کروں گا بخش حسین صاحب کو جو اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور بہت کامیابی سے معاویہ صاحب کے احتمال کی بنیاد پر بنائے گئے مفروضے کو مسخ کرنے میں کامیاب رہے۔
والسلام
ڈاکٹر سید حسن عسکری عابدی