ایران میں اہل سنت پر مظالم کی داستان
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓایران میں اہلِ سنت پر مظالم کی داستان:
فروری 1979ء میں خمینی ایرانی اقتدار پر براجمان ہوا، 15 سالہ جلا وطنی کے بعد ایران پہنچتے ہی اس نے تمام ذرائع ابلاغ کو یہ بات باور کرانے کے لیے وقف کر دی کہ پوری دنیا میں یہی واحد اسلامی انقلاب ہے، جو اسلامی اقتدار کے فروغ اور کتاب و سنت کے نفاذ کے لیے عمل میں لایا گیا ہے،اس نے بار بار اعلان کیا
ہم پوری مملکت کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، مساوات اور رعایا پروری ہمارا نصب العین ہے، خدائی حاکمیت کا فروغ اور آنحضرتﷺ کی تعلیمات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کے مطابق ہر شعبہ زندگی سے امریکی اور دیگر غیر مسلم تہذیبوں کا خاتمہ کر دیں گے۔
ذرائع ابلاغ پر اس قدر توجہ دی گئی کہ پوری دنیا کے ایرانی سفارتخانوں کے ذریعے کروڑوں روپیہ صرف اس پروپیگنڈہ پر خرچ کیا گیا کہ موجودہ ایرانی حکومت ہی دنیا میں اسلام کی سب سے بڑی علمبردار ہے، ساری دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ خمینی کی قیادت میں جمع ہو جائیں تمام مسلم ممالک میں اپنے خصوصی نمائندے روانہ کیے گئے، کئی ملکوں کے زعما کو ایران کی مختلف تقریبات میں مدعو کر کے تصویر کا صرف ایک رخ ان کے سامنے پیش کر کے امتِ مسلمہ کی آنکھوں میں دھول جھونک دی، امریکہ کی مخالفت کی آڑ لے کر امریکہ مخالف اسلامی ملکوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ناظرین جانتے ہیں کہ کسی بھی بڑی سلطنت کی مخالفت اس کے حق پر قائم ہونے کی دلیل نہیں ہے ورنہ روس تو ان سے بھی بڑا امریکہ کا مخالف ہے اسے بھی اسلام کا بڑا ٹھیکیدار کہنا چاہیے، خمینی کے ایرانی انقلاب کے معا بعد اس کے اسلامی دعوؤں کی قلعی کھل گئی، چیخ چیخ کر جس دعوے کو دھرایا گیا کہ ہم آنحضرتﷺ اور حضرت علیؓ کی تعلیمات کے مطابق نظامِ حکومت چلائیں گے، اس کی دھجیاں ایران کے گلی کوچوں میں بکھر گئیں، اپنے ہی صبح و شام کے دعوؤں کا منہ چڑایا گیا ملاحظہ ہو:
"سیدنا علیؓ نے جب اپنے ایک حریف پر قابو پا لیا تو فوراً اسے معاف کر دیا"
آنحضرتﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر جب اپنے رفقاء کے قاتلوں حقیقی چچا حضرت حمزہؓ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں اور الم انگیز مظالم کی داستان رقم کرنے والے مشرکوں اور مکہ سے بے پناہ ظلم و جبر کر کے مسلمانوں کو نکال دینے والے دشمنوں پر فتح حاصل کی تو اعلان فرمایا:
"آج کے دن تم پر کوئی سختی نہیں تم سب آزاد ہو"
رحمتِ دو عالمﷺ نے جان اور ایمان کے دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔
لیکن ایران کے خمینی نے جب اپنے مخالفوں پر قابو حاصل کیا تو انہوں نے پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دی اور جب عملاً انہوں نے آنحضرتﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اسوہ حسنہ کا تمسخر اڑایا تو دنیا بھر کے ذی شعور طبقہ پر اسی وقت قول و فعل کے اس کھلے تضاد کی حقیقت آشکار ہو گئی۔
بیس ہزار اہلِ سنت کردوں کا قتل
خمینی نے انقلاب کی پہلی سالگرہ تک جن ہزاروں افراد کو مشقِ ستم بنایا ان میں اکثریت اہلِ سنت ہی کی تھی، ہر مخالف کو شاہ کے وفادار کا نام دے کر خصوصی فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے گولیوں سے بھون دیا گیا، انتہائی مظلوم کئی ہزار سنیوں کو نہایت بے دردی سے ذبح کر کے بزعم خویش شیعیت کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا گیا، ایرانی علاقہ اصفہان اور کردستان میں 95 فیصد آبادی اہلِ سنت کی ہے یہاں کے سنی مدارس کے جید ترین علماء کو بغیر مقدمہ چلائے جیلوں میں ٹھونسا گیا، کئی علماء کو باغی قرار دے کر شہید کیا گیا، خمینی نے ایران کی پہلی سالگرہ تک اہلِ سنت کے جن مسلمانوں پر تیغ چلائی ان کی تعداد بیس ہزار ہے۔
(ندائے سنت لکھنو بحوالہ ہفت روزہ نئی دنیا دہلی: 4 اپریل 1984ء)
ورلڈ اسلامک مشن کے وفد کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں، جو 28 دسمبر 1982ء کو تہران کی عالمی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔
1: تہران میں پانچ لاکھ سنی مسلمان آباد ہیں مگر انہیں اپنی مسجد تعمیر کرنے کی ابھی تک اجازت نہیں ملی، جب کہ عیسائیوں کے 12 گرجے، ہندوؤں کے 2 مندر، یہودیوں کے 2 اور مجوسیوں کے 2 آتش کدے موجود ہیں مگر سنی مسلمان کی ایک مسجد بھی نہیں ہے۔
2: شاہ کے زمانے میں عیدین کی نماز سنی ایک پارک میں پڑھتے تھے مگر اب عید کے دن مسلح افواج کا پہرہ بٹھا کر انہیں نماز عید سے بھی حکومت نے روک دیا ہے۔
3: جمعہ کی نماز سنی مسلمان مجبوراً تہران یونیورسٹی کے میدان میں شیعہ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں یا صرف پاکستانی سفارت خانہ میں جمعہ پڑھتے ہیں۔
4: سنی مسلمان اپنی مذہبی تبلیغ و اشاعت کے لیے نہ جلسہ کر سکتے ہیں نہ تنظیم بنا سکتے ہیں، پچھلے دنوں جماعت مرکزی اہلِ سنت پر ان کی تنظیم قائم ہوئی تھی جس کے لیڈر مولانا عبدالعزیز فاضل دیوبند تھے مگر خمینی حکومت نے اسے خلاف قانون قرار دے دیا۔
5: مسلمانانِ اہل سنت اپنی مذہبی کتابیں نہیں چھاپ سکتے، شاہ کے زمانے میں پاکستان سے منگواتے تھے مگر خمینی حکومت نے اس پر بھی پابندی لگا دی۔
6: ایران میں اہلِ سنت کی 35 فیصد آبادی ہے لیکن نام نہاد جمہوری حکومت میں 27 ممبران پارلیمینٹ میں اہلِ سنت کی تعداد صرف 9 ہے جبکہ آبادی کے تناسب سے تہائی سے زائد 14 ہونی چاہیے۔
7: انتظامیہ اور عدلیہ میں اہلِ سنت کا وجود بالکل صفر کے برابر ہے، اہلِ سنت کا ایک نمائندہ بھی نہیں ہے۔
8: زاہدان کے صوبہ میں 95 فیصد سنی مسلمان ہیں مگر سرکاری سکولوں میں 500 سو اساتذہ میں سے صرف 34 سنی ہیں باقی سب شیعہ بھرتی ہے تا کہ سنی بچوں کو شیعہ مذہب میں آسانی سے تبدیل کیا جا سکے، سابق نصابِ تعلیم بدل کر شیعہ عقائد پر نصاب مقرر کیا گیا ہے (منقول از ندائے سنت لکھنؤ بحوالہ ہفت روزہ نئی دنیا دہلی: 4، اپریل 1983ء بعنوان ایران میں کیا دیکھا)
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی انقلاب کے بعد سے لے کر 1984ء تک 2700 بڑے بڑے فوجی افسروں کو قتل کیا گیا، فائرنگ اسکواڈ اور خصوصی ٹریبونل قائم کر کے ہر مخالف کو تہ تیغ کیا گیا۔
ایران کے اس نام نہاد اسلامی انقلاب کی مذکورہ کاروائی سے ہر ناظر پر یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ خمینی کا اقتدار اسلامیت کی بجائے چنگیزیت، نفاق اور خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہلِ سنت دشمنی کا آئینہ دار ہے۔
من گھڑت پروپیگنڈے سے کفر اسلام نہیں بن جاتا، ظلم انصاف نہیں ہو جاتا، اندھیرا اجالا نہیں کہلا سکتا۔
ایرانی بلوچستان میں اہلِ سنت پر کیا گزر رہی ہے؟ مکران ایران:
اس کے لیے ہم ایرانی بلوچستان مکران کے اہلِ سنت کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مضمون کا مکمل متن پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
حمد اس خدا کی جو سب جہانوں کا پروردگار ہے اور عاقبت پرہیز گاروں کے لیے اور درود و سلام ہو سردارِ انبیاءﷺ اور ان کے آل اور اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جو دین کا پاس رکھتے ہیں اور ان کے ازواج امہات المومنینؓ پر (جو امت کی مائیں تھیں)
اس کے بعد ہم ان مسلمانانِ عالم کی خدمت میں کچھ معروضات پیش کرتے ہیں جو مسلمانوں کے مسائل سے واقفیت اور آگاہی کے لیے اپنے دل میں جذبہ رکھتے ہیں اور ہم یہاں مثل ایک قطره از دریا بیان کرتے ہیں کیونکہ ہماری سرگزشت بہت ہی طویل ہے اور وقت کم ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے دینی بھائی جو اپنے مذہب کے پابند اور اپنے پیغمبرﷺ کے ارشادات و احکام پر عمل پیرا ہیں، ایران کے اس علاقے میں آباد ہیں، جو نہایت ہی خشک ترین اور پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور فارسی نو آبادیاتی نظام کا ایک حصہ ہے، اپنی زندگی ظلم و ستم کے سایہ میں گزار رہے ہیں، ہم اس مختصر سی سرگذشت میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ایرانی انقلاب کے بعد سے ہم مسلمانوں پر کس طرح مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
جب ہم نے ایران میں اسلامی انقلاب کا مژدہ سنا تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں بڑی مسرت اور خوشی ہوئی تھی، اس لیے کہ ایران میں ایک طویل عرصہ سے فساد و جرائم، ظلم و ستم اور بدکاری، زناء جیسے اعمال جاری تھے اور اس کے خاتمہ کے لیے یہ انقلاب انتہائی ضروری تھا لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ہماری مسرتوں کو سخت دھچکا لگا اور ایرانی انقلاب کے عزائم بالکل کھل کر سامنے آ گئے، ایرانیوں نے جو ان کے دل میں برسوں سے ہم سنیوں کے خلاف بغض نفرت و حقارت کے جذبات رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے دل میں چھپا رکھا تھا ظاہر ہو گئے ہوا یہ کہ جزیرہ قشم جو خلیج کے بالکل ہی قریب ہے اور اس جزیرہ میں اہلِ سنت کی ایک مسجد بھی ہے، ایرانیوں نے حملہ کر کے بہت سے نمازیوں کو شہید کیا، اس وقت بہت سے مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ اسلامی انقلاب نہیں بلکہ نہایت ہی متعصب شیعوں کا انقلاب ہے اور اس کا مقصد اہلِ سنت کی مسجدوں کو منہدم کرنا ہے، جب انقلاب کا دور جاری تھا تو وہاں بہت سی سنی طلباء کی تنظیمیں تھیں جو نہایت ہی فعال اور متحرک تھیں اور وہ زاہدان ایران شہر، سردان وغیرہ میں خالص سنی عقائد کی تشہیر میں سرگرم تھیں لیکن شیعہ حکام نے جن کا تعلق اثناء عشری سے تھا انہوں نے ان مسلم تنظیموں کو جن کی سربراہی سنی مکتبہ فکر کے ایک شیخ جناب دین محمد حسین زئی مرکزی جامع مسجد نور شہر (سردان) میں نہضہ شباب اہلِ سنت کی سرپرستی بھی کر رہے تھے اور مذکورہ تنظیم کے زیرِ اہتمام نہضہ نوجوانان کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ بھی شائع ہوتا تھا ختم کر دیا گیا اور جناب شیخ کو انقلابی گارڈ کے درندوں نے پکڑ کر مسلسل تین ماہ تک قید میں رکھا اور قید میں انہیں سخت اذیت دی گئی ان پر الزام لگایا کہ وہ شیعہ اور سنی میں تفرقہ ڈال رہے ہیں اور ان سے بالجبریہ تحریر لی گئی کہ وہ آئندہ سے سنی عقیدہ کے لیے کوئی کام نہ کریں ورنہ انہیں سخت سزا دی جائے گی، اس طرح زاہدان میں سنی نوجوانوں کی ایک تنظیم بنام (سازمان محمدی) زیرِ سر پرستی السید عبدالملک ملک زادہ کام کر رہی تھی اور اسی تنظیم کے زیرِ اہتمام ایک رسالہ انتشارات سازبان محمد شائع ہوتا تھا جو اہلِ سنت کی ترجمانی کرتا تھا۔ حضرت عبدالملک ملازاده شہر سردان سے زاہدان کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں بمقام اسعد آباد ایرانی انقلاب گارڈ کے غنڈوں نے ان کو بس سے اتار کر پسِ زندان کر دیا، صرف اس جرم میں کہ وہ صرف اور صرف خدا پر یقین کامل اور غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے اور وہ سنی العقیدہ تھے، ایسے ہی ایک فعال تنظیم کے علماء اور نوجوان کا شہر ایران میں زیرِ سر پرستی الشیخ ابراہیم دامنی کا ہے تنظیمی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور وہ ایامِ گرما میں اسکول کی تعطیلات کے زمانے میں طلباء کو لیکچرز دیا کرتے تھے اور طلباء کو مناقب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص ان ہدایت یافتہ خلفاء راشدینؓ جن کے متعلق رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص میرے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرتا ہے گویا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے ان تمام علماء اور نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ابھی تک ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
ایسے ہی جناب حسین یار، جناب عبداللہ قادری جو کہ جمیعتہ وحدت اسلامی کے ممبر بھی تھے گرفتار کر لیے گئے اور باقی ماندہ لوگ اپنے ہمسایہ ملک پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کر دیے گئے اور ایسے ہی ایک اور تنظیم کا قیام انجمن اسلامی دانشور و اموران و معلمین بلوچ کے سرکردہ ممبران کو اپنے ساتھیوں سمیت جن میں جناب عبدالقادر دامنی، جناب احمد حسین، رئیس جناب حسن ایرند گانی و حسن دے، جناب حسن اروند بھی شامل تھے گرفتار کر لیے گئے اور وہ تمام سنی تنظیمیں یکلخت ختم کر دی گئیں جو منطقہ مکران بلوچستان میں سرگرم عمل تھیں،
اس وقت اس علاقہ میں شیعہ متعصبوں کی طرف سے سنی مسلم عوام پر دہشت اور خوف مسلط ہے، ایک اور جید عالمِ دین شیخ عبدالعزیز اللہ یاری خطیب مسجد عنبر بیر جد خراسان کو گرفتار کر لیا گیا اس لیے کہ ان کا تعلق سنی مسلمانوں سے تھا ان کا صریح جرم یہ تھا کہ وہ شیعہ حکام کے ذمہ داروں کو ان کی تعصب پسندی اور بد عنوانیوں پر برابر متنبہ کیا کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ اپنی نا جائز حرکات سے باز آؤ، لیکن یہ متنبہ کرنے پر انہیں کمینی قید خانوں میں سزا دی جارہی ہے۔
بندر عباس میں اہلِ سنت کے جناب ضیائی جو کہ اسلامی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور بندر عباس کے بڑی مسجد کے امام خطیب ہیں اور ان کا شمار یہاں کے بڑے علماء میں ہوتا ہے، ان کو ایرانی حکومت نے اپنی دیرینہ عداوت کی بناء پر گرفتار کر لیا ہے اور انہیں گرفتار ہوئے تقریبا سات ماہ کا عرصہ گزر رہا ہے۔ (حسبنا اللہ ونعم الوکیل)
اسی طرح ایک بڑے دینی عربی مدرسہ درشید بندر لنگہ کے فضیلت مآب شیخ سلطان العلماء کو گرفتار کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی کہ وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور وہ امارات عربی کے شہر دبئی میں تا حال مقیم ہیں۔
بندر خمیر میں بھی ایک عربی اسلامی مدرسہ تھا، جس کی سرپرستی شیخ عبدالباعث قطائی کر رہے تھے اور وہ اس علاقہ کے فعال شخصیت تھے لیکن جلد ہی انقلابی گارڈ کے غنڈے ان کو زبردستی فوج میں لازمی خدمت انجام دینے کے لیے پکڑ کر لے گئے اور وہ ابھی تک لا پتہ ہیں اور سنیوں کا یہ عظیم مدرسہ اسلام کی صحیح تعلیمات سے محروم ہو گیا۔
ہم یہاں مثال کے طور پر آپ کی شیعوں کے ان مظالم کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جو حکومت امامیہ اثناء عشری استعماری نے اہلِ سنت پر روا رکھا ہے، حکومت ابتداء میں اہلِ سنت کے مدارس کو امداد کے طور پر کچھ رقم دیا کرتی تھی لیکن بعد میں حکومت نے اعلان کیا کہ ہم اب یہ امداد بند کر رہے ہیں کیونکہ سنی مدارس امریکہ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ملک میں فتنہ فساد پھیلانے میں سعی کر رہے ہیں اور زاہدان کے سب سے بڑے عالمِ دین پر یہ الزام لگایا کہ یہ ایک فسادی آدمی ہیں لیکن جو مظالم انقلابی گارڈ کے غنڈے سنی مسلمانوں پر ڈھا رہے ہیں اس کا شمار حد سے باہر ہے، اس وقت نمونہ کے طور پر چند واقعات میں مسلمانانِ عالم کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ ایرانی مکران کے بلوچیوں پر ایرانی حکام کی طرف سے کس طرح ظلم کیا جا رہا ہے، انقلابی گارڈ والے اپنے کو انقلاب کا ربِ اعلیٰ تصور کرتے ہیں اور انہوں نے ہزار ہا سنی مسلمانوں بالخصوص بلوچوں، کردوں کو بے گناہ قتل کیا اور بے شمار عورتوں، مردوں اور بچوں کو زندہ جلا دیا، انقلابی گارڈ کے غنڈے اہلِ سنت کی عورتوں، بچوں پر بلوچستان کردستان، صحراء ترکمن اور خلیجی بندرگاہوں اور ہذات خراسان میں مظالم برپا کر رکھا ہے اور سنی نوجوانوں کو اشتراکیت کی تہمت و الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ ایران میں کوئی اشتراکی نہیں ہے لیکن غالب اکثریت مسلمان نوجوانوں کی ہے اور یہی نوجوان اس وقت قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں، یہی خمینی کے انقلاب کا اصل مقصد ہے۔
ایک دینی رسالہ زیرِ سر پرستی (بہاد رندگی) میں درج ہے کہ ہمارے انقلاب کا ضمنی مقصد سنی بلوچوں کو شیعہ اثناء عشری بنانا ہے، جو اثناء عشری عقیدہ رکھتے ہوں اور اس زمین میں 9 فیصد اشخاص کو شیعہ کر لیا گیا ہے اور آخری مقصد ایران میں بلوچ کرد اور ترکمان کو شیعہ بنانا ہے اور جب ایران میں یہ مقصد حاصل ہو جائے تو تمام عالم کے مسلمانوں کو شیعہ بنایا جائے گا۔
اب سنی عوام کے سامنے سوائے ان تین راہ کے اور کوئی سبیل نہیں ہے:
1: مذہب شیعہ اثناء عشری قبول کر لیں یا اس کی مخالفت کریں۔
2: یا انکار کی صورت میں قتل ہو جائیں یا فرار ہو جائیں۔
3: یا ایران میں قیدی بن کر اپنی باقی زندگی گزاریں۔ ہم اس وقت اپنے تمام سنی بھائیوں سے جو آمریت پسند دنیا میں آباد ہیں درخواست کرتے ہیں کہ وہ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کریں جو ان کے خلاف شیعوں کی جانب سے جاری ہے اور ایران میں ہمارا اقتصادی استحصال کیا جا رہا ہے، ہمارے عقائد اور دین کو خطرہ لاحق ہے، ہم کب تک ان مظالم اور زیادتیوں کو جو اسلام کے نام پر جاری ہیں برداشت کریں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے؟ خمینی انقلاب کا مقصد یہ ہے کہ صفوی دورِ حکومت کو پھر دوبارہ واپس لایا جائے تا کہ مذہب حقہ اہلِ سنت کے افراد جو کہ بلوچستان میں ہیں ان کو مٹا دیا جائے، میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس انقلاب نے ان علاقوں میں اہلِ سنت کی تنظیموں کو نیست و نابود نہیں کر دیا ہے اور اہلِ سنت کے پیشواء علامہ احمد مفتی زادہ اور چار سو علماء اور نوجوانانِ اہلِ سنت شاہی قید خانہ اوین تہران میں مقید نہیں، واضح طور پر یہ ایرانی انقلاب سوویت یونین کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے تاکہ لادینیت اور لامذہبیت بلوچستان مکران اور کردستان میں پھیلائے اور مذہبِ اسلام کو ختم کرے خدا کی قسم ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ ایرانی انقلاب کون سا اسلام لانا چاہتا ہے؟
جب کہ ہم اسلام کے نام پر قربان ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں، ہم اسلام کے قطعی مخالف نہیں ہیں بلکہ ہم شیعوں کے خلاف ہیں، جن کے تخریبی عقائد سے حقیقی اسلام کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، ہم اشتراکیت کے خلاف ہیں اور ہم اس حدیثِ نبویﷺ کے مفہوم کو سمجھتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کے زبان و ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، ہم اختلاف نہیں چاہتے ہیں، اختلاف ایرانی حکام کی جانب سے شروع ہوا ہے اور ایرانی حکام ہی پہل کرنے والے ہیں اور پہل کرنے والے کو ظالم کہا جاتا ہے، ہم مظلوم ہیں ہم کوئی بیرونی طاقت کے لیے کام نہیں کر رہے نہ ہم کوئی سرمایہ دار ہی ہیں، ہم ہمیشہ حق کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ظلم اور کفر نابود ہو جائے اور یہ لوگ کوئی چوری یا بغاوت کرنے والے کا تعاقب کرتے ہیں اور کوئی مسلمان بلوچ جب انہیں مل جاتا ہے یا نام میں کوئی مشابہت ہوتی ہے تو بغیر کسی تحقیق کے گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں، اگر دشمنی کی بناء پر کوئی اپنے ہمسایوں پر غلط الزام عائد کر دیتا ہے تو یہ انقلابی گارڈ کے غنڈے تقریباً آدھی رات کو ان کے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور عورتوں پر دست درازی کی کوشش کرتے ہیں یا ان کو کسی طرح خائف کرتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کون سا اسلام ہے کہ بے سبب اور بے گناہ لوگوں پر ظلم کیا جائے، ان کے مال و اسباب اور ان کی نقدی پر قبضہ کیا جائے، اور بے گناہوں کو خائف کیا جائے اور انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جائے۔