Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تاریخ شاہد ہے کہ قریش مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مکمل طور پر بائیکاٹ کر لیا تھا اس بائیکاٹ کا عرصہ تین سال کا ہے ابوطالب تمام بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں لے گئے تھے یہ تین سال کا عرصہ بنی ہاشم نے نہایت عسرت اور کٹھن تکالیف سے گزارا ان تین سال کے عرصے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں تھے اگر یہ بزرگ مکہ میں تھے تو انہوں نے آنحضرتﷺ کا ساتھ کیوں نہ دیا اگر یہ بزرگ شعب ابی طالب میں حضور انور ﷺ کے ساتھ نہ جا سکے تو کسی وقت ان بزرگوں نے آب و دانہ میں سے حضرت محمدﷺ کی کوئی مدد کی ہو جب کہ کفار مکہ میں سے زہیر بن امیہ بن مغیرہ نے پانی کھانا پہنچانے اور عہد نامہ توڑنے پر دوستوں کو آمادہ کیا۔

  مولانا مہرمحمد میانوالی

جواب: چند باتیں پیشِ نظر رکھنے سے اعتراض کی حقیقت عیاں ہو جائے گی شعب میں قید کا یہ واقعہ کیوں پیش آیا آیا غیر بنو ہاشم مسلمان بھی محصور تھے؟ کیا غیر محصور مسلمان بنو ہاشم کو درہ میں کھانے پینے کی امداد پہنچا سکتے تھے پہلی بات کے متعلق تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ جب پیغمبرﷺ کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطابؓ اسلام لے آئے اور دنیائے کفر و شرک میں زلزلہ برپا ہوگیا اور علی الاعلان تبلیغِ اسلام سے کفار بوکھلا اٹھے تو سب نے بالاتفاق یہ تجویز پیش کی کہ آنحضرتﷺ کو العیاذ باللہ قتل کر دیا جائے جناب ابوطالب نے دستورِ عرب کے موافق برادری سسٹم پر تمام بنو باشم اور بنو عبد المطلب کو جمع کر کے شعب میں چلے جانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کفار دفعتاً حملہ نہ کردیں تو کفار نے تمام قبائل عرب کے اتفاق سے ایک عہد نامہ تیار کیا اور اسے کعبہ شریف میں آویزاں کر دیا جس کی رو سے بنو ہاشم کے ساتھ لین دین رشتہ ناطہ اور خوراک وغیرہ پر پابندی لگا دی۔
(تاریخ کی مشہور کتاب طبری: جلد، 2 صفحہ، 342 پر ہے)
فلما اسلم عمرؓ وجعل الاسلام يفشو فی القبائل وحمى النجاشی من ضوى الى بلده منهم اجتمعت قريش فائتمرت بينها ان يكتبوا بينهم كتابا يتعاقدون فيه على ان لا ينكحوا الى بنی هاشم و بنی المطلب ولا ينكحوھم.
جب حضرت عمرؓ مسلمان ہو گئے اور اسلام قبائل میں پھیلنا شروع ہو گیا جو مسلمان نجاشی کے پاس پناہ گزیں گئے اس نے ان کی حفاظت کی تو قریش نے اجتماع کیا اور یہ طے کیا کہ ایک عہد نامہ لکھیں جس میں یہ شرط رکھیں کہ بنو ہاشم و بنو مطلب سے نہ کوئی رشتہ لے گا اور نہ کوئی ان کو رشتہ دے گا نیز (جلد، 2 صفحہ، 335) پر ہے کہ سیدنا عمر بن الخطابؓ اللہ کی ان پر ہزاروں رحمتیں ہوں جب اسلام لے آئے آپؓ طاقتور مضبوط اور پر شکوہ شخصیت تھے اور اس سے پہلے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب بھی اسلام لا چکے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور رسول اکرمﷺ نے اپنے اندر بڑی طاقت دیکھی اور اسلام قبائل میں پھیلنا شروع ہو گیا۔
حافظ ابنِ کثیرؒ المتوفی (280) ابنِ اسحاقؒ کے حوالے سے( البدایہ والنہایہ: جلد، 3 صفحہ، 79) پر رقمطراز ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے آپ بڑے دبدبہ والے تھے آپؓ سے آگے کوئی چون وچرا نہ کر سکتا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہﷺ آپؓ کے ذریعے اور حضرت حمزہؓ کے ذریعے محفوظ ہوگئے حتیٰ کہ قریش غضبناک ہو گئے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے ہم کعبہ شریف کے پاس نماز نہ پڑھ سکتے تھے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے تو کفار قریش سے جنگ کی اور کعبہ شریف کے پاس نماز پڑھی اور آپؓ کے ساتھ ہم نے بھی پڑھی۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابنِ مسعودؓ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ جب سے سیدنا عمر بن خطابؓ اسلام لائے ہم غالب ہوتے چلے گئے نیز فرمایا سیدنا عمرؓ کا مسلمان ہونا فتح اسلام تھی آپؓ کی ہجرت الی المدینہ نصرتِ اسلام تھی آپؓ کی خلافت رحمت تھی ہم پہلے کعبہ کے پاس نماز نہ پڑھ سکتے تھے حتیٰ کہ جب سیدنا عمرؓ اسلام لے آئے تو قریش سے جنگ کی کعبہ کے پاس نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپؓ کے ساتھ پڑھی۔ (شیعہ کتاب روضتہ الصفاء: جلد، 2 صفحہ، 49) میں بھی قید شعب کا یہی سبب لکھا ہے۔ 
قواعدِ شریعیت بمظاہرت سیدنا حمزهؓ و سیدنا فاروقِ اعظمؓ استحکام پزیرفت و طنطنه قوسِ نبوت بمسامع اقاصی و ادانی قبائل عرب رسید ہمت بر ہلاک حضرت مقدس نبوی مصروف داشتند واین خبر بابو طالب رسیده بنی ہاشم و بنی مطلب راجمع فرموده و در حفظ حضرت رسالت پناه ازیشان معاونت خواست مومناں برائے رفع درجات آخرت و مشرکان آن دو قبیله بنابر تعصب و حمیت کہ عادت عرب است کمر موافقت بر میان بستند۔ 
(بحوالہ کشف الاسرار: صفحہ، 15)
ترجمہ: یعنی سیدنا حمزهؓ اور سیدنا عمرؓ کے قبولِ اسلام سے اسلام کا غلظہ بلند ہوا تو قریش نے آنحضرتﷺ کے قتل کا پروگرام بنالیا ابوطالب کو پتہ چلا تو اس نے ہاشمی اور مطلبی گھرانوں کو اٹھا کر کے حضرت محمدﷺ کے تحفظ میں اعانت طلب کی ان کے اتفاق کرنے سے سب شعب ابوطالب میں چلے گئے۔
 سنی شیعہ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ سیدنا حمزہؓ کے بعد سیدنا عمرؓ کے اسلام لانے سے ایک انقلاب برپا ہوگیا۔
قبائل میں ہمہ گیر تبلیغ اسلام کو دیکھ کر کفار مشتعل ہو گئے اور یہ صورتِ حال پیدا ہو گئی اب عقلاً بھی یہ بعید ہے کہ جس شخصیت کے اسلام سے کفار اتنے مشتعل ہوں کہ پیغمبر اکرمﷺ کو قتل کرنا چاہتے ہوں خود سے آزاد چھوڑ دیں بلکہ صحیح بخاری (جلد، 1صفحہ، 542) میں یہ تصریح ہے کہ جب سیدنا عمرؓ اسلام لے آئے ابوجہل وغیرہ صنادید قریش کو اپنے اسلام سے مطلع کیا اور تنہا کفار سے جنگ کی تو سب کفارِ مکہ نے آپﷺ کو قتل کرنے کے لیے گھر کا محاصرہ کر لیا جن سے جنگل بھرا ہوا تھا آپﷺ گھر میں روپوش ہو گئے باہر سے آنے والے کفار کے ایک سردار عاص بن وائل سہمی نے آپﷺ کو پناہ دی اور کفار کو گھروں میں واپس کیا۔
ہماری معلومات کے پیش نظر بالاتفاق تمام کفار نے یا شبِ ہجرت اور شعب سے قبل قتل کا منصوبہ حضرت پیغمبرﷺ کا بنایا یا پھر سیدنا عمرؓ کے قتل کا بنایا اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سیدنا عمرؓ سے کفار کو پیغمبرﷺ کی طرح دشمنی تھی وہ کیسے آپؓ کو آزاد چھوڑ سکتے تھے اگر شعب میں ان کی محصوری تسلیم نہ کی جائے تو گھر کی محصوری بدرجہ اولیٰ سخت تھی کہ ہر وقت تمام شہر کی تلواریں دروازے پر چمکتی تھیں۔    
امرِ دوم کے متعلق ہماری رائے یہ ہے کہ جو بنوہاشم کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی قید شعب میں شریک ہو گئے تھے انہوں نے از خود گھر میں محصوری کے بجائے اپنے محبوب پیغمبرﷺ کے ساتھ قید ہونے اور فقر و مصائب سہنے کو سرمایہ افتخار جانا۔
اکبر خان نجیب آبادی نے بار بار یہ جملے اپنی تاریخ قصہ شعب میں لکھتے ہیں۔ 
جس قدر مسلمان تھے وہ بھی ان (بنو ہاشم) کے ساتھ ہی اس درے میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہے چلے گئے۔ 
(تاریخ اسلام: صفحہ، 131)
یا پھر رہائی کے متعلق لکھتے ہیں بنوہاشم اور تمام مسلمان شعب ابی طالب سے تین سال کے بعد نکلے اور مکہ میں آ کر اپنے گھروں میں رہنے سہنے لگے شعب ابی طالب میں مسلمانوں کو بھوک سے بیتاب ہو کر اکثر درختوں کے پتے کھانے پڑتے تھے بعض بعض شخصوں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ اگر کہیں سوکھا چمڑہ مل گیا تو اسی کو صاف اور نرم کر کے آگ پر رکھا اور بھون کر چبایا۔ (صفحہ: 104)
ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمرؓ بھی ہیں وہ بھی شعب میں ساتھ گئے اور قید ہوئے امام اہلِ سنت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ نے خلفائے راشدینؓ (صفحہ، 30) میں مناقبِ صدیقی میں صراحتاً سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی حضورﷺ کے ساتھ گھاٹی میں قید و معیت کا ذکر کیا ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ از خود اس مصیبت میں شریک ہو گئے آپﷺ کے ساتھ وہ بھی شعب میں چلے گئے اور وہیں رہے جب آپﷺ کو خدا نے اس مصیبت سے نجات دی تو انہوں نے بھی نجات پائی ابو طالب نے اس واقعہ کو اس شعر میں یوں بیان کیا ہے۔
وهم رجعوا سهل بن بيضاء راضیا فسر ابوبکرؓ ومحمدﷺ بھا۔                 
انہوں نے جب سہل بن بیضاء کو (نقضِ معاہدہ پر) راضی کر کے بھیجا اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت محمدﷺ خوش ہو گئے اور یہ واقعہ علامہ بن عبد البر کی الاستیعاب میں بھی ہے۔
اس سے پتہ چلا کہ ابوطالب کے ہاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ مؤمن اور مخلص جان نثار تھے تبھی تو دونوں کی خوشی کا اظہار کیا۔
غیر باشمی سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ فاتحِ ایران یعنی سعد بن مالک بن وہيب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب از عشرہ مبشرہ اور بنو ہاشم وہ لوگ ہیں جو وہب کے بھائی ہاشم کی اولاد سے ہیں۔
کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو سوکھا ہوا چمڑہ ہاتھ آ گیا اسی کو پانی سے دھویا آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا۔ 
(رسول رحمت: صفحہ، 49، و روض الانف سہیلی بحوالہ سیرت النبی: جلد، 1 صفحہ، 245 حلية الاولیاء: جلد، 93 کے حوالے سے حیاۃ الصحابہ: حصہ دوم، صفحہ، 324 پر ہے۔
سیدنا سعدؓ فرماتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ مکہ میں حضورﷺ کے ساتھ رہ کر ہم لوگوں کو اور خود حضورﷺ کو بھی تنگی معاش انتہا سے زیادہ پیش آئی جب ہم اس مشقت میں قید شعب کے موقعہ پر پڑ گئے تو ہم لوگوں کو اس فقر و فاقہ اور سختی جھیلنے کی عادت پڑگئی اور ہم لوگوں نے بڑے صبر و تحمل سے کام لیا اور میں نے آنحضرتﷺ کےساتھ مکہ میں رہتے ہوئے یہ بھی دیکھا کہ رات کی اندھیری میں پیشاب کے لیے اٹھا کچھ کھر کھراہٹ کی آواز آئی تو اسے غور سے دیکھا وہ اونٹ کی کھال کا ٹکڑا تھا اسے اٹھایا اور اسے دھویا اور پھر اسے جلایا اور اسے دو پتھروں سے پیس کر سفوف سا بنایا اور اسے پھانک کر پانی پی لیا اسی پر میں نے تین دن گزار دیئے۔
انتہائی متعصب شیعہ مؤرخ ملا باقر علی مجلسی بھی لکھتے ہیں۔
در تفسیر امام حسن عسکریؒ منقول است
 سیدنا حسن عسکریؒ کی تفسیر میں منقول ہے کہ:
کر چوں کفار قریش حضرت رسول را ملجا گردانیدند  کہ پناه بشعب ابی طالب برد و ایشان بردہن شعب جمعے رامؤ کل کردند کہ مانع شونداند آنکہ کہ بایشان آزوقه برساند و کاربر اصحاب آنحضرت بسیار تنگ شد و با نحضرت شکایت مے کردند ازکمی آزوقہ حضرت دعا کردتا حقیقتابے بہتر از من و سلویٰ بنی اسرائیل برائے ایشاں فرستاد و ہرچه هریک از ایشان آرزو میکرد از انواع طعامها و میوه ها و حلاوات و جامہا نزد ایشان حاضر میشد۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحة، 311)
سیدنا حسن عسکریؒ کی تفسیر میں مذکور ہے کہ کہ جب کفار قریش نے حضورﷺ کو مجبور کر دیا کہ آپﷺ شعب ابی طالب میں پناہ لیں اور انہوں نے شعب کے دروازے پر ایک جماعت پہریدار مقرر کردی جو اس بات سے منع کریں کہ کوئی شخص شعب والوں تک خوراک پہنچائے آنحضرتﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ بنو باشم وغیرہ بنو ہاشم پر تنگی ہوگئی انہوں نے آپﷺ سے بھوک کی شکایت کی آپﷺ نے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے من و سلویٰ سے بہتر ان کے لیے کھانا اتارا اور ان میں سے جو بھی جس قسم کے میوے کھانے میٹھی چیزیں اور کپڑوں کی تمنا کرتا انکے پاس وہ چیز پہنچ جاتی۔ 
اس شیعی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اصحابِ رسولﷺ شعب میں فقر و تنگی برداشت کرتے تھے اور باہر سے رسد و خوراک ہرگز نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ کفار نے پہرہ لگا رکھا تھا بالفرض کوئی مسلمان کوشش کرتا تو بھی نا کام ہوتا مسلمانوں کے ساتھ خرید و فروخت بھی ممنوع تھی۔
امرِ سوم کے متعلق کہ روضة الصفاء: جلد، 2 صفحہ، 49) میں بھی یوں تفصیل لکھی ہے:
کہ شعب میں مسلمانوں کے داخلے کے بعد ان پر بڑی مصیبت آگئی اگر اہلِ اسلام میں سے کوئی ایک بھی اس جگہ سے قدم باہر نکالتا کفار اشرارً اسے خوب تکلیف پہنچاتے اور کسی قیدی کو مجال نہ تھی کہ موسم حج و عمرے کے علاوہ اس جگہ سے باہر قدم رکھیں اور موسمِ حج میں بھی ابوجہل، نضر بن حارث، عاص بن وائل، عقبہ بن ابی محیط اور ان جیسے سنگ دل مشرکین نے راستوں پر کھڑے ہو کر ان لوگوں سے کہتے جو اشیاءِ خوردنی بیچنے کے لیے کہ لاتے کہ جو کوئی تم میں سے محمدﷺ اور اس کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھ کچھ فروخت کرے گا اس کا مال و اسباب برباد کر دیا جائے گا اور اگر کبھی موسم زیارت و طواف میں دیکھتے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص خریداری کر رہا ہے تو وہ اس پر دام بڑھا دیتے حتیٰ کہ مسلمان بیچارہ مایوس ہو جاتا تھا۔
اب انصاف سے آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں کوئی مسلمان کس طرح یہ قدرت پاسکتا تھا کہ وہ کوئی چیز خرید کر حضورﷺ تک پہنچائے اور کفار کی گرفت سے بچ نکلے اب دو ہی صورتیں تھیں یا تو ہر قسم کے کفریہ کام سر انجام دے جیسے سوال میں مذکور ہے یا پھر چوری چھپے کا کا راستہ تھا بھلا نفی عمل ہم تک روایت ہو کر کیسے پہنچ سکتا تھا۔ 
بالفرض اگر حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ یا کسی مسلمان نے کچھ دن پانی پہنچایا بھی ہو تو اس کی اطلاع ہم تک کیسے پہنچے کفار کی ناکہ بندی کے علاوہ اس بنا پر بھی روایت کی ضرورت نہ بھی گئی کہ ہم مسلک و ہم مشرب ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہی ہیں البتہ زہیر بن امیہ وغیرہ کا کھانا پہچانا یا مقاطعہ ختم کرنے کی کوشش کرنا مخالفین کی اپنی اور قابل روایت بات تھی اس کا تاریخی جزء بننا امر معقول تھا شیعہ کے نزدیک مومن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا عمار بن یاسرؓ سیدنا مقدادؓ اور سیدنا ابوذر غفاریؓ بھی غیر ہاشمی ہیں کیا ان سے بھی اس عمل کا ثبوت مل سکتا ہے؟ اگر نہیں تو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے ہی یہ مبنی بر تعصب مطالبہ کیسے؟ 
اصل بات یہی ہے کہ شعب میں تمام بنو ہاشم ماسوائے ابولہب اور اس کے بیٹوں کے قید تھے ان کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی بکثرت تھے اور جو مسلمان اپنے گھروں میں تھے وہ بھی قید تھے خرید و فروخت یا کاروبار میں کوئی بھی آزاد نہ تھا نہ معلوم یہ لوگ اپنے بال بچوں کا گزارہ کیسے چلاتے ہوں گے حضراتِ شیخینؓ شعب میں حضورﷺ کے ساتھ گرفتار قید و مصائب تھے بالفرض گھر میں بھی ہوں تو بھی قید تھی جب سیدھے منہ نہ کوئی بات کرتا نہ خرید وفروخت ہوتی حضورﷺ سے ملاقات پر سخت پابندی تھی ان تکالیف کا تصور اصحابِ عشق و درد ہی کر سکتے ہیں بغض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہلِ بیت نبویﷺ سے معمور کینہ میں اس کی رسائی کہاں وہ تو صرف طعن پر طعن کرنا اور رسول خداﷺ کا دل دکھانا ہی جانتے ہیں۔
حضراتِ شیخینؓ کے مصائب وآلام:
شیعہ معترض یہ تصور دلانا چاہتے ہیں کہ مکہ میں مصائب بنو ہاشم نے اٹھائے اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ وغیرھم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تکلیفیں نہیں پائیں حالانکہ معاملہ برعکس ہے۔ بنو ہاشم کے کم افراد آغازِ اسلام میں مشرف باایمان ہوئے اور وہ بھی بیشتر مواقع پر کفار کے مظالم سے اس لیے محفوظ رہے کہ جناب ابوطالب رئیس خاندان اور قریش کے ہم مذہب تھے کفار ان کا احترام کرتے ہوئے بنو ہاشم سے کم تعرض کرتے تھے ضعفاء و غرباء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور غلاموں کا طبقہ مصائب کی بھٹی میں جھونکا گیا تھا جیسے سیدنا عمار بن یاسرؓ، سیدہ سمیہؓ، سیدنا بلالؓ سیدنا ابوفکیہؓ، سیدہ زنیرهؓ، سیدنا خبابؓ بن الارت سیدنا ابوذر غفاریؓ سیدنا زبیرؓ بن عوام سیدنا طلحہؓ بن عبید الله سیدنا سعیدؓ بن زید ان کی بیوی سیدہ فاطمہؓ بنتِ خطاب، سیدنا مصعبؓ بن عمیر، سیدنا عثمانؓ بن مظعون وغیرپم ان میں سے سیدنا ابوذرؓ و سیدنا عمارؓ کے سوا شیعہ کو کسی سے بھی ذرا عقیدت والفت نہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت عمر فاروقؓ اگرچہ خاندانی معزز اور سربر آوردہ قسم کے بزرگ تھے تاہم اپنے محبوب و متبوع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دفاع و غلامی میں ان کو بڑے بڑے مصائب کا نشانہ بننا پڑا۔ بطورِ نمونہ چند واقعات پیش خدمت ہیں۔
1: ونوفل بن خويلد كان أشد من المشركين عداوة لرسول اللهﷺ وهو الذی قرن ابابکرؓ و طلحةؓ قبل الهجرة بمكة واثقهما بحبل وعذبها يوما الى الليل حتىٰ سئل فی امرھا۔ 
(شیعه کتاب کشف الغمہ: صفحہ، 235)
 ترجمہ: کفار کا شیر نوفل بن خویلد حضورﷺ سے دشمنی میں کفار سے بھی سخت تھا اسی نے ہجرت سے قبل مکہ میں سیدنا طلحہؓ و حضرت صدیقِ اکبرؓ کو رسی میں باندھ کر پورا دن رات تک سخت سزا دی تھی حتیٰ کہ ان کی گمشدگی کے متعلق پوچھ گچھ ہونے لگی تھی۔
2: سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب حضورﷺ کے ساتھ اڑتیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اس بات پر اصرار کیا کہ اب آپ کھل کھلا تبلغ کیجیئے آپﷺ‎ نے فرمایا! اے حضرت ابوبکرؓ ابھی ہم لوگ تھوڑے ہیں مگر حضرت ابوبکرؓ بار بار اصرار کرتے رہے چنانچہ حضورﷺ نے علانیہ دعوت دینی شروع کردی حضرت ابوبکر صدیقؓ تبلیغ کے لیے کھڑے ہوئے اور تشریف فرما تھے اسلام میں یہ وہ پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف دعوت دی مشرکین چاروں طرف سے حضرت ابوبکرؓ اور مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور بڑی بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کو مارا پیٹا حضرت ابوبکرؓ کو مارا بھی اور روندا بھی۔
عتبہ بن ربیعہ قاسمی نے قریب آکر اپنے کٹی تلہ والے جوتے سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو مارنا شروع کیا اور ان کو آپ کے چہرے پر مارتا آپ کے پیٹ پر کودا بھی سیدنا ابوبکرؓ اس قدر زخمی ہو گئے تھے کہ ان کا چہرہ اور ناک نہیں پہچانی جاتی تھی بے ہوش ہو گئے تھے ہوش آنے پر سب سے پہلے حضورﷺ کی خیریت پوچھی تھی۔
(حیاۃ الصحابہ: جلد، 1 صفحہ، 290)
3: سیدنا عمرؓ جب مسلمان ہو گئے تو کفار کے مجمعوں میں جاجا کر علی الاعلان بتایا اور کہا اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبدہ و رسولہ سب کفار آپؓ پر جھپٹے سیدنا عمرؓ (نتہا) ان سب سے لڑتے رہے یہاں تک کہ سورج سر پہ آ گیا سیدنا عمرؓ تھک کر بیٹھ گئے اور کہتے تھے جو تمہارے جی میں آئے کرو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم تین سو آدمی ہو جائیں تو پھر یا ہم رہیں گے یا تم رہو گے۔ 
(حیاۃ الصحابہ: جلد، 1 صفحہ، 296)
4: اسلامِ عمرؓ پر جب سارا شہر آپ کو قتل کرنے پر امڈ آیا اور آپ مجبوراً گھر میں پناہ گزیں ہو گئے تو آپ کے پاس ابوعمر عاص بن وائل سہمی آیا اس نے کفار کو آپ سے ہٹایا (بخاری)
5: محمدبن ابراہیم تمیی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمانؓ اسلام لے آئے تو ان کے چاچا حکم بن ایوان بن امیہ نے ان کو پکڑا اور رسیوں میں باندھ دیا اور کہا تو اپنے باپ دادوں کے دین سے ایک نئے دین کی طرف پھر گیا خدا کی قسم میں تجھ کو بندھا رہنے دوں گا جب تک کہ تو اس دین کو نہ چھوڑے گا سیدنا عثمانؓ نے فرمایا میں بھی اس دین کو چھوڑنے والا نہیں جب حکم نے ان کی پختگی دیکھی تو چھوڑ دیا۔ 
(ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 37 )
سرورِ کونینﷺ کے علاوہ سیدنا علیؓ یا دیگر کسی ہاشمی بزرگ کے متعلق ایسے واقعات ہمارے علم میں نہیں۔
سیدنا ابوالعاصؓ خوراک پہنچاتے تھے:
ضد اور تعصب کا برا ہو معترض زہیر بن امیہ وغیرہ مالی امداد پہنچانے والوں میں سیدنا ابو العاصؓ بن ربیع دامادِ رسول کا ذکر نہیں کرتا جو سیدہ زینبؓ بنتِ رسولﷺ کے شوہر اور سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے بھانجے تھے مبادا ان کا ذکر ہو تو شیعہ مذہب خاک میں مل جائے۔
باقر علی مجلسی بھی قصہ شعب میں ان کا ذکرِ خیر یوں کرتے ہیں:
وابو العاصؓ بن ربیع کہ داماد حضرت رسولﷺ بود شتران بر در شعب می آورد که گندم دروازے بار کرده بود و صدا میزد آن شتران که داخل دره مے شدند و بر میگشت لھٰذا حضرت فرمود که ابو العاصؓ حقِ دامادی مارا نیکو رعایت کرد۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 313) 
ترجمہ: اور حضرت ابو العاصؓ بن ربیع جو حضورﷺ کے داماد تھے گندم اور کھجوروں سے اونٹ لاد کر شعب کے دروازے پر لے آتے اور آواز دیتے تو اونٹ درہ میں داخل ہو جاتے (مسلمان غلہ اتارلیتے تو سیدنا ابو العاصؓ واپس ہو جاتے یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں حضرت ابو العاصؓ نے ہمارا داماد ہونے کا حق ادا کیا۔
(شیعہ کتاب اعلام الوریٰ: صفحہ 61 مطبوعہ ایران میں بھی یہی الفاظ ہیں)
"دامادی" کے لقب سے حضورﷺ نے یا سیدنا ابو العاصؓ کو نوازا یا پھر حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے متلق فرمایا تھا کہ اگر سیدہ رقیہؓ و سیدہ امِ کلثومؓ کے بعد میری کوئی اور بھی صاحبزادی ہوتی تو حضرت عثمانؓ کو بیاہ دیتا اور چونکہ آنکھوں کی یہ ٹھنڈک حضورﷺ کو نورِ چشم حضرت فاطمہؓ سلام الله عليھا وعلى ابيها و زوجہا سے حاصل نہ ہوئی تھی بلکہ دخترِ ابوجہل کی خواستگاری کی وجہ سے سیدہ فاطمہؓ کے ناراض ہونے اور میکے چلے جانے پر حضورﷺ کو یوں فرمانا پڑا تھا۔
فاطمةؓ بضعة منى فمن اذا ها فقد آذانی۔ 
ترجمہ: فاطمہؓ میرے گوشت کا حصہ ہے جو اسے ستائے گویا اس نے مجھے ستایا۔
اور یہ قصہ طرفین کی تاریخ و سیرت میں متواتر ہے لہٰذا شیعہ سیدنا علیؓ کے ماسوا کسی کو دامادِ رسولﷺ ماننے سے بدکتے ہیں حالانکہ یہ متواتر حقیقت ہے اس کا انکار صریح مکابرہ ہے اور ہمارے علم میں کوئی مثال نہیں کہ کسی مستند شیعہ مؤلف یا مؤرخ محدث نے بناتِ رسولﷺ اور آپﷺ کے دامادوں کا انکار کیا ہو جیسے اگلے سوال میں تمام عبارات مفصل آرہی ہیں۔