حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال بقول اہل سنت رسول اللہﷺ کی رحلت کے چھ ماہ بعد ہوا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال یا اڑھائی برس رسول خداﷺ کے بعد ہوا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 26 ذی الحجہ 24ھ کو انتقال فرمایا تو کیا وجہ تھی کہ دونوں بزرگوں کو جو نبی اکرمﷺ کے بعد کافی عرصہ کے بعد انتقال کرتے ہیں۔ روضہ رسولﷺ میں دفن ہونے کے لئے جگہ مل گئی اور رسول خداﷺ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ ئ مادر حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کو باپ کے پاس قبر کی جگہ نہ مل سکی کیا خود حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نے باپ سے علیحدگی قبر کی وصیت کی تھی یا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حکومت وقت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا یا مسلمانوں نے بضعئہ رسولﷺ کو قبر رسولﷺ کے پاس دفن نہ ہونے دیا فاعتبروا یاولی الابصار۔
مولانا مہرمحمد میانوالی
جواب: شیعہ دوست سخن سازی میں اپنے اسلاف کی طرح خوب ماہر ہے اسے کہتے ہیں مدعی سُست گواه چست ورنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین اور تدفین بلا اختلاف ان کی اپنی مرضی اور وصیت کے مطابق ہوئی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تمام امور وصیت کے مطابق سرانجام دیئے طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 تذکرہ سیدہ فاطمہؓ سے ایک نظر میں تمام روایات ملاحظہ ہوں۔
1: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلی خاتون ہیں جن کے لیے نعش با پردہ چارپائی بنائی گئی جو سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ زوجہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بنائی تھی۔ (از سیدنا ابنِ عباسؓ)
2: سیدہ فاطمہ رضی اللہ ئ کے جنازے کی نماز حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب نے پڑھائی اور انہیں قبر میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدنا فضل بن عباسؓ نے اتارا۔ (از عمرو)
3: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر میں سیدنا علیؓ سیدنا عباسؓ اور سیدنا فضلؓ اترے۔ (از سیدہ عائشہؓ)
4: حضرت فاطمہؓ کی نماز حضرت علیؓ نے پڑھائی۔ (از عروہؒ)
5: حضرت فاطمہؓ پر حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھی تھی۔ (از شعبیؒ)
6: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کے جنازے کی نماز پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں۔ (از ابراہیم نخعیؒ)
7: سیدہ فاطمہؓ کو رات میں حضرت علیؓ نے دفن کیا۔ (از زہری)
عروہ محمد بن علی، حضرت عائشہؓ، یحییٰ بن سعید، حضرت ابنِ عباسؓ سے روایات ہیں کہ رات کے وقت حضرت علیؓ نے آپؓ کو دفنایا ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ ہوا بِلانزاع و اِختلاف ہوا اور بنو ہاشم کے ذمہ داروں نے تجہیز و تکفین کی تھی ظنِ غالب یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے رات کو اپنا جنازہ اٹھانے اور جنتُ البقیع میں دفن کرنے کی وصیت کی تھی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چار تکبیروں سے آپؓ کا جنازہ پڑھایا۔
شیعہ کی معتبر کتاب اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ: صفحہ 158 پر تدفین کا ذکر یوں ہے:
روى انها توفيت الثالث من جمادى الآخرة احدى عشرة من فوت الهجرة وبقيت بعد النبیﷺ خمسة و بعد تسعين يوما و روى أربعة اشهر وتولى امير المؤمنين غسلها اسماء بنتِ عمیسؓ وانها قالت اوصت فاطمةؓ ان لا يغسلها اذا ماتت الا انا و على فغسلتها انا و علىؓ وصلى عليها امير المؤمنين والحسنؓ بن والحسينؓ و عمارؓ ومقدادؓ وعقیلؓ والزبيرؓ وابوذرؓ وسلمانؓ وبريدةؓ ونفر من بنی هاشم فی جوف الليل ودفنها علی امیر المومنین سرا بوصيته منها فی ذٰلك-
روایت ہے کہ آپؓ 3 جمادی الاخرة 11ھ میں فوت ہوئیں اور حضورﷺ کے بعد 95 دن یا 4 ماه زنده رہیں حضرت علیؓ و حضرت اسماء بنتِ عمیسؓ زوجہ ابوبکرؓ غسل دینے والے تھے حضرت اسماءؓ کہتی ہیں حضرت فاطمہؓ نے وصیت کی تھی کہ آپؓ کو غسل میں اور حضرت علیؓ ہی دیں پس میں نے اور حضرت علیؓ نے غسل دیا اور جنازے میں یہ لوگ یقینی تھے سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدنا عمارؓ سیدنا مقدادؓ سیدنا عقیلؓ سیدنا زبیرؓ سیدنا ابوذرؓ سلمان سیدنا بریدهؓ او بنوہاشم کے کچھ لوگ جنازہ رات کو ہوا اور سیدنا امیر المؤمنینؓ نے آپ کو وصیت کے مطابق پوشیدہ دفن کیا۔
اس اقتباس سے چند باتیں معلوم ہوئیں۔
1: سیدہ فاطمہؓ نے اپنے غسل اور تدفین کے متعلق وصیت کی تھی اور سیدنا علیؓ نے اِسی پر عمل کر کے رات کو تدفین فرمائی، اگر روضہ نبویﷺ میں دفن کرنے کی وصیت کی ہوتی تو ضرور روایت میں تذکرہ ملتا اور پھر سیدنا علیؓ نے اس کی خلاف ورزی کر کے کبھی جنتُ البقیع میں دفن نہ کرتے اگر شیعہ معترض کے پاس اس کا ثبوت ہوتا تو باحوالہ کتبِ تاریخ فریقین سے واضح کرتے یہ کس قدر بے تکی اور اصولِ مناظرہ سے جہالت پر مبنی بات ہے کہ خصم سے یہ ثبوت مانگا جائے کیا خود سیدہ بتولؓ نے باپ سے علیحدگی قبر کی وصیت کی تھی یہ وصیت ایجابی اُمور میں ہوتی ہے کہ ایسا کرنا سلبی امور میں تو اس وقت ہوتی ہے جب متوفیٰ کو ظنِ غالب ہو کہ میرے ورثاء یہ غلط کام ضرور کریں گے تو وہ اس سے روک جائے۔
2: سیدنا علیؓ نے آپ کو وصیت کے مطابق ہی رات کے وقت اور پوشیدہ طور پر دفنایا اگر حجرہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ میں دفن کی وصیت ہو تو دونوں میں تضاد ہے مسجدِ نبوی میں اور روضہ اقدس میں تدفین کیسے مخفی رہ سکتی ہے سیدنا ابوبکرؓ کا دروازہ مسجد میں کھلتا ہے نمازیوں اور نفل پڑھنے والوں سے مسجد بھری رہتی ہے اور صلاۃ و سلام پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
3: رات کو اور پوشیدہ تدفین اس لیے نہیں ہوئی کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعن (العیاذ باللہ) جنازہ میں شرکت نہ کریں جیسا کہ شیعہ کا باطِل خیال ہے بلکہ اس کی وجہ محض ستر پوشی اور عوام کی نظروں سے سریر مبارک کو بھی بچانا ہے جیسے البدایہ والنہایہ: جلد، 6 صفحہ، 333 پر ہے۔
و دفنت بالبقيع وهی اول من ستر سريرها۔
ترجمہ: آپؓ کو جنتؓ البقیع میں دفن کیا گیا آپ وہ پہلی خاتون ہیں جن کا جنازہ ڈھانپا گیا۔
رات کو تدفین کی وصیت میں یہ تاثر بھی دلاتا ہے کہ سیدہ خاتونِ جنت دنیا کو شب تاریک میں چھوڑ کر جا رہی ہیں اور اللہ کے مقربین بندوں کے علاوہ دنیا میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔
4: سیدہ فاطمہؓ نے اپنے غسل کے لیے سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کو مقرر کیا اور سیدنا علیؓ کو ان کا معاون نامزد کیا یہ سیدہ اسماءؓ خلیفہ بلافصل امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اہلیہ محترمہ ہیں اور وفاتِ صدیقی کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عقد میں آئی تھیں۔
یہیں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدیقی گھرانہ کو خاندانِ اہلِ بیتؓ کے ساتھ کس قدر محبت و وفاداری ہے کہ سیدہ اسماءؓ اپنے خاوند کی اجازت سے نہ صرف مدتِ دراز تک سیدہ فاطمہؓ کی تیمار دار اور خدمت گار رہیں بلکہ غسل کا شرف بھی بناء بر وصیت آپؓ کو حاصل ہوا جو سونے پر سہاگہ کی مثل ہے اور خاندانِ اہلِ بیتؓ کے گھرانہ صدیقی پر اعتماد کا اعلیٰ ترین ثبوت ہے۔
این سعادت بزورِ بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده
ترجمہ: اور یہیں سے شیعہ کے وہ ہفوات پادرِ ہوا ہو جاتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو تو وفات سیدہ فاطمہؓ و جنازہ کی اطلاع نہ دی گئی تھی یہ کیسے ممکن ہے خاتونِ جنت کی وفات و جنازہ ہو اور لوگوں کو پتہ نہ چلے بیوی غسل و تکفین تک کی خِدمت سر انجام دیں اور خلیفتہ المسلمین خاوند بے خبر ہو۔ دراصل اس قِسم کے باطِل نظریات سے یہ مفاد پرست ٹولہ اہلِ بیتِ نبوی کی عزت و توقیر کو خاک میں ملاتا ہے ورنہ ہمارے نزدیک جنازہ چوری چھپے نہ تھا جیسے قاتل اپنے مقتولوں کے ساتھ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر تعداد شریک تھی ہاں جنازہ کِس نے پڑھایا؟ اس میں روایات مختلف ہیں ایک روایت میں آپؓ کے خاوند حضرت علیؓ کا نام ہے ایک میں حضورﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کا ہے ایک میں آپؓ کے نانا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہے کوئی بھی ہو ہر ایک بزرگ اور مستحق تھا کیا ہی خوش قِسمت جنازہ تھا اور کیا خوش بخت جنازہ پڑھنے والے تھے صلوات اللہ علیٰ نبیہم و علیهم اجمعین۔
شیعہ عالم نجم الحسن کراروی آپؓ کی وفات کے سلسلے میں لکھتے ہیں: جب رات ہوئی تو سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو غسل دیا اور کفن پہنایا نماز پڑھی اور جنتُ البقیع میں لے جا کر دفن کر دیا ایک روایت میں ہے کہ آپؓ کو منبر اور قبرِ رسولﷺ کے درمیان دفن کیا گیا۔
(چودہ ستارے: صفحہ، 252)
روایتِ ثانی پر تو اعتراض بنانے کی حاجت نہیں رہی روایتِ اولیٰ پر ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ نے یہ سب کام وصیّت کے مطابق کیے اگر حجرہ سیدہ عائشہؓ میں دفن کی وصیّت ہوتی تو آپؓ ایسا ہی کرتے اس اقتباس میں سیدنا علیؓ کے غسل دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپؓ پانی لانے بہانے میں معاون تھے ہاتھوں سے غسل سیدہ اسماءؓ زوجہ سیدنا ابوبکرؓ دے رہی تھیں۔
مدفنِ سیدہ فاطمہؓ میں شیعہ کا اختلاف:
اہلِ سنت کے برعکس مدفنِ سیدہ فاطمہؓ میں شیعی روایات مختلف ہیں ایک روایت میں جنتُ البقیع ہے جو دنیا کے سب قبرستانوں سے افضل ہے اور جہاں دس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امہات المؤمنینؓ بناتِ رسولﷺ اور آپﷺ کے صاحبزادے سیدنا ابراہیمؓ مدفون ہیں یہی روایت سب سے اصح اور اہلِ سنت کا مذہبِ قوی ہے مستند علماء شیعہ بھی یہی کہتے ہیں جیسے کراروی صاحِب کا حوالہ گزرا جنتُ البقیع میں آپؓ کی اور سیدنا حسنؓ سیدنا عباسؓ بن عبد المطلب سیدنا زین العابدینؓ سیدنا باقرؒ و سیدنا جعفرؒ کی قبور صحیح سالم ایک گول احاطے میں ہیں ایران کے بڑے بڑے فاضِل شیعہ کو راقم نے وہاں صلاۃ و سلام پڑھتے دیکھا ہے۔
دوسرا مقام بیتِ سیدہ فاطمہؓ ہے جو مسجدِ نبویﷺ کے بالکل قریب تھا اور دروازہ مسجد میں کھلتا تھا تیسرا مقام آپﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان روضة من ریاض الجنہ میں ہے یہ دونوں مقام اب مسجدِ نبوی میں شامل ہیں یہاں بھی احتیاطاً صلاة و سلام پڑھ لینا چاہئے۔
اب شیعہ روایات ملاحظہ کریں:
1: ثم قال علیؓ یا اسماءؓ اغسيلها وخطيها وكفنيها قال فغسلوها و كفنوها و حنطوها وصلوا عليها ليلا و دفنوها بالبقيع وماتت بعد العصر قال ابن بابويه جاء هذا الخبر هكذا والصحيح عندى انها دفنت فی بيتها فلما زاد بنوامية فی المسجد صارت فی المسجد۔
(كشف الغمہ: صفحہ، 149)
ترجمہ: پھر سیدنا علیؓ نے سیدہ اسماءؓ سے کہا سیدہ فاطمہؓ کو غسل دے خوشبو لگا اور کفن پہنا راوی کہتا ہے غسل دیا کفن پہنایا اور خوشبو لگائی اور رات كو سب نے جنازہ پڑھا اور جنتُ البقیع میں دفن کیا آپؓ عصر کے بعد فوت ہوئی تھیں ابنِ بابویہ کہتے ہیں یہ حدیث اسی طرح نقل ہو کر آئی ہے میرے ہاں صحیح یہ ہے کہ آپؓ اپنے گھر میں دفن کی گئیں جب بنو امیہ نے مسجد میں اضافہ کیا تو یہ حصہ مسجد میں آگیا۔
2: واما موضع قبرها فاختلف فیہ قال بعض اصحابنا انها دفنت بالبقیع و قال بعضهم انها دفنت فی بيتها و قال بعضهم انها دفنت فيما بين القبر والمنبر۔
(اعلام الورىٰ: صفحہ، 159 بحوالہ كشف الاسرار: صفحہ، 26)
ترجمہ: آپؓ کی جائے قبر میں اختلاف ہے بعض حضرات کہتے ہیں جنتُ البقیع میں دفن ہوئیں بعض کہتے ہیں اپنے گھر میں دفن ہوئیں اور بعض کہتے ہیں کہ قبرِ نبوی اور منبر کے درمیان دفن ہوئیں جو جنت کا ٹکڑا ہے۔
پھر مصنف کہتے ہیں پہلا قول بعید ہے اور دوسرے دو اقرب الی الصواب ہیں۔
اس روایت کی رو سے اگر آپؓ واقعی اپنے گھر یا مسجدِ نبوی کے حِصّے روضة من ریاض الجنتہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں مدفون ہوئیں تو پھر عز و شرف کا کیا کہنا؟ یہاں تدفین کسی صورت میں مخفی نہ ہو سکتی تھی یہ مسلمانوں کی خلافت کا ہیڈ کوارٹر تھا ہر وقت سینکڑوں مسلمان نمازِ پنجگانہ۔ نوافل، صلاۃ و سلام کے لیے شب و روز موجود رہتے تھے اصحابِ صفّہ کی رہائش گاہ یہی تھی اگر یہ مزاحمت کرتے تو تدفین کیسے ہو سکتی تھی ان روایات اور اس مدفن کے پیشِ نظر خفیہ تدفین کا افسانہ، خلیفہؓ اور مسلمانوں پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضی کے وضعی قِصّے اور اس قسم کے تمام شیعی شبہات خود بخود دفن ہو جاتے ہیں۔
روضہ پاکﷺ میں دفن نہ کرنے کی وجہ:
یہاں تک تو حضرت فاطمہؓ کے دفن کا بیان ہوا کہ خود ان کی وصیت کے مطابق متبرک مقام پر تدفین ہوئی۔ اب رہا یہ امر کہ مسلمانوں نے روضہ رسولﷺ میں کیوں دفن نہ کیا تو وضاحت یہ ہے کہ ایک تو وصیت کے خلاف ہوتا دوم یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حجرہ قبرستان نہ تھا نہ جائے وقف تھی وہ تو بنص قرآنی: وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِ الخ (سورة الاحزاب: آیت، 34)
ترجمہ: اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی جو باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو
سیدہ حضرت عائشہؓ کی ملکیتِ خاصّہ تھا سیدہ عائشہؓ کی جلالت و عظمت کے پیشِ نظر اللہ پاک نے آپؓ کے حجرے و رہائش گاہ کو مدفنِ پیغمبرﷺ ہونے سے مشرف کیا جس طرح آپؓ کی گود میں حضورﷺ کی وفات ہوئی آپؓ نے اپنے دانتوں سے چبا کر مسواک کرایا اور آخری دنوں میں تیمار داری و خدمت کا فریضہ سرانجام دیا تو یہاں از خود دفن کرنے کا سوال نہ تھا اگر حضورﷺ کو بھی یہ منظور ہوتا کہ میری اور میری اولاد کی قبر یکجا ہو تو آپﷺ وصیت میں یوں فرما دیتے کہ مجھے جنتُ البقیع میں میری صاحبزادیوں اور صاحبزادہ سیدنا ابراہیمؓ کے پاس دفن کرنا یا جب حضرت فاطمہؓ کو اپنے بعد جلدی ہی وفات اور ملاقات کی بشارت دی تھی تو فرما دیتے کہ انہیں میرے ساتھ دفن کرنا اس قسم کی کوئی روایت سنی شیعہ ذخیرہ تاریخ میں سے نہیں مل سکتی۔
بالفرض اگر حضرت فاطمہؓ وصیت فرمائیں تو بھی اپنی ماں اور مالکہ حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ و حضرت علیؓ زوجہا سے اجازت درکار تھی بالفرض اگر نہ ملتی تو بھی کوئی شرعاً و عرفاً ناروا بات نہ ہوتی اس کے برعکس حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنی صاحبزادی سے اجازت مانگی اور عند الرسول دفن کی وصیت کی (بخاری)، اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اجازت مانگی پھر دفن کی وصیت کی۔
(بخاری: جلد، 2 صفحہ، 1090)
بِنا بریں مسلمانوں کے ذمے ان حضرات کو رسولِ خداﷺ کے پہلو میں دفن کرنا لازم ہوگیا تھا اور حضرت فاطمہؓ کے متعلق ایسی کوئی بات نہ تھی حضرت ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی تدفین در روضہ اقدس کے موقعہ پر حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت حسینؓ حضرت عباسؓ و دیگر سب اہلِ بیتؓ و بنو ہاشم رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے وہی روکاوٹ ڈال دیتے کیا ذرا بھی اس کا شوشہ کہیں ملتا ہے؟ بلکہ وہ تو خود شریکِ عمل نظر آتے ہیں۔
دفن حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کا باطنی سبب:
یہ تو ظاہری سبب ہوا اصلی سبب تدفين مع الرسول وہ انتظامِ خداوندی ہے جس پر سنی و شیعہ کا مشترکہ ایمان ہے کہ ہر شخص کی قبر وہاں بنتی ہے جہاں سے اس کا خمیر تیار کیا جاتا ہے۔
شیعہ کے مستند مترجم مولوی مقبول صاحب دہلوی آیت مِنۡهَا خَلَقۡنٰكُمۡ الخ۔
(سورة طٰهٰ: آیت 55) کے تحت لکھتے ہیں کہ کافی میں سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ نطفہ جب رحم میں پہنچ جاتا ہے تو خداۓ تعالیٰ ایک فرشتہ کو بھیج دیتا ہے کہ اس مٹی میں جس میں یہ شخص دفن ہونے والا ہے تھوڑی سی لے آئے چنانچہ وہ فرشتہ لا کر نطفہ میں مِلا دیتا ہے اور اس شخص کا دِل ہمیشہ اس مٹی کی طرف مائل ہوتا رہتا ہے اِس غیر حسّی میلان کا ہر شخص کو پتہ نہیں لگ سکتا جب تک کہ اس میں دفن نہ ہو جائے۔
(پارہ 16 صفحہ 377)
اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ہر بچہ کی ناف میں اس مٹی کا حصہ ہوتا ہے جس سے وہ بنایا گیا یہاں تک کہ اسی میں دفن ہو جائے اور میں، حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ ایک ہی مٹی سے بنے ہیں اور اسی میں دفن ہوں گے۔
(المتفق والمفترق الخطيب)
یہ حدیث فرقہ بریلویہ کے پیشوا مولوی احمد رضا خان صاحب نے بھی اپنے فتاویٰ فریقیہ میں نقل کی ہے بلکہ اس کے ساتھ امام حکیم ترمذی کی نوادر الاصول سے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔
وياخذ التراب الذی يدفن فی بقعته و تعجن به نطفته فذالك قوله تعالىٰ منها خلقناكم وفيها نعیدکم۔
(فتاویٰ افریقہ: صفحہ، 85)
ترجمہ: جس جگہ کوئی دفن ہو گا فرشتہ اس جگہ سے مٹی لے کر نطفہ کے ساتھ گوندھتا ہے اللہ تعالیٰ کے قول کا یہی مطلب ہے ہم نے مٹی سے تم کو پیدا کیا اور مٹی میں لوٹائیں گے۔
یہ حوالہ اس لیے دیا ہے کہ آج نادان بریلوی حضرات نور و بشر کا مسئلہ کھڑا کر کے آنحضرتﷺ اور سیدنا شیخینؓ میں غیر شعوری طور پر تفریق کرتے ہیں تو دوسری طرف نعرہ رسالت کے متصل نعرہ حیدری لگاتے اور اسے بمعہ جواب تین دفعہ دہراتے ہیں یہی خلفاءِ ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا انکار اور تبرّا ہے جو رفض و تشیع کا شعار ہے مگر اب سادہ لوح سنی بھی شبہ پروپیگینڈہ سے ان کی چالوں میں آ رہے ہیں وہ اپنے امام کے نقل کردہ حوالہ بالا سے سیدنا شیخینؓ کی حضورﷺ سے جوہری وحدت اور مقامِ رفیع کا اندازہ لگائیں اگر نعرے لگانا کارِ ثواب ہے تو ان کا نعرہ بھی ضرور لگائیں تاکہ سنی ہونے کا ثبوت ہو۔
تدفین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ایماء سے ہوئی:
حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کی تدفین پر آج شیعہ کو حسد و اعتراض ہو تو ان کا مذہب ان کو مبارک مگر حضرت علیؓ تو اس پر راضِی بلکہ رائے دینے والے تھے صحیح بخاری میں حضرت ابنِ عباسؓ کی یہ حدیث ملاحظہ ہو فرماتے ہیں میں اس جماعت میں کھڑا تھا جو حضرت عمر بن الخطابؓ کے لیے دعا مانگ رہے تھے جب کہ آپ کی میت چارپائی پر رکھی ہوئی تھی اچانک ایک شخص میرے پیچھے سے آیا میرے کندھے پر کہنی رکھی۔
يقول يرحمك الله ان كنت لارجوا ان يجعل الله مع صاحبيك لانی كثيرا ما كنت اسمع رسول اللهﷺ يقول كنت وابوبكر و عمر وفعلت وابوبكر و عمر وانطلقت وابوبكر وعمر و ان كنت لارجوا ان يجعلك الله معهما فالتفت فاذا علی بن ابی طالب۔
(بخاری جلد1 صفحہ 519)
ترجمہ: اور فرمانے لگا اے حضرت ابنِ خطابؓ تجھ پر اللہ رحمت کرے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تجھے اپنے ساتھیوں حضورﷺ و حضرت صدیقؓ کے ساتھ جوڑے گا کیونکہ میں بہت دفعہ آپﷺ سے سُنا کرتا تھا کہ میں اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ تھے میں نے اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے یہ کام کیا میں اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ چلے اور بلاشبہ مجھے امید ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ قبر و حشر میں ان کے ساتھ مِلائے گا میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ تھے۔
معلوم ہوا کہ منشا پیغمبرﷺ کے مطابق سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ کی قبر حضورﷺ کے پاس بنانے کی اجازت دے دی۔
اس خطبہ کی تفصیل محب طبری نے ریاض النضرة فی مناقب العشرة میں یوں پیش کی ہے ذرا غور سے پڑھیے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے سیدنا علیؓ کو جس قدر عقیدت و محبت تھی وہ اس سے عیاں ہے عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ سیدنا عمرؓ کے جنازہ کے پاس آئے آپ کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے تو سیدنا علیؓ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ اس کفن میں لپٹے ہوئے شخص کے نامہ اعمال سے زیادہ اچھے کسی کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کروں یعنی اس کا نامہ اعمال سب موجودین سے بہتر اور یہ سب سے افضل ہے اے سیدنا ابنِ خطابؓ! اللہ کی تجھ پر رحمت ہو آپؓ اللہ کی آیتوں کے بڑے عالم تھے آپؓ کے سینے میں اللہ کی بڑی عظمت تھی آپؓ اللہ سے خوف کھاتے تھے اور اللہ کے بارے میں لوگوں سے خوف نہ کھاتے آپؓ حق کے لیے فیاض، باطل کے لیے بخیل، دنیا سے بھوکے رہنے والے اور آخرت سے پیٹ بھرنے والے تھے۔
اوقر بن حکیم کہتے ہیں جب سیدنا عمرؓ فوت ہو گئے تو سیدنا علیؓ بیماری کی حالت میں آگئے سلام کہا صدمہ سے سر جھکایا پھر سر اٹھا کر فرمایا سیدنا عمرؓ پر رونے والی آنکھ کیا اچھی ہے اور سیدنا عمرؓ نے کجی کو سیدھا کیا اور عمل کو مضبوط کیا ہائے حضرت عمرؓ پاکدامن ہو کر فوت ہوا کمتر عیب والا تھا۔ ہائے حضرت عمرؓ سنت پر چلتا رہا اور فتنہ سے بچتا رہا اللہ کی قسم حضرت ابنِ خطابؓ نے بھلائی پائی اور شر سے نجات پائی پھر فرمایا وہ اپنی وفات سے قافلہ کو تاریکی میں چھوڑ گئے کہ متعدد راستے ہو گئے نہ گمراہ ہدایت پاتا ہے اور نہ ہدایت یافتہ کو یقین ہوتا ہے۔
(ریاض النضرہ: جلد، 2 صفحہ، 102)
اسی قسم کا خطبہ نہج البلاغہ میں ہے جو اپنے موقعہ پر آئے گا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے دن آپؓ نے فرمایا۔
سیدنا اسید بن صفوانؓ عہدِ رسالت کو پانے والے کہتے ہیں جس دن حضرت ابوبکرؓ کی وفات ہوئی تو مدینہ چیخ و پکار سے لرز اٹھا جس طرح کہ آنحضرتﷺ کی وفات کے دن لرزہ برپا ہوا تھا سیدنا علیؓ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ۞ (سورة البقرہ: آیت، 156) پڑھتے ہوئے آئے اور فرمایا آج خلافتِ نبوت ختم ہوگئی پھر جنازہ صدیقی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا آپ رسول اللہﷺ کے رفیقِ خاص مونس و جائے آرام تھے راز دان مشیر اور قابلِ اعتماد تھے آپ سب سے پہلے مسلمان سب سے خالص ایمان والے، سب سے بڑے یقین والے سب سے زیادہ خوف کھانے والے اللہ کے دین میں سب سے بڑی دلچسپی لینے والے سب سے بڑھ کر حضورﷺ کی اور اسلام کی حفاظت کرنے والے آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سب سے زیادہ مہربان سب سے بہترین صحبت والے سب سے زیادہ خوبوں والے سبقتِ اسلام و ایمان میں سب سے افضل سب سے بلند رتبہ سب سے زیادہ قرب والے سب سے زیادہ خلق عادت رحمت اور فضیلت میں حضورﷺ کے مشابہہ، مرتبے اور عزت میں سب سے اشرف۔ حضورﷺ کے سب سے بڑھ کر قابلِ بھروسہ تھے پس اللہ تعالیٰ آپؓ کو اسلام اور پیغمبرﷺ کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے آپؓ حضورﷺ کے لیے بمنزلہ آنکھ اور کان کے تھے۔
اسی طرح طویل خطبے کے آخر میں ہے رسول اللہﷺ کے بعد آپؓ سے بڑھ کر مسلمانوں کو کسی موت کا صدمہ نہیں پہنچا آپؓ دین کا وقار امان غارِ پناہ جماعت قلعہ اور فریاد رس تھے منافقوں پر شدید و سخت تھے اللہ پاک آپ کو اپنے رسولﷺ کے ساتھ ملائے ہمیں آپؓ کے صدمہ وفات کے خواب سے محروم نہ کرے آپؓ کے بعد گمراہ نہ کرے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ۞
(سورة البقرہ: آیت، 156)
(ریاض النضرة: جلد، 1 صفحہ، 239، 240)
پیغمبرﷺ کی صاحبزادیاں چار ہیں:
معترض کا سیدہ فاطمہؓ کو حضورﷺ کی اکلوتی بیٹی کہنا قرآنِ کریم ارشاداتِ پیغمبرﷺ اقوالِ آئمہ اہلِ بیتؓ کی کھلی تکذیب ہے اور چودہویں صدی تک کے تمام علمائے مجتہدین شیعہ کی تصریحات کا انکار ہے، ہمارے علم میں اس صدی سے قبل کوئی شیعہ عالم نہیں جس نے حضورﷺ کی صاحبزادیوں کا انکار کیا ہو یا کسی مستند متداول کتاب میں اس مؤقف کو مبرہن کیا گیا ہو چنانچہ متداول شیعی لٹریچر سے دسیوں حوالے ہدیہ ناظرین کیے جاتے ہیں جس سے قارئین کو یقین ہو جائے گا کہ قرآنِ کریم اور ارشاداتِ نبویﷺ سے اپنے زعم کے خلاف انحراف تو شیعہ کا معمول ہے ہی پیغمبروں سے افضل اپنے آئمہ کی تصریحات اور شیعہ مذہب کے موئسس و مجتہد علماء کے اتفاق کو بھی نہیں مانتے ان کا مذہب بس اتنا ہی ہے کہ زمانے کی حالت اور رُخ کو دیکھ کر جس بات کو چاہا جزوِ دین بنا ڈالا خواہ ائمہ سے اس کا ثبوت بالکل نہ ہو جیسے عزاداری کی تمام اقسام تعزیہ دٹکیہ پرستی، اسپ نوازی وغیرہ اور جس موافقِ اہلِ سنت اپنے ائمہ و علماء سے ثابت شدہ حقیقت کا چاہا انکار کر دیا اور اِدہر اُدہر کی باتوں سے کج بحثی کرنے لگے۔ مسئلہ بناتِ اربعہ، حقانیتِ خلفاءِ راشدین، تکمیل شریعت بر پیغمبرﷺ آخر الزمان صداقتِ مذہب اہلِ سنت وغیرہا مسائل اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔
بنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآن سے ثبوت:
سورة الاحزاب رکوع 8 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ الخ
(سورۃ الاحزاب: آیت 59)
ترجمہ: اے نبی! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔
(ترجمہ مقبول: صفحہ، 510 طبع لاہور)
اس آیت کریمہ میں ایک دوسرے پر معطوف تین لفظ ہیں۔
1: ازواج
2: بنات ان کی نسبت صرف حضورﷺ کی طرف ہے۔
3: مؤمنوں کی عورتیں تینوں جمع کے لفظ ہیں اور معنیٰ و ترجمہ بھی جمع والا ہے، عربی میں دو سے زیادہ افراد کے لیے جمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے معلوم ہوا کہ جیسے ازواجِ رسولﷺ 2 سے زائد ہیں جن کی تاریخ و سیرت میں تعداد 11 متفقہ اور یقینی ہے۔ اسی طرح بناتِ رسولﷺ بھی دو سے زائد ہیں، جن کی تاریخ و سیرت کے اتفاق سے تعداد 4 یقینی ہے، اگر کوئی شخص صرف ایک زوجہ رسولﷺ کو مانے بقیہ کا انکار کرے وہ قرآن کا منکر اور کافر سمجھا جائے گا۔ اسی طرح ایک صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مان کر بقیہ کا انکار کرنے والا یا العیاذ باللہ اور باپ تجویز کرنے والا قرآن کا منکر و کافر سمجھا جائے گا، اپنی بیوی کی پہلے خاوند کی لڑکیوں کو ربیبہ (پالی ہوئی) کہا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے:
وَرَبَآئِبُكُمُ الّٰتِىۡ فِىۡ حُجُوۡرِكُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِىۡ دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ الخ۔(سورة النساء: آیت، 23)
ترجمہ: تمہاری سوتیلی بیٹیاں جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔
(ترجمہ مقبول)
لہٰذا بناتِ رسولﷺ سے سیدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے سابق خاوند کی پروردہ لڑکیاں مراد لینا قرآن کے بر خلاف ہوا، اسی طرح بنات سے نواسیاں مراد لینا بھی باطل ہے، کیونکہ لغتِ عرب میں بنت صلبی بیٹی کو ہی بطورِ حقیقت و لغت کہا جاتا ہے۔ نواسی یا پوتی کو بنت البنت با بنت الابن کہتے ہیں، ان کو بنت کہنا مجازی اور ثانوی ہے، نیز پردے کا حکم جوان ہونے کا تقاضا کرتا ہے، نزول آیت کے وقت نواسیوں کی پیدائش بھی یقینی نہیں چہ جائیکہ وہ جوان اور خطابِ پردہ کی اہل ہوں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے امت کی لڑکیاں بھی مراد نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کے لیے نساء المؤمنین کا مستقل تیسرا لفظ موجود ہے۔ الغرض قرآنِ پاک سے قطعی طور پر حضورﷺ کی متعدد صاحبزادیوں کا ثبوت ہوا اور شیعہ کے لیے فرار کا موقعہ نہ رہا بالفرض سارا شیعی لٹریچر ایک صاحبزادی ہونے کا ثبوت دے حالانکہ وہ بھی چار ہی بتاتا ہے تو بھی اس سب کا انکار کرنا اور قرآن کے آگے جھک کر کئی صاحبزادیاں ماننا فرض ہوا بشرطیکہ شیعہ قرآنِ پاک کو مانتے ہوں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات:
شیعہ کے خاتم المحدثین باقر علی مجلسی رقمطراز ہیں کہ حضور نے فرمایا:
1: و خدیجہ خدا اور ارحمت کند ازمن طاہر و مطہر را بہمرسانید کہ او عبدالله بود و قاسم را آور دو فاطمه و رقیه و زینب و ام کلثوم از و بہمرسیدند
(حیات القلوب: صفحہ87)
ترجمہ: اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر خدا رحمت کرے، میرے طاہر اور مطہر اس سے پیدا ہوئے جس کا نام عبداللہ تھا اور قاسم کو جنا اور سیدہ فاطمہ سیدہ رقیہ سیدہ زینب سیدہ امِ کلثوم میری صاحبزادیاں اس سے پیدا ہوئیں۔
2: نیز بسند معتبر سیدنا محمد باقرؒ سے روایت ہے کہ رسولِ خداﷺ کو لوگوں نے کہا کہ آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کیوں زیادہ چومتے ہیں اور گود میں اٹھاتے ہیں اور اپنے پاس بہت بلاتے اور اتنی شفقت فرماتے ہیں،کہ نسبت با سائر دختران خود نمنیمائی
کہ باقی اپنی صاحبزادیوں کے ساتھ یہ شفقت نہیں کرتے تو حضورﷺ نے فرمایا میں نے بہشت کا سیب کھایا اس کا نطفہ بنا جس سے سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔
(جلاء العیون: صفحہ 87)
3: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں حضورﷺ نے فرمایا: و خالہ ایشان زینب است و خاله ایشان زینب دخترِ رسول خداﷺ است(جلاء العیون: صفحہ231، 291) کہ ان کی خالہ رسولِ خداﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات:
حضرت علیؓ نے وزیر کی حثیت سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو فہمائش اور مشورہ دیتے ہوئے فرمایا:
4:و صحبت رسول اللہ كما صحبنا وما ابن ابی قحافة ولا ابنِ الخطاب باولى بعمل الحق منك وانت اقرب الى رسول اللہ وشيجة رحم منهما وقد نلت من صهره ما لم ينالا۔
(نہج البلاغہ: صفحہ 494 مترجم مرزا یوسف حسين)
ترجمہ: جس طرح ہم رسول خدا ﷺ کی صحبت میں رہے ویسے تم بھی رہے ہو اور حق پر عمل پیرا ہونے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تم سے اولیٰ ذمہ دار نہ تھے جب کہ آپ رضی اللہ عنہ خونی رشتہ کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ قریبی ہیں اور حضورﷺ کی دامادی کا وہ شرف بھی پایا ہے جو ان دونوں نے نہیں پایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، صاحبزادیوں عثمانؓ کے دامادِ نبیﷺ ہونے اور حضرات شیخینؓ کی طرح عامل بالحق ہونے کا حضرت علی المرتضیٰؓ نے فیصلہ فرما دیا گو اندازِ کلام میں بعض باتوں سے اختلاف اور اصلاح مقصود ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد:
آپ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد میری بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنتِ رسولﷺ کی صاحبزادی سیدہ امامہ بنتِ ابو العاص رضی اللہ عنہ سے شادی کرنا۔
چون مرض فاطمہ شدید شد علی خدا طلبید و گفت وصیت میکنم تراکہ بعد از من امامه دختر خواہر من زینب بخواہی(جلاء العیون: صفحہ 149، 153، 156)
ترجمہ: جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیماری زیادہ ہو گئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا میں تجھے وصیت کرتی ہوں کہ میرے بعد سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا میری بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی لڑکی سے شادی کرنا۔
6: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا منکرین دختران نبیﷺ پر لعنت بھیجتی تھیں:
اللهم صل على رقية بنت نبيك والعن من اذى نبيك فيها اللهم صل على ام كلثوم بنت نبيك والعن من اذى نبيك فيها۔
(تہذيب الاحكام: جلد، 1 صفحہ، 154 الاستبصار: جلد 1 صفحہ، 245 زاد المعاد مجلسی: صفحہ، 24 بحوالہ رسالہ دامادِ علیؓ و دامادِ نبیﷺ:صفحہ 6)
ترجمہ: اے اللہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا و سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی صاحبزادیوں پر رحمت بھیج اور ان لوگوں پر لعنت فرما جو (ان کا باپ اور تجویز کر کے) تیرے رسولﷺ کو ستاتے ہیں۔
7: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ارشاد:
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے کوچ کرتے وقت تمام بنو باشم کو صبر کی وصیت کی اور اپنے یومِ شہادت کو سابقہ ایامِ غم سے تشبیہ دے کر فرمایا۔
ومانندر و زیست کہ رقیه و زینب و ام کلثوم وفات یافتند(جلاء العیون: صفحہ، 353)
ترجمہ: اور وہ دن اسی طرح مصیبت والا ہو گا جس دن کہ سیدہ رقیہؓ سیدہ زینبؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ (حضورﷺ کی صاحبزادیوں) نے وفات پائی تھی۔
8: مانندر و زیست کہ امیر المومنین و فاطمہ و رقیہ و زینب و ام کلثوم دخترانِ پیغمبرﷺ از دنیا رفتند۔
(منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 300 مطبوعہ جاویدان ایران)
ترجمہ: اس دن کی طرح ہے جس دن امیر المومنینؓ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا، پیغمبرﷺ کی صاحبزادیوں نے دنیا سے انتقال کیا۔
9: مندرجہ ذیل حوالہ جات میں رسول اللہﷺ کی چار صاحبزادیوں کا صریح ثبوت موجود ہے۔
(تحفۃ العوام: صفحہ، 112 حیات القلوب: جلد، 1 صفحہ، 718 اصولِ کافی: صفحہ، 278 صافی کتاب الحجہ: جلد، 3 صفحہ، 147 مرأة العقول شرح الاصول والفروع: جلد، 1 صفحہ، 352 قول سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ در مرأة العقول بحوالہ مذکوره تہذیب الاحکام: جلد، 1 صفحہ، 154 الاستبصار: جلد، 1 صفحہ، 245 تاریخ الائمہ: صفحہ، 6 بحوالہ اہلِ سنت پاکٹ بک صفحہ 141)
10: سیدنا باقر رحمۃ اللہ و سیدنا جعفر رحمۃ اللہ کے ارشادات:
دونوں میں ایک امام سے روایت ہے کہ جب سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بنتِ نبیﷺ فوت ہوئیں تو حضورﷺ نے فرمایا اے رقیہ ہمارے نیک صحابی عثمان بن مظعونؓ اور ان کے ساتھیوں سے مل جا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا قبر کے کنارے پر بیٹھی آنسو قبر میں گرا رہی تھیں اور رسول اللہﷺ ان کو کپڑے سے جھپٹ رہے تھے اور کھڑے ہوئے دعا کرتے تھے اے اللہ میں اِس کی کمزوری کو جانتا ہوں تو اسے قبر کے جھٹکے سے بچانا۔
(فروع کافی: جلد، 1 صفحہ، 241 طبع تہران)
11: با سند معتبر از سیدنا صادق روایت کرده اند کہ از برائے رسولِ خدا از خدیجہ متولد شد طاہر و قاسم و فاطمہ وام کلثوم و رقیہ و زینب و فاطمہ را آنحضرت بامیرالمومنین علی کرم الله وجہہ اتزویج نمود و ام کلثوم را باعثمانؓ و بعد از وفاتِ او حضرت رقیهؓ را باو تزویج نمود۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 588 طبع ایران)
ترجمہ: معتبر سند کے ساتھ سیدنا صادق رحمۃ اللہ سے روایت ہے کہ رسولِ خداﷺ کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ اولاد ہوئی، سیدنا طاہر رضی اللہ عنہ، سیدنا قاسم رضی اللہ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا او ر سیدہ ام کلثومؓ رضی اللہ عنہا کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کیا اور اس کی وفات کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کیا۔
12: نیز ملا باقر علی مجلسی لکھتا ہے:
و ابن بابویه بسند معتبر از آنحضرت روایت کرده است کہ از برائے رسولِ خدا متولد شد از خدیجہ قاسم و طاہر ونام طاہر عبداللہ بود و ام کلثوم و رقیہ و زینب و فاطمہ(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 588)
ترجمہ: ابنِ بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ حضورﷺ سے روایت کی ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسولِ خداﷺ کی اولاد سیدنا قاسم، سیدنا طاہر، جس کا نام سیدنا عبداللہ تھا سیدہ امِ کلثوم سیدہ رقیہ سیدہ زینب اور سیدہ فاطمہ ہوئی۔
13: شیخ صدوق سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ خدیجہؓ سے رسول اللہﷺ کی اولاد سیدنا قاسم، سیدنا طاہر، یعنی سیدنا عبداللہ اور سیدہ امِ کلثوم، سیدہ رقیہ، سیدہ زینب اور سیدہ فاطمہ ہوئیں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ بن ربیع بنو امیہ کے فرد نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ وہ جب فوت ہو گئیں بدر کے موقعہ پر تو حضورﷺ نے ان کو سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیاہ دی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا اے عائشہ! ٹھہر اللہ نے محبت کرنے والی اور بچے جننے والی میں برکت ڈالی ہے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے سیدنا طاہر یعنی سیدنا عبداللہ مطہر اور سیدنا قاسم، سیدہ فاطمہ سیدہ رقیہ، سیدہ امِ کلثوم اور سیدہ زینب جنی ہیں(خصال شیخ صدوق: جلد، 2 صفحہ167)
14: مصدقہ سیدنا مہدی کافی کلینی باب مولد النبیﷺ میں ہے:
وتزوج خديجة وهو ابنِ بضع وعشرين سنة فولد له منها قبل مبعثه عليه السلام القاسم و رقية و زينب و ام كلثوم و ولد له بعد المبعث الطيب والطاهر وفاطمة عليها السلام وروی ايضا انه لم يولد له بعد المبعث الا فاطمة عليها السلام وان الطيب و الطاهر ولد اقبل مبعثه( کافی: صفحہ 439 جلد 1)
ترجمہ: حضورﷺ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جب آپﷺ بیس سال سے زائد عمر کے تھے تو بعثت سے پہلے ان سے آپﷺ کی اولاد سیدنا قاسم، سیدہ رقیہ سیدہ زینب اور سیدہ امِ کلثوم ہوئی اور بعثت کے بعد سیدنا طیب، سیدنا طاہر اور سیدہ فاطمہ ہوئیں اور یہ بھی روایت ہے کہ بعثت کے بعد صرف سیدہ فاطمہ پیدا ہوئیں اور سیدنا طیب سیدنا طاہر وغیرہ بعثت سے پہلے پیدا ہوئے۔
حضرت رسول مقبولﷺ اور عند الشیعہ ائمہ معصومین کے ان ارشادات سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ ثابت ہو گیا کہ حضورﷺ کی اپنی صلبی بیٹیاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار تھیں۔ اور ان کے نکاح خود آپﷺ نے حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کیے۔ اب ان کو سابقہ خاوند کی اولاد اور پروردہ پیغمبر کہنا رسولﷺ و امام کا کھلا انکار ہے۔ اللہ شیعہ بھائیوں کو ہدایت دے۔
15: اقرب الاسناد میں سیدنا صادق سے روایت ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضرت رسول اللہﷺ کی اولاد سیدنا، طاہر سیدنا قاسم، سیدہ فاطمہ، سیدہ امِ کلثوم، سیدہ رقیہ، سیدہ زینب پیدا ہوئیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ بن ربیع اموی سے اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے شادی کی پھر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی ان سے شادی کی، پھر شیخ عباس قمی کہتا ہے کہ مشہور مؤرخین کا نوشتہ یہ ہے کہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی تزویج سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد 2ھ میں جنگ بدر کے موقعہ پر ہوئی۔
(منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 108)
شیعہ مجتہدین کے ارشادات:
16: ملا باقر علی مجلسی کہتا ہے:
و ابوالعاص کہ داماد حضرت رسول بود لہٰذا حضرت فرمود کہ ابو العاصؓ حق دامادی مارانیکو رعایت کرد
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ311 قصہ قید شعب)
ترجمہ: سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ حضرتِ رسولﷺ کے داماد تھے (شعب ابی طالب میں غلہ پہنچانے کی وجہ سے) حضورﷺ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو العاص نے ہماری دامادی کا اچھا حق ادا کیا۔
چوں بخانه عثمان آمدند ام کلثوم دختر حضرت رسول نشان دادکہ اور ادر فلاں موضع پنہاں کرده است۔ (حیات القلوب: صفحہ، 382)
ترجمہ: جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر میں آئے تو بنتِ پیغمبر سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ اس چیز کو فلاں جگہ چھپایا ہے۔
17: حیات القلوب: صفحہ، 591، 592 پر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے تفصیلی حالات میں لکھا ہے:
ابنِ ادریس بسندِ صحیح از حضرت محمد باقرؒ روایت کرده است کہ رسولِ خدا دختر بدو منافق (العیاذ بالله) داد کہ یکے ابو العاصؓ پسر ربیع و آن دیگرے کہ عثمانؓ بود عیاشی روایت کرده است کہ از حضرت صادقؒ پر سیدند آیا رسولِ خداﷺ دختر خود را بعثمانؓ داد حضرت فرمود بلے راوی گفت باز دختر دیگر باو داد حضرت فرمود بلے(حیات القلوب: صفحہ، 592)
ترجمہ: ابنِ ادریس نے سندِ صحیح کے ساتھ سیدنا محمد باقر رحمۃ اللہ سے روایت کی ہے کہ رسولِ خداﷺ نے اپنی لڑکیاں (العیاذ باللہ) دو منافقوں کو دیں ایک ابوالعاص ربیع کے بیٹے کو اور دوسرا عثمان تھا، عیاشی نے روایت کی ہے کہ سیدنا صادق رحمۃ اللہ سے لوگوں نے پوچھا کہ رسولِ خداﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لڑکی دی حضرت نے فرمایا ہاں راوی نے کیا پھر دوسری لڑکی بھی دی فرمایا ہاں۔
18: شیخ طوسی در امالی روایت کرده است کہ زفاف حضرت امیر و فاطمہ شانزده روز بعد از وفات رقیہ بود بعد از مجموع جنگ بدر (جلاء العيون: صفحہ 112)
ترجمہ: شیخ طوسی نے امالی میں روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی و ملاپ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے 16 دن بعد جنگِ بدر سے لوٹنے کے بعد ہوا تھا۔
19: اس سوال کے جواب میں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ باوجود اپنی شہادت کے علم کے کربلا میں کیوں گئے مجلسی کہتا ہے کہ امام ظاہر شرع و احکام کا مکلف ہے باطن کا ذمہ دار نہیں۔ جب اہلِ کوفہ نے تشیع و ایمان کا دعویٰ کر کے بلایا تو جانا ہی تھا۔
اگر چنین مے بود رسولِ خدا دختر بعثمان نمے داد عائشہ و حفصہ را بحباله نکاح خود در نمی آورد و ہرگاه چنیں باشد پس امام بحسب ظاہر مکلف بود (جلاء العیون: صفحہ، 418)
ترجمہ: اگر اس طرح ہوتا (یعنی ظاہر اسلام و ایمان کا اعتبار نہ کیا جاتا) تو رسولِ خداﷺ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو لڑکیاں نہ دیتے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح میں نہ لاتے جب ایسا تھا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی بحسبِ ظاہر منافقوں سے جنگ کے مکلف تھے۔
صدِ افسوس کہ حضورﷺ نے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ و سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ظاہری ایمان و اسلام کا اعتبار کیا اور ان سے برضاءِ خداوندی رشتے کیے مگر ان کو ان کے باطنی احوال کا عِلم نہ ہوسکا اور اب شیعہ کو ہو گیا کہ ان کے نفاق و بے ایمانی کا العیاذ باللہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔
20: از جملہ آنها بودند عثمان و رقیہ دختر حضرت رسول که زن اوبود زبیربن عوام عبدالله بن مسعود عبد الرحمٰن بن عوف الخ(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 305 ہجرتِ حبشہ مفاتیح الجنان شیخ قمی و تحفۃ العوام: صفحہ، 113)
ترجمہ: مہاجرینِ حبشہ میں حضرت عثماناور آپ کی بیوی سیدہ رقیہ بنتِ پیغمبرﷺ بھی تھیں اور سیدنا زبیر بن عوام سیدنا عبداللہ بن مسعود سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف (اکابر) صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے۔
21: تزوج خديجہ وهو ابن بضع وعشرين سنة فولدت له قبل المبعث رقيہ و ام كلثوم و زينب۔
(تذكرة المعصومين: صفحہ 6)
ترجمہ: آپﷺ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے 20 سال سے زائد عمر میں شادی کی تو بعثت سے پہلے ان سے آپﷺ کی اولاد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔
22: اگر نبیﷺ دختر بعثمان داد ولی دختر بعمر فرستاد۔
(مجالس المؤمنین: صفحہ 88)
ترجمہ: اگر نبیﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو صاحبزادی دی تو ولی پیغمبر (علی رضی اللہ عنہ) نے (باتباعِ پیغمبر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی لڑکی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بیاہ دی۔
23: رقیہ و ام کلثوم یکے بعد دیگرے در عقد نکاح عثمان بن عفان آمدند۔ (تاریخِ آلِ امجاد: صفحہ 9 شفاء الصدور والکروب: جلد، 2 صفحہ، 8 منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 100)
ترجمہ: سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ایک دوسرے کے بعد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
24: زوج النبیہﷺ بنتيہ بعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ۔
(مسالك الافہام تنقیح شرائع الاسلام: صفحہ، 532)
ترجمہ: حضورﷺ نے اپنی دو لڑکیاں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بیاہ دیں۔
25: شیعہ کی مشہور کتاب اعلام الوریٰ باعلام الهدیٰ از علامہ طبرسی میں ہے۔
یعنی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہﷺ کی شادی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی اور ایک لڑکی سیدہ امامہ پیدا ہوئی جس کی شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال مدینہ میں 7 ہجری میں ہوا سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسولﷺ کی شادی یعنی صرف نسبت اور منگنی آنحضرتﷺ کے چچا زاد عتبہ بن ابی لہب سے ہوئی لیکن اس نے خلوت سے پہلے طلاق دے دی حضورﷺ نے اس کے لیے بد دعا فرمائی چنانچہ اسے شیر اٹھا کر لے گیا پھر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان سے ہوئی اور ایک لڑکا عبداللہ پیدا ہوا جو بچپن میں (چھ سال کی عمر میں) فوت ہو گیا۔ زمانہ بدر میں سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا ان کے مرض اور کفن دفن کے باعث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں شریک نہ ہو سکے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حبشہ ہجرت کی تھی تو سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ساتھ تھیں پھر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ہوا اور وہ بھی کچھ عرصہ بعد وفات پاگئیں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر مستقل آئے گا (اعلام الوریٰ)
26: امامة بنتِ ابى العاص وھی بنت بنتِ رسول اللهﷺ تزوجها بعد موت خالتها البتول علی علیه السلام۔(كشف الغمہ: صفحہ، 132العلی بن عیسیٰ اردبیلی)
ترجمہ: سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ امامہ یہ رسول اللہﷺ کی نواسی ہیں۔ ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی خالہ سیدہ بتول کے بعد نکاح کیا تھا۔
27: کتاب المحبر لابنِ حبیب میں ہے:
فولدت خديجة للنبیﷺ القاسم و زینب و ام كلثوم و فاطمة و عبد اللہ وهو الطاهر والطيب اسم واحد۔
(بحوالہ كشف الاسرار: صفحہ22)
ترجمہ: پس سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نےحضورﷺ سے سیدنا القاسم، سیدہ زینب، سیدہ امِ کلثوم، سیدہ فاطمہ، اور سیدنا عبداللہ، جو طاہر و طبیب کہلاتے ہیں جنے۔
تیرہویں صدی کے محقق شیعہ شیخ عباس قمی نے معتبر کتاب منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 118 حضورﷺ کی اولادِ امجاد میں یہ شعر بھی لکھا ہے۔
28: ابو نصر فراہی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادِ امجاد کی تعداد کے متعلق فرمایا:
فرزند نبیﷺ قاسم و ابراہیم است پس طیب و طاہر زراہ تعظیم است با فاطمہؓ و رقیہؓ و امِ کلثومؓ و زینبؓ شمرار تراسر تعلیم است۔
یعنی اگر تعلیم پانے کا خیال ہے تو چار صاحبزادیوں کے نام یاد کر لو۔
29: وقد زوج النبیﷺ بیعتہ من ابی العاص بن ربیعؓ قبل ان یسلم۔
(تفسیر المجمع: جلد، 3 صفحہ، 184)
حضور اکرمﷺ نے سیدنا ابو العاصؓ کو مسلمان ہونے سے پہلے اپنی بیٹی بیاہ دی۔
شیعی وساوس کا ازالہ:
حضراتِ! حضور اکرمﷺ کی چار صاحبزادیوں کا ثبوت کا ثبوت قرآنِ کریم کے علاوہ کتبِ معتبرہ شیعہ سے آپ کے سامنے ہے اس پر تمام حوالاجات کا تتبع کیا جائے تو ضحیم جلد تیار ہو سکتی ہے حضور کریمﷺ سیدہ فاطمہؓ سیدنا علیؓ حسنینؓ سیدنا باقرؒ سیدنا جعفرؒ تمام شیعہ مجتہدین کی تشریحات آپ کے سامنے ہیں ان میں کسی ایک شخصیت کا انکار کفر ہے اور ان کی بات سے انحراف مذہبِ شیعہ کا خاتمہ ہے مگر ضد اور تعصب اور اسلامی و خلفاء دشمنی کا ستیاناس ہو اس کی موجودگی میں آدمی حق کو قبول نہیں کر سکتا ان میں سے ہر حوالہ قطعی الثبوت ناقابلِ تردید اور مستند ترین شیعی ماخذ کا ہے مگر میرا گمان نہیں ہے کہ عام و خاص شیعہ اس کو پڑھ کر رجوع الحق کرے گا اور چار صاحبزادیوں کو مان کر ان کی مثالی شوہروں کی تعظیم کرنے لگ جائے گا اس لیے کہ اس کا ایمان فاسق و فاجر بے نماز و بے شرع ذاکروں گویوں اور قصہ خانوں پر ہے یا شرعی چہرہ اور وضع سے محروم نام نہاد مجتہدوں اور مولویوں پر ہے ان لوگوں نے عوام شیعہ کو بتایا کہ نبی کریمﷺ کی صاحبزادی ایک تھی اب ایک عامی پختہ شیعہ قرآن و سنت اور ارشاداتِ ائمہ کی صریح تکذیب کر کے کھلی خلاف ورزی تو کر سکتا ہے مگر اپنے ذاکر یا مفاد پرست شیعہ مولوی یا سید کی غلطی یا گمراہی تسلیم نہیں کر سکتا جن کے ہاتھ پر اس نے محمدی اسلام چھوڑ کر شیعی اسلام قبول کیا ہے یہی سے معلوم ہوا کہ شیعی ایمان اور اس کی پختگی کا معیار کیا ہے یعنی جتنا کوئی شخص پختہ شیع ہوگا اس کی قدر وہ اپنے قریبی دینی پیشوا ذاکر و مجتہد کو غلطی اور گمراہی سے پاک تصور کرے گا اس پیشوا کے قول کے سامنے بناتِ رسول کا مسئلہ ہو یا مروجہ عزاداری وغیرہ کی حرمت کا حرمِ نبوی امہاتُ المؤمنینؓ کی عزت کا سودا ہو یا حضورﷺ کے خسروں دامادوں اور خلفائے راشدینؓ وغیرہ کے مقام کا مسئلہ ہو سینکڑوں ارشاداتِ قرآنی فرامینِ نبوی اقوالِ ائمہ اہلِ بیتؓ تصریحات اسلام اسلاف شیعہ پیش کر دیئے جائیں بہر صورت شیعہ انکار پر انکار کرے گا اور کبھی ان دلائل حق کو نہیں مانے گا کیونکہ ان کے ماننے میں موجودہ ذاکر و مجتہد کی تغلیظ لازم آئے گی اور یہ شیعہ کو کسی قیمت پر منظور نہیں دراصل صاف لفظوں میں ایمان اس کے لیے قربانیاں یہ صرف ذاکروں اور ان کی بدعات سے مختص ہیں حضراتِ اہلبیتؓ کا نام صرف جہلاء کو پھنسانے کا پھندہ اور دام ہے اب معلوم کیجئے کہ مسئلہ زیرِ بحث پر شیعہ کے پاس کون سی عقلی نقلی دلیل ہے جس کے سامنے قرآنِ حکیم سنت و حرمِت نبوی ارشاداتِ ائمہ اور اجماعِ مجتہدین کا خون کیا جاتا ہے آپ یقین جانیئے مسئلہ پر کسی بھی شیعہ کے پاس نہ قرآن کی آیت ہے نہ ارشاِد نبوی نا فرمانِ امامِ معصوم لے دے کر چودھویں صدی کے ملاؤں کے چند مندرج ذیل ڈھکوسلے ہیں۔
شبہ 1: اہلِ سنت اپنے خطبات میں صرف ایک صاحبزادی کا نام لیا کرتے ہیں۔
جواب: کیونکہ بعض دلائل کی وجہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مقام باقی تین بہنوں سے اونچا ہے اور اہلسنت کا اس پر ایمان ہے لہٰذا حضرت فاطمہؓ کا نام صراحتاً اور بقیہ کا وَ بَنَاتِہٖ سے اشارتاً لیتے ہیں خطبہ میں اس کا نام نہ لینا نفی کی دلیل ہرگز نہیں ہے بالاتفاق سیدنا قاسمؓ سیدنا طاہرؓ و سیدنا ابراہیمؓ حضورﷺ کے چھوٹے صاحبزادے تھے مگر ان کا نام بھی خطبہ میں لیا جاتا سنی خطباء کو چاہیئے کہ ایسے غلط فہمی کے مقام پر چاروں صاحبزادیوں کا نام لیا کریں تاکہ شعارِ تشیع نہ بن جائے۔
شبہ 2: کہ بعض ذاکرین کہتے ہیں کہ اگر چار بیٹیاں ہوتی تو مباہلہ کے دن ضرور لاتے۔
جواب: مباہلہ 9 ہجری میں پیش آیا جو بالآخر ہوا نہ تھا اور حضور نے آلِ عبا کو شرکت کے لیے تیار کیا تھا جب کہ باقی صاحبزادیاں اس سے پہلے وفات پا گئی تھیں۔
(حیات قلوب: جلد، 2 صفحہ، 719)
میں ہے کہ حضرت زینبؓ کی وفات 7 یا 8 ہجری میں ہوئی حضرت رقیہؓ جنگِ بدر کے سال وفات پا گئیں اور حضرت امِ کلثومؓ 7 ہجری میں رحمتِ الہیٰ سے واصل ہوئیں۔
شبہ 3: جس زینبؓ کا نام بناتِ نبویﷺ میں ملتا ہے وہ آپﷺ کی پروردہ تھی۔
جواب: بالکل لغو مغالطہ ہے حضرت زینبؓ کا حضورﷺ کے صلب سے حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہونا اور حضرت ابوالعاصؓ بن ربیع کے نکاح میں آنا دسیوں حوالہ جات سے مبرہن کیا جا چکا ہے جس کا انکار امامِ معصوم و پیغمبرِ معصومﷺ کا انکار ہے آپﷺ کی ربیبہ زینبؓ نامی اور لڑکی تھی جو آپﷺ کی اہلیہ حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھی اس کے والد کا نام ابو سلمہٰؓ تھا اس کو ہمارے علماء زینب ربیبتہ النبیﷺ کہتے ہیں اور سیدہ زینبؓ بنتِ محمدﷺ کی ماں کا نام حضرت خدیجتہ اکبریٰؓ ہے۔ (اسد الغابہ: جلد، 5 صفحہ، 468) جو سیده خاتونِ جنتؓ کی ماں ہے اسی حضرت زینبؓ بنتِ النبیﷺ کے متعلق آپﷺ نے فرمایا ہے۔
هی افضل بناتی أصيبت فی۔
(طحاوی: جلد، 2 صفحہ، 45 ذخائر العقبیٰ: صفحہ، 158)
ترجمہ: یہ میری سب سے افضل بیٹی ہے میرے لیے اس کو کفار کی جانب سے مصیبت پہنچی۔
شبہ 4: یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے سابق خاوند سے تھیں اور بعض کہتے ہیں ہالہ بہن سیدہ خدیجہؓ کی بیٹیاں تھیں۔
جواب: صریح جھوٹ ہے۔ آپﷺ کی کوئی صاحبزادی سابق خاوند سے حضورﷺ کے گھر میں نہیں آئی۔ صریح ارشاداتِ نبویﷺ و فرامینِ جعفر صادقؒ پھر ملاحظہ کریں اور شیعہ کو جھوٹ کی مبارک دیں۔ الاستیعاب میں ہے کہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان سب کی پیدائش بعد از نکاح سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کے گھر میں ہوئی پھر یہ معاذ اللہ سابق خاوند سے کیسے ہوئیں، علامہ مجلسی یہ دو قول نقل کر کے کہتے ہیں۔ دبر نفی ایں دو قول روایاتِ متبرہ دلالت میکند۔ (روایاتِ معتبره ان دو قولوں کو غلط بتاتی ہیں)
شبہ 5: اگر چار ہوتیں تو مرتبہ اور مقام میں برابر ہوتیں۔
جواب: خدا پنج انگشت برابر نہ کرد۔
ایک ہی ماں باپ کی اولاد میں کئی لحاظ سے فرق مشاہدہ کی بات ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اگر بعض امور میں اپنی بہنوں سے ممتاز ہیں تو اس کا یہ معنیٰ کہاں سے نکلا کہ باقی صاحبزادیوں کا وجود ہی نہیں ایسے گمراہ قیاس سے خدا سے بچائے۔
شبہ 6: اگر پیغمبرﷺ کی صاحبزادیاں ہوتیں تو ان کے کچھ فضائل منقول ہوتے۔
جواب: فضائل میں کمی بیشی تو غیر اختیاری اور قدرتی عطیہ ہے۔ تاہم غیر کسبی فضائل ان کے بھی منقول ہیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شان:
سیدہ زینبؓ کو آپﷺ نے سب سے افضل وہ بیٹی بتایا ہے جسے حضورﷺ کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے کفار نے ستایا یعنی ہبار بن اسود اور دوسرے آدمی نے ان کی اونٹنی کو بدکایا بھگایا۔ آپ گر پڑیں حمل ساقط ہو گیا۔ شدید بیمار ہو گئیں اسی صدمے سے 7ھ یا 8ھ میں وفات پائی۔
(الاستیعاب: جلد، 4 صفحہ، 312 ہامش الاصابہ)
ارشادِ ربانی: فَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا وَاُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاُوۡذُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 195)
جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میرے راستے میں ستائے گئے کا اولین مصداق ہیں:
وَلَاُدۡخِلَنَّهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 195)
ترجمہ: میں یقیناً ان کو ہمیشہ کے جنات میں داخل کر کے بہترین بدلہ دوں گا کے تحت کون کہہ سکتا ہے کہ وہ جنت والوں کی سرتاج نہ ہوں گی سیدہ زینبؓ مردانہ وار کفار کے ظلم و ستم سے حضورﷺ کا دفاع کرتی تھیں معجم طبرانی میں ہے کہ ایک مرتبہ کفار نے حضورﷺ کو گالیاں دیں منہ پر تھوکا اور چہرے پر مٹی ڈالی کہ منہ بھر گیا۔ ایک لڑکی پانی لے کر آئی اور چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا یہ آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ تھی بخاری نے بھی اس حدیث کو مختصراً اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(اصابہ: جلد، 3 صفحہ، 465)
میں حضرت منیب غامدی کے ترجمہ میں اس قدر اور زیادہ ہے کہ آپﷺ نے سیدہ زینبؓ سے مخاطب ہو کر یہ فرمایا اے بیٹی! تو اپنے باپ کے مغلوب اور ذلیل ہونے کا خوف مت کر رواہ البخاری فی تاریخہٖ والطبرانی وابو نعیم ابوزرعہؒ دمشقی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔
(بحوالہ کنز العمال: جلد، 6 صفحہ، 306 سیرتِ المصطفىٰ: جلد، 1 صفحہ، 155)
تعجب ہوتا ہے کہ بڑی ہستیاں بھی بسا اوقات حمیّتِ نسبی میں پھنس جاتی ہیں۔ میں نے مجمع الزوائد جلد 9 میں پڑھا ہے کہ سیدنا عروہؓ ایک مرتبہ سیدہ زینبؓ کے متعلق حدیثِ بالا اور واقعہ مصیبت و شهادت بیان کر رہے تھے تو سیدنا زین العابدینؓ نے ٹوک دیا کہ اس طرح مت بیان کیا کرو ہماری اماں سیدہ فاطمہؓ پر حرف آتا ہے یہی وہ جگر گوشئہ پیغمبرﷺ اور اپنی ماں سیدہ خدیجہؓ کی تصویر سیدہ زینبؓ ہیں کہ جب انہوں نے سیدنا ابو العاصؓ کو چھڑانے کے لیے اپنا ہار فدیہ میں بھیجا تھا حضورﷺ دیکھتے ہی رونے لگے سیدہ زینبؓ و سیدہ خدیجہؓ کی تصویر آنکھوں میں پھرنے لگی ہار واپس کر دیا اور بلا فدیہ سیدنا ابو العاصؓ کو چھوڑ دیا۔
یہی وہ سیدہ زینبؓ ہیں جو حضورﷺ کو انتہائی محبوب تھیں۔
حافظ ابنِ عبد البرؒ لکھتے ہیں:
كان رسول اللهﷺ محبا فيها اسلمت و هاجرت حین الى زوجها ولدت من ابى العاص غلاما يقال له على و جارية اسمها امامة۔(الاستيعاب)
ترجمہ: حضورﷺ ان سے خوب محبت کرتے تھے۔ یہ مسلمان ہوئیں اور ہجرت کی جب کہ ان کے خاوند سیدنا ابو العاصؓ نے انکار کیا تھا بعد میں مسلمان ہوگئے تھے علی نامی لڑکا اور امامہ نام کی لڑکی جنی تھی۔
یہی وہ سیدہ زینبؓ ہیں جن کی صاحبزادی سیدنا امامہؓ کو حضورﷺ کندھے پر اٹھاتے جب سجدے جاتے تو اتار دیتے جب اٹھتے تو اٹھا لیتے امُ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضورﷺ کو ایک تحفہ دیا گیا جس میں موتیوں کا ہار تھا آپﷺ نے فرمایا یہ تو میں اپنے گھرانے کی سب سے پیاری لڑکی کو دوں گا پھر حضورﷺ نے سیدہ امامہؓ بنتِ سیدہ زینبؓ کو بلایا اور اس کے گلے میں ہار ڈال دیا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ کی خدمت میں نجاشی بادشاہ نے ایک زیور تحفہ بھیجا اس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس کا نگینہ حبشی عقیق کا تھا آپﷺ نے وہ سیدہ امامہؓ کو دیا۔ ابنِ عبد البرؒ کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ کے بعد سیدہ امامہؓ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا۔ سیدنا زبیر بن عوامؓ نے بیاہ کر کے دی کیونکہ اس کے والد سیدنا ابو العاصؓ نے اسے وصیت کی تھی۔
(الاصابہ جلد 4 صفحہ 236)
یعنی سیدہ زینبؓ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سالی ہو کر پھر خوشدامن بھی نہیں شیعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہلا کر سیدنا علیؓ کی ساس سے بھی نفرت و انکار؟ خدا ایسے مذہب و عقیدہ سے ہر مسلمان کو بچائے۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شان:
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بھی قدیم الاسلام اور مہاجرہ فی سبیل اللہ ہیں جب اپنے خاوند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حبشہ کو ہجرت کر کے جا رہی تھیں حضورﷺ کو کئی دنوں تک خبر خیر نہ پہنچ سکی تو بیتاب تھے تو حضورﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا میں نے ان کو دیکھا ہے۔
فقال منحهما الله ان عثمان اول من هاجر باهله من هٰذه الامة۔
(الاصابة: جلد، 4 صفحہ، 305)
ترجمہ: اللہ پاک میاں بیوی پر انعام کی بارش برسائے بلا شبہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اس امت کے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔
وفی رواية والذی نفسی بيدہ انه اول من هاجر بعد أبراهيم ولوط۔
ترجمہ: ایک روایت میں ہے اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت لوط علیہ السلام کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیوی کے ساتھ ہجرت کرنے والے پہلے شخص ہیں۔
جنگِ بدر کے موقعہ پر حضرت رقیہؓ بیمار تھیں ان کی تیمار داری کی خاطر آپﷺ حضرت عثمانؓ کو مدینہ چھوڑ گئے مگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اس بیماری میں اللہ کو پیاری ہو گئیں جب آپ کو دفن کیا جا رہا تھا اس وقت حضرت زید بن حارثہؓ حضورﷺ کی اوٹنی جدعا پر سوار ہو کر مشرکین کے قتل اور فتحِ اسلام کی بشارت لائے جب حضورﷺ واپس آئے تو آتے ہی حضرت رقیہؓ کی قبر پر اشکبارانہ حاضری دی اور دعا مانگی۔
فروع کافی کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ جب سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفنایا جا رہا تھا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کنارے پر بیٹھی رو رہی تھیں اور حضورﷺ ان کے آنسو جھپٹ رہے تھے۔ مگر یہ واقعہ سیدہ امِ کلثومؓ کے متعلق ہے کیونکہ وہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے چھوٹی ہیں اور بدر کے موقعہ پر سیدہ رقیہؓ کی تدفین سے حضورﷺ کی غیر حاضری واضح بات ہے۔
حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی شان:
ابنِ سعدؒ کہتے ہیں کہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے ہجرت الی المدینہ حضورﷺ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ عیالِ نبویﷺ کے ساتھ کی نیز سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضورﷺ کو حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی قبر پر دیکھا آنسو بہہ رہے تھے اور فرمایا وہ شخص قبر میں اترے جس نے آج رات صحبت نہ کی ہو تو سیدنا ابو طلحہؓ نے کہا میں ایسا ہوں پھر حضورﷺ نے ان کو اترنے کا حکم دیا۔
(الاصابہ: جلد، 4 صفحہ، 489)
علامہ ابنِ عبد البرؒ لکھتے ہیں:
مجھے اس کے متعلق کوئی اختلاف معلوم نہیں کہ سیدہ زینبؓ سب صاحبزادیوں سے بڑی ہیں ہاں سیدہ رقيہؓ سیدہ فاطمہؓ سیدہ امِ كلثومؓ میں سیرت نگاروں کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء اسی ترتیب سے قائل ہیں یعنی سب سے چھوٹی سیدہ امِ کلثومؓ ہیں اور ان سے بڑی سیدہ فاطمہؓ ہیں۔
جرجانی سے منقول ہے کہ حضرت رقیہؓ سب سے چھوٹی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ سب سے چھوٹی ہیں۔
(الاستیعاب والاصابه: جلد، 4 صفحہ، 304)
سبقتِ ایمان ہجرت، مکارمِ اخلاق کے علاوہ سیدہ امِ کلثومؓ کے مرفوع فضائل بھی منقول ہیں ام عیاشؓ مولاة سیدہ رقیہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا۔ يقول ما زوجت عثمانؓ امِ کلثومؓ الا بوحی من السماء قال ابن مندة لا یعرف الا بهذا الاسناد بروايت ابن مندة۔
ترجمہ: فرماتے تھے میں نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح آسمانی وحی سے کیا ہے۔
6: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ کو سیدہ امِ کلثومؓ، سیدہ رقیہؓ کے مہر کے برابر پر بیاہ دیں اور اسی معاشرت پر دیں۔
(قال ابنِ مندة غريب الاصابہ)
شبہ7: شیعہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ سیدہ رقیہؓ و سیدہ امِ کلثومؓ پہلے عتبہ و عتیبہ پسرانِ ابولہب سے بیاہی گئی تھیں تو پھر سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں کوئی فضیلت کی بات نہ رہی۔
جواب: یہ غلط ہے قبل از دعویٰ نبوت برادری سسٹم کے تحت حضورﷺ کے چچا کے بیٹوں کے ساتھ نسبت اور منگنی تھی۔ اس کو سیرت نگاروں نے عقد اور نکاح سے تعبیر کر دیا۔ ورنہ باقاعدہ شادی اور رخصتی ہرگز نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ مبعث کے تھوڑے دنوں بعد سورت تبت یدا ابی لہب کے نازل ہونے اور پسرانِ ابولہب کے رشتہ سے انکار کے وقت ان کا جوان ہونا ہی یقینی نہیں۔ اکثر علماء سیدہ فاطمہؓ کو سیدہ امِ کلثومؓ سے بڑا کہتے ہیں سیدہ فاطمہؓ کافی کے بیان کے مطابق مبعث کے بعد پیدا ہوئیں اور 2ھ میں غزوہِ بدر کے بعد سیدنا علیؓ سے شادی ہوئی۔ اس وقت سیدہ امِ کلثومؓ کنواری حضورﷺ کے گھر میں تھیں اور کچھ عرصہ بعد سیدنا عمرؓ سیدہ حفصہؓ کو سیدنا عثمانؓ سے بیاہ دینا چاہتے تھے تو حضورﷺ نے فرمایا، میں سیدنا عثمانؓ کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے بہتر بیوی اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا عثمانؓ سے بہتر خاوند دیتا ہوں چنانچہ حضرت حفصہؓ سے خود نکاح کر لیا اور سیدہ امِ کلثومؓ سب سے چھوٹی۔ صاحبزادی 3ھ میں سیدنا عثمانؓ کو بیاہ دی (الاستیعاب) اگر سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ فاطمہؓ سے بڑی ہوتیں تو سیدنا علیؓ سے ان کا نکاح ہوتا بڑی بقول شیعہ کئی سالوں سے جوان کو بٹھلا کر چھوٹی کو بیاہ دینا تو دستور کے خلاف ہے اس لحاظ سے سیدہ امِ کلثومؓ کی عمر 3ھ نبوت نزول سورت تبت کے وقت 3، 4 سال ہی قرینِ قیاس ہے اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ان سے 3 سال یا چھ سال بھی بڑی مانی جائیں تب بھی شادی اور رخصتی کی عمر میں نہ تھیں۔ واقدی نے لکھا ہے جب سورت تبت نازل ہوئی تو ابولہب نے کہا میرا سر تمہارے اندر حرام ہے اگر محمدﷺ کی بیٹیوں کو چھوڑ نہ دو پس انہوں نے چھوڑ دیا۔ دخول اور رخصتی سے پہلے حافظ ابنِ حجرؒ سے بہتر بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ابنِ سعد کی اتباع میں ابنِ عبد البرؒ کے اس بیان سے اولیٰ ہے جس میں بعثت سے قبل سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی تزویج بتائی گئی ہے کیونکہ ابو عمرو نے اس پر مؤرخین کا اتفاق نقل کیا ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سب صاحبزادیوں سے بڑی ہیں وہ بعثت سے 10 سال پہلے پیدا ہوئیں تو ان سے بھی چھوٹیوں کے ساتھ شادی کیسے ہو سکتی ہے ہاں اگر یہ ثابت ہو جائے تو یہ عقد نکاح تا حصول اہلیت یعنی صغر سنی کی منگنی ہو گا تو شادی سے پہلے جدائی ہو گئی۔ ابنِ مندہ کہتے ہیں کہ عتبہ سیدہ امِ کلثومؓ کی رخصتی و دخول سے پہلے مر گیا۔
(الاصابہ: جلد، 4 صفحہ، 489)
اس تحقیق کی رو سے جب شادی و رخصتی ہوئی ہی نہیں۔ نہ طرفین نے ایک دوسرے کو دیکھا تو سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا و سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی شان میں کوئی فرق نہ آیا اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کو یکے بعد دیگرے دامادی کا شرف اسی طرح حاصل ہوا جس طرح سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو 9 سال بعد 2ھ میں حاصل ہوا۔
اور اس سے شیعہ کا یہ شبہ بھی باطل ہوگیا کہ پیغمبر زادیاں ہو کر کافروں سے کیسے بیاہی گئی تھیں کیونکہ یہ کفر و اسلام کی تفریق بعثتِ نبوت کے بعد ہوئی اور اسی وقت منگنی والی پختہ بات چیت بھی خود کافروں کی طرف سے ختم کر دی گئی جسے انہوں نے تغلیط کے طور پر طلاق سے تعبیر کیا۔
علاوہ ازیں مسلِم و غیر مسلم میں نکاح کی حرمت تو بہت بعد میں تقریباً 7ھ کے لگ بھگ مدینہ میں اتری اس سے قبل کوئی تفریق نہ تھی۔ رشتے ناطے ہوتے رہتے تھے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان:
سبقتِ ایمان ہجرت زہد و ورع عبادت و سخاوت وغیرہا اوصاف میں اشتراک کے علاوہ بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چند مخصوص فضائل بھی ہیں:
1: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اصحابِ کساء میں سے ہیں حضورﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ و سیدہ فاطمہؓ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کو چادر میں داخل فرما کر ان کو اہلِ بیت فرمایا اور ان کے تطہیر اور ازالہ رجس کی دعا فرمائی۔ (ترمذی)
بعض حضرات کو اس کی صحت میں کلام ہے کہ سند میں کوئی نہ کوئی راوی رافضی آجاتا ہے۔
2: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مرضِ وفات میں اپنی وفات کی خبر دی تو وہ رو پڑیں پھر اپنے سے جلدی ملنے کی یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جلد وفات کی خبر دی تو وہ ہنس پڑیں تاہم وہ غمگین رہتی تھیں تو حضورﷺ نے یوں تسلی دی۔
يا فاطمة الا ترضين ان تكونی سيدة نساء اهل الجنة او نساء المؤمنين۔ (بخاری و مسلم)
اے سیدہ فاطمہؓ تو اس پر راضی نہیں کہ تو اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہو۔
3: فاطمةؓ بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی۔ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: فاطمہؓ میرے بدن کا ٹکڑا ہے جس نے اسے غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا۔
4: سیدہ عائشہؓ سے پوچھا گیا حضورﷺ کو سب سے زیادہ کون پسند تھا۔
قالت فاطمة فقيل من الرجال قالت زوجها وفی رواية انه كان ما علمته صواما قواما۔(ترمذى)
ترجمہ: تو فرمایا سیدہ فاطمہؓ تھیں پوچھا مردوں میں سے فرمایا ان کے خاوند کہ وہ میری دانست کے مطابق روزہ دار اور شب بیدار تھے۔
5: شادی کے وقت وضو کر کے حضورﷺ نے پانی سیدنا علیؓ و سیدہ فاطمہؓ پر چھڑکا اور یہ دعا دی
اللهم بارك فيهما وبارك عليهما وبارك فی نسلهما۔ (الاصابہ)
ترجمہ: اے اللہ تو ان میں اور ان پر برکت بھیج اور ان کی نسل کو بھی با برکت بنا۔
6: سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ جہان کی عورتوں میں چار کامل ہوئی ہیں۔ حضرت مریم بنتِ عمران حضرت آسیہ زوجہ فرعون، سیدہ خدیجہؓ بنتِ خویلد سیدہ فاطمہؓ بنتِ محمدﷺ۔ (ترمذی)
بخاری شریف: جلد، 1 صفحہ، 532 کی اس جیسی حدیث میں سیدہ مریم بنتِ عمران، سیدہ آسیہ زوجہ فرعون کے بعد یہ لفظ ہیں اور سیدہ عائشہؓ کی فضیلت سب عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی تمام کھانوں پر۔
فضائل خاصہ کے اسباب:
اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ فضائل خاص مواقع اور اسباب کے تحت ظاہر ہوئے ہیں۔ اگر وہ مواقع اور اسباب بقیہ تین صاحبزادیوں کو درپیش آتے تو دریائے رحمت سے وہ بھی بہرہ ور ہوتیں۔ واقعہ مباہلہ اور کساء متعلقہ آیتوں کے نزول کے بعد تھا۔ اور یہ واقعہ 9 ھ میں پیش آیا اور سیدہ رقیہؓ و سیدہ امِ کلثومؓ و سیدہ زینبؓ 2ھ 6ھ 7ھ یا 8ھ میں جنت میں پہنچ چکی تھیں۔
عورتوں کی سردار ہونے کا لقب بھی آخری عمر میں وفاتِ نبویﷺ کی خبر کے صدمہ پر مرحمت ہوا۔ اور اس کی روایت امُ المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے ہوئی اور ان کے ذریعے سب امت کو معلوم ہوا اور ہمارا اعتقاد بنا۔ ورنہ سیدہ فاطمہؓ کو بطورِ راز تنہائی میں بتایا تھا۔ سیدہ عائشہؓ و سیدہ فاطمہؓ کی آپس میں الفت و محبت واضح ہے۔ ان لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو جو اس ماں بیٹی میں بھی بغض و حسد کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
سیدہ فاطمہؓ کے جگر گوشہ ہونے کا شانِ نزول تو کتب تاریخ و شیعہ میں متواتر ہے کہ سیدنا علیؓ کے فاطمہ بنتِ ابی جہل سے ارادہ نکاح کے وقت اور دیگر سیدہ فاطمہؓ کی گھریلو شکایات کے پیشِ نظر بار بار آپﷺ نے فرمایا۔ بقیہ تین صاحبزادیاں بھی بضعئہ رسولﷺ تھیں۔ مگر اس کے بیان کی ضرورت خاوندوں کے ساتھ پرسکون معاشرتی زندگی کی وجہ سے بہتر نہ سمجھی گئی سیدنا ابوالعاصؓ کو بہتر داماد- دامادی کا حق ادا کرنے والا فرمانا اور سیدنا عثمانؓ کے متعلق کہنا کہ اگر میری اور لڑکی ہوتی تو وہ بھی سیدنا عثمانؓ کو بیاہ دیتا سابقہ گزر چکا ہے۔
چوتھی روایت کے متعلق عرض یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدہ عائشہؓ، سیدہ فاطمہؓ، سیدنا علیؓ سیدنا حسنینؓ سب ہی رسولِ خداﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ یہ لوگ اپنے متعلق محبوبیت إلى الرسولﷺ کو بیان نہیں کر سکتے دوسرے ہی بیان کرتے ہیں۔ پہلے سیدنا انسؓ، سیدنا عمرو بن العاصؓ، سیدنا ابوہریرةؓ وغیرہم نے سیدہ عائشہؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی محبوبیت مرفوعاً بیان کی اسی طرح امُ المؤمنینؓ نے سیدنا علی المرتضیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی محبوبیت بیان کی فی نفسہٖ ان میں کوئی تعارض نہیں۔ اور اس سے یہ بھی واضح ہے کہ سیدہ عائشہؓ کو اہلِ بیت نبویﷺ سے عظیم عقیدت تھی۔ اور یہ حدیث انہی تاثرات کا نتیجہ ہے حضرت علیؓ کے متعلق بھی کوئی بدگمانی و خلش نہ تھی وہ برملا آپ کو صائم اور قائم اللیل فرماتی ہیں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
چونکہ حضورﷺ کی نسل کا بقاء اولادِ سیدہ فاطمہؓ سے اللہ کے ہاں مقدر تھا تو آپ کی شادی کے موقعہ پر حضورﷺ سے مذکورہ بالا دعا کرا دی اگر دوسری صاحبزادیوں کے لیے بھی ایسی دعا ہو جاتی تو وہ بھی صاحبِ اولاد باقیہ ہوتیں کچھ لوگ سیدہ رقیہؓ کی اولاد کے قائل ہیں چھٹی حدیث کا معارض موجود ہے۔ ورنہ چار کے بجائے 5 سب جہان سے افضل اور کامل خواتین مانی جاتیں تو کیا حرج ہے۔ سیدہ خدیجہؓ و سیدہ عائشہؓ ہوں یا سیدہ فاطمہؓ سب ہی حضورﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سرور، کاشانہ کی زینت دین کی معلمہ مربیہ، عزتِ نبویﷺ کا خزانہ اور تمام مؤمنوں کی مائیں اور ان کے دل کا نور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ان کی محبت نصیب فرمائے اور بد خواہوں و دشمنوں کو برباد کرے رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین۔
ہم نے شیعہ کے قدیم و جدید لٹریچر سے کافی تتبع و تلاش جاری رکھی کہ حضورﷺ کی ایک صاحبزادی یا اکلوتی ہونے پر کوئی آیت فرمانِ پیغمبرﷺ، ارشادِ امام یا کوئی فتویٰ مجتہدین ہی مل جائے مگر ایسی کوئی چیز نہ مل سکی البتہ دو باتیں ملی ہیں سابقہ شبہات سے مربوط کر کے ان پر آپ غور فرمائیں۔
شبہ 8: ارجح المطالب میں بحوالہ فردوس دیلمی اور مسند علی رضا یہ روایت ہے کہ حضورﷺ نے اپنے سے بھی بڑھ کر حضرت علیؓ کے فضائل میں فرمایا "اوتيت صهرا مثلى ولم أوت انا مثلی" کہ تجھے مجھ جیسا خسر ملا ہے اور مجھے مجھ جیسا خسر نہیں ملا۔ اس میں حضورﷺ کے حضرت علیؓ کے بے مثال اور سب سے اعلیٰ شان والے خسر ہونے کا اقرار ہے مگر ایسا کوئی کلمہ حصر اور غیر کے لیے خسر نہ ہونے کی صراحت نہیں ہے اور حضرت علیؓ کی خصوصیات میں اس کا ذکر باعتبارِ کثرت کے ہے کہ سیدہ فاطمہؓ جیسی صدیقہ کا حضرت علیؓ کی زوجہ ہونا اور حضرت حسنینؓ کا فرزندِ رسولﷺ ہونے کے بجائے فرزندِ حضرت علیؓ ہونا حضرت علیؓ کا خاصہ ہے تو خسریتِ رسولﷺ کو بھی اسی انداز سے ذکر کر دیا کیونکہ باقی دو خاص باتوں کے لیے علت اور وجہ یہی بنی تھی۔ یہ روایت کو کچھ ماننے کے مفروضہ پر مبنی ہے ورنہ ایسی بوگس حوالوں کی بلا سند روایت قرآن و سنت کے صریح دلائل کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے۔
شبہ 9: حضرت لوط علیہ السلام کی دو بیٹیاں تھیں ان کو قرآن نے بنات کہا تو اسی طرح ایک کو احزاب میں بنات کہا ہے۔
جواب اولاً: قرآن و سنت اور تاریخی متواتر دلائل کے سامنے ایک اختلافی بات اور فرضی استدلال پیش کرنا دیانت نہیں۔ قرآن میں حضرت لوط علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے لیے هؤلاء بَنَاتِی هُن فی بنتك سب جمع کے صیغے آئے ہیں ایک اختلافی تفسیری قول سے انہیں نظر انداز کر دینا اور دو کا قائل ہونا۔ قرآن کے ساتھ ایسا ظلم ہے جو ہر گمراہ فرقے کو یہ موقع دے گا کہ واحد و جمع کی تمام اصطلاحات ختم کر دے اور ہر جگہ حسبِ منشا واحد سے جمع اور جمع سے واحد مراد لیتا پھرے۔ (معاذ اللہ)
ثانیاً: اس قول کی غلطی کا سبب یہ ہوا کہ قومِ لوط کے دو بڑے مطاع سید اور چودھری تھے ان کو دو بیٹیاں نکاح میں دینا چاہیں تاکہ ان کے برائی سے رکنے سے سب رک جائیں؟ تو اس سے حصر کا مفہوم برآمد کرنا کہ لڑکیاں ہی دو تھیں غلط ہوا کیونکہ دو کی تصریح دو سرداروں کی تصریح کے ساتھ ملی ورنہ مجرم اور بھی تھے آپ ان کو بھی مہمانوں کی عزت بچانے کے لیے بیٹیاں دینا چاہتے تھے۔
ثالثاً: مفسرین نے دو والے قول کا رد بھی کیا ہے۔ تفسیر غرائب القرآن نیشاپوری بر حاشیہ تفسیر طبری جلد 12 صفحہ 58 پر ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ قوم کے مقتدار دو سردار تھے۔ ان کو اپنی دو بیٹیاں دینی چاہیں ایک قول یہ ہے کہ آپ کی بیٹیاں دو سے زیادہ تھیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیٹیاں حقیقتاً نکاح کے لیے پیش نہ کی ہوں بلکہ ان کو شرم و حیاء دلانے کو یہ بات کہی ہو۔
رابعاً: بیٹیوں سے مراد جمع ہی ہے ہاں تفسیریں دو ہیں:
- قومِ لوط کی منکوحہ بیویاں مراد ہیں کہ نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے۔
- اپنی صلبی بیٹیاں مراد ہیں یہ قتادہ کا قول ہے۔
(مجمع البیان: جلد، 3 صفحہ، 184)