Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وعدہ نصرت کیوں نہ فرمایا کیا یہ دونوں بزرگ دعوت ذوالعشیرہ میں شامل تھے اگر شامل نہ تھے تو یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی کیونکر ہو سکتے ہیں؟

  مولانا مہرمحمد میانوالی

جواب: شیعہ بیچارے کتنے لاوارث اور دلائل سے یتیم ہوتے ہیں اور انتہائی نکمے قسم کے تاریخی افسانے ان کے براہین کا شاہکار ہوتے ہیں یہ واقعہ ایک تاریخی موضوع روایت ہے احادیث کا متفقۃ الطرفین یا مستند واقعہ نہیں اس کی حقیقت درجِ ذیل ہے۔
علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں: یہ روایت نہ سنن میں ہے نہ مغازی میں نہ مسانید میں ہے یہ موضوع بات ہے بنی عبد المطلب کی تعداد نزولِ آیت کے وقت چالیس نہ تھی آپ کی زندگی میں بھی وہ اس تعداد کو نہ پہنچ سکے۔
(المنتقیٰ: صفحہ، 6841 من المنہاج)
اس کے واضعِ کا نام عبدالغفار بن قاسم ابو مریم کوفی ہے جو رافضی تھا شیعہ کی اکثر تصانیف میں اس کا ذکر ملتا ہے مامقانی نے بھی: تنقیح المقال: جلد، 2 صفحہ، 158 اس پر اسکا ذکر کیا ہے ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں یہ اجماعاً متروک راوی ہے ابنِ مدینی فرماتے ہیں کہ یہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا نسائی اور حاتم نے اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے امام احمدؒ فرماتے ہیں اس کی اکثر روایات باطل ہوا کرتی تھیں سماک بن حربؒ اور ابو داؤدؒ نے اسے کاذِب اور ابنِ حبانؒ نے اسے شرابی قرار دیا ہے۔(حاشیہ المنتقیٰ)
روایتی جرح کے بعد اب درایت کے لحاظ سے اب اسکی حقیقت ملاحظہ ہو:
جب آیت: وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَ۞ (سورۃ الشعراء: آیت، 214)
ترجمہ: آپ اپنے قریب ترین رشتہ داروں دودھیال کو ڈرائیے،نازل ہوئی تو حضور اکرمﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عبدالمطلب کی تمام اولاد کو بلا لاؤ تاکہ میں انہیں تبلیغ کروں، آپ بلا لائے تھے وہ چالیس آدمی تھے ان میں آپﷺ کے چچا ابو طالب، سیدنا حمزہؓ، سیدنا عباسؓ وغیرہم بھی تھے پہلے دن دعوت کھلا چکنے کے بعد بات نہ ہو سکی دوسرے دن اسی طرح دعوت کھلا کر فرمایا اے عبد المطلب کی اولاد میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو دعوت الی اللہ دوں اس بات پر کون تم میں میری مدد کرے گا جب کہ وہی میرا بھائی وصی اور تم میں میرا جانشین ہوگا سب قوم خاموش رہی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ کے نبی میں آپ کا مددگار رہوں گا حالانکہ میں سب سے چھوٹا ہوں باریک آنکھوں والا چھوٹی پنڈلیوں والا بڑے پیٹ والا تھا آپ نے میری گردن پکڑ کر فرمایا یہ میرا دینی بھائی اور وصی اور تمہارے اندر میرا جانشین ہے تم اس کی بات سنو اور فرمانبرداری کرو اس کے بعد لوگ اٹھ کر چلے گئے اور ابو طالب سے مذاقاً کہنے لگے کہ تمہیں محمد نے بیٹے کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے دوسری روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا اے بنو عبدالمطلب میں تمہاری طرف خصوصیت سے اور دیگر لوگوں کی طرف عموماً نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں تم میرا دعویٰ اور عزم دیکھ چکے ہو تم میں سے کون اس شرط پر میری بیعت کرے گا کہ وہ میرا بھائی ساتھی اور وارث بنے آپ نے تین مرتبہ یہ فقرہ دہرایا جب کوئی نہ اٹھا تو میں سب سے چھوٹا تھا اٹھا تو آپ نے فرمایا بیٹھ جا تیسری مرتبہ میں نے بیعت کی بس اسی وجہ سے میں چچا کے بیٹے کا وارثِ علمی ہوں اور چچا کا نہیں ہوں۔
(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 320، 321 بلفظہٖ کتبِ شیعہ میں سے حیات القلوب جلد 2 صفحہ 279، 278 پر اس سے مفصلاً بیان کیا گیا ہے) 
اور شیعی تفسیر مجمع البیان و تفسیر قمی میں بھی ہے کہ یہ دعوت تین دن تک ہوتی رہی بنو عبدالمطلب برادری سے کسی نے حامی نہ بھری تو تیسرے دن سیدنا علیؓ نے اس پر لبیک کہی حالانکہ آپ صغیر سنی تھے ابو لہب مذاق اڑاتا تھا غالباً دیگر حاضرین نے حلیفتی فی اہلی میرے گھر والوں میں میرا جانشین ہوگا کہ منصب کو اپنے شیانِ شان نہ جانا اور خاموش رہے یہی وہ واقعہ ہے جس پر اعتراض کی بنیاد ہے اس قطعِ نظر کی یہ ایک لچر روایت ہے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کا حلیہ و تعارف بھی مکروہ بتایا گیا ہے اور اس سے بھی قطعِ نظر کے آغازِ دعوتِ اسلام سے ہی جبکہ قریبی برادری بھی مسلمان نہ ہوئی تھی آپﷺ کو اپنے وصی اور خلیفہ کا فکر کیوں دامن گیر ہو گیا تھا اس وقت صرف آپ مامور بالدعوت الی الاسلام تھے مستقبل دینوی کے قطعی انجام سے واقف نہ تھے جیسے ارشادِ ربانی کے ذریعے آپﷺ سے یوں اعلان کرایا جاتا تھا:
قُلۡ مَا كُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَاۤ اَدۡرِىۡ مَا يُفۡعَلُ بِىۡ وَلَا بِكُمۡؕ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ الخ۔ (سورۃ الاحقاف: آیت، 9)
ترجمہ: فرمائیے میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں انجامِ دنیوی نہیں جانتا کہ تمہارے میرے ساتھ کیا کچھ کیا جائے گا میں تو صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں۔
اور اس سے بھی قطغ نظر کہ آیت وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ کے تحت آپﷺ رشتہ داروں کو خدا کی نافرمانی اور عذاب سے ڈرانے کے ہی مکلّف تھے اعلانِ خلیفہ کا تصور و شائبہ بھی آیت میں نہیں ہے۔
روایت سے ثابت چھ باتیں شیعہ کے خلاف ہیں:
اس قصہ سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
1: یہ صرف اپنی برادری بنو عبدالمطلب کو دعوت تھی غیر بنو عبدالمطلب سیدنا ابوبکر تیمیؓ اور سیدنا عمر عدویؓ کو بلانے کا سوال ہی نہ تھا تو اعتراض ہی لغو ثابت ہوا سیدنا ابوبکر صدیقؓ تین سال قبل آغازِ نبوت پر ہی ایمان لا چکے تھے اور آپﷺ کے معاون و دستِ راست بن کر دسیوں معزز افراد جیسے سیدنا عثمانؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا زبیرؓ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ وغیرہ کوحلقہ بگوش اسلام کرا چکے تھے۔
(تاریخ طبری: جلد 2 صفحہ310 وغیرہ)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ گو اس واقعہ کے تین سال بعد مشرف با اسلام ہوئے مگر ان کے اسلام پر مسلمانوں کو بڑی تقویت پہنچی اور اشاعتِ اسلام بڑی تیز ہو گئی جیسے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ جیسے قدیم الاسلام اور فاضل صحابی کی شہادت اور حوالہ جات سابقہ مذکور ہو چکے ہیں۔
2: بنو ہاشم اور عبدالمطلب میں سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے سوا کسِی نے بھی اسلام اور حمایتِ پیغمبرﷺ کا اعلان نہیں کیا اور یہیں سے معلوم ہو چکا کہ سابقون الاولون ایک دو فرد کے ماسوا بنو عبدالمطلب اور ہاشمی حضرات نہیں یہ شرف اللہ نے غیروں کو ہی عطا فرمایا ہے اور اس میں بھی خدا کی بہت بڑی حکمت اور صداقت نبوت پر عظیم عقلی دلیل ہے کے برادری اور قریبی لوگ مخالفت کرتے ہیں مگر اغیار حضورﷺ کے قدموں میں آ گرتے ہیں اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
جبکہ ان کو صاف نظر آ رہا ہے آپﷺ کو پیغمبر ماننا دنیوی وقار کے بر خلاف ایک درِ یتیم کو اپنا آقا و سردار بھی ماننا ہے اگر دعویٰ نبوت سیاسی سطح پر یا دنیوی عزت (العیاذ باللہ) کی خاطر ہوتا تو سب سے پہلے آپﷺ کی قوم لبیک کہتی اس سے ان کا وقار بلند ہوتا اور غیر خود کو آپﷺ کی غلامی میں دینے سے گریز کرتے۔
اس سے جنابِ ابو طالب والد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا بھی مؤمن اور مسلمان نہ ہونا اظہر من الشمس ہو گیا اگر شیعہ خیال کے مطابق آپ مومن اور مسلمان ہوتے تو ضرور اسلام اور وزارت پیغمبر کا اعلان کرتے حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ کے خلاف بعد میں بھی آپ سے کلمہ پڑھنا یا رائج دین قریش سے تبرا کرنا بھی ثابت نہیں 
اس قصے سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے تیسرے سال اسلام و ایمان کا اقرار اور اظہار کیا اس لحاظ سے تو آپؓ سابق الاسلام ثابت نہ ہوئے دوسرے حضرات ہی ہوئے۔
(البخاری: جلد٬ 1 صفحہ٬ 516)
حضرت عمار بن یاسرؓ فرماتے ہیں:
رءیت رسول اللہﷺ وما معہ الا خمسۃ اعبد و امرأتان وابو بکرؓ۔
ترجمہ: میں نے آغاز اسلام میں آپﷺ کے ساتھ دیکھا آپﷺ کے ساتھ پانچ غلاموں دو عورتوں اور ابوبکرؓ سوا کوئی مومن نہ تھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلے ہی ماہ میں ایمان لانے کا ذکر شیعہ کتب میں بھی ہے یہ ماہ کی بھی روایت میں ایک تعبیر ہے ورنہ آپؓ پہلے ہی دن گویا حضرت خدیجہؓ کے بعد مسلمان ہو گئے تھے۔
(شعیہ کتاب اعلام الوٰری: صفحہ، 50، 51 میں ہے)
حضرت طلحہٰ بن عبید اللہؓ بصرہ گئے ہوئے تھے ایک راہب نے پوچھا کیا کوئی مکہ کا آدمی تم میں ہے میں نے کہا میں ہوں اس نے کہا احمد ظاہر ہو گیا ہے میں نے کہا احمد کون ہے راہب نے کہا احمد بن عبداللہ بن عبد المطلب نے اس ماہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا ہے وہ آخری پیغمبر ہے حرم سے نمودار ہوگا کھجوروں کی جگہ (مدینہ) ہجرت کر کے جائے گا تو فوراً اس کی خدمت میں جا حضرت طلحہٰؓ فرماتے ہیں میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی جلدی سے مکہ آ پہنچا پوچھا کیا نئی بات ہوئی لوگوں نے کہا: 
نعم محمد بن عبد اللہ الامین تنبا وقد تبعہ ابن ابی قحافہ قال فخرجت حتیٰ دخلت علی ابی بکرؓ فقلت اتبعت ھذا الرجل قال نعم فانطلق الیہ و ادخل علیہفاتبعہ فانہ یدعوا الی الحق۔
(بحوالہ کشف الاسرار)
ترجمہ: ہاں محمد بن عبد اللہ الامین نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ابوبکرؓ نے آپﷺ کی پیروی کرلی ہےطلحہٰؓ فرماتے ہیں میں وہاں سے نکلا حضرت ابو بکرؓ کے پاس آ کر پوچھا کیا آپ نے اس شخص کی پیروی کر لی؟ فرمایا ہاں تو بھی اس کے پاس جا اور تابعداری کر لے کیونکہ وہ صرف حق کی طرف بلاتے ہیں۔
پھر سیدنا طلحہٰؓ نے راہب کا قصہ سنایا حضرت ابوبکرؓ سیدنا طلحہٰؓ کو حضورﷺ کی خدمت میں لے آئے وہ مسلمان ہوگئے اور راہب کی بات سنائی جب سیدنا طلحہٰؓ بھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مسلمان ہو گئے تو نوفل بن خویلد قریشی شیر ان کو مارتا تھا۔
5: اس خلافت اور وزارت کا مقصد خلیفتی فیلم یعنی بنو عبدالمطلب پر نگرانی اور خاندانی و گھریلو امور کے انتظام کو سر انجام دینا ہے تاکہ حضورﷺ فارغ البالی سے منصبِ نبوت کا فریضہ ادا کریں قید و بند موت کی صورت میں اہل و عیال کی زمہ داری اور لین دین کے تفکرات سے آزاد ہوں اسے خلافتِ کبریٰ اور تمام امت کی قیادت سے واسطہ نہیں کیونکہ نہ اس کی ضرورت تھی نہ چند نفوس کے سوا امت کی وسعت کے انتظام کا مسئلہ درپیش تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ تمام خاندان سے آپﷺ کو عزیز اور پر اعتماد ہیں گھر کے فرد اور خانگی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں قرضہ جات اور کفار کی امانتوں کا لین دین بھی بامر نبوی کرتے ہیں لیکن حضورﷺ کے ساتھ دعوتی و تبلیغی میدان میں ہمہ وقت ساتھ ہیں نہ تقریر و تائید کرتے نظر آتے ہیں نہ کفار کی طرف سے آپ کو زردکوب کیا جاتا ہے اس کے برعکس ایک اور شخصیت سایہ کی طرح آپﷺ کی ہمدم و ساتھی ہے حضورﷺ کے ساتھ تقریر و تبلیغ بھی کر رہے ہیں کفار کا آپ سے دفاع بھی کر رہے ہیں مار کھا کھا کر لہولہان بھی ہو رہے ہیں بے ہوش بھی ہوتے ہیں
سخت گرمی اور دوپہر میں آرام کے لیے حضورﷺ کو اپنے گھر لے جاتے ہیں یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جن کی تربیت خلیفتی فی اہلی کے تحت نہیں بلکہ خلیفہ و مقتدا برائے جمیع امت کے لحاظ سے ہو رہی ہے کہ ان کے متعلق یہ فرما کر رخصت ہونا ہے۔ 
فاقتدوا بالذين من بعدى ابى بکرؓ و عمرؓ۔ (ترمذی) 
ترجمہ: میرے بعد دو شخصوں کی پیروی کرنا ابوبکرؓ کی اور پھر عمرؓ کی۔
6: اس سے یہ بھی معلوم ہو کہ انبیاء علیہم السلام کی میراث علمی ہوتی ہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی اس کے وارث ہیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا صاف فرمانا کہ میں اپنے چچا کا وارث نہیں حالانکہ وہ اقرب رشتہ ہے اور چچا کے بیٹے کا وارث ہوں اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے
الحاصل، دعوت ذوالعشیرہ کا یہ قصہ اگر ثابت ہے تو چشمِ ماروشن دل ما شاد شیعہ حضرات وسعت ظرفی سے اس سے ثابت درج بالاستہ امور پر بھی ایمان لائیں سنی شیده نزاع ختم ہو جائے گا۔
معترض کا یہ کہنا اگر دونوں بزرگ شامل نہ تھے تو یہ حضرات رسول اللہﷺ کے قریبی کیونکر ہو سکتے ہیں۔ روح اسلام سے ناواقفی اور جہالت پر مبنی ہے اسلام میں قرابت نبوی فی نفسها کا باعث فضیلت نہیں، بلکہ اتباعِ پیغمبرﷺ کے ذریعہ سے ہے رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اَوۡلَى النَّاسِ بِاِبۡرٰهِيۡمَ لَـلَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ وَهٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَاللّٰهُ وَلِىُّ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 68)
ترجمہ: بے شک سب لوگوں سے زیادہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قریبی اور سگے وہ لوگ ہیں جو آپ کے پیرو کار تھے۔ اور اب یہ نبی اور مؤمنین اصحاب اللہ ایسے مؤمنوں کا مددگار و سر پرست ہے۔
مشرکین قریش اور یہود و نصاریٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل اور آل میں سے ہونے کی وجہ سے قرابت کا دعویٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا رد فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قریبی وہ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی اپنے اپنے وقت میں کی اور ہمارے پیغمبرﷺ بھی متبع ہونے کی حیثیت سے آپﷺ کے قریبی ہیں، اور اس پر ایمان لانے والے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ و سیدنا علیؓ سیدنا ابو ذرؓ سیدنا عمارؓ سیدنا بلالؓ، سیدنا صہیبؓ، سیدنا خبابؓ محض متبع ہونے کی حیثیت سے قریبی ہیں، اور ابولہب، عتبہ، شیبہ ابوجہل وغیرہ نافرمانی کی وجہ سے ابراہیمی نسل اور سادات میں سے ہونے کے باوجود ہرگز قریبی نہیں۔ 
نہج البلاغہ میں سیدنا علیؓ کا ارشاد ایمان ساز ہے۔
ان ولی محمد من اطاع اللہ و رسولہ و ان بعدت لحمته وان عدد محمد من عصى الله ورسوله وان قربت قربته۔
 ترجمہ: حضرت محمدﷺ کے قریبی دوست وہ ہیں جو اللہ و رسولﷺ کے فرمانبردار ہوں اگرچہ خونی رشتہ دار ہو اور حضرت محمدﷺ کے دشمن وہ ہیں جو اللہ و رسولﷺ کے نافرمان ہوں اگرچہ رشتہ قریبی ہو۔
بلا شبہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ قریبی بھی ہیں مؤمن و متبع بھی سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ حسباً کچھ دور کے رشتہ دار سہی مگر نسبتی رشتہ داری میں خسر ہونا بہ نسبتِ داماد ہونے کے زیادہ اعزاز رکھتا ھے کیونکہ خسر دینے والا اور خرچ کرنے والا ہے، داماد لینے والا اور اپنے اوپر خرچ کروانے والا ہے۔
اس سے قطعِ نظر اصولِ بالا کی رو سے سیدنا علیؓ اور شیخینؓ کے ایمان، اتباع، ایثار بر پیغمبر نشرِ اسلام جانشینی میں امت کو افادہ وغیرہ امور میں موازنہ نہ کیا جائے گا جو ان امور میں بڑھے گا وہی آپﷺ کا قریب ترین رشتہ دار سمجھا جائے گاـ
اہلِ سنت کی تحقیق و عقیدہ میں جب حضراتِ شیخینؓ امورِ مذکورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر ہیں تو اصولِ بالا کی رو سے وہی سب سے افضل اور پیغمبرﷺ کے قریب ترین رشتے دار سمجھیں جائیں گے اس مسئلہ کی وضاحت سوال نمبر 4 میں اور کاملِ تفصیل سوال نمبر 20 کے تحت ان شاءاللہ آئے گی ـ