حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بقول اہل سنت تمام امت محمدیہﷺ سے افضل ہیں تو بوقت مواخات یعنی جب رسول اللہﷺ نے مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کیوں اپنا بھائی نہ بنایا جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ آنحضرتﷺ دعوت ذوالعشیرہ اور مدینہ منورہ میں تشریف لانے پر فرمایا یا علیؓ انت اخی فی الدنیا والآخرۃ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کیا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بعد از رسول خدا تمام کائنات سے افضل و اکمل ہیں انصاف مطلوب ہیں؟
مولانا مہرمحمد میانوالی
الجواب: دعوتِ ذوالعشیرہ کی حقیقت تو بیان ہوچکی ہے یہ دلیل بھی اسی جیسی ہے اور تاریخِ شہادت کا دعویٰ بلا دلیل ہے کیونکہ حضرت علیؓ کے متعلق مواخات فی المدینہ کی روایات مضطرب ہیں بعض میں ہے کہ ہجرت الی المدینہ کے بعد مہاجرین کا معاشی مسئلہ حل کرنے کے لیے آپﷺ نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے مابین بھائی چارہ قائم کرایا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا سیدنا سہل بن حنیفؓ کے ساتھ بھائی چارہ قائم کرایا۔
(الاصابہ لابنِ حجر: جلد، 2 صفحہ، 87)
غالباً یہ ہی وجہ ہے کہ سیدنا سہلؓ کے ساتھ آپؓ کے تعلقات اچھے رہے اپنے عہدِ خلافت میں ان کو گورنر بھی بنایا ہے۔
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مسندِ احمد کی طرف نسبت کر کے شیعہ علامہ حلی نے منہاج الکرامہ میں بھی نقل کی ہے شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہؒ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت امام احمدؒ نے ذکر نہیں کی بلکہ القطیعی کے اضافات میں سے ہے جو ساقط الاحتجاج ہیں القطیعی نے سیدنا زید بن اوفیؓ سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ بھی ہیں جو روافض قصداً حذف کر دیتے ہیں کہ حضرت علیؓ میں عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں آپ سے کیا ورثہ پاؤں گا؟ آپﷺ نے فرمایا وہ ہی ورثہ جو انبیاءِ سابقین دوسروں کو دیا کرتے تھے یعنی کتاب اللہ اور سنتِ رسول یہ روایت بااتفاق محدثین جھوٹ ہے بلکہ مواخات پر مشتمل تمام روایات جھوٹ ہیں یہ مواخات آپﷺ نے مہاجرین کے درمیان قائم نہیں کی تھی بلکہ مہاجرین و انصار کے درمیان قائم کی تھی۔
(المنتقیٰ من المنہاج: صفحہ 678 اردو)
ماضی قریب کے مشہور سیرت نگار اور سنّی شیعہ نزاع سے آزاد مولانا غلام رسول مہر مرحوم رسولِ رحمت: صفحہ، 238 پر قمطراز ہیں۔
اجتماع اور مواخات:
مسجدِ نبوی کی تعمیر مکمل ہوچکی تو سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہﷺ نے مہاجرین و انصار کو جمع کیا اس اجتماع میں نوّے یا ایک سو اصحاب موجود تھے جن میں نصف مہاجرین تھے اور نصف انصار تھے حضورﷺ نے فرمایا: تاخوا فی اللہ اخوین اخوین۔
ترجمہ: اللہ کی راہ میں دو دو آدمی بھائی بھائی بن جاؤ۔
(ابنِ ہشام القسم الاول: جلد، اول و دوم صفحہ، 505)
پوری فہرستِ اسماء کہیں سے نہ مل سکی جو نام مختلف روایتوں سے معلوم ہوسکے وہ درج ذیل ہیں۔
مہاجرین:
حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف، حضرت زبیرؓ بن العوام، حضرت طلحہٰ بن عبید اللہؓ، حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت بلالؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت مصعبؓ بن عمیر، حضرت ابو حذیفہؓ عتبہ بن ربیعہ، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت ابوذر الغفاریؓ، حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ، حضرت سلمان فارسیؓ۔
انصار:
حضرت خارجہ بن زیدؓ بن الحارث، حضرت عتبان بن مالکؓ، حضرت سعدؓ بن معاذ، حضرت سعدؓ بن الربیع، حضرت سلمہ بن سلام بن وقش، حضرت کعبؓ بن مالک، حضرت انسؓ بن مالک، حضرت انسؓ بن ثابت، حضرت ابو رویحہ عبداللہ بن عبد الرحمٰن الحنثعمی ابی بن کعبؓ، ابوایوبؓ، عباد بن بشیر، حذیفہ بن الیمان العنسبیؓ، منذرؓ بن عمرو، عویمؓ بن ساعدہ، ابو الدردہؓ عویمر بن ثعلبہ۔
بعض ناموں کے متعلق روایات میں اختلاف ہے ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا ھٰذا اخی یہ میرا بھائی ہے حالانکہ کے اسے مواخات کا جز قرار نہیں دیا جاسکتا جس کا انتظام مدینہ میں ہوا تھا پھر سیدنا حمزہؓ اور سیدنا زید بن حارثہ کی مواخات کا ذکر ہے یہ مکی مواخات ہو تو ہو مدنی نہیں ہوسکتی جس میں ایک فریق مہاجر اور دوسرا فریق انصاری تھا۔ سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب اور سیدنا معاذؓ بن جبل کے بھائی چارے کا بھی ذکر ملتا ہے حالانکہ مدنی مواخات کے وقت سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب حبش میں تھے وہ چھ سات سال بعد مدینہ پہنچے اور خیبر میں حضورﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تھے۔
(انتہیٰ بلفظہ: صفحہ، 238، 239)
ہم نے تفصیل آپ کی معلومات میں اضافہ کے علاوہ اس لئے نقل کی ہے کہ شیعہ کا تاریخی شہادت کا کمزور سہارا سامنے آجائے اس فہرست میں حضور اکرمﷺ اور حضرت علیؓ کی مواخات کا ذکر نہیں ملتا اگر ابنِ حجرؒ کا بیان علامہ کے سامنے ہوتا تو حضرت علیؓ و حضرت سہلؓ بن حنیف کا نام بھی ملتا بہرحال یہ روایت صرف ابنِ اسحاق سے ہے جس پر کڑی جرح کتبِ رجال میں موجود ہے۔
بالفرض اگر یہ واقع ہو تو اس کی وجہ سیدنا علیؓ کی تسکین و تسلی اور معاشی تکفل کا سامان ہے کیونکہ یہاں سیدنا علیؓ جیسے غیر شادی شدہ نادار درویش حضورﷺ کا سوا کوئی پشت پناہ نہ تھا آپؓ کے بھائی عقیل اور طالب (بحالتِ کفر) مکہ میں تھے سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب حبشہ میں تھے جیسے حضورﷺ نے مکہ میں آپؓ کی معاشی ذمہ داری خود لے رکھی تھی یہاں نئے دیس میں بھی آپؓ کی اشک شوئی اس کے بغیر ممکن نہ تھی یہی وجہ ہے کہ جب آپﷺ مواخات فرما چکے سیدنا علیؓ کو کسی کے ساتھ نہ لایا تو آپ سخت ناراض ہوئے تنبیہ کا بیان ملاحظہ ہو جو کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 92 پر ہے کہ جب سب مہاجرین و انصار کی آپﷺ مواخات کر چکے اور سیدنا علیؓ کی کسی کے ساتھ نہیں کی تو وہ حضورﷺ پر (العیاذ باللہ) غصے ہو کر کہیں چلے گئے حضورﷺ نے انہیں تلاش کر کے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور فرمایا تو صرف مٹی والا (ابو تراب) بننے کے لائق ہے۔
اغضبت علی حین اخیت بین المهاجرين والأنصار وله أو اخ بينك و بين أحد منهم انت اخی فی الدنيا والآخرة۔ (بلفظه)
ترجمہ: کیا تو مجھ پر ناراض ہوگیا جب میں نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کی اور تجھے کسی کے ساتھ نہیں لایا تو میرا بھائی ہے دنیا میں اور آخرت میں۔
اخوتِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت زید رضی اللہ عنہ:
بشرطِ صحت روایت یہ فی الجملہ فضیلت کی بات ہے مگر کلی افضلیت کو اس سے کوئی تعلق نہیں حضورﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے متعلق بھی بروایتِ ابنِ عباسؓ یہ ہی فرمایا ہے
لو کنت متخذا من امتی خلیلا لاتخذت ابا بکرؓ ولٰکن اخی و صاحبی۔ وفی روایۃ لا اتخذتہ خلیلا ولٰکن اخوۃ السلام افضل۔
(بخاری: جلد،1 صفحہ، 516)
ترجمہ: اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یقیناً بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور دوست ہیں اور ایک روایت میں ہے میں ان کو خلیل بناتا لیکن اسلام کا بھائی ہونا بہت شان کی بات ہے
چونکہ مقامِ خلت دل میں صرف ایک کے سمانے کا نام ہے وہ صرف خُدا کی ذات تھی اس لیے اس کی نفی کر کے اخوّت کا اثبات فرمایا اور حضرت زیدؓ بن حارثہ کے متعلق بھی آپﷺ کا ارشاد ہے انت اخونا ومولانا آپ ہمارے بھائی اور محبوب ہیں۔
(بخاری: جلد، 1 صفحہ، 528)
احادیثِ صحیحہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپﷺ نے فرمایا میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا (جو میرے بعد پیدا ہوں گے اور بن دیکھے ایمان لائیں گے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ الخ (سورۃ الحجرات: آیت، 10)
ترجمہ: سب مؤمن بھائی بھائی ہیں۔
مواخات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بھائی چارہ قائم کرنے والوں میں تمام امور میں تماثل اور تشابہ پایا جاتا ہے بھائیوں میں فرقِ مراتب اور اوصاف میں کمی بیشی مشاہدہ کی بات ہے تو اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا بھائی فرمایا تو اس سے یہ کیوں ثابت ہوا کہ آپؓ ہی سب سے افضل ہیں اور امامِ بلا فصل ہیں۔
اخوّت نسبی مدارِ فضیلت نہیں:
واضح رہے کہ اخوتِ نسبی ہی کو شیعہ حضرات مدارِ افضلیت کہتے ہیں لیکن اخوّتِ اسلامی اور صحبتِ پیغمبری اس سے کہیں افضل ہے کیونکہ وہ آخرت میں بھی بدستور ہوگی ارشاد ہے:
1:وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَ ۞
(سورۃ الحجر: آیت، 47)
ترجمہ:ان کے سینوں میں جو کچھ رنجش ہوگی، اسے ہم نکال پھینکیں گے، وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے اونچی نشستوں پر بیٹھے ہوں گے۔
اَلۡاَخِلَّاۤءُ يَوۡمَئِذٍۢ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِيۡنَ۞
(سورۃ الزخرف: آیت، 67)
ترجمہ:اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے متقی لوگوں کے۔
(ترجمہ مقبول: صفحہ، 591)
معلوم ہوا کہ اسلامی برادری اتنی پختہ ہے کہ دنیا میں فی الجملہ کدورت کے بعد بھی محبت و الفت سے قائم و دائم ہوگی اور متقین بدستور ایک دوسرے کے دوست رہیں گے مگر اخوّتِ نسبی وہاں کام نہ دے گی۔
فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَئِذٍ وَّلَا يَتَسَآءَلُوۡنَ ۞
(سورۃ المؤمنون: آیت 101)
ترجمہ: اس دن ان کے درمیان نہ رشتہ داری ہوگی نہ ایک دوسرے کا پوچھیں گے۔
يَوۡمَ يَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِيۡهِ ۞(سورۃ عبس آیت 34)
ترجمہ: اس دن آدمی اپنے بھائی سے
وَاُمِّهٖ وَاَبِيۡهِ ۞(سورۃ عبس آیت 35)
ترجمہ: اپنی ماں اور اپنے باپ
وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيۡهِ۞(سورۃ عبس آیت 36)
ترجمہ: اور بیوی اور بچوں سے بھاگے گا۔
جب یہ اخوّتِ اسلامی حضرت علی المرتضیؓ اور دیگر کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مشترک ہے تو افضلیت پر استدلال درست نہیں ہے اگر استدلال اخوت اسلامی و نصبی کے جامع ہونے کی وجہ سے ہے تو یہ اجتماع حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ و حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و حضرت زبیرؓ میں بھی ہے بوجوہ ان میں شیخینؓ کی افضلیت سوال نمبر 3 کے آخر میں ملاحظہ فرما لیں۔
بالفرض اس وصفِ مشترک کو شیعہ اگر سیدنا علیؓ کی افضلیت پر ہی دلیل بنائیں تو یہ جزوی فضیلت ہوگی جیسے قرآنِ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے:
اُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيۡفًا الخ(سورۃ النحل: آیت، 120)
ترجمہ: وہ بمنزلہ ہے ایک امت کے خدا کے مطیع و موحد تھے۔
وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِى الدُّنۡيَا الخ (سورۃ البقرہ: آیت، 130)
ترجمہ: اور ہم ان کو دنیا میں چن لیا۔
ارشاد فرماتے ہیں مگر حضورﷺ کے متعلق ایسے الفاظ قرآنِ حکیم میں ہرگز نہیں ملتے جیسے ان انبیاء علیہم السلام کو اِن جزوی القاب و خصائص کے باوجود سید الرسل علیہ افضل الصلوات و التسلیم پر فضیلت نہیں دی جا سکتی اسی طرح سیدنا علیؓ کو اخوتِ نسبی کی وجہ سے خلفاء ثلاثہؓ پر فضیلت نہیں دی جا سکتی کیونکہ حضورﷺ کی افضلیت علی الانبیاء پر دلائلِ قاہرہ کی طرح سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی افضلیت پر بھی دلائلِ قاطعہ موجود ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خصائص:
آپؓ صَاحِبِهٖ کے تاجدار ہیں
قرآنِ کریم نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو صاحبِ پیغمبرﷺ فرمایا ہے۔
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا الخ۔
(سورۃ التوبہ: آیت، 40)
ترجمہ: اگر تم ان کی یعنی نبی کریم ﷺ کی مدد نہیں کرو گے تو ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت مکہ سے نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ: غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھی ہے۔
اس آیتِ کریمہ میں حضورﷺ کے ساتھ اللہ نے اس مدد کا ذکر کیا ہے جو صرف سیدنا ابوبکر صدیقِ اکبرؓ کے ذریعے فرمائی یعنی اس انتہائی مشکل اور خطرناک مرحلہ میں آپﷺ کے معاون و مددگار ساتھی سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ہی تھے اس آلہ نصرت بننے کے لئے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اللہ نے آپؓ کو چنا اور صَاحِبہٖ پیغمبرﷺ کا ساتھی فرما کر گویا ناصر النبیﷺ فرمایا نیز ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ فرما کر یہ بتلایا کہ وہ دونوں ایسے جڑواں اور مساوی در مزاج و مصائب ہیں کہ ہر ایک کو ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ دو میں کا دوسرا اور ایک دوسرے کی صورت و یادگار کہا جائے گا اگر پیغمبرﷺ اوّل ہیں تو صدیقؓ ثانی ہیں اور خلافتِ بلا فصل کا فیصلہ علیم و حکیم نے اسی لفظ میں فرما دیا اگر اس سفر میں محافظ و باڈی گارڈ کی حیثیت سے صدیقؓ اول و آگے ہیں تو سرورِ کائنات ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ میں اور عقب میں محفوظ چلے آرہے ہیں یہ دونوں وہ لقب ہیں جو صدیق اکبرؓ سے ہی مخصوص ہیں کوئی صحابی ان سے مشرف نہیں کیا جا سکتا مقام نصرت و مشکلات میں صاحبِ پیغمبرﷺ ہونا بہت بڑا مخصوص اعزاز ہے جسے عام مسافروں کے ساتھیوں پر قیاس کرنا اور مدارِ فضیلت نہ ماننا قرآنِ حکیم کی روح و اسلوب پر ظلم ہے جو ملحدین کا شیوہ ہے لَا تَحۡزَنۡ تو میرا غم نہ کر میں یہ بھی بتلا دیا کہ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو دین و دنیا کی سب سے قیمتی متاع سید الرسلﷺ کی سلامتی کا اس مشکل ترین گھڑی میں فکر تھا کیونکہ حزن کا معنیٰ دوسرے کے لئے غم کھانا ہے جیسے لف و نشر مرتب کے طور پر حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:
لَا تَخَفۡ وَلَا تَحۡزَنۡ اِنَّا مُنَجُّوۡكَ وَاَهۡلَكَ الخ۔ (سورة العنکبوت: آیت، 33)
ترجمہ: اےلوط! نہ خوف کر نہ غم بے شک ہم تجھے اور تیرے گھر والوں کو نجات دیں گے۔
شیعہ کا اسے غمِ پیغمبرﷺ سے اپنی ذات کے لئے ڈر میں تبدیل کرنا، لغت و قرآن کی بدترین تحریف ہے اگر اپنی ذات کا ڈر ہوتا تو اس خطرناک مرحلے میں ساتھ کیوں ہوتے مدّت سے اس سفر کی تیاری میں کیوں رہتے جب یہ بزدلی اور اپنی جان کا ڈر نہیں بلکہ محبوب پیغمبرﷺ کے عشق میں دُنیائے غم واندوہ کا غوطہ تھا تو یہ محبت کی اور ایمان کی زبردست دلیل ہوئی۔
اگر بالفرض یہ غم، غمِ جاناں نہ ہوتا اور لَا تَحۡزَنۡ کا شیریں قول عاشق صادق کے گوشِ ایمان میں نہ ڈالا جاتا تو دنیا کو عشقِ صدیقؓ پر شبہ ہوتا مولانا ابو الکلام آزادؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
یہ تین راتیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شمع نبوت کے پروانے تھے جس عالم میں بسر کی ہونگی ان کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے عشق و محبت کا کچھ بھی ذائقہ چکھا ہو اللہ کا رسولﷺ غار میں پوشیدہ تھا دشمن سراغ میں تھے ہر لمحہ اندیشہ تھا کہ ہمیں سراغ نہ پالیں اور ایک مرتبہ ان کی صدائیں بھی کانوں میں آنے لگی تھیں ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ ان کے دل کے حزن و اضطراب کا کیا عالم ہوگا بلاشبہ انہیں یقین تھا کہ اللہ اپنے رسولﷺ کا مدد گار ہے لیکن عشق و محبت کا قدرتی تقاضہ ہے کہ محبوب کو خطرے میں دیکھ کر اضطراب ہو اس سے وہ اپنے دل کو روک نہیں سکتے تھے اگر روک سکتے تو محبت کی عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف ہوتا۔ (رسول رحمت: صفحہ، 186)
لیکن پیغمبرِ اسلام کے سکون قلب کا عالم دوسرا تھا وہ بھی غمناک ہوتے تو تسلی کون دیتا اگر کیفیتِ قلبی دونوں کی یکساں ہوتی تو نبوت اور صدیقیت میں فرق کیا رہ جاتا مشکل اور آئینہ میں اصل اور نقل میں کچھ فرق تو ہونا چاہیئے۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا بلا شبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا کیونکہ اس نے پیغمبرﷺ اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے مؤمنِ اکمل ہونے پر مہر لگا دی کیونکہ اللہ کی محبت منافقوں ظالموں ریاکاروں اور نافرمانوں کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ مومنوں پرہیز گاروں محسنوں نیکو کاروں اور صابروں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔
جیسے دسیوں ارشادات ربانی ہیں۔
وَأَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ۞ (سورۃ الانفال: آیت، 19)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيۡنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيۡنَ هُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ۞ (سورۃ النحل: آیت، 128)
ترجمہ: اللہ متقی اور نیکو کاروں کے ساتھ ہیں۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ۞ (سورۃ البقرہ: آیت، 153)
ترجمہ: اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
فَانْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَهُ عَلَيْهِ الخ۔ (سورۃ التوبہ: آیت، 40)
ترجمہ: پس اللہ نے اس پر اپنی ترجمہ رحمت و تسلی نازل فرمائی۔
یہ جملہ بھی کم مفسرین کے بیان کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی منقبت میں ہے کیونکہ حزن کے دفاع میں آپ ہی کو سکون و تسلی کی حاجت تھی۔
على أبی بكر ابن العربی قال علمأنا هو الاقوى لانه خاف على النَّبِیﷺ من القوم فانزل الله سكينته عليه بتامين النَّبِیﷺ فسكن جاشه وذهب روعه وحصل الأمن۔ (قرطبی: جلد، 8 صفحہ، 148)
ترجمہ: یعنی سیدنا ابوبکرؓ پر رحمت نازل فرمائی یہ ابنِ عربی نے کہا ہے ہمارے علماء کہتے ہیں یہی قوی تر تفسیر ہے کیونکہ وہی مشرکین سے حضورﷺ پر نقصان کا اندیشہ کر رہے تھے پس اللہ نے آپ پر تسلی نازل کی کہ حضورﷺ محفوظ رہیں گے تو آپ کا اندیشہ تھم گیا فکر دور ہوجا اور امن حاصل ہوگیا رہا یہ شبہ کہ آگے پچھے کی ضمیریں پیغمبرﷺ کی طرف رابع ہیں اس کو صاحبہٖ کی طرف لوٹانا انتشارِ ضمائر ہے تو جواب یہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے جیسے مندرجہ ذیل آیت اس کی نظیر ہے:
لِّـتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖ وَتُعَزِّرُوۡهُ وَتُوَقِّرُوۡهُ وَتُسَبِّحُوۡهُ بُكۡرَةً وَّاَصِيۡلًا۞ (سورۃ الفتح: آیت، 9)
ترجمہ: ہم نے پیغمبر نذیر و بشیر بھیجا تاکہ تم اللہ و رسول پر ایمان لاؤ پیغمبر کی خدمت کرو اس کی عزت کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام
پہلی دو ضمیریں رسولﷺ کی طرف راجع ہیں تیسری اللہ کی طرف کیونکہ اسی کی تسبیح کا ذکر بار بار قرآن میں آیا ہے۔
واقعہ ہجرت کتب شیعہ میں:
قصہ ہجرت اور واقعہ غار میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی معیت اور رفاقت مقبول پر تمام امت کا اتفاق و اجماع ہے کوئی متعصب بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مندرجہ ذیل شیعہ علماء نے انتہائی دشمنی اور تعصب کے باوجود حضرت صدیق اکبرؓ کے یار غار ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
- ملا کاشی در تفسیر صافی: صفحہ، 193
- ملا باقر علی مجلسی حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 221
- کشف الغمه: جلد، 1 صفحہ، 109، 237، 402
- تفسیر حسن عسکری: صفحہ، 213
- مرزا باذل ایرانی غزوات حیدری: صفحہ، 65
- تفسیر منہج الصادقین: صفحہ، 211، 271
- مقبول دہلوی ضمیمہ مقبول: صفحہ، 290
- تفسیر قمی: صفحہ، 276 اور 290
- جہاں حضورﷺ نے آپؓ کو انت الصدیق بھی فرمایا ہے۔ قاضی نور اللہ شوستری مجالس المومنین: جلد، 1 صفحہ، 210
- حملہ حیدری: صفحہ، 65
نزولِ آیتِ بالا سے قبل بھی حضرت ابوبکرؓ کا صاحب النبی ہونا اس قدر زبان زد خلائق تھا کہ کفار بھی آپؓ کو اسی لفظ سے یاد کرتے تھے ملا باقر علی مجلسی نے بروایت شیخ طبرسی ابنِ شہر آشوب وغیرہ سب مفسرین عامہ و خاصہ سے نقل کیا ہے کہ ایک کافر حضورﷺ کو پکڑنے کے لیے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے گھر آیا سیدہ اسماءؓ دخترِ ابوبکرؓ کہتی ہیں کہ حضورﷺ نے: وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ الخ۔(سورۃ الاسراء: آیت، 45)
جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور کافروں کے درمیان پردہ ڈال دیتے ہیں آیت تلاوت فرمائی جب وہ قریب آیا تو حضورﷺ کو دیکھ نہ سکا اور حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ میں نے سنا ہے صاحب تو تیرے ساتھی نے میرا گلہ کیا ہے حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا پروردگارِ کعبہ کی قسم تجھے برا نہیں کہا ہے۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 266)
معلوم ہوا کہ مطلقاً کفار کی نظر میں بھی حضورﷺ صاحبِ صدیقؓ اور صدیقؓ صاحبِ رسولﷺ تھے ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ زندگی کی تبلیغی جاں فشانیوں میں حضرت ابوبکرؓ ہی رفیق خاص تھے ملا باقر علی مجلسی لکھتے ہیں۔
کہ ایک مرتبہ امِ جمیل زوجہ ابولہب حضورﷺ کے تعاقب میں نکلی جب مسجدِ حرام میں داخل ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ حضورﷺ کی خدمت میں تھے بولے آپﷺ اوجھل ہوجائیں کہیں یہ بکواس نہ کرے آپﷺ نے فرمایا مجھے نہ دیکھ سکے گی جب قریب آئی تو آپ کو نہ دیکھ سکی حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا کیا تو نے محمدﷺ کو دیکھا آپ نے کہا ابھی نہیں پھر وہ واپس ہوگئی۔
حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 237
نیز مجلسی: باب، 54 میں لکھتے ہیں:
کہ متواتر معجزات میں سے جن کو سنی و شیعہ نے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش ہتے تنگ آکر حضورﷺ نے مدینہ کا رخ کیا راستہ میں امِ معبد کے خیمہ میں پہنچے اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ حضرت عامرؓ بن فہیرہ اور عبداللہ بن اریقظ بھی آپﷺ کی خدمت میں تھے آپﷺ نے خشک تھنوں والی بکری کا دودھ اتنا دوہا کہ سب نے سیر ہوکر پیا۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 229)
ایک مرتبہ حضورﷺ کو اونٹ نے سجدہ کیا حضرت عمرؓ ساتھ تھے عرض کیا ہم آپﷺ کو سجدہ کرنے کے زیادہ حق دار ہیں حضورﷺ نے فرمایا بلکہ خدا کو سجدہ کرو۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 215)
راوندی و ابنِ شہر آشوب نے روایت کی ہے کہ ایک انصاری کے باغ میں چند بکریوں نے آپﷺ کو سجدہ کیا سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کیا ہم بھی آپ کو سجدہ کریں فرمایا غیر خدا کو سجدہ روا نہیں ہے۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 216)
گو ان واقعات میں حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ پر طعن بھی کیا گیا ہے مگر اس سے یہ تو معلوم ہوچکا کہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ آپﷺ کے ہمدم ساتھی اور رفیق خاص تھے اور حضورﷺ کی ذات بھی غیر خدا تھی آپ خدا کا عکس یا اوتار نہ تھے تاکہ عیسائیوں کی طرح آپ کو اوصاف خداوندی کا مظہر قرار دیا جائے اور شیخینؓ کو حضورﷺ سے کمال عشق و عقیدت تھی۔
مکی تبلیغ زندگی میں بارہا ایسا ہوا کہ کفار مکہ حضورﷺ پر حملہ کرتے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کہ حضورﷺ مدافعت کرتے ایک دفعہ عقبہ بن ابی معیط کو حضرت ابوبکرؓ نے حضورﷺ سے دھکیل کر فرمایا: اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ الخ۔
(سورۃ غافر: آیت، 28) کیا تم اس آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پرور دگار صرف اللہ ہے۔
(تاریخ طبری: جلد، 2 صفحہ، 333 بخاری: جلد، 1 صفحہ، 520)
اسی مدافعت میں ایک مرتبہ آپؓ اتنے شدید زخمی ہوئے کہ بیہوش ہوگئے جب ہوش آئی تو سب سے پہلے حضورﷺ کی خیر و عافیت پوچھی۔ (کتب تاریخ)
الغرض ایسے واقعات حد و حساب سے باہر ہیں جن میں خلفائے ثلاثہؓ خصوصاً حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مکی زندگی میں محبتِ نبوی اور نصرتِ دینی اظہر من الشمس ہے ان کا کفار کے ہاں معزب اور مظلوم فی سبیل اللہ ہونا تاریخی حقیقت ہے مثلاً کشف الغمہ: صفحہ، 245 ملاحظہ ہو اس کے برعکس سیدنا علی المرتضیٰؓ کے مدنی زندگی میں مجاہدانہ کارناموں کے باوجود مکی زندگی میں ایسی قربانیاں کم ہیں حتیٰ کہ ملا باقر علی پہلے منصب شیعہ مؤرخ بھی حیات القلوب و جلاء العیون میں حضورﷺ کی محبت میں کفار کے ہاتھوں ستم رسیدگی یا مدافعت عن الرسول کا ایک واقعہ بھی ذکر نہ کر سکے گویا جو مقام سیدنا علی المرتضیٰؓ نے مدینہ میں حاصل کیا وہ شیخینؓ مکی زندگی میں قبل از ہجرت حاصل کر چکے تھے۔
2 : آپ رضی اللہ عنہ صدیقین کے سردار ہیں
افضلیت کی دوسری وجہ آپؓ کا صدیق ہونا ہے گو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی مرتبہ صدیقیت پر فائز ہیں جیسے ارشادِ ربانی ہے۔
اُولٰٓئِكَ هُمُ الصِّدِّيۡقُوۡنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ الخ۔
(سورۃ الحدید: آیت، 19)
ترجمہ: کہ یہی لوگ صدیق ہیں اور شہید ہیں اپنے رب کے ہاں مگر بطورِ لقب حضرت ابوبکر صدیقؓ کا طرہِ امتیاز ہے آپؓ اس لقب سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ممتاز اور پکارے جاتے ہیں۔
1: صاحبِ رجال کشی شیعہ نے سیدنا بریدہ اسلمیؓ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے فرمایا جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے اتنے میں سیدنا ابوبکرؓ آئے تو آپؓ سے حاضرین صحابہؓ نے کہا آپؓ صدیق اور ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ ہیں آپؓ ان تین آدمیوں کے متعلق پوچھیں کہ وہ کون ہیں مگر آپؓ نے نہ پوچھا پھر حضرت عمرؓ آگئے تو ان سے حاضرین نے کہا آپؓ فاروق ہیں فرشتہ آپؓ کی زبان پر بولتا ہے آپؓ ان تین آدمیوں کے متعلق حضورﷺ سے پوچھیں کہ وہ کون ہیں مگر آپؓ نے نہ پوچھا پھر حضرت علیؓ آئے تو حاضرین نے کہا اے ابوالحسن آپؓ پوچھیں تو حضرت علیؓ نے فرمایا میں پوچھوں گا اگر ان میں ہوا تو بھی خدا کا شکر ادا کروں گا اگر نہ ہوا تو بھی وہ تین شخص سیدنا مقدادؓ، حضرت سلمانؓ اور حضرت ابو ذرؓ تھے اس روایت میں گو شیخینؓ پر افتراء بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے اس اندیشے سے نہ پوچھا کہ اگر ان تینوں میں ان کا نام نہ ہوا تو ان کی قوم انہیں عار دلائے گی اور یہ افتراء کرنا ہی تھا ورنہ اتنی اہم فضیلت والی روایت کتب شیعہ میں کیسے آسکتی تھی مگر اس سے روز روشن کی طرح یہ تو واضح ہوگیا کہ دربار نبویﷺ میں بھی سیدنا ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ صدیق ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اور فاروق ناطق بالملک کے لقب سے مشہور اور پکارے جاتے تھے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کو صرف ابو الحسن کہا جاتا تھا۔
2: اور یہ لقب آپؓ کو خود حضورﷺ نے دیا تھا شیعہ تفسیر قمی مطبوعہ نجف اشرف صفحہ 290 میں ہے کہ جب حضورﷺ غارِ ثور میں تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بطورِ مکاشفہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو کشتی میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی مجھے بھی دکھا دیجیئے آپﷺ نے ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو انہوں نے بھی دیکھ لیا پس حضورﷺ نے ان سے فرمایا انت الصدیق ہو تم صدیقؓ ہو۔
3: شیعہ کے پانچویں سیدنا ابوجعفر الباقرؒ نے بھی آپؓ کو صدیقؓ فرمایا ہے آپؓ سے سوال کیا گیا کیا تلوار کا دستہ چاندی کا لگوانا جائز ہے؟ فرمایا ہاں جائز ہے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی تلوار کا قبضہ چاندی کا بنوایا تھا اس پر راوی نے کہا آپؓ اسے صدیقؓ کہتے ہیں آپؓ نے فرمایا ہاں صدیقؓ ہے صدیقؓ ہے صدیقؓ ہے ومن لم يقل له صديق فلا صدق الله قوله، جو شخص آپؓ کو صدیقؓ نہ کہے خدا اس کی بات سچی نہ کرے۔
(کشف الغمہ فی معرفتہ الائمه: جلد، 1 صفحہ، 220 بحوالہ اہلِ سنت پاکٹ بک: صفحہ، 305)
گو شیعہ مؤلف نے ابنِ جوزی کے حوالے سے اسے نقل کیا ہے مگر اس پر تنقید نہیں کی نہ غلط بتایا معلوم ہوا کہ ان کے ہاں بھی صحیح روایت ہے احتجاج طبرسی میں بروایت امیر المؤمنین یہ حدیث ہے کہ ہم حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے ساتھ پہاڑ حرا پر تھے وہ کانپنے لگا تو حضورﷺ نے فرمایا تھم جا تجھ پر نبیﷺ صدیقؓ اور شہیدؓ موجود ہیں۔
(بحوالہ آفتابِ ہدایت)
جب ان ناقابلِ تردید دلائل سے آپؓ کا علی الخصوص صدیق ہونا طشت ازبام ہوگیا تو اس امت میں نبی کریمﷺ کے بعد آپ ہی افضل ہیں کیونکہ نبیوں کے بعد صدیقوں ہی کا رتبہ ہے۔
فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا ۞
(سورۃ النساء: آیت، 69)
ترجمہ: جو خدا اور رسول کی تابعداری کریں وہ ان لوگوں کے ساتھ اٹھیں گے جن پر خدا نے انعام فرمایا ہے وہ بالترتیب یہ چار گروہ ہیں انبیاء صدیقین شہداء- صالحین ان کی رفاقت کیا ہی خوب ہے۔
3: آپ رضی اللہ عنہ مصدقین کے امام ہیں:
افضلیت صدیق پر تیسری دلیل یہ آیتِ کریمہ ہے:
وَالَّذِىۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَصَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ۞(سورۃ الزمر: آیت، 33)
ترجمہ: وہ پیغمبر جو سچ لے کر آیا اور وہ شخص جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پرہیز گار ہیں۔
شیعہ تفسیر مجمع البیان طبرسی پارہ 24 میں ہے:
قیل والذج جاء بالصدق رسول الله وصدق به ابوبکرؓ
کہا گیا ہے کہ سچائی لانے والے سے مراد حضرت رسول اللہﷺ اور تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکرؓ ہیں۔
گو اہلِ تشیع اپنی اس تفسیر سے چیں بجیں ہوں مگر اہلِ سنت کے لیے تو بہرحال قابلِ استدلال اور نورِ چشم ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب شانِ نزول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں ہے تو قرآنِ پاک بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے کہ مؤمن اول اور اسبق الاسلام سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے بعد سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ہیں اور اب تو یہ قدیم سنی شیعہ نزاع خود شیعہ نے یوں ختم کر دیا کہ خاص و عام کہتے ہیں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو پہلا مسلمان کیوں کہا جاتا ہے کیا وہ پہلے کافر تھے ہم انکو ازلی پیدائشی مسلمان سمجھتے ہیں تو اب سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ بلا نزاع و معارضہ مسلم اول ہیں جس کا معنیٰ یہ ہے کہ سب سے پہلے آپﷺ کے دعویٰ نبوت کی تصدیق کر کے آپﷺ کی عملی اتباع کی کچھ شیعہ و صدق بہ سے حضرت علی المرتضیٰؓ مراد لیتے ہیں مگر یہ ان کے اصول کے مطابق غلط ہے اولاً اگلے لفظ و أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ جماعت مصدقین کا تقاضہ کرتے ہیں علم نحو کی رو سے جمع سالم معرف بالام کا عدد کم از کم اسے شروع ہوتا ہے شیعہ کے نزدیک حضرت علیؓ کے ہم خیال اور مؤمن مصدق تازیست نبوی بھی معاً دس عدد نہیں ہوئے چہ جائیکہ آغازِ اسلام میں ان کے ہاں اس وقت صرف حضرت علیؓ حضرت عمار یاسرؓ مؤمن تھے جمع کا مفہوم ان سے پورا نہیں ہوتا اہلِ سنت کے ہاں ان حضرات سمیت اور بھی دسیوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین من مشرف باسلام ہوچکے تھے جن میں حضرت عثمانؓ سیدنا زبیرؓ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی کوشش سے مسلمان ہوئے اسی طرح سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ سیدنا ابو سلمہؓ سیدنا عثمان بن مظمونؓ، سیدنا عامر بن فہيرهؓ سیدنا سعید بن زیدؓ سیدنا ارقم بن ارقمؓ سیدنا عمار یاسرؓ سیدہ ام الفضلؓ اہلیہ سیدنا عباسؓ، سیدہ اسماء بنتِ ابی بکرؓ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سیدہ فاطمہ بنتِ خطابؓ خواہر عمرؓ سابقینِ اولین اور درخشندہ ستارے میں کسی گھاٹی میں جا کر نماز پڑھتے تھے۔
(کذا فی رحمة للعالمين: جلد، 1 صفحہ، 55)
ثانیاً اگلی متصل آیت لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا الخ۔ (سورۃ الزمر: آیت، 35)
تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی سب سے بڑی غلطی معاف کر دے سے ان مصدقین کے گناہوں کے کفارہ کا بیان ہے جو مذہب اہٹل سنت میں درست ہے لیکن شیعہ کے یہاں سیدنا علیؓ پیداںٔشی معصوم ہیں لہٰذا اس آیت کا مصداق اصول شیعہ کے مطابق ہرگز نہیں بن سکتے۔
4: آپ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں اعلیٰ ہیں:
افضلیت صدیقؓ پر چوتھی دلیل یہ آیت ہے:
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ ۞
(سورۃ الأنفال: آیت، 74)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں ہجرت کی اور جہاد کیے اور جنہوں نے جگہ دی اور نصرت کی برحق مومن وہی ہیں بخشش اور عزت کی روزی انہی کے لیے ہے۔ (ترجمہ مقبول)
اس آیت کی رو سے مہاجرین و انصار قطعی مومن اور جنتی ہیں شیعہ مفسر صاحب مجمع البیان اور تفسیر صافی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
لانهم حققوا إيمانهم بالهجرة والنصرة والاسلام من الأهل و المال۔
کیونکہ انہوں نے اپنے ایمان کو ہجرت نصرت دین اور گھر باہر سے علیحدگی اختیار کر کے پیچ کر دکھایا ہے
اور یہ بلاشہ یقینی بات ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تو ہجرت مع الرسولﷺ کر کے وہ اعلیٰ شرف پایا کہ جن و بشر اس پر رشک کرتے ہیں، حضرت عمرؓ کا یہ مقولہ مشہور ہے میں صرف حضرت ابوبکرؓ کی ایک رات اور دن کے بدلے میں سب عمر کے اعمالِ صالحہ دینے کو تیار ہوں ہجرت کی رات اور مرتدین سے جہاد کا دن اور بروایت حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 229 سیدنا عمرؓ نے بھی حضورﷺ کے ساتھ جزوی ہجرت کا شرف پایا سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے براہِ راست تنہا حضورﷺ کی نصرت فرمائی اور اس نصرت کو اللہ نے اپنی نصرت سے تعبیر فرمایا لہٰذا وہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں۔
5: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اتقیٰ ہیں:
پانچویں دلیل سورت والیل کی یہ آیت کریمہ ہے:
وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَى۞ (سورۃ اللیل آیت: 17)
ترجمہ: عنقریب اس سے وہ سب سے بڑا پرہیز گار بچا لیا جائے گا
الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى ۞ (سورۃ اللیل آیت: 18)
ترجمہ: جو مال اس غرض سے دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔
وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓى ۞(سورۃ اللیل آیت: 19)
ترجمہ: اور اس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔
اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰى ۞(سورۃ اللیل آیت: 20)
ترجمہ: بلکہ وہ اپنے عالیشان پرور دگار کی رضا چاہتا ہے۔
وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى ۞(سورۃ اللیل آیت: 21)
ترجمہ: اور آگے چل کر وہ ضرور اس سے راضی ہو جائے گا۔ (ترجمہ مقبول)
اہلِ سنت کی معتبر تفسیریں مثلاً ابو سعود روح المعانی، تفسیر کبیر بیضاوی ابنِ کثیر مدارک وغیرہ تو اس آیت کو حضرت صدیقِ اکبرؓ کی شان میں عبارت النص کے طور پر بتاہی رہی ہیں لیکن اہلِ تشیع کی معتبر و مہذب تفسیر مجمع طبرسی 58 میں بھی ہے۔
ان الآية نزلت فی ابی بکرؓ لانه اشترى مماليك الذين اسلموا مثل بلالؓ و عامر بن فهيرةؓ و غيرهما واعتقهم (بحواله اہلِ سنت پاکٹ بک: صفحہ، 301)
بلاشبہ یہ آیت سیدنا ابوبکرؓ کی شان میں اتری کیونکہ آپ ہی نے ان غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جو مسلمان ہوئے جیسے حضرت بلالؓ، عامر بن فہیرهؓ وغیره
شیعہ کے خاتم المحدثین مجلسی نے بھی لکھا ہے کہ بلالؓ کو سیدنا ابوبکرؓ نے دو غلاموں کے بدلے خریدا۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 630)
یہاں اہم تفضیل کا صیغہ الاتقیٰ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حق میں استعمال فرمایا ہے اور سب سے بڑا پرہیز گار ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں افضل ہے۔
اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ الخ(سورۃ الحجرات آیت، 13)
ترجمہ: کہ اللہ کے ہاں تم میں سے سب سے زیادہ نشان والا وہ ہے جو سب سے بڑا پرہیز گار ہو گا۔
نیز سورت نور کی آیتِ کریمہ:
وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ الخ۔ (سورۃ النور: آیت، 22)
ترجمہ: كہ تم میں سے جو شان والے اور مالدار ہیں وہ ایک صدمہ کی وجہ سے اپنے قریبی رشتہ داروں کو مالی امداد نہ دینے کی قسم نہ کھائیں بھی بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق اتری ہے تفسیر مجمع البیان: جلد، 3 میں اس کا شانِ نزول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بتایا ہے تو ان آیاتِ کریمہ کی رو سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نسب سے افضل اور بڑی شان والے ٹہرے۔
6: آپ رضی اللہ عنہ بحکم نبوی امام نماز ہیں:
افضلیت کی چھٹی دلیل آپؓ کا امام نماز بر مصلیٰ نبوی ہونا کہ آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سب امت سے افضل تسلیم کر کے اپنے مصلیٰ پر نماز کے لیے کھڑا کیا اگر حضرت علیؓ یا کوئی اور صحابی افضل ہوتے تو ان کو امام بنایا جاتا اور حضرت ابوبکرؓ کو امام بنا کر آپ سب امت کو بقول شیعہ اشتباہ و گمراہی میں نہ ڈالتے کیونکہ منجملہ اور دلائل جلی و خفی نصوص کے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسی سنت کی اقتداء میں امامتِ کبریٰ خلافت کے لیے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی تھی اور سب امت نے آپؓ کو افضل تسلیم کیا ثبوت امامت پر دلائل ملاحظہ ہوں۔
1: سنی و شیعہ کی مشترک و قدیم تاریخ طبری: جلد، 3 صفحہ، 196 پر حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا نماز کا وقت ہوچکا ہے حضرت ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں سیدہ عائشہؓ نے مشورہ دیا کہ حضرت ابوبکرؓ نرم دل ہیں سیدنا عمرؓ سے آپ کہیں حضورﷺ نے فرمایا نہیں حضرت ابوبکرؓ سے کہو حضرت عمرؓ نے بھی کہا کہ حضرت ابوبکرؓ کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا، پھر حضرت ابوبکرؓ نماز پڑھانے لگے حضورﷺ نے کچھ افاقہ محسوس کیا تو مسجد میں چلے گئے جب حضرت ابوبکرؓ نے آپﷺ کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹے مگر حضورﷺ نے ان کو کھینچ کر پہلی جگہ کھڑا کر دیا پھر آپﷺ ایک طرف بیٹھ گئے اور وہاں سے قرآت شروع کردی جہاں حضرت ابوبکرؓ نے چھوڑی تھی۔ دوسری روایت میں حضرت ابوبکرؓ کو حکمِ نبوی دینے کے علاوہ یہ صریح بھی ہے کہ انہوں نے حیات رسولﷺ میں، نمازیں لوگوں کو پڑھائیں۔
(طبری: جلد، 3 صفحہ، 197)
شیعہ کی متعمد مخصوص تاریخ ناسخ التواریخ: جلد، 1 صفحہ، 545 کتاب دوم پر ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا سیدنا ابوبکرؓ سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائے اسی طرح نہج البلاغہ کی معتبر شرح در نجفیہ: صفحہ، 225 پر ہے:
كان عند خفة مرضه يصلى بالناس بنفسه فلما اشتديه المرض امر ابابکرؓ ان يصلى بالناس وان ابابکرؓ صلى بالناس بعد ذلك يومین ثم مات۔
ترجمہ: معمولی بیماری میں تو آپﷺ خود نماز پڑھاتے تھے جب مرض میں اضافہ ہوگیا تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کے بعد دو دن تک نمازیں پڑھائیں پھر حضورﷺ نے رحلت فرمائی۔
اور یہ مسئلہ تو سنی و شیعہ میں مسلم ہے کہ افضل کو امام بنایا جاتا ہے من لا یحضرہ الفقيه باب الامامتہ میں ایسی کئی احادیث ہیں مثلاً
1: حضورﷺ نے فرمایا قوم کا امام ان میں سے افضل ہوتا ہے تو تم اپنے افضل کو امام بناؤ صفحہ، 103۔
2: نیز فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ اپنی نمازیں ستھری پڑھو تو اپنے بہترین لوگوں کو پیشِ امام بناؤ۔ نیز حضورﷺ نے فرمایا جس نے کسی قوم کو نماز پڑھائی اور ان میں اس سے زیادہ عالم بھی تھا تو ان کا معاملہ قیامت تک نقصان میں رہے گا صفحہ، 103۔
7: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقتدی تھے:
حضرت علیؓ نے بھی بحکمِ نبوی امامت حضرت ابوبکرؓ کو بسر و چشم قبول کر کے آپ کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے رہے۔ شیعہ کی معتبر کتاب تفسیر قمی اور احتجاج طبرسی صفحہ، 60 پر ہے۔
ثم قام وتهيأ للصلواة وحضر المسجد وصلی خلف ابی بکرؓ۔
ترجمہ: پھر آپ اٹھے نماز کی تیاری کی اور مسجد میں آکر حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔
شیعہ مجتہد محمد باقر اصفہانی نے مشہور کتاب مرأة العقول: صفحہ، 388 پر بعینہٖ یہ عبارت نقل کر کے حضرت علیؓ کے حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کا اعتراف کیا ہے۔
شیعہ مترجم مولوی مقبول نے بھی ضمیمہ: صفحہ، 415 پر لکھا ہے پھر وہ حضرت علی المرتضیٰؓ اٹھے اور نماز کے قصد سے وضو فرما کر مسجد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے نماز میں کھڑے ہوگئے۔
شیعہ کی اردو کتاب غزواتِ حیدری: صفحہ، 627 پر سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے متعلق لکھا ہے پس بے اختیار اٹھے اور گزرے وقت سے بہت گھبرائے ناچار آ کر اقامت کہی اور جماعت اہلِ دین نے معقب ان کے صف باندھی چنانچہ اس صف میں شاہ لافتیٰ بھی تھے۔
(بحوالہ رسالہ شان صدیقِ اکبرؓ: صفحہ، 113 از علامہ تونسوی)
حضرت ابوبکرؓ کی امامت نماز ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ غالی سے غالی کینہ و شعیہ ملا باقر علی مجلسی بھی اس کے اعتراف پر مجبور ہو گئے۔
ودراں وقت ابوبکرؓ در جائے آنحضرت ایستاده بود۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 560)
ترجمہ: کہ نماز کے وقت حضرت ابوبکرؓ حضورﷺ کی جگہ نماز پڑھا رہے تھے مگر یہ کہہ کر بھی دروغ گوئی کی حد کردی کہ حضرت ابوبکرؓ از خود مصلیٰ پر چڑھ گئے تھے اور کئی لوگوں نے اقتداء نہیں کی تھی بلا بغیر اجازت حضرت ابوبکرؓ مصلیٰ نبوی پر کھڑے ہونے کی جرات کیسے کر سکتے تھے جبکہ آج بھی معمولی سے امام و خطیب کے مصلیٰ و منبر پر کوئی نہیں چڑھ سکتا اور نہ نمازی مانع ہوتے ہیں اگر بالفرض ایسا ہوتا تو لوگوں کی مخالفت سے مسجدِ نبوی میں کہرام مچ جاتا حضرت ابوبکرؓ موردِ عتاب ہوتے اور یہ تواتر منقول ہوتا مگر شیعہ کی اتنی کذب بیانی سے ہیں ذرا تعجب نہیں کیونکہ تقیہ کی آڑ میں 9، 10 حصے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا ہی ان کا عین مذہب و ایمان ہے اور بقائے شیعہ کا راز اسی میں مضمر ہے۔
8: افضلیتِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر تمام امت کا اتفاق:
ساتویں وجہ افضلیت یہ ہے کہ آپؓ پر تمام امت کا اجماع ہے یہی وجہ ہے کہ:
رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ الخ۔ (سورۃ التوبہ: آیت، 100)
ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا الخ۔ (سورۃ الانفال: آیت، 174)
ترجمہ: یہی برحق مومن ہیں
هُمُ الصَّادِقُوْنَ ۞ (سورۃ الحشر: آیت، 8)
ترجمہ: یہی سچے ہیں
هُم الرَّاشِدُوْنَ ۞ (سورۃ الحجرات: آیت، 7)
ترجمہ: یہی سیدھی راہ پر ہیں کے منجانب اللہ تمغے حاصل کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بالاتفاق آپؓ کو خلیفہ تسلیم کیا اور بیعتِ برضا اور رغبت کی۔
1: حضرت اسامہؓ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کیا آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے فرمایا ہاں اور یہ بیعتِ خلافت تھی۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 56)
2: نیز احتجاج طبرسی: صفحہ، 52 پر بھی ہے۔
ثم قام فتناول يد ابی بکرؓ فبایبعہ۔
ترجمہ: پھر حضرت علیؓ اٹھا اور ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بیعت کی۔
3: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیغت کر لی اور لوگوں کو بیعت سے نہ روکا تاکہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں (کافی کتاب الروضہ: صفحہ، 139)
4: یہی وہ تین حضرات ہیں حضرت مقدادؓ حضرت ابو ذرؓ سیدنا سلمان فارسیؓ جو حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے انکاری رہے حتیٰ کہ سیدنا امیر المؤمنین سیدنا علیؓ آگئے تو انہوں نے بیعت کی پھر ان تینوں نے بیعت کرلی۔
(کافی روضہ: صفحہ، 246)
5: سیدنا علیؓ نے سیدنا سلمان فارسیؓ کو حکم دیا کہ بیعتِ سیدنا ابوبکرؓ کریں۔
وبیعت کن با ابوبکرؓ پس سلمانؓ بیعت کرد۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 676)
ترجمہ: آپ سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کریں پس سیدنا سلمان فارسیؓ نے بیعت کی۔
6: شیعہ کا دعویٰ ہے کہ سب امت نے تو برضا و رغبت حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی مگر حضرت علیؓ اور ان تین چار حضرات نے تقیہ کر کے بادل نخواستہ بیعت کی جیسے طبرسی کہتے ہیں:
ما من الامة احد بايع مكرها غير على وار بعتنا خانه بايع مكرها حيث لم يجد أعوانا۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 49)
ترجمہ: کہ امتِ محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں جس نے مجبوراً حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی ہو بجز سیدنا علیؓ اور ہمارے چار ساتھیوں کے آپؓ نے مجبوراً اس لیے کی کہ اپنے مدد گار کوئی نہ پائے۔
ان چار حضرات پر تقیہ کا بہتان غلط ہے کیونکہ انہوں نے صرف حضرت علیؓ کے حکم و عمل تک توقف کیا۔ جب آپؓ نے کر لی تو انہوں نے برضا اتباع مرتضوی میں کر لی۔
(روضہ کافی: صفحہ، 246)
سیدنا سلمانؓ نے بامرِ مرتضوی کی رہا سیدنا علیؓ کا تقیہ تو شیرِ خدا پر اس سے بڑا بہتان اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ وہ ظاہر میں کچھ ہوں اور باطن میں کچھ اور کیونکہ یہی منافقت ہے کیا شیعہ نے حضرت علیؓ کا سینہ چیر کر دیکھا تھا یا کسی بعد کی آسمانی وحی نے ان کو بتایا؟ الغرض بیعتِ علوی اور تمام مسلمانوں کا اتفاق بر صدیقؓ ثابت ہوگیا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مرتبہ کا موازنہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایک طرف سب امت اور تمام مہاجرین و انصار ہیں دوسری طرف بقول شیعہ صرف چار حضرات ہیں۔
7: نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین: جلد، 2 صفحہ، 566 میں روضۃ الصفاء کے حوالے سے تمام مہاجرین و انصار کے اتفاق کا ذکر ہے۔
8: جمیع مسلمانان با ابوبکرؓ بیت کردند و اظہار رضا و خوشنودی باو وسکون و اطمینان لسوء النمودند گفتند کہ مخالف او بدعت کننده است و خارج است از اسلام۔
(بحار الاسلام مترجمہ شریف مرتضیٰ بحوالہ اہلِ سنت پاکٹ بک: صفحہ، 313)
ترجمہ: تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپؓ سے رضا و خوشنودی کا برملا اظہار کیا اور آپؓ کے سکون و اطمینان سے تابعدار ہوئے اور فیصلہ کیا کہ آپؓ کا مخالف بدعتی ہے اور اسلام سے خارج ہے۔
نوٹ: جن لوگوں نے یہ افسانہ تراشا ہے کہ آپؓ سے جبراً بیعت لی گئی اگر آپؓ کے ساتھی ہوتے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ ہونے دیتے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ شیعہ خود بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو سفیانؓ والد سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا خلافت قریش کے کمزور خاندان میں کیسے چلی گئی اگر چاہو تو میں تمہارے لیے سیدنا ابوبکرؓ کے خلاف سوار اور پیادوں کا لشکر بھر دوں آپؓ نے اسے فرمایا تم کب سے اسلام کے دوست بنے ہو کہ افتراق کی ترغیب دیتے ہو ہم اگر حضرت ابوبکرؓ کو اس کام کا اہل نہ دیکھتے تو اسے کبھی خلیفہ نہ بناتے بلکہ اہلِ بیت کے سرخیل زید بن علی بن حسینؓ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے منبر پہ کھڑے ہو کر فرمایا آیا کوئی اس بیعت کو مکروہ سمجھنے والا ہو تو میں اسے واپس کردوں تین مرتبہ اسی طرح کہا اور ہر مرتبہ حضرت علیؓ کھڑے ہو کر یہ کہتے خدا کی قسم نہ ہم اس بیعت کو واپس کریں گے نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپؓ اس بیعت کو واپس کریں وہ کون ہے جو آپؓ کو ہٹا سکے جبکہ رسول اللہﷺ نے آپؓ کو مقدم کیا ہے۔
(کنز العمال: جلد، 3 صفحہ، 140 ابونیم و غیره)
9: عہدِ نبویﷺ ہی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے افضل سمجھے جاتے تھے:
گو سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں حضرت ابوبکرؓ کا معزز ترین ہونا معلوم ہوچکا ہے مگر اتمامِ حجت کے طور پر یہ بتلانا مقصود ہے کہ عہدِ نبوی ہی میں حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کو یہ مقام حاصل تھا اہلِ سنت والجماعت کی صحاح کی یہ حدیث مشہور ہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے زمانے میں حضرت ابوبکرؓ کے برابر پھر حضرت عمرؓ کے پھر حضرت عثمانؓ کے برابر کسی صحابی کو نہ جانتے تھے۔
(بخاری: جلد، 1 صفحہ، 523)
ابو داؤد شریف کے الفاظ یہ ہیں کہ حضورﷺ کی زندگی میں اور روایات طبرانی آپ کے سامنے ہم کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد اس امت کے سب سے افضل فرد حضرت ابوبکرؓ ہیں پھر حضرت عمرؓ ہیں اور پھر حضرت عثمانؓ ہیں اور حضورﷺ سن کر رد نہیں فرماتے تھے۔
(فتح الباری)
خود حضورﷺ بھی اسی ترتیب سے ان کا مرتبہ جانتے اور بلاتے تھے چنانچہ حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقعہ پر حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ سیدنا طلحہٰؓ سیدنا زبیرؓ کو اسی ترتیب سے بلایا۔
(کشف الغمہ وجلاء العیون کتب شیعه قصه ترویج)
شیعہ حضرات نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یوں مسخ کر کے پیش کیا ہے۔
1: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نامور قبیلوں اور ان کے اشراف و بزرگوں کی تھی اور اس جماعت میں سے کوئی ایک نہ تھا مگر بہت بڑی خلقت اس حضرت ابوبکرؓ کے تابع تھی اور اس کی فرمانبرداری کرتی تھی اور ان کے (العیاذ باللہ) خبیث دلوں کی گہرائیوں میں ان کی حضرت عمرؓ کی محبت جمی ہوئی تھی جیسے بنی اسرائیل کے دل میں بچھڑے اور سامری کی محبت رچی ہوئی تھی۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 561)
2: حضورﷺ نے غائبانہ ایک شخص کے امیر بنانے کا تذکرہ فرمایا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک نے کہا وہ حضرت ابوبکرؓ ہیں فرمایا نہ اس نے کہا کیا سیدنا عمرؓ ہیں؟ فرمایا نہ عرض کیا کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا وہ جو جوتا مرمت کر رہا ہے وہ حضرت علیؓ تھے۔
(حیات القلوب: صفحہ، 434 کشف الغمہ: صفحہ،281 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذہن میں حضرت ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی سبقت واضح ہے۔
3: سیدنا مقدادؓ کی طرف منسوب ہے مجھے اس پر غم ہے کہ قریش نے اہلبیت کی وجہ سے سب لوگوں پر عزت پائی پھر سب نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ خلافت اس کے ہاتھ سے لے لیں۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 676)
4: اور وہ دو شخص حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ جو قریش کے بت تھے اور وہ ان کو امیر المومنین اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر افضلیت دیتے تھے اور ان کا نام براںٔی سے لینے میں تقیہ کرتے تھے۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 378)
5: شیعہ پر اس اعتراض کے جواب میں کہ اگر شیعہ مذہب حق تھا تو امام اول حضرت علیؓ اپنے عہدِ خلافت میں اس کو کیوں ظاہر نہ کیا شیعہ کے علامہ نور اللہ شوستری مجالس المؤمنین صفحہ 53 پر لکھتے ہیں۔
دیگر بات یہ ہے کہ حضرت امیرِ معاویہؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں دیکھا کہ رعایا کی اکثریت بلکہ تمام سیدنا ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی حسنث سیرت کے معتقد میں اور ان کو برحق جانتے ہیں تو اس پر قدرت نہ پائی کہ ایسا کام کریں جس سے ان کی خلافت میں خرابی لازم آئے اور قدرت کیسے رکھتے جبکہ اس زمانہ کی اکثریت بلکہ سب کا اعتقاد یہ تھا کہ حضرت امیرِ معاویہؓ کی امامت خلفائے ثلاثہؓ کی امامت پر مبنی ہے اور ان کی امامت کے فساد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت فاسد ہوگی اور مشہور ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نمازِ تراویح سے جو بدعت عمری ہے (معاذ اللہ) منع کیا سب لوگ چیخ اٹھے اور آوازیں بلند کیں کہ واہ عمرؓ واہ حتیٰ کہ حضرت نے مصلحت وقت کے لیے ان کو اسی حال پر چھوڑ دیا خلاصہ یہ کہ حضرت امیرِ معاویہؓ کی خلافت برائے نام سے زیادہ نہ تھی انتہیٰ بلفظہٖ
شیر خدا کے شیعہ مذہب ظاہر نہ کرنے کا یہی جواب۔ دلدارِ علی نے اساس میں مولوی حامد حسین نے استقصاء میں حتیٰ کہ زمانہ حال کے مؤلف تجلیات صداقت محمد حسین ڈھکو وغیرہ نے دیا ہے اور دیتے آئے ہیں جس کی سخافت ظاہر ہے۔
الغرض حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے کیا بلکہ اپنے دل سے بھی شیرِ خدا جیسی طاقت نہ مٹا سکی کیونکہ آپؓ سے خود علی الاعلان ان کی تعریفیں نہج البلاغہ میں مسطور میں، بلکہ ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ میں ہے کہ حضرت علیؓ سے 80 سندوں کے ساتھ برسرِ منبر یہ مقولہ مروی ہے۔
خير هذه الأمة بعد نبيها ابوبکرؓ ثم عمرؓ ثم عثمانؓ۔
ترجمہ: پیغمبرﷺ کے بعد اس امت کے سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ ہیں۔
شرم و حیاء جیسے انسانی جوہر سے محروم باقر علی مجلسی جیسے متعصب اس حقیقت کو بے شک قریش کے بتوں یا بنی اسرائیل کے بچھڑے اور سامری سے تعبیر کریں مگر یہ تو بتائیں بت شکن سروت کائنات نے ان بتوں کو کیوں گلے لگایا عمر بھر دربار میں اور پھر روضہ اقدس و برزخ میں کیونکر رفاقت بخشی اور خسر کا اعزاز کس لیے بخشا کیوں ان کی خلافت کی بشارت سنائی۔
ان ابابکرؓ يلي الخلافة بعد ثم بعده ابوك فقالت من انباك هذا قال نباتی العليم الخبير۔
ترجمہ: حضرت ابوبکرؓ میرے بعد متصل خلیفہ ہوں گے اس كے بعد تیرے والد حضرت عمرؓ ہوں گے حضرت آپ کو کس نے بتایا فرمایا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔
(تفسیر قمی: صفحہ، 354 مجمع البيان: جلد، 5 صفحہ، 314- تفسیر صافی: صفحہ، 523 حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 610 باضافہ لفظ جودر)
مجلسی جلیوں کے جور کے اضافے ہم پر حجت نہیں اگر وہ یہ پیوند نہ لگائیں تو کتبِ شیعہ میں یہ بشارت کیسے راہ پائے؟
سوال: یہ ہے کہ حضورﷺ نے ان بتوں کو توڑا کیوں نہیں۔ اس سامری اور بچھڑے کو ریزہ ریزہ کیوں نہ کیا کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا سامری اور بچھڑہ ان کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کا خلیفہ بنا رہا؟ اور کیا حضورﷺ نے سنتِ موسوی کو ترک کر کے اپنے مشن کو نقصان نہیں پہنچایا؟ شرم شرم
حالانکہ آپ کے امام پنجم سیدنا باقرؒ نے فیصلہ فرما دیا ہے۔
است بمنكر فضل ابی بکرؓ و لست بمنكر فضل عمرؓ ولكن ابابکرؓ افضل۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 24 بحوالہ آفتابِ ہدایت)
ترجمہ: میں نہ سیدنا ابوبکرؓ کی شان کا منکر ہوں نہ سیدنا عمرؓ کی شان کا لیکن اعتقادیہ ہے کیا سیدنا ابوبکرؓ سب سے افضل ہیں۔
ازالۃ الخفاء کے حوالے سے حضرت علیؓ سے تفضیل شیخینؓ کا جو مشہور جملہ ہم نے نقل کیا ہے کئی سندیں راقم کی نظر سے مسند احمد مرویات علیؓ میں سے گزریں مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 106 پر چھ سندوں میں سے ایک کا نمونہ یہ ہے۔
آپؓ نے اپنے ساتھی ابو جحیفہ سے فرمایا کیا میں تم کو اس امت کے سب سے افضل بعد از پیغمبرﷺ حضرات نہ بتاؤں؟ اس نے کہا بتائیے آپؓ نے فرمایا: میرے اعتقاد میں ان سے افضل اور کوئی نہیں ہے نبی کے بعد اس امت میں سے سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ ہیں سیدنا ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ ان کے بعد ایک اور تیسرے حضرت عثمانؓ ہیں جن کا نام نہ لیا نیز نہج البلاغہ کی مصدق وہ کئی روایات بھی ہیں جن میں شیخینؓ کی خلافت کی تصدیق ہے مثلاً دو ملاحظہ ہوں۔
1: حضرت علیؓ نے جنگِ جمل کے دن فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے خلافت کے متعلق کوئی صریح چیز نہ دی تھی جسے ہم لیتے ہاں یہ چیز ہمارے اپنے مشورے سے ہوئی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے اللہ کی آپؓ پر رحمت ہو تو آپؓ نے دین قائم کیا اور خود بھی دین پر جمے رہے۔ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اللہ کی ان پر رحمت ہو تو دین قائم کیا اور مستقیم رہے حتیٰ کہ دینِ اسلام نے اپنا سینہ زمین پر ٹیک دیامضبوطی سے قائم ہوگیا۔
(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 114)
دوسری روایت میں یہ تصریح بھی ہے کہ حضرت صدیقِ اکبرؓ خلیفہ ہوکر حضورﷺ کے عمل اور سیرت پر چلے اور حضرت عمرؓ خلیفہ ہو کر حضرت ابوبکرؓ کرنے کے عمل اور سیرت پر چلے حتیٰ کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی۔
(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 118)
حضرت صدیقِ اکبرؓ کی فضیلت میں قلم کو یہاں بریک لگا کر مختصر شیعہ دوست کے اس کفریہ جملہ پر کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت علیؓ بعد از رسولﷺ تمام کائنات سے افضل و اکمل ہیں۔
انبیاء علیہم السلام سب کائنات سے افضل ہیں:
واضح رہے کہ یہ صرف غالی شیعہ کا اپنا کفریہ عقیدہ ہے جو مفوضہ کی ایجاد ہے اور ان کے خاتم المحدثین مجلسی نے تو اور ہی کمال کر دیا ہے لکھتے ہیں۔
اکثر علماء شیعہ را اعتقاد است کہ حضرت امیر و سائر آئمہ افضلند آںٔمہ سائر پیغمبراں و احادیث مستفیضہ بلکہ متواترہ از آںٔمہ خود دری باب روایت کرده اند
(حیات القلوب: صفحہ، 526)
ترجمہ: اکثر علماء شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت امیر اور باقی سارے اںٔمہ باقی سارے پیغمبروں سے افضل ہیں اور احادیث مشہورہ بلکہ متواترہ اس باب میں اپنے پیشواؤں سے نقل کی ہے۔
مگر کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں ہو سکتا اور نہ قرآن و سنت اور احادیث اس کی اجازت دیتی ہیں۔ قرآن پاک میں ایک رکوع میں 18 انبیاء علیہم السلام کا اجمالی تذکرہ کر کے اللہ پاک فرماتے ہیں۔
وَكُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞(سورۃ الانعام: آیت، 86)
ترجمہ: اور ہم نے ہر ایک کو تمام عالموں پر فضیلت دی (ترجمہ مقبول)
آگے فرمایا: اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ ؕ فَاِنۡ يَّكۡفُرۡ بِهَا هٰٓؤُلَۤاءِ فَقَدۡ وَكَّلۡنَا بِهَا قَوۡمًا لَّيۡسُوۡا بِهَا بِكٰفِرِيۡنَ۞
اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰٮهُمُ اقۡتَدِهۡ الخ
(سورۃ الانعام: آیت، 89، 90)
ترجمہ: وہ وہی ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا کی وہ وہی تو ہیں جن کو اللہ نے راستہ دکھلایا ہے پس اے رسولﷺ تم ان ہی کے راستے پر چلو۔(ترجمہ مقبول)
جن نفوس قدسیہ کو اللہ تعالیٰ تمام جہانوں پر فضیلت بخشیں اور کتاب، حکومت اور پیغمبری عطا فرمائیں اور بواسطہ پیغمبر حضورﷺ کی امت کو بھی ان کی پیروی کا حکم ہے کتنے ظلم اور افسوس کی بات ہے کہ امتِ محمدیہﷺ کے 12 حضرات شیعی ائمہ انبیاء علیم السلام سے افضل ہونے کا دعویٰ کریں۔ حالانکہ وہ خود انبیاء علیہم السلام کے مقتدی اور پیرو کار ہیں ان کی وراثت علمی سے خوشہ چینی کرنے والے ہیں ان پر نہ کتاب اتری نہ ان کو شریعت اسلامیہ نافذ کرنے کی حکومت ملی نہ نبوت سے سرفراز ہوئے پھر افضلیت کیسی؟ یہ دعویٰ توچہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد کا مصداق ہے۔
اگر اپنی مخصوص موضوع روایت کے پیش نظر شیعہ کا یہ اعتقاد ہو کہ ان پر بھی کتاب اتری۔
(12 صحاںٔف 12 اںٔمہ کے لیے) یہ بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے مماثل و ہمسر معصوم واجب الاتباع اور احکامِ شرع کے حلال و حرام بنانے میں خود مختار ہیں اور امت کے لیے براہِ راست مقتدا اور پیشوا ہیں (جیسے کہ کافی سے تفصیل سوال 20 کے تحت آئے گی) تو پھر کھل کر ان کو پیغمبر کہہ دیں اور ختمِ نبوت کا انکار کر کے ایک الگ امت کہلائیں اور مسلمانوں کا پیچھا چھوڑیں سنی شیعہ نزاع ختم کرنے کا یہی نسخہ اکسیر ہے۔(دیده باید)
شیعی احادیث میں بھی انبیاء کرام علیہم السلام افضل ہیں
اںٔمہ کی انبیاء کرام علیہم اسلام پر افضلیت کا عقیدہ شیعہ احادیث کے بھی خلاف ہے اصول کافی باب الفرق بین الرسول والنبی والمحدث امام میں رسول اور نبی کی تعریف کے بعد امام کی تعریف میں سیدنا باقرؒ کا ارشاد منقول ہے کہ امام وہ ہوتا ہے جو نیند میں فرشتہ کی آواز سنتا ہے مگر (نبی اور رسول کی طرح) فرشتہ کو دیکھ نہیں سکتا۔
2: پیغمبر نبوت اور علمِ امامت دو چیزوں کا حامل ہوتا ہے مگر امام کو صرف علمِ امامت ملتا ہے۔
(کافی: جلد، 1 صفحہ، 16)
3: حضرت جعفر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کرام علیہم السلام کو آتی ہے پھر ان کے بعد والوں کو پھر ان کے بعد والوں کو۔
(کافی: جلد، 1 صفحہ، 251)
4: ہم سب لوگوں سے زیادہ ابتلاء انبیاء کرام علیہم السلام کو ہوتا ہے پھر اوصیاء کو پھر ان کے بعد والوں کو درجہ بدرجہ ہوتا ہے۔
(کافی: جلد، 1 صفحہ، 251)
جب ابتلاء درجہ بندی کے سخت ہوتا ہے تو سب سے زیادہ ابتلاء والے اولاً مذکور انبیاء کرام علیہم السلام تمام اوصیاء سے افضل ٹھہرے اور یہ بالکل واضح ہے
عقلاً بھی یہ عقیدہ لغو ہے کیونکہ شاگرد اساتذہ کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا نہ تابع متبوع سے بڑھ سکتا ہے ہائی کلاسز کے درجہ اول کے طلباء خواہ وہ مانیٹر ہی کیوں نہ ہوں ادنیٰ کلاسوں کے معلمین کے برابر علم یا رتبہ میں نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ ان سے افضل مانے جائیں اس سے بعض شیعوں کے اس ڈھکوسلے کا جواب بھی ہوچکا جو کہتے ہیں کہ جب حضورﷺ کی نبوت ہمہ گیر اور وسیع ہے تو آپ کے ماتحت راہبروں کا مرتبہ بھی سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام سے بڑا ہونا چاہیئے کیونکہ کسی بڑی ترقی یافتہ مملکت کا لازم درجہ اول ہی کیوں نہ ہو ملازم ہی ہے وہ اصولاً کسی صورت میں کسی چھوٹی حکومت کے سربراہ اور صدر کا اعزاز کبھی نہیں پا سکتا۔