مذہب اہل سنت و الجماعت کی بنیاد چارا اصولوں پر ہے۔ 1: قرآن مجید 2: حدیث المصطفىٰ 3: اجماع 4: قیاس سقیفہ کی کاروائی کو پیش نظر رکھ کر ارشاد فرمائیں کیا خلافت ثلاثہ قرآن مجید سے اور حدیث سےثابت ہے یا کہ اجماع کی مرہون منت ہے ہاں اگر اجماعی خلافت ہے تو قرآن مجید: وَلَا رَطۡبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞ (سورۃ الانعام: آیت 59) پر غور فرما کر ارشاد فرمائیں ان بزرگوں نے قرآن پاک سے اپنی خلافت کو کیوں ثابت نہ کیا جب کہ قرآن مجید میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے اگر سقیفہ کی کاروائی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی تصدیق میں کوئی آیت و حدیث پیش نہیں کی تو آج کا مسلمان کیا حق رکھتا ہے کہ وہ ان بزرگوں کی خلافت قرآن و حدیث سے ثابت کرے۔
مولانا مہرمحمد میانوالیالجواب: شیعہ دوست کے اعتراف کے مطابق الحمد للہ اہل سنت کے مذہبِ برحق کی بنیاد چار چیزیں ہیں جیسے مکان کی چار دیواریں بنیاد ہوتی ہیں قرآنِ حکیم اور حدیثِ مصطفیٰ کا بنیاد مذہب حقہ ہونا تو واضح ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوۡهُ الخ۔
(سورۃ الانعام: آیت 155)
ترجمہ: اور یہ کتاب جسے ہم نے نازل فرمایا ہے با برکت ہے پس اس کی پیروی کرو۔
وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا الخ۔
(سورۃ الحشر: آیت 7)
ترجمہ: جو تمہیں رسولﷺ دیں لے لو اور جس سے منع کریں باز آ جاؤ۔
اجماعِ امت بھی تیسرے نمبر یہ بنیاد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت کے کسی ذو معانی یا مشکل مسئلہ کا فیصلہ کرنا ہو تو سب امت کے اتفاق سے یا اہلِ علم حضرات کی اکثریت سے جو فیصلہ ہو گا وہی برحق اور مرادٹ خدا و رسول سمجھا جائے گا یا کوئی نیا مسئلہ در پیش ہو اور قرآن و سنت سے اس کا واضح حکم نہ مل سکے تو امت کے معتمد علماء اس کا جو فیصلہ بالاتفاق کریں گے وہ حجت سمجھا جائے گا۔
اجماع کا جواز عقلاً بھی ہے اور سمعًا بھی عقلی دو دلیلیں ہیں:
1: قرآنِ حکیم اور جملہ دینِ خداوندی ہم پچھلوں تک چند وسائط سے پہنچا اور ان وسائط کا قطعی یقینی اور محفوظ عن الخطاء والحصبیان ہونا ضروری ہے پہلا واسطہ حضرت جبریل علیہ السلام کا ہے جو قطعی امین ہیں آنکه اِنَّهٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ كَرِيۡمٍ ۞(سورۃ التکویر: آیت 19)
ذِىۡ قُوَّةٍ عِنۡدَ ذِى الۡعَرۡشِ مَكِيۡنٍ ۞(سورۃ التکویر: آیت 20)
مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيۡنٍ ۞(سورۃ التکویر: آیت 21)
ترجمہ: بے شک وہ روایت ہے ایک بزرگ فرشتے جو صاحب طاقت خدا کے ہاں معزز اپنے حلقہ میں متبوع ورئیس ہے اور پھر امانت دار ہے۔
دوسرا واسطہ خود سرور دو عالمﷺ کا ہے جن کا جملہ گناہوں سے اور تبلیغ رسالت میں ہر قسم کی بھول چوک سے معصوم و محفوظ ہونا متفقہ مسئلہ ہے۔
وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰى ۞(سورۃ النجم آیت 3)
اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ ۞(سورۃ النجم آیت 4)
دین کے بارے میں پیغمبر یہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان کو بھیجی جاتی ہے۔
تیسرا واسطہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے جو نزولِ قرآن و شریعت کے عینی شاہد ہیں براہِ راست زبانِ رسالت مآب سے تحصیل سماع تلقی بالقبول کر کے دین و دنیا کی تمام کامرانیان سمٹینے والے ہیں حجتہ الوداع کے موقعہ پر ان کو مبلغِ امت ہونے کی سند اور اجازت بھی مل گئی فَلْيُبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ حاضرین غائبین تک میرے یہ احکام پہنچا دیں۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 536 خطبہ حجۃ الوداع)
اس طبقہ اولیٰ کی طرح بدستور ہمارے زمانہ تک اور تاقیام ساعت آئندہ نسلیں اس بات کی مکلف ہیں کہ وہ پہلوں سے دین و شریعت سیکھ کر پچھلوں تک پہنچائیں ہر زمانہ میں کروڑوں نفوس کا ایک چیز سیکھنا اعتقاد رکھنا اور پھر عمل کر کے دوسروں تک پہنچا دینا یہی اجماعِ امت کی حقانیت و صداقت پر دلیل ہے اگر حضرت جبرئیل علیہ السلام و محمد مصطفیٰﷺ کی طرح یہ واسطہ قطعی نہ ہو اور امت مجموعی طور پر تبلیغِ دین میں غلطی اور سہو سے پاک نہ ہو تو ہم لوگ ایمان لانے کے مکلف نہ ہوں اس لیے کہ کس یقین سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قرآن خدائی کلام ہے حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول و پیغمبر تھے اور یہ وہی بعینہٖ دین و شریعت ہے جو چودہ سو سال قبل حضورِ اکرمﷺ پر نازل ہوا لہٰذا اجماعِ امت اور تواتر کا یقینی محبت ہونا ضروری ہے۔
حضورِ اکرمﷺ پر نبوت ختم ہوگئی اب آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا نہ کتاب اترے گی جس میں زمانے کے نئے مسائل تفصیلی جزئیات کی شکل میں بیان کیے جائیں گے اسلام قیامت تک رہے گا کروڑوں مسلمان بھی قیامت تک رہیں گے زمانہ کے انقلابات مختلف قوموں کے ساتھ میل جول بین الاقوامی تہذیب و تمدن سائنس کی روز افزوں ترقی برقی ایجادات دشمنِ اسلام طاقتوں کے بالمقابل تحفظِ اسلام کیلئے عصرِ حاضر کے سانٹفک طریقے وغیرہ ہزاروں مسائل ہیں جو رفتار زمانہ کے ساتھ عہدہ صحابہ سے لے کر تاہنوز پیدا ہوتے آر ہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ان مسائل کے حل کے لیے بنیادی ماخذ گو قرآن و سنت ہی ہیں اور سینکڑوں دفعات ان میں مل سکتی ہیں لیکن ان کی نشاندہی جزئیات کی تفصیل و تشریح اور ان کا تعیین ان پر عمل کے طریقے سب امت کے معتمد علماء کے اتفاق و اجماع سے منصہ شہود پر آئیں گے مسائلِ جدیدہ کے حل کے لیے اگر اجماعِ امت اور قیاس کا لچک آمیز اصول موجود نہ ہو تو اسلام ایک جامد مذہب ہی قرنِ اول کے لیے بن کر رہ جائے گا اور زمانے کی ترقی و رفتار کا چلنج قبول نہ کرسکے گا ہاں شرط یہ ہے کہ اجماع و قیاس قرآن و سنت کے تابع ہی ہوں گے گویا ان کی نسبت یہ دو فرعیں ہیں قرآن و سنت کی کسی واضح تعبیر اور حقیقت کے برعکس نہ اجماع ہو سکتا ہے اور نہ معتبر ہے اور نہ قیاس و اجتہاد کی گنجائش ہے۔
سمعی اور نقلی دلائل: اجماعِ امت کی حقانیت پر دلائل تو بے شمار ہیں یہاں چند پہ اکتفاء کی جاتی ہے ربِ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ الخ۔(سورۃ النساء: آیت 155)
ترجمہ: اور جو شخص واضح ہدایت کے بعد رسول اللہ کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے سے الگ چلے ہم اسے اُدکر پھیریں گے جدہر جائے اور جہنم میں داخل کریں گے۔
دخولِ جہنم کے لیے مخالفتِ رسول کافی ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے راستہ کی مخالفت اور غیر اتباع کو ساتھ ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ سبیل المؤمنین اتباعِ نبویﷺ سے جدا نہیں بلکہ اسی طرح واجب الاتباع راستہ ہے بلکہ اتباعِ نبویﷺ کی یہ واضح اور عملی تفسیر ہے فرض کرو ایک شخص خوارج کی طرح پیغمبر کے کسی قول یا فعل سے كلمتہ حق اريدبها الباطل کا مصداق، ناجائز استدلال کرتا ہے اور کوئی مسلمان اس کی تائید نہیں کرتا تو وہ کھلا گمراہ ہے کیونکہ اپنے دعویٰ میں گو اتباعِ رسولﷺ کرتا ہے مگر جب اتباع سبیل المؤمنین کی اسے سند حاصل نہیں یا وہ سبیل المؤمنین کا کھلا منکر و مخالف ہے تو آیت بالا کی رو سے وہ گمراہ اور جہنمی ہے شیعہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ دخول جن کا یہ حکم مخالفتِ رسول اور مخالفتِ جماعت مؤمنین کے مجمع پر لگایا گیا ہے جیسے تنہا اتباعِ رسولﷺ کا حکم قرآنِ پاک میں آیا ہے اسی طرح تنہا جماعتِ مؤمنین کی اتباع کا حکم دکھایا جائے تب اہلِ سنت کا استدلال تام ہوگا۔
(ملاحظہ ہو تفسیر مجمع البیان طبرسی زیرِ آیت ہذا پارہ 5)
لیکن اس اعتراض میں کوئی جان نہیں کیونکہ اتباع سبیل المؤمنین کو قرآن پاک نے یہ درجہ تو دے دیا کہ وہ اتباعِ نبویﷺ کے ساتھ مذکور ہے تو دونوں واجب الاتباع ٹھہرے فہو المقصود اگر مسلمانوں کے طریقہ کی مخالفت مضر نہ ہو اور اس مخالفت سے اتباعِ نبویﷺ پر حرف نہ آئے تو یہاں اس کے ذکر کا کوئی معنیٰ ہی نہیں قرآن پاک لغو بیانی سے پاک ہے۔
علاوہ ان میں اتباعِ مؤمنین کا صراحتاً اور حکماً بھی امر موجود ہے اور ان کی مخالفت حرام ہے ارشاد ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞(سورۃ التوبہ: آیت 119)
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں
کے ساتھ ہو جاؤ۔
شانِ نزول اور سیاق و سباق کی روشنی میں یہاں صادقین سے مراد وہ تمام 30، 40، 70، ہزار علی اختلاف روایاتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مراد ہیں جنہوں نے غزوہ تبوک میں حضورﷺ کا ساتھ دے کر اپنے قول و فعل کو سچ کر دکھایا۔
2: نیز وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مہاجرین و انصار کی اتباع کرنے والے بعد کے مؤمنین کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞(سورۃ التوبہ: آیت 100)
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ
ترجمہ: اسلام قبول کرنے میں سب سے پہلے اور آگے جانے والے تمام مہاجرین اور تمام انصار سے اور ان لوگوں سے جنہوں نے نیکیوں میں ان کی پیروی کی خدا ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں ان کے واسطے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہا کریں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
معلوم ہوا کہ بعد والوں کے لیے خدا کی رضا جنت میں داخلہ اور بڑی کامیابی مهاجرین و انصار کی اتباع پر ہی منحصر ہے اور اتباع اس وقت تک نہیں ہوسکتی تاوقتکہ ان کو قابلِ اعتماد سچا اور گمراہی سے محفوظ نہ مانا جائے مہاجرین و انصار اور عام امت کے اجماع کی حقانیت پر اس سے واضح دلیل کیا ہو سکتی ہے۔
چند احادیث بھی کتبِ شیعہ سے ملاحظہ ہوں:
1: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مہاجرین و انصار کے متعلق ہی فرماتے ہیں:
ما كنت الا رجلا من المهاجرين اوردت کما اوردا و اصدرت کما أصدروا وما كان الله ليجمعهم على الضلال۔ (شرح نہج البلاغہ بحوالہ تحفہ اثناء عشریہ فارسی: صفحہ، 195)
ترجمہ: میں بھی مہاجرین کا ایک فرد تھا جہاں وہ گئے میں بھی گیا جہاں سے وہ پلٹے میں بھی پلٹا یعنی بالاتفاق ہم مہاجرینِ نے خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیعت کی اللہ پاک نے ان کو گمراہی پر متفق نہیں کر دیا تھا۔
2: نیز اہلِ شام کی مذمت میں کہتے ہیں لیسوا من المهاجرين والانصار۔
(شرح ابنِ ابى الحدید: جلد، 3 صفحہ، 286)
وہ نہ مہاجر ہیں نہ انصار تاکہ ان کی بات حجت سمجھی جائے معلوم ہوا مهاجرین و انصار کا اجماع حجت ہے نیز حضرت امیرؓ کا ارشاد ہے:
3: الزهوا السواد الاعظم فان ید الله على الجماعة واياكم و الفرقت فان الشاذ من الناس للشيطان۔
(نہج البلاغہ: صفحہ، 261)
ترجمہ: بڑی اکثریت کا دامن پکڑ لو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے علیحدگی اور تفرقہ بازی سے بچو کیونکہ جماعت سے الگ شیطان کا شکار ہے جیسے ریوڑ سے الگ بحری بھیڑیے کا شکار بن جاتی ہے۔
کیا ان ارشاداتِ مرتضوی سے خلافتِ ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مہاجرین و انصار اور اجماعِ امت اور مذہبِ اہلِ سنت و الجماعت کی صداقت و حقانیت اظہر من الشمس نہیں ہے؟ ایک معجزہ میں حدیث قدسی کے طور پر من جانب اللہ حضورﷺ کو فرمایا گیا کہ تیری آل کی طرح
4: وصحابه تو بہتر انداز صحابه ایشاں واست تو بہتر انداز امنتہائے ایشان۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 164)
ترجمہ: تیرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ بھی دوسروں کی امتوں سے افضل اور بہتر ہیں۔
معراج کی رات آپﷺ نے شراب اور دودھ میں سے دودھ کو اختیار کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے بشارت دی۔
5: ہدایت یافتی تو هدایت یافتند۔
(حیات القلوب: جلد 2 صفحہ 271)
ترجمہ: آپ نے بھی ہدایت پائی اور آپ کی امت نے ھدایت پائی۔
حضورﷺ نے فرما یا حق تعالیٰ کی طرف سے میری امت کو تیسرا عطیہ یہ ملا کہ پہلی امتوں پر ان کے رسول گواہ تھے مگر
6: امت مرا گواه بر جمیع خلق گردانید چنانچہ میفر مائد لِّتَکُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 677)
ترجمہ: میری امت کو تمام مخلوق پر گواہ بنایا چنانچہ ارشاد ہے تا کہ ہو جاؤ تم اے امتِ محمدیہﷺ سب لوگوں پر قیامت کے دن گواہ۔
7: وایشان را بر گمراہی جمع نمی کند۔
(حیات القلوب: صفحہ، 138)
ترجمہ: آپ کی امت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ گمراہی پر جمع نہ کرے گا۔
8: وملت تو بهترین امتها است۔
(حیات القلوب: صفحہ، 14)
ترجمہ: آپ کی امت سب امتوں سے بہتر ہے۔
حق تعالیٰ نے سابقہ تمام امتوں پر امتِ محمدیہﷺ کو حسبِ روایت (مجلسی از حضرت علیؓ در حیات القلوب: صفحہ، 137، 139) جن 60 باتوں میں فضیلت بنتی ہے ان میں سے بعض یہ ہیں۔
9: كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ الخ
(سورۃ آلِ عمران آیت 110)
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ الخ۔
(سورۃ البقرہ آیت 143)
ترجمہ: تم سب امت ہو سے بہتر ہو کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے بنائے گئے ہو اسی لیے ہم نے تم کو اعلیٰ امت بنایا کہ تم لوگوں پر روز قیامت گواہی دو۔
10: والیشان رابر گمراہی جمع نمی کند۔
ترجمہ: اور ان کو خدا گمراہی پر جمع نہ کرے گا۔
تلک عشرة کاملہ کیا ان واضح ارشاداتِ خداوندی فرامینِ نبویﷺ اور فرموداتِ مرتضوی کی موجودگی میں اس امت کی صداقت اور اجماع کی حقانیت میں کسی کو شک و شبہ ہو سکتا ہے کیا اجماعِ امت کو حجت نہ ماننے والے اب بھی مسلمان اور امتِ محمدیہﷺ کہلائیں گے؟
قیاس کی ضرورت اور مشروعیت اجتماع کے بیان میں قدر سے گزر چکی ہے۔
نقلاً صرف ایک آیت پیش کی جاتی ہے:
وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ الخ۔
(سورۃ النساء: آیت 83)
ترجمہ: اگر وہ اس بات کو رسولﷺ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو صاحبان علم ہیں لوٹاتےتو البتہ وہ لوگ جان لیتے جو ان میں سے مسائل نکالتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ اولو الامر صاحبان اجتہاد و قیاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی سے ہوں گے اور وہ قرآن و سنت سے مشکل مسائل کا استنباط اور حل پیش کریں گے عام امت کو ان کی طرف رجوع اور پھر اتباع کرنی ہوگی شیعہ حضرات اس اصول کو عقل سے تعبیر کرتے ہیں گویا وہ عقل کو قرآن و سنت کے تابع کرنے کے بجائے نصوص کو عقل کے تابع بنا دیتے ہیں اور ان کی تاویلات کرتے ہیں جب کہ اہلِ سنت نئے مسئلے اور نصوص میں ایک مشترک علت تلاش کر کے عقل کے مطابق حلت و حرمت کا حکم اس پر لگاتے ہیں۔
شیعہ حضرات چاروں اصول کے منکر ہیں:
قارئین آپ کو تعجب تو ہوگا کہ چاروں اصول جب قرآن و سنت سے قطعاً ثابت ہیں تو شیعہ ان سے کیوں اعتراض کرتے ہیں درحقیقت وہ چاروں اصولوں کے منکر ہے تبھی تو وہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم مسلمانوں پر غیظ و غضب کے دانت بیستے رہتے ہیں خود تفصیل ملاحظہ ہو:
مسئلہ تحریف قرآن:
1: یہ قرآنِ حکیم ان کے مذہب کی بنیاد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی صحت و صداقت پر ان کو اعتماد ہی نہیں وہ اپنی دو ہزار متواتر احادیث کی رو سے اسے محرف بدلا ہوا اور خدائی تنزیل سے کم و بیش مانتے ہیں۔
1: اصولِ کافی: جلد، 1 میں یہ باب مستقل باندھا گیا ہے باب فیہ نکت ونتف من التنزیل فی الولایہ اس بات کا بیان کہ قرآن کریم میں سے عقیدہ امامت کے متعلق آیات میں خاص الفاظ نکال دیے گئے ہیں یہ باب اصولِ کافی طبع جدید تہران جلد، 1 صفحہ، 412 سے صفحہ 436 تک پھیلا ہوا ہے اس میں سے 91 آیات محرفہ کی فہرست راقم نے تیار کی ہوئی ہے تفصیل کا موقعہ نہیں اسی کتاب میں اور مقامات پر بیسیوں آیات محرفہ کا ذکر اس کے علاوہ ہے۔
2: شیعہ کے نہایت مستند ترجمہ و حواشی از مقبول دہلوی میں مسند کتبِ شیعہ کے حوالہ جات سے جگہ جگہ ان آیاتِ محرفہ کو نمایاں کیا گیا ہے تقریباً 42 عدد آیات راقم نے اپنی بیاض میں قلم بند کی ہوئی ہیں بطورِ نمونہ ملاحظہ ہو:
وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا الخ۔(سورۃ البقرہ: آیت 23)
وَلَوۡ اَنَّهُمۡ فَعَلُوۡا مَا يُوۡعَظُوۡنَ بِهٖ الخ۔ (سورۃ النساء: آیت 66)
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَظَلَمُوۡا الخ۔(سورۃ النساء: آیت 168)
3: اصولِ کافی باب النوادر میں ہے:
عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال ان القرآن الذی جاء بہ جبریل علیہ السلام سبعہ عشرہ الف آیۃ۔
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ جو قرآن حضرت جبرائیل علیہ السلام حضورﷺ پر لائے تھے وہ 17 ہزار آیتیں تھیں۔
حالانکہ موجودہ قرآن پاک میں 6666 آیات ہیں شیعہ کے خیال میں دو تہائی قرآن لوگوں نے نکال دیا۔
4: قال السید المحدث الجزائری ما معناہ ان الاصحاب قد اطبقوا علی صحۃ الاخبار المستفیضتہ المتواتر الدالہ بصریحھا علی وقوع التحریف فی القرآن۔
(فصل الخطاب: صفحہ، 3)
ترجمہ: محدث جزائری کے قول کا حاصل یہ ہے کہ سب شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کی تحریف پر صراحتاً دلالت کرنے والی احادیث صحیح مشہور اور متواترہ ہیں۔
وان الاخبار ذالک تزید علے الفی حدیث۔
ترجمہ: اور بلاشبہ یہ احادیث دو ہزار سے زائد ہیں۔
5: انھم اثبتوا فی الکتاب ما لم یقلہ اللہ لیلبلسوا علی الخلیفہ۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 125)
اور جامعین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کتاب میں وہ باتیں جما دی ہیں جو اللہ نے نہیں کیں تاکہ وہ مخلوقات کو دھوکہ دیں۔
6: فالفہ ذو اختیارھم وزادوا فیہ ما ظھر تناکرہ وتنافرہ والذی بداء فی الکتاب من الازراء علی النبی من فریت الملحدین۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 130بحوالہ اہلِ سنت پاکٹ بک)
ترجمہ: پس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے صاحبان اختیار نے اس قرآن کو جمع کیا ہے اور اس میں وہ باتیں زیادہ کردی ہیں جن کا صداقت اور فصاحت و بلاغت کے برخلاف ہونا ظاہر ہے حضورﷺ کی جو مذمت قرآن میں ظاہر ہے وہ ملحدوں کے افتراء کا نتیجہ ہے۔
معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں صرف کمی اور تحریف نہیں ہوئی بلکہ لوگوں نے اپنے کلام کا اضافہ بھی کر دیا ہے (توبہ توبہ)
ایک سوال: جب یہ قرآن شیعہ مانتے ہی نہیں تو ماننے کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں پھر سب شیعہ کی تاریخ میں صرف چار عالم ایسے کیوں ہوئے جنہوں نے تحریف کا انکار کیا اور صاحب من لا یحضرہ الفقیہ نے اپنے رسالہ اعتقادیہ میں عقیدہ تحریف کا انکار اور مذمت کیوں کی ہے تو اس کا:
جواب: یہ ہے کہ شیعہ کے بقول خود ہزاروں علماء و مجتہدین میں سے صرف چار کا تحریف کا انکار کرنا اس عقیدے کو اور پختہ کرتا ہے ان چاروں کا انکار بھی محض تقیہ کے طور پر ہے ورنہ قائلین تحریف پر انہوں نے کفر یا گمراہی کا فتویٰ کیوں نہیں لگایا موجودہ شیعہ علماء کا انکارِ تحریف بھی محض تقیہ اور تلبیس پر مبنی ہے کیونکہ حالیہ علماء میں سے میں مرزا احمد علی جیسے مجتہدین کے قرآن پر اعتراضات مشہور اور شائع شدہ ہیں مولوی مقبول کا ترجمہ و حاشیہ آیاتِ محرفہ کی نشاندہی کے ساتھ بار بار چھپ رہا ہے اور اس پر دسیوں شیعہ کے متعدد علماء کے دستخط اور تصدیقات موجود ہیں۔(طبع قدیم دہلی)
اور آیاتِ محرفہ کی انہوں نے تردید نہیں کی کیا یہ سب کاروائی اس حقیقت کے جتلانے کے لیے کافی نہیں کہ شیعہ کا اعتقادِ تحریف یقینی ہے اور انکار محض تقیہ اور مسلمانوں کے الزام سے بچنے کے لیے بمنزلہ ڈھال کے ہے اور شیعہ اس قرآنِ پاک کو کیسے مکمل اور کمی بیشی سے محفوظ مانیں جب کہ ان کے اعتقاد میں پورا قرآن سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور آج امام مہدی کے پاس موجود ہے وہ قربِ قیامت ظہور فرما کر وہ اصلی قرآن لوگوں کو پڑھائیں گے اصول کافی صفحہ 228 پر یہ باب موجود ہے۔
باب انہ لم یجمع القرآن کلہ الا الائمہ علیھم السلام وفیہ عن ابی جعفر یقول ما ادعی احد من الناس انہ جمع القرآن کلہ کما انزل الاکذاب وما جمعہ وحفظہ کما انزل الاعلی بن ابی طالب والائمہ من بعدہ وفیہ عن ابی جعفر انہ قال ما یستطیع احد ان یدعی ان عندہ جمیع القرآن کلہ ظاھرہ وباطنہ غیر الاوصیاء۔
ترجمہ: اس بات کا بیان کہ سوائے ائمہ علیہم السلام کے کسی نے سب قرآن جمع نہیں کیا۔ اس بات میں امام باقر ؒکی یہ حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں سے سوائے کذاب کے کوئی بھی یہ دعویٰ نہ کرے گا کہ اس نے منزل شدہ پورا قرآن جمع کیا۔ تنزیل کے مطابق اس کی جمع اور حفاظت سوائے علیؓ ابن ابی طالب اور ان کے بعد والے ائمہ کے کسی نے نہیں کی اور ایک دوسری روایت میں امام باقرؒ نے فرمایا سوائے آئمہ شیعہ کے کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس ظاہر وباطن پورا قرآن موجود ہے ۔
بلکہ قاضی نور اللہ شہید ثالث نے شیعی احادیث کے تعارف کے سلسلہ میں یہ اعتراف کیا ہے۔ کہ اج سنی شیعہ سب کا دین محرف اور غیر منزل من اللہ ہے۔
امام باقر ؒنے فرمایا حضورﷺ کے بعد لوگ پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلے پس خدا کے دین میں تغیر و تبدل کیا اور کمی بیشی کر دی اور اللہ کے دین میں کچھ اضافہ کیا اور کچھ کمی کر دی آج کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس پر سب لوگ قائم ہیں مگر وہ منجانب اللہ اتری ہوئی وحی کے خلاف ہے زرارہ جو بات تمہیں کہی جائے مانتے جاؤ خدا تم پر رحم کرے تاآنکہ وہ مہدی آ جائے تو تم کو ازسر نو اللہ کا صحیح دین پڑھائے گا۔
(مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 345 ترجمہ زرارہ)
ایک شبہ کا ازالہ:
کہا جاتا ہے کہ کتبِ اہلِ سنت میں بھی تحریف کی روایات پائی جاتی ہیں لیکن یہ محض جھوٹ اور مغالطہ ہے کتبِ اہلِ سنت کی ضعیف ترین روایت بھی اس مضمون کی نہیں ملے گی کہ قرآن کی فلاں آیت ان الفاظ سے نازل ہوئی تھی اور لوگوں نے اس کو یوں بدل دیا درحقیقت ہماری روایات میں دو قسم کی باتیں ہیں۔
1: نسخ: یعنی اللہ تعالیٰ بعض آیات اتار کر کچھ عرصہ کے لیے اس پر عمل کروائے پھر اس کے خلاف آیت نازل فرما کر سابق کی مدتِ عمل ختم کر دے یا اسے بالکل بھلا دے گا جیسے ایک پیغمبر کی شریعت دوسری کے لیے نسخ کا سا عمل کرتی ہے یہ حقیقت قرآن پاک سے ثابت ہے۔
ا: مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰيَةٍ اَوۡ نُنۡسِهَا نَاۡتِ بِخَيۡرٍ مِّنۡهَآ اَوۡ مِثۡلِهَا الخ۔
ترجمہ: ہم کسی آیت کو منسوخ نہیں کرتے نہ بھلاتے ہیں جب تک اس سے بہتر یا ویسی ہی نازل نہ کر دیں۔
ب: سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓى ۞ (سورۃ الاعلیٰ: آیت 6)
اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ الخ(سورۃ الاعلیٰ: آیت 7)
ترجمہ: اے رسولﷺ ہم عنقریب تم کو پڑھائیں گے پھر تم نہ بھولو گے مگر جو خدا چاہے۔
ج: اور روضہ کافی: صفحہ، 270 پر ہے کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ کا سلسلہ پایا جاتا ہے لہٰذا آیات نسخ کو مبحث تحریف میں پیش کر کے جدال کرنا نہایت نا انصافی ہے۔
2: اختلافِ قرات:
قرآنِ پاک عربی زبان میں اترا ہر زبان میں لغت گرائمر اور ادائیگی کے لحاظ سے معمولی سا فرق ہوتا ہے قرآنِ پاک میں بھی بعض قبائل کے محاورات و لہجے لغت اور صرفی و نحوی وجوہ کے پیشث نظر زبر زیر پیش کا معمولی سا اختلاف بعض روایات میں ملتا ہے یہ سب اختلاف ہے قرات کے قبیلہ سے ہے کیونکہ اس میں معنوی فرق خاص نہیں پڑتا برخلاف شیعہ کی لفظی تحریف کے کہ اس کی وجہ سے ان کے اعتراف کے مطابق "عقیدہ امامت " ولایت اہلِ بیتؓ کو قرآن سے خارج کر دیا گیا اور کفر کے ستون اس میں کھڑے کر دیے گئے۔(روضہ کافی)
علاوہ ازیں قرآنِ پاک عہدِ نبوی سے تاہنوز قطعی الثبوت اور قطعی التواتر ہے اور ہم اسے ہی قرآن کہتے ہیں نور الانوار وغیرہ میں ہے:
ھو القرآن المنزل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلا متواترا بلا شبھہ۔
ترجمہ: کتاب اللہ قرآنِ پاک ہے جو رسول اللہﷺ پر اترا اور مصاحف میں لکھا گیا ہے اور آپ سے منقول ہو کر آ رہا ہے اور بلا شبہ متواتر ہے۔
روایتیں اختلافِ قرات کی ہوں یا نسخ کی بہرحال وہ اخبار احاد ہیں متواتر اور قطعی قرآن نہیں لہٰذا ان سے معارضہ شیعہ حضرات کے عقیدہ تحریف سے نہیں ہو سکتا جو ان چھ اقراروں کے ساتھ مبینہ حقیقت ہے۔
1: روایاتِ تحریف 200 سے زائد ہیں۔
2: روایاتِ تحریف قرآن شیعہ کے مستند سے مستند کتاب اصولِ کافی تک میں ہے جو امام مہدی کی مصدقہ ہے۔
3: تحریفِ قرآن پر ہی صاف دال ہیں۔
4: قرآن کی طرح متواتر ہیں۔
5: شیعہ ان کے مطابق تحریفِ قرآن کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔
6: قرآن کا محرف ہونا نقل کے علاوہ عقل کے بھی موافق ہے کیونکہ دشمنانِ شیعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں جمع شدہ اور منقول ہے۔ اس مسئلہ کے مزید تشریح ہم سنی کیوں ہیں کے صفحہ 165 تا صفحہ 171 میں ملاحظہ کریں۔
احادیث نبیﷺ کا انکار:
2: احادیثِ مصطفیٰ بھی شیعہ مذہب کی بنیاد نہیں ہو سکتی اولاً گو شیعہ زبانی حضور ﷺ کو مرسل من اللہ مانتے ہیں لیکن تبلیغِ رسالت میں کوتاہی کا الزام ضرور لگاتے ہیں جب منصبِ نبوت سے مقصود تبلیغِ احکام کا سلسلہ پورا کامیاب نہ ہوا تو رسولﷺ کو ماننا غیر مفید ہی رہا تقیہ کا گھناؤنا الزام حضورﷺ پر بھی لگاتے ہیں چند روایت ملاحظہ ہوں:
1: سیدنا صادقؒ سے پوچھا گیا کہ آیا رسول پاکﷺ لوگوں کے خوف سے تقیہ بھی کرتے تھے فرمایا آیت وَ اللّٰهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ النَّاسِ الخ(سورۃ المائدہ: آیت 67)
ترجمہ: اللہ پاک اپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ نازل ہونے کے بعد تقیہ نہیں کیا پہلے کبھی کبھی کرتے تھے۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 118)
حضورﷺ کے حج کے متعلق جو مختلف احادیث آئی ہیں ممکن ہے بعض تقیہ پر محمول ہوں۔
(ایضاً جلد، 2 صفحہ، 537)
3: حضورﷺ کو بار بار ولایتِ سیدنا علیؓ کی تبلیغ کا حکم ملا اور یہ کہ اس کا منکر کافر اور بیعت میں شریک کرنے والا مشرک ہے۔
پس حضرت رسول تر سید از قوم خود مبادا اہل شقاق ونفاق پرا گندہ شوند و بجاہلیت وکفر خود بر گردند۔ (ایضاً صفحہ، 542)
ترجمہ: پس رسولﷺ اپنی قوم سے ڈر گئے مبادا مخالف منافق بگڑ جائیں اور جاہلیت و کفر کی طرف پلٹ جائیں۔
4: رسول خدا از ترس قوم خود بغار رفت وقتیکہ ایشاں رابسوئے خدا دعوت میکرد۔(جلاءالعیون: صفحہ، 259)
ترجمہ: رسولِ خداﷺ اپنی قوم سے ڈر کی وجہ سے غار میں چھپ گئے جب ان کو خدا کی طرف دعوت دیتے تھے۔
5: لشکرِ حضرت اسامہؓ کی تیاری لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنا۔ اور فضائل قتال و شہادت بیان کرنا محض اس وجہ سے ہے۔
مدینہ ازیشاں خالی شودو احدے از منافقان در مدینہ نماند۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 559)
ترجمہ: تاکہ مدینہ ان سے خالی ہو جائے اور کوئی منافق مدینے میں نہ رہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نزاع خلافت کوئی نہ کر سکے
غور کیجئے جب حضورﷺ بھی لوگوں کے ڈر سے تقیہ کریں ارکانِ حج بھی غلط ادا کریں سیدنا علیؓ کی ولایت کی تبلیغ میں سستی کریں دعوتِ توحید دیتے ہوئے قوم سے ڈر کر غار میں چھپ جائیں تو دین کے کس مسئلہ پر اعتماد رہے گا اور کون سی حدیثِ مصطفیٰﷺ قابلِ عمل ہوگی جب کہ(العیاذ باللہ) آپﷺ کی نیت جیشِ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے جہاد سے مدینہ کو منافقوں سے خالی کرانا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی راہ ہموار کرنا ہے مگر صدِ افسوس آپﷺ کی آخری تدبیر بھی ناکام ہو گئی وہ منافق خلافت پر قابض ہو گئے۔
کیا حضورﷺ کی حسنِ نیت اور کامیابی مقصد پر اس سے بدترین حملہ بھی ہو سکتا ہے؟ کیا شیعہ نے بعثتِ رسالت کی ناکامی پر صریح شہادت نہ دے دی؟
ثانیاً: جب شیعہ حضرات حضورﷺ کی عمر بھر تبلیغی جد و جہد کے بعد بھی صرف تین چار آدمیوں کے آپﷺ سے ایمان و ہدایت پانے کے قائل ہیں حالانکہ یہ بھی مغالطہ ہے کیونکہ کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 179 کے بیان کے مطابق حضرت ابوذرؓ حضرت سلمانؓ حضرت ابوالدر داءؓ حضرت علیؓ کی شاگردی اور اتباع سے مؤمن و فیض یافتہ ہیں اور سوائے حضرت مقدادؓ کے حضرت سلمانؓ حضرت ابوذرؓ اور حضرت عمارؓ کو بھی ایمان میں شک تھا۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 676 از شیخ کشی بسند حسن از امام باقر)
باقی سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تو وہ کھلا مرتد کہتے ہیں۔
(اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 246 وغیرہ)
تو وہ حدیثِ مصطفیٰﷺ کسی صحابی سے حاصل نہیں کر سکتے اور نہ رسالت پر دعویٰ ایمان کوئی عقلمند تسلیم کرے گا یہ انکار ایسا ہی ہے کہ ایک شخص کہے میں اس ڈاکٹر کو نہیں مانتا کیونکہ یہ جعلی سند رکھتا ہے دوسرا کہے میں بھی علاج نہیں کروا سکتا کیونکہ مستند تو ہے مگر سوائے گھر کے چند آدمیوں کے بیمار ہی کبھی نہ ہوئے جن ہزاروں مریضوں کا اس نے علاج کیا سب مر گئے ایک بھی صحت یاب نہ ہوا ظاہر ہے کہ یہ دونوں اس ڈاکٹر کے منصب کے منکر ہیں ایک ظاہر دوسرا باطن مگر دوسرا زیادہ خطرناک ہے۔
ثالثاً: رہا بواسطہ حضرت علیؓ حدیث مصطفیٰﷺ کا بنیاد مذہب ہونا یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ شیعہ کے اعتقاد میں حضرت علیؓ کا علم حضورﷺ کی تعلیم اور واسطے سے ہے ہی نہیں بلکہ وہ پیدائشی منجانب اللہ لدنی اور عطائی ہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پیدائشی جاہل اور کافر نہ تھے کہ حضورﷺ سے علم اور اسلام سیکھتے باقر علی مجلسی لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے پیدا ہوتے ہی حضرت نوح علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تورات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل ایسے سنا دی کہ ان انبیاء سے بھی افضل یاد تھی جن پر یہ نازل ہوئیں اور اگر وہ ہوتے تو اعتراف بھی کر لیتے۔
پس قرآنے کہ بر من نازل شد تلاوت نمود بے آنکہ از من بشنود۔(جلاء العیون: صفحہ، 180)
ترجمہ: جو قرآن مجھ پر بعد میں نازل ہوا وہ بھی مجھ سے سنے بغیر فر فر سنا ڈالا۔
جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے سنے بغیر قرآن پڑھا ہوا تھا حالانکہ آٹھ سال قبل از بعثت نزولِ قرآن کا بھی تصور نہ تھا تو قرآن کی تعلیم اور تشریح میں بدرجہ اولیٰ آپ محتاجِ پیغمبرﷺ نہ تھے چنانچہ آپ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ الخ(سورۃ البقرہ: آیت 129)
ترجمہ: وہ نبی ان مؤمنوں کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ کے عموم سے خارج ہیں لہٰذا شیعہ کی منزل بر پیغمبرﷺ قرآن اور اس کی تعلیم و حکمت سے محرومی بالکل واضح ہے یہی نبوت کا کھلا انکار اور حدیثِ مصطفیٰﷺ سے حرمان کی دلیل ہے اور ان کو حدیثِ مصطفیٰﷺ کی ضرورت کیسے ہو وہ تو نبوت کے برعکس امامت کو مانتے ہیں اور یہ بھی مثلِ نبوت منجانب اللہ خدائی عہدہ ہے جو اتباعِ نبویﷺ کے بجائے انتخابِ خداوندی سے ملتا ہے امامت رسالت سے بھی افضل ہے عصمت نزولِ وحی حلال و حرام میں خود مختاری نئی امت بنامِ شیعہ کی تاسیس اس کے انکار پر فتویٰ کفر میں نبوت کے ساتھ شریک ہے لفظاً اصطلاحی فرق کے علاوہ کوئی شیعہ نبوت و امامت میں واقعی امتیاز نہیں بتلا سکتا۔
شیعہ اور اہل سنت میں فرق:
شرعِ نبویہ کے بجائے شرحِ امامیہ شیعہ کا معمول ہے کیونکہ مسلمان تو وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا الخ۔(سورۃ الحشر: آیت 7)
ترجمہ: جو تم کو رسول دیں وہ لو اور جس سے وہ روکیں رک جاؤ۔ پر عمل پیرا ہیں مگر شیعہ مذہب کے امام جعفرؒ فرماتے ہیں:
ما جاء بہ علیؓ اخذہ وما نھی عنہ انتھی عنہ۔
جو شریعت سیدنا علیؓ لائے ہیں میں وہ لیتا ہوں اور جس سے وہ روکیں رکتا ہوں۔
مسلمان تو صرف حضورﷺ کو افضل الخلق اور آپﷺ کے برابر سب پیغمبروں کو بھی نہیں مانتے مگر شیعہ امام فرماتے ہیں۔
جوی لہ من الفضل ما جری لمحمد ولمحمد الفضل علی جمیع من خلق اللہ وکذلک یجری الائمہ للھدے واحد العد واحد۔
ترجمہ: حضرت علیؓ کی وہی فضیلت ہے جو محمدﷺ کی ہے محمدﷺ خدا کی تمام مخلوق پر سوائے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضیلت رکھتے ہیں یہی مساویانہ مرتبہ اور شان یکے بعد دیگرے ائمہ ہدیٰ کی ہے۔
مسلمان تو حدیثِ مصطفیٰﷺ کو ہی حرزِ جان اور واجب العمل جانتے ہیں مگر شیعہ حضرات احادیث ائمہ کے قائل اور ساری شریعت ان سے لیتے ہیں۔
مسلمان تو مصدر اتباعِ فاتبعونی کے تحت صرف حضورﷺ کو مانتے ہیں مگر شیعہ امام حضرت علیؓ کی دعوت دیتے ہیں۔
کان امیر المؤمنین الباب الذی لا یؤتی الا منہ وسبیلہ الذی الامن سلک بغیرہ یھلک۔ (اصولِ کافی: صفحہ، 117 ط لکھنؤ)
ترجمہ: امیر المؤمنین ہی صرف وہ دروازہ ہیں جس میں داخل ہونا پڑتا ہے اور وہ راستہ ہیں جس پر چلنا ضروری ہے سنو جو اس راستے کے بغیر چلا ہلاک ہوا۔
مسلمان تو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کو اپنانے میں فخر جانتے ہیں مگر شیعہ امام کا فتویٰ ہے۔
لیس شی من الحق فی ید الناس الا ما خرج من عند الائمہ وان کل شیء لم یخرج من عندھم فھو باطل۔ (کلمہ از اصولِ کافی: صفحہ، 392)
ترجمہ: لوگوں کے ہاتھ میں کوئی بھی سچی بات نہیں بجز اس کے جو ائمہ اہلِ بیتؓ سے نکلے اور ہر وہ چیز جو ان سے نہ نکلے وہ باطل ہے۔
شیعہ ائمہ کے پاس یہ حق حسبِ بیان سابق تعلیماتِ نبویﷺ سے تو ہو ہی نہیں سکتا اس سے جدا کوئی چیز ہے جو ان ائمہ پر نازل شدہ صحائف سے ماخوذ ہے چنانچہ شیعہ کا یہ قطعی عقیدہ ہے کہ ہر امام پر ایک مستقل صحیفہ نازل کیا گیا اور وہ اسی پر عمل کرتے تھے۔
کلینی نے سند معتبر کے ساتھ روایت کی ہے کہ حریز نے حضرت صادقؒ سے پوچھا آپ لوگ جلدی وفات کیوں پا جاتے ہیں حالانکہ لوگوں کو آپ کی احتیاج زیادہ ہے۔
حضرت فرمود ہر یک ازما صحیفہ دارد کہ آنچہ باید در مدت حیات خود بعمل آورد در آں صحیفہ است چوں آں صحیفہ تمام مے شود میداند کہ وقت ارتحال اوست۔ (جلاءالعیون: فصل سوم)
ترجمہ: حضرت نے فرمایا ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک آسمانی کتاب ہے کہ جو کچھ امام کو اپنی زندگی میں کرنا ہوتا ہے وہ سب اس میں لکھا ہوتا ہے جب وہ صحیفہ تمام ہو جاتا ہے تو امام کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے مرنے کا وقت قریب ہے۔
نیز جلاءالعیون: صفحہ، 419 حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حالات میں ہے دوسری معتبر روایت میں ہے کہ رسول جلیلﷺ کی وفات کے وقت جب جبرائیل علیہ السلام ایک وصیت نامہ لائے اس کے بارہ اجزاء پر بہشت کی 12 طلائی مہریں لگائیں کہ ہر امام اپنی مہر کو اٹھائے گا اور جو کچھ اس کے نیچے لکھا ہوگا اسی پر اپنی زندگی میں عمل کرے گا معلوم ہوا کہ شیعہ ائمہ کے پاس حق وہ صحائف اور مہر زدہ وصیت نامے ہیں وہ ان پر ہی عمل کرتے اور شیعہ سے کرواتے ہیں۔
منزل بر پیغمبرﷺ قرآن اور تعلیمات نبویہﷺ سے ان کو کیا تعلق؟ کیا مرزا غلام احمد قادیانی انکارِ ختمِ نبوت ادعاءِ نبوت مسلمانوں سے الگ اسلام کی تاسیس کرنے اور مسلمانوں کی تکفیر کرنے میں فرقہ شیعہ کی گرد کو بھی پہنچ سکا ہے؟ نہیں وہ تو ان کے سامنے طفلِ مکتب ہے۔
اجماع و قیاس کا انکار:
یہاں تک قرآن و حدیثِ مصطفیٰﷺ کے شیعہ مذہب کی بنیاد نہ بن سکنے کا بیان تھا اب اجماع و قیاس کا بیان سنیئے مسلمان امت کے اجماع کے شیعہ حضرات کھلے منکر ہیں وہ تقریباً ہر مسئلے میں اصول و فروع میں حتیٰ کہ کلمہ طیبہ تک میں امتِ محمدیہﷺ سے الگ ہیں اجماعِ امت ان کا دشمن ہے اور وہ اس کے دشمن ہیں ہاں "متعہ" بلاولی اور گواہوں کے غیر خاوند والی عورت کا کسی مرد سے مقررہ اجرت پر مقررہ وقت میں رضامندی سے جنسی تعلق "بداء" خدا کا مستقبل سے بے خبر ہونا "تقیہ" سچائی چھپا کر جھوٹ ظاہر کرنا تکفیرِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جسے مسائل میں وہ اجمعت الامامیہ اتفق اہل الامام اجمع اہل التشیع فرما کر اجماعِ شیعہ کے قائل ہو جاتے ہیں ملاحظہ ہو کتبِ فقہ و اصول شیعہ
اہلِ سنت کے سامنے تو قیاس کی مذمت کرتے ہیں مگر قرآنِ کریم اور حدیثِ مصطفیٰﷺ کے برخلاف اپنے ہر مسئلہ کو ڈھکوسلوں سے ثابت کرتے ہیں فالی اللہ المشتکی ورنہ تقریر ہو یا تحریر کسی بھی شرعی مسئلہ میں ان کو عقلی دلیل دینے کا اپنے مذہب کی رو سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔
آمدم بر سرِ مطلب:
خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافتِ راشدہ قرآنِ حکیم سے بھی ثابت ہے اور حدیث مصطفیٰﷺ سے بھی اجماعِ صحابہ اور اجماعِ اہلِ بیتؓ سے بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ قرآنی آیاتِ خلافت کی پیشنگوئیاں ہیں جس کا مفاد اور اوصافِ خاصہ مجموعی طور پر تمام خلافتِ راشدہ میں پائے گئے پیشنگوئی میں عموماً ابہام اور عدمِ تعین ہوتا ہے مکمل ہونے پر اس کی صحیح صورتِ حال سامنے آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پیشنگوئی فلاں کے حق میں پوری ہوئی اس سے قبل محض آغاز پر کچھ کہنا حاضرین کے علم میں غیر یقینی سا ہوتا ہے اور غیر موزوں لگتا ہے جیسے حضورﷺ کی بعثت رسالت کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا و بشارت حضرت عیٰسی علیہ السلام کی بشارت تورات میں حضورﷺ کی رسالت کی پیشینگوئی اور 10ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاران کی چوٹیوں سے آکر غلبہ پانا مذکور ہے لیکن اس کے باوجود آپﷺ آغاز پر فرمایا کرتے تھے:
وَمَاۤ اَدۡرِىۡ مَا يُفۡعَلُ بِىۡ وَلَا بِكُمۡ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ الخ۔(سورۃ الاحقاف: آیت 9)
ترجمہ: مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟ میں کسی اور چیز کی نہیں صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔
یہ تعریف اصولِ کافی ابواب المتعہ سے ماخوذ ہے۔
اور یہی مناسب تھا کیونکہ تحریک کے آغاز پر محنت سے کام کرنا پڑتا ہے نہ کہ سابقہ پیشین گوئیوں کو اپنے اوپر منطبق کرنے لگ جانا وقت گزرنے پر وہ خود بخود چسپاں ہو جاتی ہیں اور دنیا پر اس تحریک کی صداقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے اس سے شیعہ دوست کے اس لغو جملے کا جواب ہوگیا کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی تصدیق میں کوئی آیت و حدیث پیش نہیں کی تو آج کا مسلمان کیا حق رکھتا ہے کہ وہ ان بزرگوں کی خلافت قرآن و حدیث سے ثابت کرے کیونکہ سرکارِ دو عالم نے بھی آغازِ نبوت پر انبیاء علیہم السلام کی سابقہ پیشگویوں کو نہ اپنے اوپر چسپاں کیا اور نہ اس پر ان کو دلیل بنایا بلکہ بدستور اپنے مشن میں لگ گئے اور سچے لوگوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خدا کی سونپی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کر نے لگ جاتے ہیں بحث و مناظرہ میں اور پیشینگوئیوں کے اپنے اوپر فٹ کرنے میں ایسے وقت ضائع نہیں کرتے جسے مرزا غلام احمد قادیانی دعویٰ نبوت و مسیحیت کے ساتھ ہی سابقہ پیشنگوئیوں کو بطورِ کذب اپنے اوپر منطبق کرتا تھا خدا نے اس کا جھوٹ دنیا پر آشکارا کر دیا تو کیا اب ہم بھی یہود و نصاریٰ کے سامنے سابقہ انبیاء کی پیشنگوئیاں بابتِ نبوت پیش نہ کیا کریں؟ مزہ اسی میں ہے کہ اپنے حق میں وہ آیات تلاوت نہ کریں تا کہ خود ستائی اورجاہ طلبی کا دم نہ ہو بلکہ دیگر حضرات ان کے حق میں وہ آیات منطبق کریں پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سورۃ نور کی آیت: وَعَدَ اللّٰهُ الخ۔(سورۃ النور: آیت 55)
ان کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر چلساں کیا۔
(شرح نہج البلاغہ فیض الاسلام نقوی: جلد 1 صفحہ 434)
حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے تو بارشادِ نبویﷺ صرف ایک جملہ سقیفہ کے دن بولا الآئمۃ من قریش آسمان و زمین اور تاریخ کا ایک ایک ذرہ گواہ ہے کہ یہ ارشاد سچا ثابت ہوا صدیوں تک جب تک مسمانوں کا متحدہ نظامِ خلافت چل رہا قریش کی حکمرانی دنیا نے دیکھی یہ شیعہ مذہب کی بات نہ تھی کہ حضور تو ان کے بقول من کنت مولاہ فعلی مولاه بقولِ شیعہ جس کا میں حاکم ہوں اس کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں سے خبر دیں مگر العیاذ باللہ وہ جھوٹی ثابت ہو اور خلافت غصب کر کے خلیفہ کوئی اور بن جائے یا اللہ تعالیٰ تو وعدہ فرما دیں:
يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّطۡفِـئُــوۡا نُوۡرَ اللّٰهِ بِاَفۡوَاهِهِمۡ وَيَاۡبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنۡ يُّتِمَّ نُوۡرَهٗ وَلَوۡ كَرِهَ الۡـكٰفِرُوۡنَ ۞(سورۃ التوبہ: آیت 32)
ترجمہ: لوگ تو چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونک سے بجھا دیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگر چہ منکر اسے برا ہی جانیں۔
اور نور سے مراد باعتقادِ شیعہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت کا قیام مراد ہو۔ (اصولِ کافی: صفحہ، 196)
لیکن اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرنے سے عاجز آجائیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلافت چھین کر پھر ان کے گلے میں رسی ڈال کر گھسواٹے پھریں۔ (جلاء العیون: صفحہ، 143)
اور الیعاذ باللہ خدا ہی اسے مکروہ جان کر خاموش ہو جائے کمال اسی میں ہے کہ خود دعویٰ خلافت نہ کریں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالاتفاق امام تسلیم کرلیں۔
(ملاحظہ ہو مجالس المؤمنيين جلد، 2 صفحہ، 576) اس میں کوئی کمال نہیں کہ جگہ جگہ جلوت و خلوت میں از خود کہتے پھریں ہم خدا کے بنائے ہوئے امام ہیں ہم ایسے ویسے ہیں ننھے معصوم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کندھے پر بٹھا کر مہاجرین و انصار کے در در پر پھریں مشکل کشا ہو کر ان سے فریاد و نصرت طلب کریں مگر پانچ آدمی بھی ساتھ نہ دیں۔(جلاء العیون: صفحہ، 141)
بالآخر مفاد پرست اپنے بہی خواہ ہی غداری کریں اور رشتہ حیات منقطع کرلیں ان اشارات کی روشنی میں کیا شیعوں کو اپنے مذہب کی سخافت اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی توہین نظر نہیں آتی؟ پھر اس عقیدے سے توبہ کیوں نہیں کرتے۔
قرآن کریم اور خلافت راشدہ 12 آیات کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وعدہ فرمایا:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡـئًــا وَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۞
(سورۃ النور: آیت 55)
ترجمہ: ان سب لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ضرور ان کو اس زمین میں جانشین بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو جانشین بنایا تھا اور ضرور ان کے دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کر لیا ہے ان کی خاطر سے پائیدار کر دے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اس وقت وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد ناشکری کرے گا پس نافرمان وہی ہیں۔
(ترجمہ مقبول: صفحہ، 427)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ:
1: خلافت اللہ کا وعدہ ہے۔
2: نزول کے وقت جو مسلمان موجود اور خطاب کے اہل تھے صرف ان سے وعدہ ہے لہٰذا حضرت علیؓ کے سوا باقی سب شیعی ائمہ اس کے مصداق سے خارج ہو گئے شیعہ مفسر طبرسی اسکے شانِ نزول میں کہتے ہیں حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا جب حضورﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مدینہ گئے اور انصار نے ان کو ٹھکانا دیا تو کُفار باقاعدہ ان سے جنگیں لڑنے ہر سال آتے تھے اور مسلمان خوفزد مسلح ہوکر رہتے تھے ایک مسلمان نے کہا کیا ایسا بھی ہوگا کہ ہم غالب ہو جائیں اور یہ خوف امن سے بدل جائے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ حضورﷺ سے راوی ہیں آپﷺ نے فرمایا زمین پر کچا اور خیمے کا گھر بھی نہیں رہے گا۔ مگر کلمہ اسلام اس میں اللہ تعالیٰ عزت یا ذلت کے ساتھ داخل کریں گے یا تو اللہ ان کو عزت دے گا اور معزز اہلِ اسلام بنا دے گا یا ان کو عاجز کر دے گا تو وہ اس دنیا کے آگے جھک جائیں گے۔
3: وہ خلفاء مؤمن کامل اور نیک ہوں گے خلفائے ثلاثہ نہ کے ایمان و عمل پر شیعی شکوک و شبہات سب زائل ہو گئے مدت العمر تقیہ کامل ایمان و عمل سے مانع ہے لہٰذا شیعی ائمہ خارج ہو گئے۔
5: لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ الخ۔ (سورۃ النور: آیت 55)
ترجمہ: یقیناً اللہ ان کو زمین میں حاکم بنائے گا وہ زمین میں یقیناً صاحبِ اقتدار خلیفہ بن کر رہیں گے کوئی ان سے غصب نہیں کر سکتا شیعی اںٔمہ کو نہ حکومت ملی نہ عوام کے دلوں پر عظمت کا سکہ بیٹھا یہ سب کچھ بقول شیعہ ان سے دوسروں نے چھین لیا
صاحبِ تفسیرِ صافی لکھتے ہیں: ای ليجعلنهم خلفاء بعد نبيهم یعنی نبیﷺ کے بعد ہی ان کو خلیفے بنائے گا اگر بقول شیعہ حضرت علیؓ و مہدی مراد ہوں تو نہ لفظ جمع کا استعمال درست ہے نہ بعدیت متصل ہے شیعہ علامہ طبرسی آیتِ ہذا کے تخت فرماتے ہیں لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ اى ارض الكفار من العرب والعجم ان کو خلیفہ بنائے گا یعنی عرب و عجم کی زمین کا حاکم بنائے گا۔
شیعہ کے معتمد مفسر کاشانی بھی آیتِ ہذا کے تحت لکھتے ہیں:
تھوڑے عرصہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کے ساتھ یہ وعدہ پورا کر دیا جزیرة العرب ممالک کسریٰ اور روم کے شہر ان کے حوالے کر دیئے شیعہ مفسر طبرسی مجمع البیان میں کھتے ہیں:والمعنىٰ ليورثنهم ارض الكفار من العرب والعجم فيجعلهم سكانها و ملوکھا۔
ترجمہ: معنیٰ یہ ہے کہ ان کو وارث بناۓ گا عرب و عجم کے کفار کی زمین کا پس ان کو اس کا حاکم اور باشندہ بنائے گا۔
تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ عرب و عجم کے مکین اور فرمانردا اور وارث خلفائے اربعہ راشدینؓ ہی بنے۔
5: كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ الخ۔(سورۃ النور: آیت 55)
ترجمہ: جسے اللہ نے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی تشبیہ سے معلوم ہواکہ یہ الفت نبیوں کی سی حکمرانی ہوگی جیسے یہ تفسیر مجمع البیان میں ہے مثل اٰدم و داؤد و سیلیمٰن اللہ تعالیٰ کی طرف استخلاف کی نسبت اس کے منافی نہیں کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان پر اتفاق کر کے ان کی بیعت کرلیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے ان کے دلوں میں عظمتِ خلفاء ڈال کر خلفاء کا انتخاب کرایا جیسے رزق ملک موت و حیات سب اللہ ہی دیتے ہیں مگر بظاہر معاون اسباب پیدا فرما دیتے ہیں اور کبھی اسباب کی طرف نسبت کر دی جاتی ہے۔
6: وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ الخ۔(سورۃ النور: آیت 55)
ان کے خدائی پسندیدہ دین کو قوت اور شان و شوکت عطا ہوگی خلفائے ثلاثہ کا دین حق ہے عرب و عجم میں شائع اور تمکین پذیر ہوا شیعی ائمہ کا دین تو ہمیشہ تقیہ میں رہا وہ صرف گنتی کے چند نفوس ہی مومن بتا سکتے ہیں۔
7: وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا الخ۔(سورۃ النور: آیت 55)
خلفائے ثلاثہ ان کا طبعی خوف امن سے بدلا کیونکہ شیعی ائمہ کو ان کے خیال میں یا خوف ہو ہی نہیں سکتا یا پھر ان کو امن نصیب ہی نہیں ہوا اور نہ خدا کے پسندیدہ دین کتاب و سنت کو قائم کر سکے
عن ابی جعفر قلت ما منعہ ان یبین للناس فقال خشی ان لا یطاع لوان عليا عليه السلام ثبتت له قدمالہ اقام کتاب الله والحق كله۔
(فروعِ کافی: جلد، 5 صفحہ، 554 ط ایران)
ترجمہ: سیدنا باقر صادقؒ سے میں نے پوچھا کہ حضرت علی کو کیا رکاوٹ در پیش آئی کر لوگوں کے سامنے
حق مذہب ظاہر نہ کرسکے تو فرمایا وہ ڈر گئے کہ ان کی پیروی نہ کی جائے گی اور اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے قدم ثابت رہتے تو کتاب اللہ اور سارے حق کو قائم کرتے۔
شیعہ مفسر اس قرآنی جملہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی اسلامی قوت اور پھیلاؤ کے ساتھ اللہ ان کو امن والا کر دے گا اس کے بعد کہ وہ مکہ وغیرہ میں خوفزدہ تھے مقاتل کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کے ساتھ بلکہ اس امت کے ان سے پچھلے لوگوں کے ساتھ بھی یہ سلوک کیا ان کو زمین میں اقتدار دیا خوف کو امن سے بدل دیا اور زمین فتوحات میں کشادگی عطاء فرمائی تو اللہ نے ان سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔
(مجمع البیان: جلد، 18 صفحہ، 68)
مگر شیعہ ائمہ اس کا مصداق ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ سیدنا باقر صادقؒ نے فرمایا:
و مارا خائف و ترسان داشتند و ایمن نبودیم برخو نہائے دوستان خود۔
(جلاء العیون: صفحہ، 264)
ترجمہ: اور ہم کو وہ لوگ ڈراتے دھمکاتے رہے ہم اپنے اور اپنے دوستوں کے قتل سے مامون و محفوظ نہ تھے۔
8: يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡـئًــا الخ۔(سورۃ النور آیت 55)
دورانِ حکومت وہ صرف خدا کے پرستار اور عابد ہوں گے نشہ اقتدار میں مست ہو کر خدا کو نہیں بھلائیں گے خلفاء کی دینداری اور اخلاص پر یہ بڑی شہادت ہے بالفرض اگر قبل خلافت زمانہ جاہلیت میں کسی سے ایسی غلطی ہوئی بھی تو مضر نہیں کیونکہ دورانِ خلافت وہ ان صفاتِ حسنہ کے ضرور شامل ہوں گے فہو المقصود اہلِ سنت کے علاوہ شیعہ کے امام اول حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی اس آیت کو خلفائے راشدین پر منطبق فرماتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مشورہ برائے عدمِ شرکت در غزوہ فارس دیتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
و هو دين الله الذی اظهره وجندی الذی اعده واحد حتیٰ بلع ما بلغ وطلع حيثما طلع ونحن علی موعود من الله والله منجز وعدہ ناصر جنده۔
(نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 40 ط مصر)
ترجمہ: اور یہی وہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے ظاہر و غالب کر دیا اور اس کا وہ لشکر ہے جسے اس نے تیار کیا اور معدودی حتیٰ کہ وہ پہنچ گیا جہاں پہنچ گیا اور چڑھ گیا جہاں چڑھ گیا ہم اللہ کے وعدے پر ہیں وہ اپنے وعدے پورے کر رہا ہے اور اپنے لشکر کی مدد کر رہا ہے۔
یہاں حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کو 1: اللہ کا غالب دین لشکرِ فاروقی کو 2: خدا کا ساختہ 3: منصور لشکر فرمایا ہے اور آیت کے 4: وعدہ کے ایفاء کی خبر دی ہے چنانچہ اسی خطبہ کے تحت شارح نهج البلاغہ فیض الاسلام: جلد، 1 صفحہ، 434 و ابنِ میثم بحرانی: جلد، 1 صفحہ، 162، 167 پر رقم طراز ہیں:
کہ یہ وعدہ آیت 1:وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا الخ۔(سورۃ النور: آیت 55)
میں مذکور ہے قدیم نہج البلاغہ کے نسخوں میں تو آیت بھی تھی مگر اب نکال دی گئی ہے۔
آیت 2: اَلَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ ۞
(سورۃ الحج آیت 41)
ترجمہ: وہ وہ لوگ ہیں جن کو گریم زمین میں تمکین اقتدار دیں گے تو وہ باقاعدہ نماز پڑھیں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور نیک کاموں کا حکم کریں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
(ترجمہ مقبول: صفحہ، 403)
اس آیت میں ان مظلوم مہاجرین کا ذکر ہے جو اپنے گھروں سے صرف توحید کے جرم میں در بدر کیے گئے اور پھر کافروں کے ساتھ ان کو جنگ و جہاد کی اجازت ملی پھر یہاں تک نصرت و حمایت کا وعدہ فرمایا کہ ان کو خلافت دینے کا بھی وعدہ فرما دیا ظاہر ہے کہ یہ دولت صرف مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ملی غیر صحابہ شیعی ائمہ نہ ان کے اوصاف سے موصوف ہوئے نہ وہ تمکین فی الارض پاكر اقامة الصلوة اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ تقیہ اور خون کی وجہ سے سر انجام دے سکے کما تقدم شیعہ تفسیر مجمع البیان جلد، 3 صفحہ، 88 میں ہے کہ اللہ سبحانہ نے یہ مہاجرین کا وصف ذکر فرمایا ہے پس معنیٰ یہ ہے کہ ان کو ہم ایسے کام کرنے کی طاقت دیں گے اور زمین میں حکمران بنائینگے تو وہ تمام حقوق سمیت نماز ادا کریں گے اور اللہ کا ذن پر فریضہ زکوٰۃ ادا کریں گے۔
آیت 3: وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّهُمۡ فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ اَكۡبَرُ الخ۔(سورۃ النحل: آیت 41)
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے بلند کیا ہے کہ ان پر
ظلم کیا گیا خدا کی خوشنودی کے لیے محبت کی ہم ضرور بہ ضرور ان کو دنیا میں رہنے کی اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت ہی بڑا ہو گا سابقہ آیت کی طرح مہاجرین سے اللہ نے دو وعدے فرمائے۔
1: دنیا میں باعزت مقام اور آخرت کی کامیابی ظاہر ہے کہ دنیا کا باعزت مقام رتبہ اور خلافت ہے الحمدللہ خلفاء کو لوگوں کے دلوں پر حکمرانی نصیب ہوئی۔
شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان: پارہ، 14 صفحہ، 77 میں ہے ہم ان کو یقیناً دنیا میں اچھی جگہ بٹھلائیں گے اور وہ مدینہ طیبہ ہے از ابن عباس:
وقيل لنعطينهم حالة حسنة ھی النصر والفتح وقيل هى ما استولوا عليه من البلاد وفتح لهم من الولایات۔
ترجمہ: ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم ان کو اچھی حالت دیں گے جو نصرت اور فتح کی ہوگی نیز تفسیر یہ بھی ہے کہ جو شہر اور ممالک ان کے ہاتھ پر فتح ہوئے حسنہ کے وعدہ سے وہ مراد ہیں۔
معلوم ہوا کہ خلافتِ راشدہ اور اس کی فتوحاتِ موعودہ الہیٰ اور آسمانی وحی کی صداقت کا مظہر تھیں۔
آیت 4: قُلْ لِّلۡمُخَلَّفِيۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰى قَوۡمٍ اُولِىۡ بَاۡسٍ شَدِيۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَهُمۡ اَوۡ يُسۡلِمُوۡنَ فَاِنۡ تُطِيۡـعُوۡا يُـؤۡتِكُمُ اللّٰهُ اَجۡرًا حَسَنًا وَاِنۡ تَتَـوَلَّوۡا كَمَا تَوَلَّيۡـتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۞
(سورۃ الفتح: آیت 16)
ترجمہ: تم ان پیچھے رہ جانے والے بدؤں سے یہ کہہ دو کہ عنقریب تم ایک بڑی سخت لڑاکا قوم کی طرف بلائے جاؤ گے دیا تو تم ان سے لڑو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے پھر اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تم کو بہت ہی اچھا اجر عنایت فرمائے گا اور اگر تم اسی طرح رو گردان ہو جاؤ گے جیسا کہ تم پہلے روگردانی کر چکے ہو تو تم کو دردناک عذاب سے معذب کریگا۔(ترجمہ مقبول)
اس آیت میں یہ پیشینگوئی ہے کہ جہاد سے جی چرانے والے اعراب کو ایک وقت میں پھر دعوت مار دی جائے گی یا الی الجہاد لڑنا پڑے گا یا وہ کافر مسلمان ہوجائیں گے۔
سنی شیعہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد عہدِ نبویﷺ میں صرف غزوہ تبوک ایسا ہوا جس میں اعراب کو دعوت دی گئی مگر اس میں جنگ ہی نہیں ہوئی اور غزوہ حنین و تبوک اس سے قبل ہو چکے تھے ان میں اعراب کو دعوت نہ دی گئی تھی لا محالہ اس کا زمانہ خلافتِ راشدہ کا ہے غزوہ شام و فارس کے لیے ان کو دعوت دی گئی یہ شیعہ تفسیر مجمع البیان: جلد، 26 صفحہ، 61 میں ہے کہ اس سے مراد مسلیمہ کذاب کے پیروکار بنو حنیفہ ہیں از زہری یا اہلِ فارس میں از ابن عبّاسؓ یا رومی ہیں از حسن بصری و کعب تو یہ تینوں دعوتیں خلافتِ راشدہ میں ہوئیں۔
یہاں داعی کی اطاعت پر اللہ نے اجرِ حسن کا وعدہ فرمایا ہے تو یہ جہاد صحیح ہوا اور داعی خلیفہ امام برحق ہوا۔
حضرت شاہ عبد العزيزؒ صاحب تحفہ اثناء عشریہ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کے مخاطب بعض قبائل اعراب ہیں جیسے اسلم جہینہ مزینہ غفار اور اشجع اور طرفین کے مؤرخین کا اجماع ہے کہ نزولِ آیت کے بعد سرورِ کائناتﷺ کے عہد میں بجز غزوہ تبوک کے ایسا غزوہ نہیں ہوا جس میں اعراب کو دعوت دی گئی ہو۔ اور غزوہ تبوک اس آیت پر منطبق نہیں ہے کیونکہ ارشاد ہے تم جنگ کرو گے اپنے حریفوں کے ساتھ یا وہ مسلمان ہو جائیں گے مگر ان میں سے ایک بات بھی تبوک میں نہ ہوئی معلوم ہوا وہ دوسرا محرکہ ہے تو یقیناً یہ داعی خلفاء ثلاثہؓ میں سے ہے کہ جس نے اعراب کو مرتدین کے مقابلے میں دعوت جہاد دی جیسے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں اور خلیفہ ثانیؓ کے عہد میں اہلِ فارس و روم کے ساتھ جنگ کی اعراب کو دعوت دی گئی۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ازالۃ الخفاء میں تقریر کا حاصل بھی یہی ہے کہ نزولِ آیت کے بعد غزوہ خیبر میں تو اعراب کو دعوت ہی ممنوع تھی
قُلْ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا كَذٰلِكُمۡ قَالَ اللّٰهُ مِنۡ قَبۡلُ الخ۔(سورۃ الفتح: آیت 15)
فتح مکہ میں جنگ کی صورت نہ تھی غزوہ حنین و طائف میں بارہ ہزار مسلح اسلامی لشکر کے مقابلے میں بنو ثقیف کمزور و ارذل تھے نہ کہ صاحبان باسِ شدید گو مسلمانوں کو کثرت کے گھمنڈ میں ابتداءً کچھ نقصان اٹھانا پڑا تو معلوم ہوا کہ یہ آیت عہدِ نبوی کے بجائے خلافتِ راشدہ کے متعلق پیشین گوئی ہے:
آیت: 5 يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ يَّرۡتَدَّ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَسَوۡفَ يَاۡتِى اللّٰهُ بِقَوۡمٍ يُّحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّوۡنَهٗۤ اَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ يُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوۡنَ لَوۡمَةَ لَاۤئِمٍ ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞
(سورۃ المائدہ: آیت 54)
ترجمہ: اے ایمان لانے والوں جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں، خدا عنقریب ایسے لوگوں کو لائے گا جن کو وہ دوست رکھتا ہے، اور اس کو وہ دوست رکھتے ہیں۔ مومنوں کے لیے وہ رحم دل ہیں، اور کافروں کے لیے سخت راہِ خدا میں جہاد کرتے ہیں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ فضلِ خدا ہے جس کو چاہے عطا کرے اور خدا تعالیٰ صاحبِ علم و وسعت ہے، (ترجمہ مقبول صفحہ: 39) عہدِ نبوی کے بعد مرتد ہونے والے لوگوں سے جہاد کرنے والے مؤمنوں کی اس آیت میں خوب توصیف و تحمید کی گئی ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ ان سے جہاد صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ اور آپ کے لشکر نےکیا منکرین زکوٰۃ مرتدین اور جھوٹے متنبیوں سے بلا خوف ملامت کنندگان حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس ثابت قدمی اور جرات و حوصلہ سے مقابلہ کیا اور ایک دن میں فوج کے دستے تیار کر کے مختلف محاذوں پر بھیجے، اور ہر طرف سے فتح پائی، یہ ایسا کارنامہ ہے کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے حضرت عمرؓ کا مقولہ مشہور ہے کہ میں اپنی عمر کے نیک اعمال سیدنا ابوبکرؓ کو صرف ایک رات اور دن کے عمل کے بدلے میں دینے کو تیار ہوں رات وہ کہ جس میں غارِ ثور میں حضورﷺ کی تنہا رفاقت و پاسبانی کی اور دن وہ جس میں مرتدین کے ساتھ جہاد کیا (مشکٰوۃ) یہ دولتِ جہاد صرف حضرت ابوبکرؓ کو حاصل ہوئی نہ حضرت علیؓ اور دیگر یازدہ شیعی ائمہ کو کیونکہ عہدِ نبویﷺ کے بعد حضرت علیؓ کو بھی نہ کُفار سے جہاد نصیب ہوا نہ سختی کرنے کا موقعہ ملا وہ تو ملامت کرنے والوں کے خوف کی وجہ سے بقول شیعہ اصلی اسلام کو بھی ظاہر و نافذ نہ کر سکے۔ (روضہ کافی صفحہ: 59، 60)
اہلِ جمل و صفین پرچسپاں کر کے حضرت علیؓ کو اس کا مصداق بنانا بھی قطعاً غلط ہے کیونکہ شیعہ اعتراف کے مطابق اہلِ جمل صرف باغی تھے اور باغی بنصِ قرآن مؤمن ہے کافر و منافق نہیں۔
(کشف الغمہ روضہ کافی: صفحہ، 180)
اور اہل شام بھی مومن و خاطی تھے جیسے تفصیلاً گزر چکا تو معلوم ہوا اس آیت کے مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آپ کا لشکر کامل مؤمن خدا کے محب اور محبوب مؤمنوں پر مہربان اور کافروں پر سخت مجاہد فی سبیل اللہ طعن و علامت سے بے نیازہ اور خدا کے خصوصی فضل سے مشرف ہیں واللہ الحمد مولانا عبدالشکور لکھنؤی اس آیت قتال مرتدین کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اسے حضرت مہدی کے عہد پر بھی چسپاں نہیں کیا جاسکتا اول یہ کہ آیت لفظ منکم بتلا رہی ہے کہ یہ پیشنگوئی صرف زمانہ نزول کے مخاطبین کے ساتھ خاص ہے اگر عام مانا جائے تو خلافِ مشاہدہ اور بطلان لازم آئے گا آج کے مرتدین پر کون سی قوم مسلط ہوتی ہے دوم بفرضِ محال عام بھی مانیں تو بھی آیت میں شرط و جزا کے بیان کے مطابق جب کبھی فتنہ ارتداد ہو تو اس پر قوم مسلط ہونی چاہئیے اور یہ مسلم ہے کہ آخر عہدِ نبوی اور خلافت اولیٰ میں فتنہ ارتداد ہوا لہٰذا ان پر قوم موصوف کا تسلط ضروری ہوا المختصر متواتر واقعات کا انکار نا ممکن ہے شیعہ کے مفسرین و مؤرخین اسے عہدِ صدیقی کے متعلق تسلیم کر رہے ہیں۔
(منہاج الصادقین وغیرہ ملخص تفسیر: 327 تفسیر آیاتِ قرآنی)
وَيَوۡمَئِذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۞(سورۃ الروم: آیت 4)
بِنَصۡرِ اللّٰهِ يَنۡصُرُ مَنۡ يَّشَآءُ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ ۞(سورۃ الروم: آیت 5)
وَعۡدَ اللّٰهِ لَا يُخۡلِفُ اللّٰهُ وَعۡدَهٗ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞(سورۃ الروم: آیت 6)
ترجمہ: اور اس دن ایمان والے اللہ کی نصرت سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے اور وہ زبردست اور بڑا حکمت والا ہے یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کبھی وعدہ کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جانتے ہی نہیں۔
(ترجمہ مقبول: صفحہ، 484)
یہ آیت غزوہ روم اور مسلمانوں کی فتح سے متعلق ہے کہ ایک وقت آئے گا فارس پر مسلمان غالب و حاکم ہوں گے اور وہ مغلوب و محکوم چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو عہدِ فاروقی میں پورا کیا اگر آپ کی خلافت برحق نہ ہوتی یا وہ ناقص الایمان ہوتے تو قرآن کی میں ایسی پیشینگوئی قطعاً نہ آتی کافی کتاب الروضہ: صفحہ، 270 پر ہے۔
کہ ابو عبیدہ نے سیدنا باقر صادقؒ سے اللہ کے ارشاد:
الٓمّٓ ۞(سورۃ الروم: آیت 1)غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۞(سورۃ الروم: آیت 2)کے متعلق پوچھا تو فرمایا اس کی حقیقت اللہ اور آلِ محمدﷺ کے پختہ عالموں کے سوا کوئی نہیں جانتا اس روم سے مراد شام اور اس کے آس پاس کے علاقے مراد ہیں یعنی فارس رومیوں پر غالب ہونے کے بعد عنقریب مغلوب ہو جائیں گے۔
يعنی يغلبهم المسلمون فی بضع سنين لله الامر من قبل ومن بعد يومئذ يفرح المومنون بنصر الله ینصر من يشاء فلما غزا المسلمون وافتتحوها فرح المسلمون بنصر الله قال قلت اليس الله عزوجل يقول فی بضع سنين وقد مضى للمومنين سنون كثيرة مع رسول اللهﷺ وفی امارة ابى بکرؓ وانما غلب المؤمنون فارس فی امارة عمرؓ فقال الم اقل لكم ان لهذا تاويلا و تفسيرا والقرآن یا ابا عبيدة ناسخ و منسوخ اما تسمع لقول الله عزوجل لله الامر من قبل ومن بعد يعنی اليه المشيئة فی القول ان يؤخر ما قدم فی القول الى يوما القضاء بنزول النصر فيه على المؤمنين فذالك قوله يؤمئذ يفرح المومنون بنصر الله ينصر من يشاء اى یوم یختم القضاء فيه بالنصر۔
ترجمہ: یعنی مسلمان کچھ سالوں میں ان رومیوں پر غالب آجائیں گے کیونکہ اختیار پہلے بھی اللہ کو ہے اور بعد میں بھی اللہ کو ہو گا اور جس دن مؤمن خوش ہوں گے اللہ کی مدد کے ساتھ وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہے پس جب مسلمانوں نے روم والوں سے جنگ کی اور اسے فتح کر لیا تو مسلمان اللہ کی مدد پا کر خوش ہو گئے۔ میں نے کہا کہ کیا اللہ نے چند سالوں کا لفظ نہ کہا تھا؟ حالانکہ مسلمانوں پر رسول اللہﷺ کے ساتھ اور حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں بہت سال گزر گئے اور مؤمنوں کو فارس پر غلبہ تو حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا تو حضرت باقرؒ نے فرمایا کہ میں نے تجھے نہ کہا تھا کہ اس آیت کی تاویل و تفسیر ہے اور اے ابو عبیدہ! قرآن میں ناسخ و منسوخ بھی ہے کیا تو نے اللہ کا فرمان نہیں سنا؟ آگے اور پیچھے اختیار اللہ کا ہے یعنی اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی بات کو مومنوں پر مدد والے یقینی دن کے لیٹ کر دے اس قولِ الہٰی سے یہی فتحِ روم مراد ہے کہ اس دن مؤمن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے یعنی اس دن میں کہ مدد کا یقینی فیصلہ کرے گا عام روایات کے مطابق تو رومیوں کے غلبے کی بشارت ہے عہدِ نبوی یعنی جنگِ بدر کے دن کہ مسلمانوں کو دوہری خوشی ہوئی تھی مگر سیدنا باقرؒ نے اس شیعہ تفسیر کے مطابق ویومئذ کو الگ مستقلِ جملہ بنا کر عہدِ فاروقی میں فتحِ روم کی پیشنگوئی بنایا اور لغت و گرائمر اس کے متحمل ہیں۔
(ولله الحمد والفضل ما شهدت به الشيعة)
کس قدر وضاحت کے ساتھ سیدنا باقرؒ نے نصرتِ خداوندی مسلمانوں کی خوشی اور فتح فارس کے ضمن میں حضرت فاروقِ اعظمؓ کی خلافت کی حقانیت اور آپﷺ کے لشکر کے ایمان و صداقت کو بیان فرمایا:
آیت 7: اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ يَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰهِ الخ۔
(سورۃ البقرہ: آیت 218)
شيعہ مفسر طبرسی سے اس آیت کا ترجمہ و تفسیر یہ ہے جو لوگ ایمان لائے یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تصدیق کی اور جو لوگ مہاجر بنے یعنی رشتہ داروں کو چھوڑا گھروں سے جدا ہوئے اپنے مال چھوڑ دیئے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا یعنی خدا کی فرمانبرداری میں جو اس کے بندوں کے لیے مقررہ راستہ ہے کفار سے جہاد کیا یہی لوگ اللہ کی رحمت سے امیدوار ہیں یعنی دنیا اور آخرت میں اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں جو دنیا میں نصرت و فتح سے ہوگی اور آخرت میں ثواب ملنے سے ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ جب بشارت الہٰی ان مہاجرین و مجاہدین کو دنیا میں فتح و نصرت حاصل ہو کر رہی اسی کا نام خلافتِ راشدہ کی صداقت ہے اور آخرت میں ثواب و اجر اور رحم اور مغفرت ضرور ملے گی جو خلافت اور ان کے پیروکاروں کے کامل الایمان جنتی ہونے کی ضمانت ہے
آیت 8: وَلَـقَدۡ كَتَبۡنَا فِى الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّكۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصّٰلِحُوۡنَ ۞(سورۃ الانبیآء: آیت 105)
ترجمہ: اور بے شک زبور میں ہم نے بعد نصیحت کے یہ لکھ دیا تھا کہ آخر میں میرے بندے زمین کے وارث ہو جائیں گے۔
مولوی مقبول شیعہ زمین سے دنیا کی زمین فلسطین و شام مراد لے کر مہدی آخر الزمان کے ساتھیوں کے وارث قرار دیتے ہیں مگر یہ اس کے مخالف تو نہیں کہ مخاطب آیت پیغمبرﷺ کے ساتھ ہی مراد ہوں جن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے یہ مقدس زمین بغیر جنگ کے محض حضرت عمرؓ امیر المؤمنین خلیفہ ثانی کی شکل و علامات دیکھ کر یہود و نصارٰی سے دلا دی تھی جو تاریخ کا روشن باب ہے۔
شیعہ مفسر طبرسی مفسر اہلِ بیت حضرت ابنِ عباسؓ سے ایک تفسیر یہ نقل کرتے ہیں:
وقیل ھی الارض المعروفۃ یرثھا امۃ محمدﷺ بالمفتوح بعد اجلاء الکفار کما قال زویت لی الارض فاریت مشارقھا و مغاربھا و یبلغ ملک امتی مازوی لی منھا عن ابن عباسؓ فی روایۃ آخری۔
(پارہ 17صفحہ 67)
ترجمہ: ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے معروف زمین فلسطین مراد ہے جس کے وارث امتِ محمدیہﷺ کے مجاہد ہوں گے جو کفار کو جلا وطن کر کے اسے فتح کریں گے جیسے حضورﷺ نے فرمایا میرے آگے زمین کی گئی میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا تو جو زمین کے ممالک مجھے دکھلائی گئی وہ میری امت کی بادشاہی میں آئیں گے دوسری روایت میں یہ حضرت ابنِ عباسؓ کی تفسیر ہے شیعہ کو غلطی اس سے لگ رہی ہے کہ وہ اَلۡاَرۡضَ سے تمام زمین مراد لیتے ہیں حالانکہ الف لام عہد کا ہے اس سے وہ خاص زمین مراد ہے جسے یہود و نصارٰی اپنی مقدس جگہ کہتے ہیں جو کنعان و فلسطین ہے اور یہ ذکر کل ارادہ جز ایسے ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے اقتدار میں فرمایا:
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِى الۡاَرۡضِ الخ۔(سورۃ یوسف: آیت 21)
ترجمہ: اسی طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار دیا۔
اور بنی اسرائیل کے متعلق ہے:
وَنُمَكِّنَ لَهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ الخ۔
ترجمہ: اور ہم ان کو زمین میں اقتدار دیں گے۔
كَانُوۡا يُسۡتَضۡعَفُوۡنَ مَشَارِقَ الۡاَرۡضِ وَمَغَارِبَهَا الخ۔
(سورۃ الاعراف: آیت 137)
ترجمہ: کہ ہم نے زمین کے مشرق و مغرب کا مالک اور وارث اس قوم کو بنا دیا جو زمین میں کمزور گنے جاتے تھے پارہ، 9 تینوں آیات میں اَلۡاَرۡضِ سے مراد مصر کی زمین ہے الغرض آیت میں ایسا کوئی قرینہ اور لفظ نہیں کہ اصحابِ رسولﷺ کو چھوڑ کر اصحابِ مہدی کو عِبَادِىَ الصّٰلِحُوۡنَ ۞(سورۃ الانبیآء: آیت 105)کا مصداق بنایا جائے اس سے تو دجل و تلبیس کا الزام معاذ اللہ قرآن پر آتا ہے کہ جن کو بشارت و انعام سنایا جا رہا ہے ان کے کسی فرد کا بھی اس میں حصہ نہیں تو ان عقلی اور نقلی وجوہ سے ثابت ہوا کہ اس سے مراد اصحابِ رسولﷺ اور لشکرِ فاروقی ہے اور ان کی خلافتِ راشدہ سچی اور موعود الہٰی ہے جس کا منکر منکرِ قرآن ہے وللہ الحمد
آیت 9: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىۡؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ ۞
(سورۃ المجادلہ: آیت 21)
ترجمہ: یہ تو اللہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور بضرور غالب رہیں گے شیعہ مفسر طبرسی اس کے شانِ نزول میں لکھتے ہیں روایت ہے: کہ جب مسلمانوں کو خندق میں دکھلایا گیا کہ خدا ان پر شہر فتح کرے گا تو مسلمانوں نے دعویٰ کیا کہ ضرور بالضرور ان پر روم و ایران کو فتح کرے گا تو منافق کہنے لگے کیا تمہارا خیال ہے کہ روم اور فارس ان بعض شہروں کی طرح معمولی ہیں جن پر تم غالب ہوئے تو اللہ پاک نے یہ آیت مبارکہ اتاری مجمع البیان: پارہ، 28 صفحہ، 19 اس سے معلوم ہوا کہ قیصر و کسریٰ کی فتح درحقیقت خدا اور رسولﷺ کی فتح اور غلبہ تھی حضرت عمرؓ اور آپ پ کے لشکر مؤمنین کو اس کا مظہر اور آلہ بنایا گیا تو خلافتِ راشدہ کی حقانیت اظہر من الشمس ہوگئی۔
آیت 10: هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًا۞(سورۃ الفتح: آیت 28)
ترجمہ: وہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اور دیکھ بھال کے لیے اللہ کافی ہے۔ترجمہ مقبول
شیہ مفسر طبرسی اس کی تین تفسیریں کرتے ہیں:
1: یعنی دین اسلام کو دلائل اور براہین کے ساتھ تمام دینوں پر غالب کر دے۔
2: دین کو غلبہ شوکت اور دنیا کے شہروں میں اشاعت و ترقی دے کر غالب کرے۔
3: کہ اس کی تکمیل مہدی کے نکلنے پر ہوگی پس زمین میں سوائے دینِ اسلام کے اور کوئی دین نہ رہے گا۔
(مجمع البیان: پارہ، 26، صفحہ، 79)
تبصرہ: پہلی تفسیر کی ضرورت نہیں کیونکہ دلائل و براہین سے غلبہ اسلام تو روزِ ازل سے حاصل تھا کون سی دلیل کو کفار توڑ سکتے تھے۔
دوسری تفسیر ہی یقینی اور معتبر ہے کہ اسی کی ضرورت تھی تاکہ کفار کو مرعوب و مغلوب کر دیا جائے اور وہ اسلام کو مٹانے کے پروگرام ناکام ہو جائیں۔
تیسری تفسیر دوسری کے مخالف نہیں کیونکہ گو تکمیل خاص مصلحت کے تحت اس وقت ہو مگر دین کے غلبہ و اشاعت کا سلسلہ تو حضرت رسولِ اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے شروع ہو چکا ہے اور دشمنان مٹ گئے ہیں اب اگر زمانہ آخر میں یہود و نصارٰی کا پھر غلبہ ہو جائے زمین ظلم سے بھر جائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و امان مہدی کے ذریعے خدا دوبارہ اسلام کا اظہار و انقلاب برپا فرما دے تو وہ جدا بات ہے اور دیگر دلائل صریحہ سے ثابت ہے اس آیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
آیت11: اِنَّا لَنَـنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا الخ۔
(سورۃ غافر: آیت 51)
ترجمہ: بے شک ہم زندگانی دنیا میں اپنے رسولوں کی بھی مدد کرتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو ایمان لائے ہیں۔
شیعہ مفسر طبرسی فرماتے ہیں کہ ہم ان کی مدد کئی طرح کرتے ہیں کیونکہ مدد حجت اور استدلال سے ہوتی ہے اور جنگ میں غلبہ سے بھی ہوتی ہےجیسے حکمت کا تقاضا ہواور اللہ سبحانہ و تعالیٰ مصلحت جانتے ہوں اور مہربانی کرنے تائید کرنے اور دل کو مضبوط کرنے سے بھی ہوتی ہےاور دشمنوں کو ہلاک کر دینے سے بھی ہوتی ہےاور یہ سب قسم کی امدادیں منجانب اللہ انبیاء اور مؤمنین کو حاصل ہوئی تھیں۔
(مجمع: جلد، 24 صفحہ، 206)
اس آیت کے تحت ہم کہتے ہیں کہ خود حضورِ اکرمﷺ اور مؤمنین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اللہ نےیہ سب نصرتیں عطاء فرمائی تھیں وہ حجت و استدلال سے غالب ہوئے جنگوں میں کفار پر مظفر ہوئے تائیدِ ربانی سے ان کے دل مضبوط ہوئےاور ان کے دشمن ان کی تلواروں سے ہلاک ہوتے رہے اور یہ سب کچھ خلافتِ راشدہ ہی کی تشریح ہے جس کی حقانیت کی یہ آیت بھی ضامن ہےکیونکہ اگر ان کو اس کا مصداق نہ مانا جائے تو یہ مٶکد وعدہ و بشارت نصرت سچی نہ ہوگی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شیعوں کو تو تاہنوز ان میں سے کسی قسم کی مدد حاصل نہ ہو سکی۔
آیت 12: كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت 29)
ترجمہ: کہ وہ کھیتی کے مانند ہیں کہ اس نے اپنی کونپل نکالی پھر طاقتور اور مضبوط ہو کر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی اب کھیتی کرنے والوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعے سے کفار کو غصہ دلائے۔(ترجمہ مقبول)
مفسر طبرسی لکھتے ہیں: واحدی کہتے ہیں کہ یہ مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دی ہے بس کھیتی تو محمدﷺ ہیں اور پودے اس کے اصحاب اور آس پاس رہنے والے مؤمن ہیں جو انتہائی کمزوری اور قلت میں تھے جیسے شروع میں چری فصل کمزور ہوتی ہے پھر موٹی اور مضبوط ہو کر بوٹا مارتی ہے یعنی ایک سے کئی شاخیں بن جاتی ہیں تو اسی طرح مؤمنین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے سے مل کر مضبوط ہو گئے اور خوب سخت طاقتور ہو گئے اور اپنے خلافت اسلام پر پورے کھڑے ہو گئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی ترقی کی وجہ سے کفار کو چڑائے یعنی خدا نے ان کو بہت کثیر بنا دیا اور مضبوط کر دیا تاکہ یہ خدا کی اطاعت پر اتفاق اور اپنی کثرت کی وجہ سے کافروں کو غصہ دلائیں۔
(مجمع البیان: پارہ، 26 صفحہ، 80)
یہ آیت سورۃ النور کی آیتِ استخلاف ہی کی تفسیر و تشریح ہے کہ وہ بکثرت ہو کر فتوحات کے ذریعے دنیا پر لہلہاتی کھیتی کی طرح چھا گئے فصل بونے والے حضرت محمدﷺ کو تو یہ اچھے لگتے ہیں مگر کافر ان سے جلتے ہیں کیونکہ ان کے ممالک اور علاقے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قبضے میں آگئے اور معلوم دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں ختم ہو گئی تھیں اب شیعہ حضرات ہی انصاف کر کے بتلائیں کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعمیر و ترقی اور فتوحات کی ذکرِ خیر سے چڑتے ہیں اور خلافتِ راشدہ کو بالکل برحق نہیں مانتے اور ان کے عیوب کی تلاش میں سرگردان رہتے ہیں لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ کی موجودگی میں ان کو کیا خطاب دیا جائے؟جب حضورِ اقدسﷺ کو ان کی یہ ترقی اور کثرت پسند لگے اور آپ کو ان سے 3، 4، 10 نفوس کہہ کر فصل اجاڑنے کا مشغلہ جاری رکھیں تو کیسے کوئی آپ کو مؤمن بالرسول اور خیر خواہِ اسلام باور کرے گا؟
احادیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ:
سوال 3 کے جواب میں کچھ ذکر ہو چکی ہیں شیعہ اصول پر کچھ یہ ہیں۔
1: بعض ازواجِ مطہرات کو بتلایا کہ میرے بعد سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ خلیفہ ہوں گے۔
(حیات القلوب: جلد 2، صفحہ، 610 تفسیر قمی: صفحہ، 376 تفسیر مجمع البیان: صفحہ، 314 جلد، 3 سورۃ التحریم)
اصل الفاظ یہ ہیں: فقال ان ابا بکرؓ لی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من اخبرک بھٰذا فقال اللہ اخبرنی۔
اس بنیادی مسئلہ پر یہ سب سے قطعی دلیل کے فرمان و خبر نبوی ہے اگر خلافتِ صدیقؓ و فاروقؓ کو من جانب خدا اور رسولﷺ سچا اور فیصلہ شدہ مانا جائے تو مذہبِ شیعہ باطل ہے اگر شیعہ سچے ہوں تو خدا اور رسولِ اکرمﷺ کی صداقت ختم ہو جاتی ہے۔
2: آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو ولی عہد کی طرح امامِ نماز بنایا جیسے ابنِ سعد طبری ابنِ اثیر ابنِ خلدون وغیرہ تمام کتبِ تاریخ میں مذکور ہے اور صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الامامۃ میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کو امامت کا حکم دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس امامتِ صغریٰ سے امامتِ کبریٰ پر استدلال کر کے آپ کی بیعت فرمائی۔
3: متعدد مواقع پر حضورِ اقدسﷺ نے قیصر و کسریٰ کی فتح کی بشارت دی اور اپنی طرف نسبت کی۔علامہ باقر علی مجلسی آیت قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ کے تحت فرماتے ہیں:
4: معتبر روایات کے موافق یہ آیت اس وقت نازل ہوئی کہ فتحِ مکہ یا جنگِ خندق کے موقع پر حضورﷺ نے خبر دی کہ:
خدا بمن و امامت من بدا و ملک بادشاہان عجم و روم و یمن و منافقان گفتند کہ محمد اکتفا بمکہ و مدینہ نمے کند و طمع ور ملک بادشاہاں میکند۔
(حیات القلوب: جلد، 6 صفحہ، 158، 180)
ترجمہ: خدا نے عجم روم اور یمن کے بادشاہوں کے ملک مجھے اور میری امت کو دے دیئے اور منافق کہتے تھے کہ محمدﷺ مکہ و مدینہ پر اکتفاء نہیں کرتا اور بادشاہوں کے ممالک کا لالچ رکھتا ہے۔
5: حضورِ اقدسﷺ کے فرمودہ کے مطابق عجم کے بادشاہ بڑی طاقت و شوکت کے باوجود ختم ہو گئے۔
(حیات القلوب: جلد، 2)
اور حق تعالیٰ نے چند آیات دیگر میں خبر دی ہے کہ بلادِ فارس و روم کے علاؤہ دیگر فتوحات اور نصرتیں خدا کی طرف سے ہوں گی جن کا ذکر میں نے بہار الانوار میں کر دیا ہے۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 160)
6: ایک عرب کے مشہور عالم عبد المسیح بن عمرو غسانی نے بشارت دی تھی پیغمبر آخر الزمان کے مبعوث ہونے پر ملک شام و عجم ان کے بادشاہوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور قیصر و کسریٰ گرنے والے کنگروں کی مانند وہ بادشاہی کریں گے پھر ان کی بادشاہی ختم ہو جائے گی جو کچھ ہونا ہے ہو کر رہے گا پھر مجلسی کہتے ہیں کہ ان کے 10 بادشاہ 14 سال میں ختم ہوئے باقی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک رہے اور نیست و نابود ہو گئے۔
(حیات القلوب: صفحہ، 56 جلال العیون: صفحہ، 40)
7: کئی مرتبہ حضورِ اقدسﷺ نے اہلِ عرب کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا اور رسول کو مان لو۔
بادشاہِ عرب و عجم شدید و در بہشت بادشاہ باشید۔
(حیات القلوب: صفحہ، 261، 263)
ترجمہ: تاکہ تم عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ اور بہشت میں بھی بادشاہ رہو گے۔
8: جنگِ خندق کے موقع پر کھدائی کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا نے پہلی چمک میں یمن کے محل مجھے دیئے دوسری میں شام کے محل مجھے دیئے تیسری میں مدائن کے محلات مجھے ملے اور عجم کی حکومتیں مجھے مل گئیں پھر خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:
لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖۙ وَلَوۡ كَرِهَ الۡمُشۡرِكُوۡنَ ۞(سورۃ التوبہ: آیت 33)
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 209 جلد، 2 صفحہ، 276 وغیرہ)
ترجمہ: کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو تمام ادیان و ملل پر غالب کر دے اگرچہ مشرک اسے ناپسند کریں۔
9: جب کسریٰ نے حضورﷺ کا مکتوب پھاڑ دیا تو آپﷺ نے فرمایا:
امت من بزودی مالک زمین او خواہند شد۔
(حیات القلوب: صفحہ، 441)
میری امت جلد ہی اس کی زمین کی مالک بن جائے گی۔
قیصر و کسریٰ کے قاصدوں سے فرمایا اپنے بادشاہوں سے جا کر کہو:
کہ بادشاہی من تابمنتہائے زمین خواہدر سید و ملک قیصر و کسریٰ تبصرف امت من درخواہد آمد۔
(حیات القلوب: صفحہ، 441)
ترجمہ: کہ میری بادشاہی زمین کی انتہاء پر پہنچے گی اور قیصر و کسریٰ کے مالک میری امت کے قبضے میں آ جائیں گے۔
قیصر و کسریٰ کی فتح کی پیشنگوئی کے متعلق یہ صرف ایک کتاب کی کچھ عبارات ہیں ورنہ قصہ کتبِ شیعہ میں بھی متواتر ہے باتفاق شیعہ سنی یہ فتوحات عہدِ فاروقی و عثمانی میں ہوئیں آپ نے ان کی نسبتِ فتح خود اپنی طرف یا اپنی امت کی طرف کی ہے جس سے خلافتِ راشدہ کی حقانیت اظہر من الشمس ہو گئی۔
10: شیعہ کی قدیم ترین معتبر تفسیر قمی مصنفہ علی بن ابراہیم استاذ کلینی جلد، 2 صفحہ، 178 سورۃ الاحزاب حالات خندق میں ہے:
کہ حضور نے کدال لے کر خود چٹان پر ماری تو بجلی چمکی اور ہم نے شام و قیصر کہ محلات دیکھے پھر دوسری دفعہ ماری تو بجلی چمکی اور ہم نے مدائن ایران کے محلات دیکھے پھر تیسری دفعہ ماری اور بجلی چمکی تو ہم نے یمن کے محلات دیکھے تو حضور اقدسﷺ نے فرمایا یقیناً اللہ ان ممالک کو تم پر فتح کرے گا اور جو بجلی میں تم نے دیکھے۔
خلافت راشدہ کی حقانیت پر اہل سنت کی 12 احادیث:
1: حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ ایک کنوئیں پر کھڑا ہوں ۔ ڈول رکھا ہے ۔ میں نے اس سے پانی کھینچا جانتا اللہ نے چاہا ۔ پھر ابن ابی قحافہ (ابو بکر صدیق ؓ نے وہ لے لیا تو ایک دو ڈول انہوں نے نکالے مگر ان کے بھرنے میں کچھ صنعف تھا اللہ ان کو معاف کرے پھر وہ ڈول بہت بڑا بن گیا تو اسے عمر بن الخطابؓ نے لے لیا میں نے کسی زور آور کو نہیں دیکھا کہ وہ عمرؓ کی طرح زور وطاقت سے بھرتا ہو۔ یہاں تک کہ سب لوگ سیراب ہو گئے۔ بخاری ومسلم از ابوہریرہؓ و ترمذی از ابن عمرؓ)
اس حدیث میں صریح اشارہ شیخینؓ کی خلافت کی طرف ہے اور حضرت عمرؓ کی خلافت کی قوت اور کثرتِ فتوحات کا بھی بیان ہے اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلافت کا ضعف خلافتِ فاروقیؓ کے مقابلہ میں کثرتِ فتوحات نہ ہونے کی وجہ سے بیان فرمایا ہے گو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو مدتِ خلافت صرف دو برس تین ماہ ملی۔
کافی کتاب الروضہ: صفحہ، 216 تہران میں محشی علی اکبر غفاری صاحب فرماتے ہیں چٹان والی یہ حدیث متواتراتِ میں سے ہے اسے خاصہ اور عامہ سب نے بہت سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے شیخ صدوق نے بھی اپنی سند سے حضرت براء بن عازبؓ سے روایت کیا ہے انتہیٰ۔
2. ابو داؤد نے حضرت ابو بکرؓ سے یہ روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ میں نے خواب دیکھا گویا ایک تراز و آسمان سے اتری اس میں آپﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وزن کیے گئے تو آپﷺ وزنی رہے پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تولے گئے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وزنی رہے سیدنا پھر عمرؓ اور سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وزن کیے گئے تو سیدنا عمر فاروقؓ وزنی رہے اس کے بعد وہ تراز اُوپر اٹھالی گئی اس خواب کو سن کر ترازو کے اٹھ جانے سے رسول خداﷺ کو رنج ہوا اور آپﷺ نے فرمایا کہ یہ خلافتِ نبوت ہے اس کے بعد خدا جس کو چاہے گا بادشاہت دے گا۔
(ترمذی ابوداؤ در مشکوٰة: صفحہ، 560)
ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ خود رسولِ خداﷺ نے بھی ترازو میں تولے جانے کا خواب ذکر فرمایا تھوڑا سا فرق عنوانِ بیان کا ہے اس روایت میں خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کا بیان ہے۔
3: حاکم رحمہ اللہ نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں مجھے قبیلہ بنو مصطلق کے لوگوں نے رسولِ خدا ﷺ کے پاس بھیجا کہ آپ کے بعد ہم اپنی زکوٰۃ کس کو دیں آپﷺ نے فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو میں نے یہی جاکر ان سے کہ دیا انہوں نے کہا جاؤ پوچھو کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہو جائے تو پھر کس کو دیں آپﷺ نے فرمایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں نے کہا پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو دیں آپﷺ نے فرمایا حضرت عثمانِ غنیؓ کو۔
مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمۃ اللہ یہ روایت لکھ کر فرماتے ہیں اس مضمون کی روایات بہت ہیں کسی میں زکوٰۃ کا حوالہ اپنے بعد خلفائے ثلاثہؓ پر فرمایا ہے کسی میں اپنے قرض کی ادائیگی کا کسی میں کسی اور معاملہ کا یہ سب ولی عہدی کے دلائل ہیں بعض روایات میں ہے کہ پوچھا گیا حضرت عثمانؓ کے بعد تو فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کے بعد ہو سکے تو مر جاؤں یعنی ان کے بعد بڑے بڑے فتنے ہوں گے۔
4: حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے وہ کہا کرتے تھے کہ خدا کی قسم حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ کی خلافت کتاب اللہ میں مذکور ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے ایک راز کی بات اپنی بعض بیویوں سے کی تھی وہ یہ کہ آپﷺ نے حضرت حفصہؓ سے کہا کہ تمہارے والد اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے والد میرے بعد لوگوں پر حاکم ہوں گے اس کو کسی سے بیان نہ کرنا یہ روایت علامہ واحدی نے لکھی ہے کتبِ شیعہ سے حوالہ جات گزرچکے ہیں۔
5: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبیﷺ نے اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے فرمایا کہ بہ تحقیق میں نے ارادہ کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلاؤں اور عہدنامہ لکھوا دوں تا کہ دعویدار کچھ نہ کہیں اور تمنا کرنے والے کچھ تمنا نہ کریں پھر میں نے کہا کہ اللہ انکار کرے گا اور مسلمان رد کر دیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی خلیفہ بنے۔
(بخاری: جلد، 2 صفحہ، 850)
6: حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول خداﷺ کے پاس آئی اور اس نے کسی معاملہ میں آپﷺ سے گفتگو کی آپﷺ نے اسے حکم دیا کہ پھر آنا اس نے کہا اگر میں آپ کو نہ پاؤں مطلب یہ کہ آپ کی وفات ہو جائے تو آپﷺ نے فرمایا مجھے نہ پاؤ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آنا یہ حدیث بخاری: جلد، 1 صفحہ، 516 ترمذی ،ابو داؤد اور ابنِ ماجہ نے روایت کی ہے۔
7: بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ عنقریب تمہارے اندر بارہ مقتدر خلیفہ ہوں گے حضرت ابوبکر صدیقؓ تو میرے بعد تھوڑے دن پائیں گے اور وہ عرب کی چکی چلانے والا اچھی زندگی پائے گا اور شہید ہو کر میرے گا ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ وہ چکی چلانے والا کون شخص ہے فرمایا حضرت عمر بن الخطابؓ پھر آپﷺ حضرت عثمان بن عفانؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم سے لوگ درخواست کریں گے کہ ایک قمیص جو اللہ نے تمہیں پہنائی ہے اتار دو لیکن قسم اس کی جس نے حق کے ساتھ مجھے بھیجا اگر تم اس کو اتارو گے تو جنت میں داخل نہ ہو گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے نکل جائے چنانچہ حضرت عثمانِ غنیؓ نے مظلومانہ شہادت پالی مگر قمیصِ خلافت نہ اتاری حضرت عمرؓ کو عرب کی چکی چلانے والا اور قطب حضرت علیؓ نے بھی فرمایا ہے: فکن قطبا واستدر الوحى من العرب۔
(نہج البلاغہ قسم اول: صفحہ، 282)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول خداﷺ دنیا سے نہیں گئے یہاں تک کہ مجھے یہ خبر دے گئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپﷺ کے بعد خلیفہ ہوں گے ان کے بعد حضرت عمرؓ ہوں گے ان کے بعد حضرت عثمانؓ ہوں گے ان کے بعد میں ہوں گا مگر میری خلافت پر سب کا اتفاق نہ ہوگا۔
(ریاض النضرہ غنیتہ الطالبین)
9: حاکم نے حضرت سفینہؓ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریمﷺ نے مسجد کی بنیاد میں ایک پتھر رکھا تو پھر فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ ایک پتھر میرے پتھر کے پہلو میں رکھیں پھر فرمایا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر حضرت ابوبکرؓ کے پتھر کے پہلو میں رکھیں پھر فرمایا کہ حضرت عثمانؓ ایک پتھر حضرت عمرؓ کے پتھر کے پہلو میں رکھی۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ میرے خلیفہ ہوں گے
10: محدث بزار نے اور طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک روز نبیﷺ تنہا بیٹھے ہوئے تھے کہ میں گیا اور آپﷺ کے پاس بیٹھ گیا اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ آئے اور سلام کیا پھر حضرت عمرؓ آئے تو سلام کہا پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ آئے سلام کہہ کر وہ بھی بیٹھ گئے رسول خداﷺ کے سامنے سات کنکریاں تھیں ان کو آپﷺ نے اٹھایا ہتھیلی میں رکھا تو وہ کنکریاں تسبیح پڑھنے لگیں یہاں تک کہ میں نے ان کی آواز شہد کی مکھی کی سی سنی پھر آپﷺ نے وہ کنکریاں زمین پر رکھ دیں تو وہ خاموش ہو گئیں پھر آپﷺ نے وہ کنکریاں حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ میں رکھیں تو ان کے ہاتھ میں بھی وہ تسبیح پڑھنے لگیں یہاں تک کہ میں نے ان کی آواز شہد کی مکھی کی سی سنی پھر آپﷺ نے ان کو زمین پر رکھ دیا تو وہ خاموش ہو گئیں پھر آپﷺ نے ان کو حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں رکھ دیا تو ان کے ہاتھ میں بھی وہ تسبیح پڑھنے لگیں یہاں تک کہ میں نے ان کی آواز شہد کی مکھی کی سی سنی پھر آپﷺ نے ان کو زمین پر رکھ دیا تو وہ خاموش ہو گئیں پھر آپﷺ نے ان کو اٹھا کر حضرت عثمانؓ کے ہاتھ میں رکھا تو ان کے ہاتھ میں بھی وہ تسبیح پڑھنے لگیں یہاں تک کہ میں نے ان کی آواز شہد کی مکھی کی سی سنی پھر آپﷺ نے ان کو زمین پر رکھ دیا تو وہ خاموش ہو گئیں۔
فقال رسول اللهﷺ هذه خلافة النبوة۔
ترجمہ: پس رسولِ خداﷺ نے فرمایا کہ یہ خلافت نبوت کی ہے۔
اور ابنِ عساکر نے اس اور زیادہ روایت کیا ہے کہ آپﷺ نے فرداً فرداً ہم لوگوں کے ہاتھ میں ان کنکریوں کو رکھا مگر کسی ایک کنکری نے بھی ہمارے ہاتھوں تسبیح نہ پڑھی۔
(بحوالہ تفسیر آیاتِ قرآنی: 455، 457 از مولانا عبد الشکور لکھنویؒ)
11: عن حذيفةؓ قال قال رسول اللهﷺ انى لا ادری مابقاںٔی فیکم فاقتدو بالذین من بعدی ابی بکرؓ و عمرؓ۔ (ترمذی: جلد، 2 صفحہ، 229)
ترجمہ: حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ کتنا عرصہ تم میں زندہ رہوں گا تو تم میرے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنا۔
ترمذی نے اسے حدیث حسن کہا ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے علاوہ حضرت حذیفہؓ سے ربعی بن حراش کے واسطہ سے دو سندیں ذکر کی ہیں۔
شیخینؓ کو خلیفہ بنانے پر یہ حدیث مرفوع بالکل صریح دلیل ہے تبھی تو سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر عمل کر کے ان کی خلافت پر کلی اتفاق کیا بایں معنیٰ ان کی خلافت کو اجماعی یا شورائی کہا جاتا ہے۔
11: حضرت جابر بن عبداللهؓ حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ آج ایک نیک آدمی حضورﷺ کی ذات مراد ہے کو خواب آئی کہ حضرت ابوبکرؓ کو رسول اللہﷺ کے ساتھ جوڑا گیا اور حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اور حضرت عثمانؓ کو حضرت عمرؓ کے ساتھ جوڑ گیا سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس سے اٹھے تو یہ تعبیر دیتے تھے کہ رجلِ صالح رسول اللہﷺ ہیں اور بعضوں کا بعض کے ساتھ جوڑ کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ اس شریعت کے والی اور خلفائے نبویﷺ ہیں جو اللہ نے نبیﷺ کو دے کر بھیجا ہے۔
(ابو داؤد: جلد، 2 صفحہ، 281 باب الخلفاء)
یہ تمام احادیث خلافتِ راشدہ کی حقانیت اور خلفاء کے ولی عہد نبوی ہونے پر صاف صاف دلالت کرتی ہیں رہا یہ کہ پھر خلفاء نے بیعت لیتے وقت ان کو پیش کیوں نہ کیا تو اس کی رکاکت ظاہر ہے کیونکہ خلفاء کو خود اپنے منہ میاں مٹھو بن کر اپنے لیے یہ حدیث پڑھنے اور کشمکش برپا کرنے کی ضرورت نہ تھی پھر بھی ان میں صرف چند کارناموں اور فتوحات پر مشتمل ہیں جب تک فتوحات عمل میں نہ آئیں تو کوئی کیسے فاتح یا خلیفہ مبشر فی الاحادیث ہونے کا دعویٰ کرے شیعہ کے یہاں احادیثِ مصطفیٰﷺ سے احادیثِ ائمہ کا درجہ زیادہ ہے لہٰذا اس ضمن میں حضرت علیؓ کی بھی ایک حدیث پیش خدمت ہے۔ (بقیہ ارشاداتِ ائمہ سوال 3 کے جواب میں ملاحظہ کریں ہے)
خبردار! میں ان شخصوں سے ضرور جنگ کروں گا ایک وہ جو ناحق پر دعویٰ کرے اور دوسرا وہ جو حق کو دوسروں سے روکے۔(نہج البلاغہ)
تاریخ شاہد ہے کہ حضرت علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جنگ نہیں کی معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک ان کی خلافت برحق اور صحیح تھی۔
خلافت اور اجماع:
سنی شیعہ کتب حدیث سیرت اور تاریخ سے یہ مصرح ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر سب خلفاء پر حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سب اُمت نے اتفاق فرمایا شیعہ بھی اس کے معترف ہیں تبھی تو سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اُمت سے ناراض اور ان کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں اجماع سے کوئی خلیفہ نہیں بن سکتا لیکن ہم کہتے ہیں بالفرض اگر قرآن و سنت سے کوئی نص اور اشارہ خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافتِ راشدہ پر نہ ہو تب بھی سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اتفاق و اجماع سے خلافتِ راشدہ کی حقانیت قطعی اور یقینی ہے۔ اولاً: امت گمراہی سے محفوظ ہے تو اجماع برحق ہوا جیسے تفصیل گزر چکی ہے۔
ثانیا: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نهُمُ الصّٰدِقُوۡنَ، هُمُ الرَّاشِدُونَ، هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا، هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ، هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ، هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ، هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ، هُمُ الصّٰلِحُوۡنَ۔ جیسے القابات سے نوازا اور سب کو وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى اور رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ کی سند عطاء کی کیا عقلِ سلیم کسی بھی درجے میں یہ باور کر سکتی ہے کہ العیاذ باللہ یہ سچے راست رو پکے مؤمن ابدی کامیاب کفار بہ غالب، کامیابی سے سرفراز خدا سے ڈرنے والے نیکوکار سب ہی بھلائی کے مستحق خدا کے پسندیدہ و مقبول اور خدا سے راضی و مسرور سب گمراہ ہو جائیں اور مستحقِ خلافت عند الشیعہ حضرت علیؓ کو چھوڑ کر غیر مستحق حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ پر اتفاق و اجماع کرلیں کلا ان هذا الا بهتان عظيم۔
ثالثاً: حضرت علی المرتضیٰؓ کے مذہب میں بھی اجتماع سے خلیفہ بنتا ہے چنانچہ حضرت امیرِ معاویہؓ کو اپنی بیعت کی دعوت دیتے ہوئے اپنی خلافت کی حقانیت پر یہی دلیل پیش کی۔
انہ بایعنی القوم الذین بایعوا ابا بكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ على مابا بيوهم فلم يكن للشاهدان يختار ولا للغائب ان يردوا انها الشورى للمهاجرين والانصار فان جتمعوا على رجل وسموه اما ما كان ذلك اللہ رضی۔
(نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 8 و اخبار الطوال: صفحہ، 167 بحوالہ تاریخِ اسلام ندوی: جلد، 1 صفحہ، 263) ترجمہ: بے شک میری ان مہاجرین و انصار لوگوں نے بیعت کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ کی بیعت کی تھی اسی منصبِ خلافت پر جس پر ان کی بیعت کی تھی اب موجود کو اختیار نہیں اور کسی کو خلیفہ چنے نہ غائب کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بیعت رد کر دے یہ مشورہ سے استخلاف مہاجرین و انصار کا حق ہے وہ اگر کسی آدمی پر اتفاق کر لیں اور اسے نامزد کر دیں تو اللہ کا پسندیدہ امام بھی وہی ہوتا ہے بطورِ اختصار اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سقیفہ میں انتخابِ حدیثِ مصطفیٰﷺ کے تخت ہوا کہ آپﷺ نے الآئمۃ من قریش فرمایا تھا معلوم ہوا کہ انصار کے بجائے مہاجرین اور وہ بھی قریشی حقدار ہیں پھر جب سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بنابر حکمِ نبویﷺ امام نماز ہونے کے سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ کو جانا تو مشورہ سے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور شوریٰ و اجماع سے یہ بیعت حجتِ قطعیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَمۡرُهُمۡ شُوۡرٰى بَيۡنَهُمۡ الخ(سورۃ الشوریٰ: آیت 38)
ترجمہ: مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورہ سے ہوتے ہیں اسی پر حضرت علیؓ نے اپنی خلافت کی حقانیت جتلائی اور پھر طالبینِ قصاص پر تلوار اٹھائی جب ایک کام اصولی طور پر درست ہو جو کسی دلیل سے ثابت ہو تو ضروری نہیں کہ سب ادلہ شرعیہ سے اس کو اسی وقت ثابت کیا جائے خصوصاً اگر وہ زمانہ کے اعتبار سے الہام رکھتا ہو جیسے بالعموم پیشنگوئیوں کی یہی صورت ہوتی ہے کہ وعدہ کے ایفاء یا پیش گوئی کے پورا ہو چکنے پر ہی اس کی حکایت کی جاتی ہے قبل از وقت اسے استعمال کرنا دلیل بنانا موزوں نہیں ہوتا جیسے فتح خبیر کے موقع پر آپﷺ نے فاتحِ کے محب خدا و محبوب ہونے کی بشارت دی تھی جب حضرت علیؓ جھنڈا پانے کے بعد یہ کام کر چکے تب اس کی تعیین ہوئی ورنہ اس سے قبل ہر شخص امیدوار تھا حضرت علیؓ بھی جھنڈا لیتے وقت وہ حدیث نہ پڑھتے تھے تو مسئلہ ہذا کو بھی اسی طور پر سمجھیں۔