اگر کوئی شخص خلیفہ وقت کو نہ مانے اور اس کی علی الاعلان مخالفت کرے تو ایسے شخص کی کیا سزا ہے مگر یاد رہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ وقت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جنگیں کی ہیں واقعات جنگ جمل و صفین و نہروان کو پیش نظر رکھ کر فتویٰ صادر فرمائیں کہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے کی سزا کیا ہے؟ انصاف مطلوب ہے۔
مولانا مہرمحمد میانوالیجنگ جمل کے اسباب و علل
جواب: یہ سوال سوال 11 ہی کا چربہ ہے وہاں مفصل بحث گزر چکی ہے پھر ملاحظہ کر کے اور سوچ کر فیصلہ دیں کہ کیا ان حضرات کی طرف سے علی الاعلان خلیفہ وقت کی مخالفت ہوئی یا امام برحق حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے باغی قاتلوں سے قصاص کا جائز اور آئینی مطالبہ تھا؟ ام المومنینؓ کا مؤقف ان کی تقریر میں، قاضی نور اللہ جیسے غالی مؤلف نے بھی نقل کیا ہے کہ جب بصرہ کے مرتضوی گورنر حضرت عثمانؓ بن حنیف نے آپ کے بصرہ آنے کا مقصد پوچھا تو فرمایا۔
جمعے از سفہائے بلاد و بقاع از اطراف و اکناف و رباع اجتماع نموده واراقہ دم عثمانؓ بن عفان بے گناہ کرده اند و من اور مومنانم سپاه جمع آورده ام تا ازاں جمع انتقام کشم۔
(مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 226)
ترجمہ: مختلف مقامات اور علاقوں کے بے وقوف اور جہلا اکٹھے ہوئے اور سیدنا عثمان بن عفانؓ کا بے گناہ خون بہایا میں مؤمنوں کی ماں ہوں لشکر اٹھا کر لائی ہوں تاکہ اس بلوائی جماعت سے بدلہ لوں۔
حضرت طلحہٰؓ و حضرت زبیرؓ نے بھی اپنے اسی مؤقف پر بصرہ میں تقریر کی تو اہلِ بصرہ کی ایک بڑی جماعت آپ کے ساتھ ہوگئی (ایضاً 226) پھر اسی مؤقف کی حقانیت پر ایمان کا یہ نتیجہ تھا کہ لاتعداد اصحابِ جمل اسی دن شہید ہوئے اور جس کجاوے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں وہ مسلسل لشکرِ علوی کی طرف سے تیروں کی وجہ سے چھلنی ہو گیا تھا بنو ضبہ اونٹ کی لید ہاتھ میں لے کر یوں کہتے تھے کہ ام المؤمنینؓ کے اونٹ کی لید مشک سے بھی زیادہ خوشبو دار ہے اس پر فخر کرتے ہوئے اونٹ کی مہار پکڑتے تھے بہادری کے جوہر دکھاتے اور اس کے سامنے شہید ہوتے جاتے تھے اور قاتلِ سیدنا عثمانؓ اشتر نخعی یہ خونریزی کر رہا تھا۔
(مجالس المؤمنین: صفحہ، 286 ترجمه اشتر)
تاریخِ طبری وغیرہ کے حوالہ جات سے حضرت امیرِ معاویہؓ کا مؤقف بھی گزر چکا ہے اور نہج البلاغہ کے حوالہ سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قصاص سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو واجب جاننا اور اپنے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اختلاف کو صرف دمِ حضرت عثمانؓ میں منحصر کر دینا بیان ہو چکا ہے۔
ملا باقر علی مجلسی: جلد، 2 صفحہ، 149 اردو میں لکھتے ہیں مگر فضیلت و مناقب آنحضرتﷺ کا وہ سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی منکر نہ تھا اور ماسوائے قتلِ سیدنا عثمانؓ میں شریک ہونے کے اور کوئی فسق آپ سے منسوب نہ کر سکتا تھا بلکہ وہ اسی پر قانع تھا کہ حضرت امیرِ معاویہؓ اس کی امارت برقرار رکھیں اور وہ حضرت کی محبت کر کے حضرت کی خلافت کا اقرار کرے اور لوگ حضرت کے مناقب و فضائلِ مکرر اس کے سامنے ذکر کرتے تھے اور وہ ان کا انکار بلکہ ان کو ناپسند نہ کرنا تھا شیعہ کے خاتم المحدثین کی تحریر پکار پکار کر رہی ہے کہ حضرت علیؓ و حضرت امیرِ معاویہؓ کا اختلاف صرف دمِ سیدنا عثمانؓ میں تھا حضرت امیرِ معاویہؓ حضرت علیؓ کی خلافت کے منکر اور آپ کے مخالف ہرگز نہ تھے بلکہ آپ کے ماتحت امیر رہنا اور بیعت کرنا چاہتے تھے لیکن آپ کو تو مجبوراً اپنا دفاع کرنا پڑا جیسے تفصیل سوال 15 میں آرہی ہے۔
قدیم و جدید تاریخ کی روشنی میں یہ عالمی سیاسی اصول مسلم ہے کہ حکومت رعایا کے جذبات کا احترام کرے ان کو ذہنی سکون مہیا کرتے ہوئے ان کے واقعی مطالبہ کو پورا کرے تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شہادت حضرت عثمانؓ کے بعد مملکتِ اسلامیہ میں انتقام اور غیظ و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی اہلِ مدینہ اور اطراف و جوانب کے لوگ اس خلیفہ برحق سیدنا عثمانؓ مظلوم کا قصاص چاہتے تھے جس کا 12 سالہ دورِ حکومت نہایت ہی پرامن اور مالی فراوانی و خوشحالی کا گہوارہ تھا حتیٰ کہ زکوٰۃ لینے والا بھی کوئی نہ ملتا تھا اور مسلمانوں پر چاروں طرف سے فتوحات کے دروازے کھلے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد جو قصاصِ سیدنا عثمانؓ کی شرط پر سیدنا علیؓ کے ساتھ ہوئے تھے مگر جب آپ قصاص پر قادر نہ ہو سکے تو مجبوراً وہ بھی آپ سے علیحدہ ہو گئے اور طالبانِ قصاص کے حق میں اپنا فیصلہ دیا بلوائیوں کے مکر و فریب سے خونی حادثات کے بعد بھی قانونی طور پر حکومت سے یہ مسئلہ حل نہ ہوا اور رعایا مطمئن ہوئی۔ حتیٰ کہ کوفہ اور اہلِ حجاز کے سوا سب صوبے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی تحویل میں چلے گئے اور شیعہ کے خیال میں تو حضرت علیؓ کے حامی بہت کم تھے اس حقیقت کوـ مخالفت خلافت کا غلط رنگ دے کر قاضی نور اللہ صاحب بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں جب خلافت حضرت امیرِ معاویہؓ تک پہنچی تو جمہور مسلمان سیدنا کی تابعداری سے الگ رہے اور سیدنا طلحہٰؓ سیدنا زبیرؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ باغی کی موافقت کو حضرت امیرِ معاویہؓ کی تابعداری پر ترجیح دی حتیٰ کہ کتبِ سیرت میں مؤرخین نے لکھا ہے:
کہ با حضرت امیر از قبیلہ قریش در حرب صفین پنج نفر ہمراہی نمودند و سیزده قبیلہ از ایشاں با خانہ و کوره ہمراہ معاویہؓ بودند۔
(مجالس المؤمنین: جلد، 9 صفحہ، 274)
کہ جنگِ صفین میں سیدنا علیؓ کے ساتھ قریش کے صرف 5 آدمی تھے اور قریش کے 13 قبیلے بمع اپنے افراد خانہ اور اسباب کے سیدنا امیر ِ معاویہؓ کے ساتھ تھے حالانکہ مخالفت خلیفہ کا طعن بداہتہً غلط بات ہے کیونکہ سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا طلحہٰؓ و سیدنا زبیرؓ نے خلافت کا دعویٰ تو نہیں کیا تھا وہ تو صرف قصاصِ حضرت عثمانؓ کے طالب تھے پانچ آدمیوں کے سوا قریش کے تیرہ قبائل کا تمام آدمیوں سمیت طالبانِ بدلہ کی صف میں شامل ہونا یہ بتلانے کے لیے کافی نہیں کہ اس وقت کی پوری قوم اور رعایا کا مطالبہ قصاص ہی تھا سیدنا علیؓ بوجوہ چند تعجیل میں معذور تھے مگر اس مؤقف پر آپ کے ہم خیال بہت کم لوگ تھے اتنی واضح بات کو مخالفت خلیفہ کا طعن دینا یا طالبانِ قصاص کو حضرت علیؓ سے جنگوں کا مرتکب کہنا بہت بے انصافی کی بات ہے کیا عام پبلک سابقہ صدر مملکت کے قتل کے قصاص کا نئے صدر سے مطالبہ کرائے تو کیا یہ مخالفت صدر ہو گی ۔ اور وہ نہ کرسکے یانہ کرنا چاہے ، اور پبلک از خود تنظیم بنا کر مجرموں سے قصاص لینا چاہے تو کیا یہ حکومت سے اس کے فرض کی ادائیگی میں تعاون ہوگا یا اس کی مخالفت ہوگی اور کیا کسی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس جائز مطالبہ پر پبلک پر لشکر کشی کر کے ان کو تہس نہس کر دے اگر ان سب امور کا جواب نفی میں ہے تو شیعہ حضرات ان حادثات کو سنی نقطہ نظر سے کیوں نہیں دیکھتے کہ یہ بلوائیوں کے مکر و فریب اور غلط فہمی کا منفی نتیجہ تھیں حقیقت اختلاف صرف دمِ حضرت عثمانؓ بلکہ اس کے طریق کار میں تھا اور باوجود مثبت کثیر مواد ملنے کے اس منفی انداز پر کیوں سوچتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی سب پبلک مخالف تھی بڑے بڑے اکابر اور سیاست دان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ناراض تھے پانچ آدمیوں کے سوا کوئی قریشی بھی آپ کا ساتھی نہ تھا اس طرزِ تفکر میں حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ اور حضرت امیرِ معاویہؓ پر اتنا حرف نہیں آتا جس قدر حضرت امیرِ معاویہؓ پہ آتا ہے لیکن شیعہ حضرات ہیں کہ حبِ علیؓ نہیں بعضِ معاویہؓ، اور دشمنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولﷺ کو ان کی وجہ سے نادان دوستی کے رنگ میں حضرت علیؓ و اہلِ بیتؓ کو مظلوم مضروب غیر مقبول رعایا کے دل میں غیر معزز اپنے مقاصد میں ناکام دوستوں کی اعانت سے محروم اور سب مسلمانوں کے مخالف و دشمن ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں اس طرزِ فکر اور اندازِ تحریر سے مقامِ اہلِ بیت میں اضافہ تو در کنار توہین در توہین ہوتی ہے ہاں شیعہ حضرات کو اپنی گروہ بندی اور جہال مسلمانوں میں تفرقہ بازی پھیلانے کا خوب حربہ ہاتھ آتا ہے۔
رہا یہ امر کہ خلیفہ رسول کی مخالفت کرنے والے کی سزا کیا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ حقائقِ بالا کی روشنی میں یہ حضرات مخالفوں کی فہرست میں نہیں آتے اور نہ حضرت علیؓ نے ان کو اپنا مخالف مانا ہاں قصاصِ حضرت عثمانؓ کے طریقِ کار میں یہ اختلاف ضرور تھا جو غلط فہمی اور اجتہادی اختلاف پر مبنی تھا ایسے اختلاف پر گو مار پیٹ اور قتال تک کی نوبت کیوں نہ آجائے اسے مخالفت اور دشمنی نہیں کہا جا سکتا مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام پیغمبر اور اپنے بڑے بھائی کی اس خیال پر سر اور داڑھی پکڑی اور زدوکوب کرنا چاہا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو تبلیغ میں کوتاہی کی۔ (القرآن)
2: ایک اسرائیلی کی نصرت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک قبطی کو بطورِ تنبیہ ایک مکا مارا اور وہ مر گیا پھر دوسرے دن اسی اسرائیلی نے آپ کو نصرت کے لیے بلایا تو اس شیعہ کو آپ نے: لَـغَوِىٌّ مُّبِيۡنٌ ۞ (سورۃ القصص: آیت 18)
ترجمہ: کھلا گمراہ کہا (القرآن: پارہ، 20)
اگر اس کی شرارت کا آپ کو پہلے دن پتہ چل جاتا تو قبطی کا قتل اور جلاوطنی کی نوبت نہ آتی۔
شیعہ اکابر کے اجتہادی اختلافات:
3: اہلِ تاریخ نے لکھا ہے جب حضرت حسنؓ حضرت امیرِ معاویہؓ کو خلافت سپرد کر کے بیعتِ خلافت کر لی تو حضرت حسینؓ بہت ناراض ہوئے اور فرماتے تھے کہ اگر میری ناک کٹ جاتی تو اس سے بہتر تھا جو میرے بھائی نے کیا حضرت حسینؓ نے فرمایا بھائی امام میں ہوں چپ رہ ورنہ پاؤں میں بیڑیاں ڈال دوں گا شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی بہ نسبت شعیہ حضرت حسنؓ کا نام بہت کم لیتے ہیں ان سے ناراض ہیں ان کے نام کی مجلس تعزیہ تقیہ ماتم عزاداری کارناموں اور قربانیوں کی تشہیر وغیرہ شیعہ سے ہم نے نہیں سنی۔
حتیٰ کہ شیعہ کے سب سے بڑے مؤلف کلینی نے کافی کے باب الزیارات میں سیدنا حسنؓ کے جنت البقیع میں مزار اور ان پر صلوٰۃ وسلام کا تذکرہ تک نہیں کیا ظاہر ہے اتنے شدید اختلافات میں بھی ایک بھائی کو دوسرے کا دشمن نہیں کہا جا سکتا۔
4: سیدنا حسنؓ کی اسی بیعت کے سلسلہ میں ایک کٹر شیعہ سفیان بن ابی لیلیٰ نے آپ کو یوں سلام دیا السلام علیک یا مذل المؤمنین۔
(جلاء العیون: صفحہ، 263 مجالس المؤمنین: صفحہ، 311)
ترجمہ: اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو اس کے باوجود شیعہ کے نزدیک یہ پکا شیعہ اور مؤمن ہے اس طنز و مخالفت حسنی کے باوجود وہ آپ کا دشمن نہیں۔
5: صلح و بیعتِ حسنی کے دو سال بعد تک بھی شیعانِ کوفہ تاسف و حسرت اور حضرت امیرِ معاویہؓ سے لڑنے کی آرزو کرتے حتیٰ کہ ان کے لیڈر سلیمان بن صرد خزاعی نے سیدنا حسنؓ کی خدمت میں آکر کہا آپ کی صلح سے ہمارا تعجب دور نہیں ہوا جب کہ 40 ہزار تنخواہ خور جنگجو آپ کے ساتھ ہیں مگر حضرت حسنؓ نے ان کو اپنے شیعہ اور دوست کہا۔
(جلاء العیون: صفحہ، 263)
معلوم ہوا کہ نظریہ اور عمل میں دو سال تک حضرت حسنؓ کے مخالف رہنے والے بھی دشمن نہیں بلکہ محبِ شیعہ ہیں حتیٰ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کمانڈر انچیف سیدنا قیس بن سعد کے متعلق شوستری نے لکھا ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت حضرت امیرِ معاویہؓ کے سپرد کی تو قیس اس عمل سے ناراض اور رنجیدہ ہو گئے اور دل جلے ہو کر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق گستاخانہ باتیں کرتے اور آنحضرت کے لشکر سے علیحدہ ہو گئے مگر قیس کی قوم حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے جدا نہ ہوئی اور ان کے لیے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے امان لے لی قیس مدینہ جاکر عبادت میں مشغول ہو گئے حتیٰ کہ 60 ہجری خلافتِ حضرت امیرِ معاویہؓ کے آخر میں وفات پائی۔
(مجالس المؤمنین: صفحہ، 239)
یہاں بطورِ نمونہ صرف پانچ مثالیں پنچ تن کے حبداروں کے لیے کافی ہیں یہ اختلافات بظاہر بڑے اختلافات ہیں فریقِ ثانی یا پیغمبر ہے یا امام معصوم جن کی توہین یا قول وفعل کی ناپسندیدگی کفر ہے مگر وہ کونسا شیعہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت حسینؓ یا سفیان بن لیلیٰ اور سیدنا قیس بن سعد پر خارج از ایمان ہونے کا فتویٰ لگائے گا۔
(دیدہ باید)
ان شدید اختلافات کے باوجود اگر ان پر فتویٰ نہیں لگ سکتا اور یہی صحیح مذہب ہے کیونکہ یہ اختلافات اور تندی و تیزی البغض فی اللہ کے تحت ایمانی جذبات کے ترجمان ہیں اور علمِ غیب اور اسرار پر آگاہی نہ رکھنے والوں سے ان چیزوں کا صدور ہی ایک گونہ کمال ہے اسی طرح سیدنا طلحہٰ رضی اللہ عنہ حضرت زبیرؓ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے قاتلانِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے بغض فی اللہ کے تحت قصاصِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی تحریک چلائی کیونکہ عند الرسولﷺ سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا مقام اور قصاصِ عثمانؓ پر آمادگی کی وجہ سے ہی بیعتِ رضوان اور 1500 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنتی ہونے کی قرآنی سند ان کو معلوم تھی اور وہ ایسا کرنے میں معذور تھے حضرت علیؓ بھی حضرت عثمانؓ کا مقام جانتے اور اس مسئلہ کی نزاکت سے خوب واقف تھے مگر آپ اپنے اجتہاد میں تاخیر مفید جانتے تھے لہٰذا آپ بھی معذور تھے ایک تیسرا گروہ غیر جانبدار رہنے والوں کا بھی تھا جو کسی طرف سے بھی شریک نزاع نہیں ہوا اپنے اجتہاد کی حد تک وہ بھی معذور تھا اہلِ سنت کے نزدیک تینوں گروہ اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں معذور و مامور تھے نیت سب کی نیک تھی اللہ کے ہاں تینوں مقبول ہیں جیسے حضرات حسنین کریمینؓ اختلافِ اعتقاد و عمل کے باوجود عند الله مقبول ہیں اور ان کا اختلاف مصلحت سے خالی نہیں۔ ہمارے حنفی علامہ ابنِ ہمام نے مسامرہ شرح مسایرہ میں کیا خوب کہا ہے:
تلك دماء طهر الله منها ايدينا فلا نلوث به السنتنا۔
ترجمہ: ان خونوں سے اللہ نے ہمارے ہاتھ پاک رکھے ہیں تو ہم اپنی زبانیں ان سے ملوث نہیں کرتے اسی طرح منصف مزاج شیعہ بھی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر حق مشتبہ ہو گیا وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نصرت سے رکے رہے دنیا میں تو وہ اس تخلف سے شرمندہ رہے لیکن آخرت میں عذاب سے محفوظ ہوں گے گو دنیا میں ملامت سے نہ بچ سکے۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 322 لاردبیلی)
جو کچھ ہوا تھا خالی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہو چکا خلافتِ مرتضوی کی یہ خانہ جنگیاں قلب و جگر کو واقعی کباب بنا دیتی ہیں ان پر مجموعی اظہار افسوس بھی ناکافی ہے لیکن ان واقعات کو اچھال کر اپنے مخصوص مذہب کو رواج دینا مسلمانوں میں 1400 سال بعد نفرت و عداوت کے بیج بونا گڑھے مردے اکھاڑ کر پھر زخم ہرے کرنا نہ دین و دانش مندی کی بات ہے نہ قوم و ملک کی کوئی خدمت ہے جس میں شیعہ حضرات منہمک ہیں جمل و صفین کے 80 ہزار کشتگان کے متعلق ہم حسنِ ظنی رکھتے ہیں اصولاً ہمیں اس وقت کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے اپنی مظلومی کا نالہ و شیون کرنا چاہیئے مگر حاشا و کلا کوئی مسلمان ان قضیوں میں نہیں پڑتا کیونکہ امیر المؤمنینؓ دامادِ رسول زوجِ بتول آسمانِ شجاعت و قضاء کے آفتاب حضرت ابو ترابؓ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں اور ایک سنی مسلمان آپ پر حرف گیری نہیں کر سکتا لیکن تعجب یہ ہے کہ فریقِ ثانی صرف بہتّر حضرات شہداءِ کربلا کی آڑ میں 1300 سال سے مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور شر انگیزی کا مذموم کاروبار اور 72 علاوہ جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین رحمہم اللہ ہاشمی وغیر ہاشمی علوی وغیر علوی بزرگان دین پر سبِ وشتم اور تضلیل و تفسیق کی بمباری کرتے آ رہے ہیں مگر اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔
الزامی جواب:
باغی اس فرد یا گروہ کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی باقاعدہ منظم حکومت کی مخالفت اور مقابلہ کرتا ہے شیعہ فاضل ظل حسنین زیدی نہج البلاغہ اردو کے مقدمہ: صفحہ، 145 پر تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب کے دوست انگلیوں پر گنے جانے والے تھے اور مخالف و دشمن لا تعداد تین طبقوں میں منقسم تھے اس شیعہ تصریح کے مطابق جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی جماعت بہت کم تھی اور عام رعایا مخالف تھی تو آپ کی حکومت منتظم اور مستحکم نہ تھی ایسی حکومت کے خلاف انقلابی کوشش بھی بغاوت شمار نہیں ہوتی چہ جائیکہ سابق خلیفہ کے قتل کا طلب انصاف اور قصاصِ تحریک کی شکل میں بغاوت سمجھا جائے حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ و حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ باصطلاحِ شرع باغی تھے یا نہیں یہ شیعہ اور مسلمانوں کا اختلافی مسئلہ ہے۔
لیکن حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی بارہ سال سے باقاعدہ منظم خلافت کے خلاف بغاوت کرنے والے بلوائی بالاتفاق باغی تھے۔
نہج البلاغہ اردو صفحہ، 507 خطبہ، 167 میں ہے آپ کی بیعت ہو جانے کے بعد اصحاب کی ایک جماعت نے آپ سے عرض کیا اگر آپ ان لوگوں کو سزائیں دیں جنہوں نے سیدنا عثمانؓ پر فوج کشی کی تھی تو اچھا ہے حضرت نے فرمایا اے بھائیو جو بات تم جانتے ہو میں اس سے بے خبر نہیں ہوں لیکن یہ قوت کہاں ہے؟ جب کہ فوج کشی کرنے والے باغی پوری قوت و شوکت میں ہیں وہ اس وقت ہم پر مسلط ہیں ہم ان پر حاوی نہیں حد یہ ہے کہ تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
بعض علماء کی تحقیق میں حضرت عمارؓ کا قاتل بھی یہی فئہ باغیہ تھا جیسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل اسی قماش کے کوفی لوگ تھے اس بالاتفاق فئہ باغیہ کو قتل کی سزا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کیوں نہیں دی جب کہ آپ ان کا جرم اور قصاص کی فرضیت خوب جانتے تھے فما هو جوابكم فھو جوابنا۔ لے دے کے بعد اسی نتیجہ پہ آدمی پہنچتا ہے کہ مشاجراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں خاموش رہے۔