دستور انسانی اور اصول فلسفہ ہے کہ کسی ایک چیز پر اگر دو آدمی آپس میں جھگڑ پڑیں تو وہ دونوں جھوٹے تو ہو سکتے ہیں مگر دونوں سچے نہیں ہوا کرتے جب ایسا ہے تو جنگ جمل و صفین کے طرفین کے بارے میں دونوں کس طرح سچے ہوئے جو صاحب غلطی پر تھے ان کی نشاندہی تو کرو کہ فلاں بزرگ سےخطا ہوئی کیا قاتل و مقتول دونوں جنت میں جائیں گے؟
مولانا مہرمحمد میانوالیالجواب: اس کا جواب بھی سوال نمبر 11 اور 14 کے ضمن میں آ چکا ہے مزید وضاحت یہ ہے کہ منطقی اصول کے مطابق تناقض و تضاد کے لیے آٹھ وحدتوں کا اجتماع شرط ہے ان میں ایک جہت بھی ہے اگر جہت و حیثیت بدل جائے تو دونوں باتیں صادق ہو سکتی ہیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خلافت کا نظم و نسق بچانے کے لیے تلوار اٹھاتے ہیں اور بحیثیتِ خلیفہ سچے ہیں حضرات طالبینِ قصاص انتظامِ مملکت میں خلل یا خلیفہ بدلانے کے لیے یہ اقدام نہیں کرتے بلکہ خلافت کے وقار کو سنبھالنے اور باغیوں سے قصاص لے کر خلافت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ناگزیریہ راہ اختیار کرتے ہیں جب کہ قتال کی وجہ مختلف ہو گئی تو اختلاف علی شیء واحد نہ رہا اپنے اپنے مؤقف میں دونوں سچے ہوئے مشتہر صاحب کا خیالی دستور انسانی اور اصولِ فلسفہ باطل ہو گیا ہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کتبِ عقائد اہلِ سنت میں لکھا ہے کہ ان مشاجرات میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مصیب تھے اور دیگر حضرات خاطی تھے اس میں صواب و خطا کا یہ معنیٰ نہیں کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ و دیگر حضرات کی خلافت غلط تھی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی درست تھی کیونکہ وہ سب حضرات اور دیگر مؤرخین تصریح کرتے ہیں کہ خلافت و امامت میں طرفین کا دعویٰ اور نزاع نہ تھا بلکہ نزاعی مسئلہ صرف دمِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ تھا بلوائیوں کے حضرت علیؓ کے ساتھ حسنِ تعلق اور حمایت کی بناء پر اہلِ شام یہ گمان کرنے لگے کہ قتلِ عثمانؓ حضرت علیؓ کی سازش سے (العیاذ باللہ) ہوا حضرت امیرِ معاویہؓ نے اختلاف کو صرف اسی نکتہ میں منحصر کر کے اپنی صفائی پیش کی۔
الامر واحد الا ما اختلف فیہ من دم عثمانؓ ونحن منہ براء۔
ترجمہ: ہر بات متفقہ ہے بجز قتلِ عثمانؓ میں اختلاف کے اور ہم اس الزام سے پاک ہیں۔
حاشا و کلا کوئی بھی سنی مسلمان اس گناہِ عظیم میں حضرت علیؓ کو ملوث نہیں مانتا حضرت امیرِ معاویہؓ نے بھی اس صفائی کے جواب میں فرمایا: فنحن لا نرد ذالک علیہ الخ۔
ترجمہ: ہم آپ کی پاک دامنی کا انکار نہیں کرتے لیکن قاتلانِ عثمانؓ جو حضرت علیؓ کے ساتھی ہیں ملنے چاہیں تاکہ ہم ان کو قصاصاً قتل کر کے خلیفہ کی اطاعت اور جماعت میں شامل ہو جائیں۔
(طبری: جلد، 5 صفحہ، 6)
لیکن صد افسوس تو یہ ہے کہ آج کے نام نہاد محبانِ علیؓ اہلِ اسلام اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے کمالِ بغض کی وجہ سے صراحتاً حضرت علیؓ کی پاک دامنی اور قتل سے برات کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ میں ذاتی اور اعتقادی دشمنی تھی وہ قتل کے مستحق تھے بلوائی حضرت علیؓ کے خاص طرفدار تھے اور محمد بن ابی بکر یہ محمد ابتداءً بری نیت سے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تھا مگر آپ کے جھڑکنے سے واپس ہو گیا اور اشتر نخعی جو قتلِ عثمانؓ میں شریک تھے۔
(مجالس المؤمنین: صفحہ، 284 )
وہ حضرت علیؓ کے خاص مقرب اور سپہ سالار تھے۔(مجالس المؤمنین: صفحہ، 278، 284)
اب آپ ہی غور کریں اگر یہ بیان درست ہے اور شیعہ کو اسی پر بصدِ افتخار اعتماد ہے تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر بالواسطہ قتل کا الزام لگانے میں خود شیعہ نے مواد فراہم نہیں کیا پھر اہلِ شام کا شبہ یا الزام بلا دلیل نہیں کہا جا سکتا جسے غلط کہا جائے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں نہ ہو۔
خطا وصواب کا معنیٰ:
حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ و ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی خطاء کا مطلب یہ ہے کہ وہ قصاص میں جلد باز تھے اور حضرت علیؓ کو قادر علی القصاص جانتے ہوئے ٹال مٹول کا الزام دے رہے تھے حضرت امیر نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ میں قادر نہیں ہوں اس قوم سے میں کیسے قصاص لے سکتا ہوں جو ہمارے مالک بنے ہوئے ہیں اور ہم ان پر قابو یافتہ نہیں ہیں۔ (نہج البلاغہ)
ورنہ نفسِ قصاص میں اختلاف نہ تھا حضرت علیؓ نے حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے مؤقف کو سمجھتے اور تسلیم کرتے ہوئے جمل کے موقع پر خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف ان پر امت کا اتفاق قاتلینِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پر لعن و طعن اور ان کو اپنے ساتھ نہ چلنے کی تاکید کر دی تھی کما تقدم ہمارے شیعہ معترض کو اگر یہی اصرار تھا تو ہم نے خاطی کی نشاندہی اور اس کی وجہ بیان کر دی اب ان کو یہ اختلاف و شقاق چھوڑ کر دوبارہ اہلِ سنت مسلمانوں میں مل جانا چاہیئے بشرطیکہ حق و انصاف کی طلب ہو اگر وہ خاطی کی نشاندہی سے صرف ان پر لعن طعن کرنا چاہتے ہوں تو ایسا کرنا بڑی گمراہی ہوگی کیونکہ خطاء و نسیان لازمہ انسانی ہے انسان صرف حسنِ نیت کا مکلف ہے فکر و عمل میں بھول چوک سے پاک دامن رہنے کا مکلف نہیں ہاں درست کار کو دہر اجر ملتا ہے اور خطاء کار کو ایک گنا ملتا ہے امامت کو منصوص من اللہ اور زندہ شارع امام کا ہر زمانہ میں وجود تسلیم کرنے والے شیعہ بھی جو غیر منصوص مسائل کے لیے مجتہدین کے اجتہاد کا ڈھونگ رچاتے ہیں وہ بھی خطاء و صواب کے دونوں پہلو تسلیم کر کے ایک کو اختیار کرتے ہیں اور یہی اعتقاد رکھتے ہیں۔
کاملین سے سہو کا وقوع:
اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ متقدمین شیعہ انبیاء علیہم السلام کے خطاء و نسیان تک کے قائل ہیں: چنانچہ آیت و اما ینسینک الشیطن کی تفسیر میں شیعہ کے سب سے مستند عالم شیخ الطائفہ محقق طوسی نے تفسیر تبیان: جلد، 4 صفحہ، 179 پارہ، 7 میں اور علامہ طبرسی نے مجمع البیان: پارہ، 7 صفحہ، 14 میں سہوِ انبیاء کی تصریح کی ہے ملاحظہ ہو ہم سنی کیوں ہیں؟ صفحہ۔ 29۔
خیر جب اہلِ سنت اور معتمد علماءِ شیعہ کے اتفاق سے خطاء و نسیان انبیاء علیہم السلام تک سے جائز ہے اور قرآنِ پاک اسی کی تائید کرتا:
وَلَـقَدۡ عَهِدۡنَاۤ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِىَ وَلَمۡ نَجِدۡ لَهٗ عَزۡمًا ۞
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام بھول گئے ہم نے ان کا ارادہ نہ پایا۔
تو غیر انبیاء علیہم السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت امیرِ معاویہؓ سے اس کا صدور بدرجہ اتم جائز ہے خود حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے صفین میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
فلا تکفوا عن مقالہ بحق او مشورہ بعدل فانی لست فی نفسی بنوق ان اخطی ولا امن من ذالک من فعلی الا ان یکفی اللہ من نفسی الخ۔
(روضہ کافی: صفحہ، 357 و نہج البلاغہ)
ترجمہ: مجھے سچی بات کہنے سے اور منصفانہ مشورہ دینے سے باز نہ رہو کیونکہ میں غلطی کرنے سے بالا نہیں ہوں اور نہ میں اپنے کاموں میں چوکنے سے بے فکر رہتا ہوں مگر یہ اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہو۔
قرآن و سنت سے کسی معین گروہ کی بالیقین تصویب اور دوسرے کی تغلیط ثابت نہیں جو کچھ قرآن و سنت میں بالیقین مذکور ہے وہ: وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى الخ۔
ترجمہ: ہر ایک سے اللہ نے بھلائی جنت کا وعدہ کیا ہے۔ کے تحت سب کا نیک مؤمن جنتی مغفور اور مرضی عند اللہ ہونا ہے قرآن نے ان کے مدحیہ پہلو پر زور دے کر بدگوئی کو حرام بتایا ہے تو خود حضورﷺ نے ان پر طعن و تشنیع اور بدگوئی سے منع فرمایا ہے شیعہ مذہب سے تائب ہونے والے ان کے علامہ مجتہد مہدی حسن خان صاحب آیات بینات: جلد، 1 میں حضورﷺ کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
من سبنی فاقتلوہ ومن سب اصحابی فاجلدوہ۔
ترجمہ: جو مجھے برا کہے اسے قتل کر دو اور جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے اسے کوڑے لگاؤ چنانچہ اہلِ سنت و الجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر بھلائی سے کیا جائے اور مشاجرات میں پڑنے اور کسی گروہ پرطعن و تشنیع سے ضرور ہی بچا جائے۔
(تفصیلات کے لیے عدالتِ صحابہؓ از مؤلف ملاحظہ کریں)
خطائے اجتہادی پر دشمنی اورطعن و تشنیع اس بناء پر بھی جائز نہیں کہ بڑے بڑے کاملین بھی اس سے نہ بچ سکے حتیٰ کہ عند الشیعہ معصومین اور خاندان اہلِ بیتؓ میں بھی یہ باتیں پائی گئیں سابقہ سوال میں گزشتہ پانچ مثالیں اسی نوعیت کی ہیں انہیں پھر ملاحظہ کر کے مندرجہ ذیل مثالوں سے بھی دل و نگاہ روشن کریں:
6: حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام بناء بر قول اصح بزرگ پیغمبر علیہ السلام ہیں مگر دونوں کے مخصوص عطائی علم شرعی اور تکوینی میں فرق تھا اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دیا ان کے ہر کام پر رضا اور خاموشی کا معاہدہ بھی ہو گیا مگر حضرت خضر علیہ السلام کا کشتی توڑنا بچے کو مار ڈالنا غیر مروت لوگوں کی دیوار درست کر دینا صرف یہ تین کام ہی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملاحظہ کیے تو اپنے علم و اجتہاد سے انہیں غیر شرع سمجھ کر ہر دفعہ اعتراض کیا اور معاہدہ کی پابندی کا خیال نہ رہا آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام میں جدائی ہو گئی۔( القران: کہف، 106)
اس واقعہ میں بڑے فوائد اور مصلحتیں ہیں من جملہ یہ کہ ایک کامل کو اپنے علم و اجتہاد کی بناء پر دوسرے کا اسے اختلاف و مناقشہ درست ہے عند اللہ دونوں مقبول ہیں کسی کی تغلیط و تردید نہیں کی جا سکتی مسئلہ مشاجرات گو سنی عقیدہ کے مطابق غیر معصوم کا معصوم بچہ قیاس ہے مگر دونوں غیر معصوم فریقین کے پاس اپنے دعویٰ پر معصوم کی نص اور حجت تو موجود ہے فثبت التشابہ کیونکہ اللہ کا حکم ہے: وَ لَـكُمۡ فِى الۡقِصَاصِ حَيٰوةٌ الخ(سورۃ البقرہ: آیت 179)
ترجمہ: بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اور شرعی قانون ہے حد کا جاری کرنا واجب ہے۔
7: بھیڑوں کے قضیہ میں حضرت داؤد علیہ السلام نے ایک فیصلہ دیا مگر اس کے برعکس حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا قرآنِ پاک نے فَفَهَّمۡنٰهَا سُلَيۡمٰنَ الخ۔ (سورۃ الانبیآء: آیت 79)
ترجمہ: وہ فیصلہ ہم نے سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی تائید کی کیا حضرت داؤد علیہ السلام کے فیصلے کی تغلیط یا اس پر طعن و تشنیع عند الشیعہ جائز ہوگی؟
8: حضرت آدم علیہ السلام کو ایک درخت کا پھل کھانے سے روکا گیا تھا آپ نے خاص جزی درخت سمجھا لیکن عند اللہ پوری نوع کی نہیں تھی چنانچہ خطاء اجتہادی سے کھا بیٹھے پھر استغفار کی تو اللہ نے معاف فرما دیا۔
9: حضرت سید الرسل علیہ الف الف تحیہ نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر منافقین کو جھوٹے حیلے بہانوں کی وجہ سے گنجائش سمجھ کر نہ جانے کی اجازت دے دی اللہ تعالیٰ کو یہ اجازت ناپسند تھی معمولی تنبیہ کے بعد معاف فرما دیا:
عَفَا اللّٰهُ عَنۡكَ لِمَ اَذِنۡتَ لَهُمۡ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَتَعۡلَمَ الۡـكٰذِبِيۡنَ ۞
(سورۃ التوبہ آیت 43)
ترجمہ: اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے ان کو کیوں اجازت دی اجازت نہ دینی چاہیئے تھی تا وقتیکہ سچے آپ کے سامنے نکھر جاتے اور جھوٹوں کو آپ جان لیتے۔
بہرحال قرآنِ پاک میں ایسی کئی مثالیں مل سکتی ہیں جن میں بڑے بڑے اکابرین سے بعض اوقات فہم و اجتہاد میں چوک ہو گئی اور ان کا فیصلہ یا عمل مرجوع قرار پایا مگر وہ معاف ہے نہ اس پر طعن درست ہے اور نہ ان کی شان میں کچھ کمی آئی تو مسئلہ زیرِ بحث میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکابرینِ دین کی جنس سے ہیں گو انبیاء علیہم السلام کی نوع سے نہیں علی قدر مراتب ان کا احترام اور ان سے دفاع بھی ضروری ہے اور ان کی اجتہادی خطائیں بنصِ قرآنی معاف ہیں۔
وَلَقَدۡ عَفَا عَنۡكُمۡ وَ اللّٰهُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت 152)
10: حضرت حسینؓ نے اہلِ عراق کے ہزار خطوط سے متاثر ہو کر اپنے تفکر و اجتہاد سے یزید پر خروج جائز سمجھا مگر خاندانِ مرتضوی اور بنو عبدالمطلب میں سے چند افراد نے آپ کی موافقت کی حضرت علیؓ کہ دامادوں اور بیٹوں میں سے جو اس وقت موجود تھے کسی نے ساتھ نہ دیا حالانکہ حضرت محمد بن حنفیہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ جیسے فضلاء بھی موجود تھے شیعہ مذہب میں یقیناً یہ حضرات خاطی تھے مگر میں نہیں سمجھتا کہ 72 نفوس کے سوا جن میں 40 افراد غیر اہلِ بیت نسبی ہیں حضرت علیؓ کی اولاد اور خاندان بنو ہاشم کے سینکڑوں افراد کو شیعہ حضرات کفر و نفاق دشمنی اور جہنم کی بھینٹ چڑھا دیں گے۔
11: حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اہلِ شام پر لشکر کشی کی اور صفین کے مقام پر خوفناک جنگ لڑی اور مُسلمانوں کی خون ریزی کو جائز سمجھا نور۔ نظر فرزند اکبر حضرت حسن المجتبٰی رضی اللہ عنہ کے روکنے پر بھی نہ رکے لیکن زمامِ امامت جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئی تو آپ نے برضا اور رغبت حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی ان کے ہاتھ پر بیعت کی اپنے لشکر کی ناراضگی طعنہ بازی اور قاتلانہ حملے کے چر کے بھی سہے لیکن امت کی خون ریزی سے بچنے کے لیے یہ عظیم کام کیا مسلمانوں کے خون ریزی پر دل دادہ شیعوں کی جذبر اور طعنہ بازی کے جواب میں کیا خوب ارشاد فرمایا:
غرض من اطاعت امر حق تعالیٰ است بہ حفظ خونہائے مسلماناں پس راضی باشید بقضائے خدا:
(جلاءالعیون: صفحہ، 263)
ترجمہ: اس صلح و بیعت سے میری غرض حق تعالیٰ کے حکم کی اطاعت ہے جو کہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنا ہے بس خدا کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ
اب شیعہ ہی انصاف سے بتائے کہ اس کلی تضاد اور پدر و پسر کہ اختلاف و عمل میں کون حق پر ہے کون باطل پر کیا زمانہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں حضرت امیرِ معاویہؓ اور دیگر مسلمان زیادہ نیک ہو گئے تھے؟ یا عہدِ مرتضوی میں خدا نے مسلمانوں کی خونریزی کی وحی کی تھی اور اب منسوخ ہو گئی؟
12: حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس بے نظیر حسنی سنت کے برعکس پھر علمِ جنگ بلند کیا شیعہ کے نزدیک سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید میں چنداں فرق نہیں اور پھر دونوں بھائیوں کے عمل کا یہ تضاد اپنے اپنے اشتہاد کی صوابدید کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا یہاں کسی ایک کو غلط کار کہا جائے گا یا نہیں؟ اگر نہیں تو فریقین ہے جنگ جمل و صفین کے متعلق کچھ مت کہیں۔
13: عام شیعی پروپگنڈا کی روشنی میں سیدنا حسینؓ نے اپنی جان اپنے اہل و عیال کو خدا کے سپرد کرتی ہے مگر یزید کے آگے نہیں جھکے آپ کے جانشین بالغ حضرت علی زین العابدینؒ نہ صرف یہ کہ والد کے ساتھ جنگ میں شریک ہو کر شہید نہیں ہوئے بلکہ دمشق میں شاہی دسترخوان پر یزید کے ساتھ 15 دن تک کھاتے پیتے رہےتاریخ سے نفرت کا ثبوت نہیں ملتا بالآخر زمین و آسمان نے وہ دن بھی دیکھا کہ آپ نے موافقت کر کے اپنے والد کے عمل کو منسوخ کر دکھایا حادثہ حرہ میں یزید کے خلاف تحریک میں شامل نہیں ہوئے یزید نے بھی لشکر کو خصوصی تاکید کی تھی کہ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ میرا وفادار ہے اس کی حفاظت کرنا۔
(تاریخِ اسلام نجیب آبادی)
شیعہ مؤلف بھی یہ حقیقت یوں مسخ کرنے پر مجبور ہو گئے:
قد اقررت لک ماسالت انا عبد مکرہ فان شئت فامسک وان شئت فبع۔
(روضہ کافی: صفحہ، 235)
ترجمہ: جو کچھ تو نے بیعت کا مطالبہ کیا میں نے مان لیا میں آپ کا مجبور غلام ہوں آپ چاہیں تو اپنے پاس رکھ لیں چاہے تو بیچ دیں۔
حالانکہ واضح ہے کہ ایک ہی شخص کے متعلق دونوں باپ بیٹے کا یہ متضاد طرزِ عمل ایک کو یقیناً خطا کار ٹھراتا ہے مگر امامیہ عقیدے میں دونوں معصوم اور برحق ہیں اس میں تقیہ کا سہارا بھی ان سے مذاق کرنا ہے آخر وہ کون سی نص اور وحی تھی جس کی بنا پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے تقیہ حرام تھا اور حضرت زین العابدینؒ کے لیے واجب تھا یہ کہنا بھی باطل ہے کہ اگر یزید کی مخالفت کرتے تو قتل ہو کر سلسلہ امامت ختم ہو جاتا اس لیے کہ شیعی عقیدہ میں موت و حیات امام کے اختیار میں ہوتی ہے اور امامت کی وصیت بیٹے کے لیے لازم نہیں اپنے بھائی یا بھتیجے کو کر دیتے ہیں جیسے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کی تھی۔
14: سیدنا محمد بن حنفیہؒ نے امامت میں اپنے بھتیجے حضرت علی بن حسینؒ سے نزاع کیا اور ان کا پیروکار فرقہ کیسانیہ کہلاتا ہے اسی طرح حضرت زید بن زین العابدینؒ نے اپنے بھائی سیدنا محمد باقر صادقؒ اور اپنے بھتیجے سیدنا جعفر صادقؒ کی امامت کا انکار کیا خود دعویٰ امامت کر کے عباسیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور ان کے متعلق مرفوع حدیث میں حضور اکرمﷺ فرمایا اے حسینؓ تیری صلب سے پوتا ایک زید نامی شخص پیدا ہوگا جو مقتول شہید کیا جائے گا اور اس کی جماعت قیامت کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے جنت میں داخل ہوگی پھر سیدنا باقرؒ نے فرمایا میرے باپ پر اللہ پاک رحم فرمائے وہ بڑے ہی عبادت گزاروں میں سے تھے رات کو قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے اور اللہ کے راستے میں کما حقہ جہاد بھی کرتے۔
(مجالس المؤمنین: جلد، 2 صفحہ، 257 قصہ زید)
سیدنا طلحہٰؓ سیدنا زبیرؓ و سیدنا امیرِ معاویہؓ پہ فتویٰ لگانے والے شیعہ حضرت محمد علی بن حنفیہؒ اور زید پر بھی یہی فتویٰ لگائیں گے دیدہ باید اگر نہیں تو وہ اصول کہاں گیا کسی ایک بھی امام کی امامت کا منکر خدا رسول کے منکر کی طرح کافر ہے۔
(حیات القلوب: جلد، 2)
اسی طرح سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے خانگی تنازعات جلا العیون وغیرہ میں بکثرت موجود اور مذکور ہیں ہمارا ضمیر ان کی نقل کرنا مناسب نہیں سمجھتا غور کا مقام ہے کہ ان تمام اختلافات میں یا طرفین شیعہ کہ ہاں معصوم ہیں کسی کو خاطی اور غلط کار نہیں کہا جا سکتا یا ایک طرف امام معصوم ہیں دوسری طرف معزز امام زادہ ہاشمی علوی ہیں علی الاعلان شیعہ اس پر کفر و فسق کا فتویٰ نہیں لگاتے جو امور تکفیر اور تخطیئہ سے یہاں مانع ہے وہی حضرت طلحہٰؓ و حضرت زبیرؓ حضرت امیرِ معاویہؓ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر طعن اور بدگوئی سے مانع ہے
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا الخ۔
(سورۃ الحشر: آیت 10)
رہی بات یہ ہے کہ کیا قاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے تو ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ سوائے ان بلوائی غنڈوں کے جو لشکرِ عربی میں شامل تھے یا مبہم طور پر بد نیت مفسدوں کے وہ سب مقتولین جنت میں جائیں گے جو استحکامِ خلافت اور حدود اللہ کے اجرا کے لیے لڑے اہلِ جمل کا قصہ تو واضح ہے بلوائیوں کے مکر سے یہ جنگ خطا سے ہوئی اور خطاءً قاتل و مقتول جنتی ہوتے ہیں جیسے جنگِ احد میں سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کے والد مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اہلِ صفین کے متعلق ہماری روایات میں سیدنا علیؓ نے ارشاد فرما دیا:
قتلا و قتلی معاویۃ فی الجنۃ۔(رواہ طبرانی)
ورجالہ وثقواوفی بعضہم خلاف۔
(مجمع الزوائد: صفحہ، 358 جلد، 9)
ترجمہ: میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیرِ معاویہؓ کے لشکر کے مقتول جنت میں ہوں گے۔
اور نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 125 کہ خطبہ میں بھی ان کو کامل مؤمن فرمایا اور مؤمن کا جنت میں داخلہ بالاتفاق ہوگا۔
جنگِ جمل کے حالات میں تاریخِ طبری: جلد، 3 صفحہ، 167 میں ہے کہ آپ سے آپ کے ساتھی ابو سلامہ نے کہ کل جب ہم اور وہ مقابل ہوں گے تو دونوں انجام کیا ہوگا؟ فرمایا جو بھی خالصتاً للہ صاف دلی کے ساتھ قتل ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔
(بحوالہ تاریخِ اسلام: صفحہ، 285 شاہ معین الدین ندوی نیز سیدنا علیؓ سے متواتر یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کو سیدنا طلحہٰؓ کی شہادت پر بہت صدمہ ہوا اور ان کے صاحبزادے سیدنا محمد رحمۃ اللہ سے فرمایا کرتے تھے کہ میں اور تمہارے والد جنت میں ہوں گے اور یہ آیت ہمارے متعلق ہی اتری ہے:
وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَ ۞
(سورۃ الحجر: آیت 47)
(بحوالہ مختصر التحفہ الاثنی عشریہ: صفحہ، 278)
ترجمہ: جو کچھ ان کے سینوں میں کدورت تھی ہم اس کو دور کر دیں گے اور بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔
اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی یہی آیت تلاوت فرماتے تھے جب عمرو بن جرموز محبِ علیؓ سبائی نے لشکر سے الگ نماز اور سجدہ کی حالت میں حواری رسول اور پھوپھی زاد برادر پیغمبرﷺ سیدنا زبیر بن عوامؓ کو شہید کیا اور خوشی سے آ کر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی تو آپؓ نے غصہ سے فرمایا:
ا بشر یا قاتل ابنِ صفیہؓ بالنار فقال عمرو نقتل اعداءکم و تبشروننا بالنار۔
(اخبار الطوال: صفحہ، 149)
ترجمہ: صفیہؓ کے بیٹے کے قاتل تجھے جہنم مبارک ہو عمرو نے کہا ہم تمہارے دشمنوں کو قتل کر رہے ہیں اور آپ ہمیں جہنم کی خوشخبری دے رہے ہیں پھر تنگ دل ہو کر اس نے خود کشی کر لی جمل و صفین کے متعلق تمام ابحاث میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے جملہ ارشادات کو پڑھ کر شیعہ حضرات کو اپنے عقیدے کی اصلاح کر لینی چاہیے آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے زبانی محبت کا دعویٰ اور اعتقاد و عمل میں کھلی مخالفت کہیں ان کو جہنم کا ایندھن بھی نہ بنا دے واللہ الہادی۔
ان حادثات کے بعد تاریخِ طرفین کے بعض بعض حضرات کی ندامت کا پتہ بھی دیتی ہے اس پر بھی مغفرت اور قاتل و مقتول کا جنت میں داخلہ ضروری ہے حضورِ اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دو بندوں پر ہنستے ہیں ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور وہ دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں مقتول اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا شہید ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ اور استغفار کی توفیق عطا کرتے ہیں وہ بھی اللہ کے راستے میں لڑ کر شہید ہو جاتا ہے۔
(ابنِ ماجہ: صفحہ، 83 طبع مصر)