جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار فرمایا ! یا علیؓ انت وشيعتك هم الفائزون اے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تو اور تیرے شیعہ ہی نجات یافتہ ہیں کیا ایسی کوئی حدیث حنفی شافعی حنبلی مالکی کے لیے بھی مل سکتی ہے اگر نہیں تو دیوبندی بریلوی نجدی سحروردی چشتی قادری نقشبندی حضرات کے لیے ہی تلاش کر کے اطمینان دلا دیجیئےـ
مولانا مہرمحمد میانوالیجواب: یہ حدیث صحیح نہیں ہے صحاح ستہ اور دیگر کتبِ مداولہ اہلِ سنت میں اس کا وجود نہیں ہے شیعہ دوست کو اس کا حوالہ دینا چاہیئے لیکن چور مال مسروقہ کا اتہ پتہ کیسے بتا سکتے ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتبِ موضوعات سے اسے نقل کر کے دلیل بنا دیا بالعموم شیعہ کی عادت یہی ہے کہ وہ اپنی خود ساختہ حدیثوں کو اس قدر شہرت دیتے ہیں کہ وہ عام لوگوں میں مشہور ہو جاتی ہیں پھر ان کے کید و مکر سے آگاہی کے لیے بڑے بڑے محدثین کو ایسی کتابیں لکھنی پڑتی ہیں جن میں صرف بناوٹی حدیثوں اور ان کے گھڑنے والوں کا تذکره ہوتا ایسی کتابوں کو کتبِ موضوعات کہتے ہیں جیسے علامہ سیوطی کی اللالی المصنوعہ فی الاحاديث الموضوعة اور ملا على قاریؒ کی تذکره موضوعات وغیرہ ان کتابوں سے متہم بالوضع حدیث سے استدلال انتہائی خیانت ہوتی ہے اور شیعہ کو اہل بيتؒ کے فضائل میں حدیثیں بنانے اور اس متاع کاسد کو مارکیٹ میں لانے کا اس قدر ملکہ حاصل ہے معتزلی علامہ ابنِ ابی الحديد کو شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 17 پر اعتراف کرنا پڑا ہے:
واعلم ان اصل الاكاذيب فی احادیث الفضائل كان من جهة الشيعة فانهم وصنعوا فی مبدء الامر احادیث مختلفة فی صاحبهم حملهم على وضعها عداوة خصومهم۔
ترجمہ: واضح رہے کہ فضائل کے سلسلے میں جھوٹی احادیث بنانے کی بنیاد شیعہ کی طرف سے ہوئی کیونکہ اولاً انہوں نے ہی مختلف حدیثیں اپنے صاحب حضرتِ علیؓ کے حق میں بنائیں اور اس بناوٹ پر ان کو مخالفین کے ساتھ عناد اور دشمنی نے آمادہ کیاـ
نجات شیعہ کی یہ موضوع حدیث بلفظہ تو کتبِ صحاح یا موضوعات میں نہ مل سکی البتہ اس کے ہم معنیٰ یہ موضوع حدیثیں دستیاب ہوئی ہیں۔
1: شعبی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا اہل سنت و الجماعت ہوں گے اور نام نہاد شیعہ تو اب بھی رافضی مشہور ہیں شرک سے معمور قتل میں معذور اور جنت سے دور ہیں۔
2: ہمارے شیعہ قبروں سے نکلیں گے تو ان پر کوئی گناه و عیب نہ ہوگا الخ اس میں محمد بن سالم اور محمد بن على کندی دونوں ضعيف ہیں کنانی کہتے ہیں محمد بن سالم ابو سہل کوفی ہیں جو مستردک ہے محمد بن علی کو حافظ ذہبی اور ابنِ حجر نے بقول ازدی ضعیف کہا ہے ذہبی تلخيص موضوعات میں یہ روایت لانے کے بعد کہتے ہیں اس کی سند اندھیری ہے اور متن جھوٹ ہے۔
(تنزیہ الشریعہ عن الاخبار الشنیقہ الموضوعہ: جلد، 1 صفحہ، 419 مؤلفہ علی بن محمد بن عراق کنانی المتوفی 963)
سوال والی حدیث کتبِ صحاحِ ستہ اہلِ سنت میں تو نہیں ہے ہاں شیعہ کی کافی کتاب الروضہ: صفحہ، 305 میں مرفوعِ نبوی ہونے کے بجائے حضرت جعفر صادقؒ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ بنی عباس کا اختلاف غیبی ندا قائم کا خروج یقینی باتیں ہیں راوی نے پوچھا وہ ندا کیا ہے امام نے فرمایا اول دن میں آسمان سے ایک منادی ندا دے گا الا ان عليا و شيعته هم الفائزون۔
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کی پارٹی کامیاب ہے۔ اور پھر دن کے آخر میں منادی آواز دے گا الا ان عثمانؓ وشيعته هم الفائزون۔
ترجمہ: سنو عثمانؓ اور ان کے ساتھی کامیاب ہیں۔
اس میں شیعہ کے مقابل حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اور آپ کی جماعت کی کامیابی کا بھی ذکر ہے چونکہ وہ آخری دن میں ہوگا تو شیعہ علیؓ کے متعلق پہلا اعلان باطل یا منسوخ سمجھا جائے گا اور یہ اعلان خروجِ مہدی کے وقت ہوگا تو آپ کا مذہب بھی تو لاء عثمانؓ ہوگا اور آپ کے ساتھ تو لاء عثمانؓ رکھنے والی سب مسلمانوں کی جماعت بالآخر کامیاب ہوگی اور نام نہاد شیعہ علیؓ اس وقت بھی ناکام ہوں گے وللہ الحمد۔
على تقریر التسليم حدیث کا یہی مفہوم درست ہے کیونکہ اخروی نجات کے متعلق دو فرقوں کا تقابل اور دونوں کی کامیابی کا اعلان غیر معقول ہے اور حدیث کا سیاق و پسِ منظر امام برحق کی موجودگی میں دنیوی کامیابی کو متعین کرتا ہے ورنہ یہ حدیثِ روایت کے لحاظ سے موضوع ہے کیونکہ قرآنِ پاک نے شیعہ کے بجائے ان کے دشمن اصحابِ محمدﷺ کی کامیابی کی بشارت دی ہے۔
اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞
(سورۃ المجادلہ: آیت 22)
ترجمہ: یہ اللہ کا لشکر ہے سنو! اللہ کا لشکر ہی غالب ہونے والا ہے۔
اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً عِنۡدَ اللّٰهِ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ۞
(سورۃ التوبہ: آیت 20)
ترجمہ: یہی لوگ درجہ میں اللہ کے ہاں سب سے بڑے ہیں اور یہی کامیاب ہیں۔
قرآنِ پاک کے یہ ارشادات تاریخ کی کسوٹی پر پورے اترے کامیابی نے اصحابِ محمدﷺ اور خلفائے اسلام کے قدم چومے قیصر و کسریٰ کے تاج ان کے قدموں تلے روندے گئے آج کے 95 کروڑ مسلمان ان کی ہی قربانیوں اور فتوحات کی بدولت اسلام کے سایہ میں ہیں تو ان کے مخالف شیعہ کا وجود خود بخود کذب کا آئینہ ہے اور کبھی ان کو متبع اسلام ہونے کی حیثیت سے کامیابی اور ترقی نہ ہو سکی حتیٰ کہ ان کے سب اماموں نے بقول حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت مہدی مستور فی الغار اپنے اپنے زمانہ کے دان کے خیال میں، ظالم امام کی بیعت کی۔
(جلاء العیون: صفحہ، 261 المجالس المؤمنین: صفحہ، 443 تا بدگیرشیجان چه رسد۔
اصلی شیعہ اور ان کی تعداد:
واضع رہے کہ شیعی ائمہ کی واقعی تعلیمات کی روشنی میں شیعہ ہر چُوڑے بھنگی مراسی گوئیے پنج تن کے نام پر بھکاری مادر زاد ننگے ملنگانِ علیؓ تارکِ شریعت قلندر نسب پرست نام نہاد سید متعہ و عیاشی میں مست امراء کو نہیں کہتے جو بالعموم عشرہ محرم میں ماتمی مجالس اور شور و غوغا برپا کر کے فرضی جنت کا ٹکٹ نماز روزہ سے پاک اور مونچھیں لمبی داڑھی صاف ذاکروں سے حاصل کر لیتے ہیں۔ بلکہ ائمہ کے دین میں شیعہ وہ ہوتا ہے جو براہِ راست معصوم امام زمانہ سے تعلیم شریعت حاصل کرے پھر اس پر مکمل عمل کرے اور امام سے کما حقہ وفاداری کرے چنانچہ کافی: جلد، 2 باب الطاعتہ والتقویٰ میں یہ صراحت ہے کہ خدا کا نافرمان ہمارا دشمن ہے ہماری محبت صرف عمل اور پرہیز گاری سے ملتی ہے بایں معنیٰ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عمر بھر صرف تین یا چار شیعہ تھے روضہ کافی: صفحہ، 33 باقی تمام جمِ غفیر کو وفات سے پہلے آپؓ نے کفر و نفاق کی سند دی۔
(جلاء العیون: صفحہ، 179)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا بھی کوئی شیعہ نہ تھا ورنہ خلافتِ امیرِ معاویہؓ کے سپرد کر کے شیعستانِ عراق و کوفہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں پناہ گزین نہ ہوتے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا بھی کوئی شیعہ نہ تھا ورنہ 72 اصحابِ مکہ اور افرادِ خاندان کے ساتھ کوفی شیعہ کے ہاتھوں مظلومی کی شہادت نہ پاتے حضرت زین العابدینؒ کا بھی کوئی شیعہ تھا ورنہ وہ یزید کی غلامی اور بیعت کا طوق گلے میں نہ ڈالتے۔
(روضہ کافی: صفحہ، 235)
امام پنجم سیدنا باقر صادقؒ کے بھی کوئی وفادار نہ تھے ورنہ وہ اوصافِ شیعہ میں یوں نہ فرماتے:
قال فيهم التمييز وفيهم التبديل وفيهم التمحيص تاتی علیھم سنون تفنيهم و طاعون يقتلهم۔
(اصولِ کافی باب المؤمن و علامته)
ترجمہ: ان میں چھانٹی ہوگی ان میں مذہب کی تبدیلی ہوگی ان کو پر کھا جائے گا ان کو فنا کر دینے والی قحط سالی ان پر مسلط ہوگی اور طاعون ان کو قتل کرے گا۔
امام ششم حضرت جعفر صادقؒ کے بھی تین شیعہ مؤمن نہ تھے ورنہ وہ تقیہ حلال نہ جانتے اور کوئی حدیث نہ چھپاتے۔
(کافی باب قلۃ المؤمنین: صفحہ، 242)
امام ہفتم نہم دہم یازدہم کےبھی کوئی پیروکار شیعہ نہ تھے ورنہ ان کے خیر و شر کا کچھ شیعہ لٹریچر سے ثبوت ملتا۔
امام ہشتم علی رضا کے بھی کوئی مخلص شیعہ نہ تھے ورنہ وہ اپنے شعیوں کے ریزلٹ اور انجام کا یوں اعلان نہ کرتے اگر آپ میرے شیعہ کی پہچان کریں تو سب کو فیل پائیں اور اگر ان کو پرکھیں تو سب کو مرتد پائیں اور اگر ان کی چھانٹی کریں تو ہزار میں سے ایک بھی نہ نکلے اور اگر ان کو چھاننی سے چھانیں تو کوئی بھی نہ بچے بجز اس کے جو میرا ہو یہ مدت سے تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں ہم شیعہ علیؓ ہیں حالانکہ شیعہ علیؓ تو صرف وہی ہے جو اپنے قول و فعل کو سچ کر دکھائے۔
(روضہ کافی: صفحہ، 128 حضرت امام العصر والزمان مہدی الغائب کے 255 سے تاہنوز علی اختلاف الروايات 3، 30، 313 مؤمنین شیعہ بھی بیک وقت نہیں ہوئے اور ورنہ حضرت امام باہر نکل کر ظلم و کفر کا خاتمہ اور عدل و توحید کا ڈنکا بجا دیتے اصولِ کافی باب التمحيص و الامتحان: جلد، 1 صفحہ، 370 میں ہے کہ امام جعفر صادقؒ سے سوال ہوا کہ قائم کے ساتھ کتنے لوگ ہوں گے؟ فرمایا نضر لسیر تھوڑے سے آدمی ہوں گے راوی نے کہا لوگوں میں مہدی کی حمایت کا دعویٰ کرنے والے تو بہت ہیں فرمایا یقینی بات ہے شیعہ لوگوں کو پرکھا چھانٹا اور چھانا جائے گا اور بہت سی مخلوق چھانٹی سے نکل جائے گی۔
بارہ ائمہ کے شیعہ کی سب تعداد آپ کے سامنے ہے جو چند صد بھی نہیں بنتے کیا صرف یہی واحد مسلمان ہیں جو شیعہ علیؓ یہ جنتی اور کامیاب ہیں اور خلفائے ثلاثؓہ کو ماننے والی کروڑوں اربوں کی تعداد میں امتِ محمدیہ شیعہ کے خیال میں جہنم میں جائے گی تو پھر اصولِ کافی کی اس صحیح حدیث کا کیا مفہوم ہوگا۔
والناس صفوف عشرون و مائة الف صف ثمانون الف صف من امة محمد واربعون الف صف من سائر امم۔ (كتاب فضل القرآن: صفحہ، 596)
ترجمہ: سب لوگوں کی ایک لاکھ بیس ہزار صفیں ہوں گی 80 ہزار صفیں حضرت محمدﷺ کی امت کی ہوں گی اور 40 ہزار سب امتوں کی۔
یہ لوگ وہ ہیں جو بالآخر جنت کے حقدار ہوں گے 80 ہزار صف مذہبِ اہلِ سنت کے پیروکاروں کی ہی ہو سکتی ہے جو امتِ محمدیہ کہلانے پر فخر بھی کرتے ہیں شیعہ کی فہرست بالا کے مطابق ایک صف بھی نہ بنے گی پھر وہ کیسے کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
فائدہ مہمہ:
حديث: انت وشيعتك هم الفائزون کی حقیقت بیان ہو چکی اب آپ کے افادہ کے لیے چند موضوع احادیث بھی ذکر کی جاتی ہیں جن سے شیعہ مسلمانوں کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں تاکہ آپ ان کی چالوں میں نہ آئیں تقیہ کی آڑ میں شیعہ حضرات نے وضع حدیث کے سلسلے میں بڑا کمال دکھایا اور شریعتِ محمدیہ کے برعکس ائمہ کے نام سے مستقل شریعت اور دفتر احادیث تصنیف کر ڈالے۔
علامہ نودی رحمۃ اللہ شرح مسلم: جلد، 1 صفحہ، 83 پر لکھتے ہیں:
رافضہ سب فرقوں سے جھوٹا فرقہ ہے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھی کا قول ہے:
اللہ شیعہ رافضہ کو برباد کرے کتنا بڑا علم ضائع کر ڈالا یعنی افتراء بر علیؓ کی وجہ سے آپ کی طرف ہر منسوب بات مشکوک معلوم ہونے لگی۔
امام شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں اس امت میں جتنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر جھوٹ باندھا گیا اتنا کسی پر نہیں حضرت علامہ اپنے دور کی بات کرتے ہیں ورنہ شیعہ نے جتنا سیدنا باقر صادقؒ و سیدنا جعفر صادقؒ پر افتراء کیا وہ جزوِ مذہب بنا سیدنا علی المرتضیٰؓ پر اس کا عشر عشیر بھی نہیں باندھا گیا یا وہ انقلابات دہر کے بھنور میں پھنس کر موجودہ شیعہ تک بھی نہ پہنچ سکا۔
علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں رافضیوں کا جھوٹ ضرب المثل ہے علامہ ابنِ مبارک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں صحیح دین حدیث کے ماننے والوں کا ہے مناظرہ اور حلیہ بازی ڈھکوسلہ بازوں کا حصہ ہے اور جھوٹ رافضیوں کا شعار ہے حمادبن سلمہ کہتے ہیں مجھ سے ایک شیخ نے بیان کیا جو رافضی مذہب سے توبہ کر چکا تھا کہ جب ہم اکھٹے ہوتے اور ایک بات کو پسند کرتے تو ہم اسے حدیث بنا کر روایت کر دیتے۔
(السنتہ قبل التدوین: صفحہ، 197)
شیعہ بن کر ذئمہ اہل بیتؒ پر کذب و افتراء کا اقرار موجودہ محققین شیعہ کو بھی ہے چنانچہ ایرانی عالم سید احمد الحسینی رجال کشی کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
ولم يسلم الأئمة ايضا من ناس دسوا انفسهم فی اصحابهم واخذسا يختلفون عليهم الا كاذيب و يردون عنهم الاحاديث و يوجدون البدع و الآرا الضالة حتیٰ ان بعض الدجالين وضع الوفا من الاحاديث ونسبها الى من لم یتفوه بحرف واحد منها۔
(تقدیم: صفحہ، 3 طبع تہران)
ترجمہ: ائمہ اہلِ بیتؓ بھی ان لوگوں سے محفوظ نہ رہ سکے جنہوں نے اپنے آپ کو آپ کے ساتھیوں میں گھسیٹر دیا اور ان پر جھوٹی حدیثیں گھڑنے لگے اور بناوٹی روایتیں ان سے نقل کرنے لگے بدعتوں اور گمراہ عقائد کو ایجاد کیا یہاں تک کہ ان بعض دجالوں نے ہزاروں احادیثیں بنا کر اس امام کی طرف منسوب کیں جس نے ان کا ایک حرف بھی منہ سے نہ نکالا۔
احادیثِ شیعہ میں واقعی اختلاف و تضاد اور اصولی مختلف فرقوں کے وجود کی وجہ سمجھ میں آ گئی کیا وہ یہی شریعت یا بے عیب واسطہ ہے جس پر شیعہ فخر کرتے اور مسلمانوں کو اہل بیتؓ سے انحراف کا طعنہ دیتے ہیں۔
شیعہ کی موضوع احادیث:
1: آنا مدینۃ العلم و علیؓ بابھا
اسے امام ترمذیؒ نے جامع میں ذکر کر کے فرمایا ہے کہ یہ منکر غیر ثقہ راوی سے ہے امام بخاریؒ نے بھی یہ کہہ کر فرمایا ہے کہ کوئی وجہ صحت کی نہیں ابنِ معینؒ کہتے ہیں یہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصل نہیں ابو سعید اور یحییٰ بن سعید بھی یہی کہتے ہیں ابنِ جوزیؒ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔
(موضوعات کبیر از علا علی قاریؒ، ابنِ حجرؒ نے تہذيب التہذیب: جلد، 7 صفحہ، 428 پر اس حدیث کو موضوع کہا ہے۔
2: اے علیؓ آپ میرے بھائی میرے وصی میرے خلیفہ اور میرے بعد میرا قرض ادا کرنے والے ہیں۔
علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں ابنِ جوزیؒ نے کتاب الموضوعات میں اسے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے اور یہ موضوع ہے ابنِ حبانؒ کہتے ہیں مطر نامی راوی موضوعات روایت ہے اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ابنِ عدی کی روایت بھی اسی مطر بن میمون سے ہے اس میں خلیفتی فی اھلی کے الفاظ ہیں۔
(المنتقى: صفحہ، 693)
مطر بن میمون کو امام بخاریؒ منکر الحدیث کہتے ہیں۔ (موضوعات کبیر: صفحہ، 41)
3: ایک پرندہ آپﷺ کے پاس لایا گیا آپﷺ نے دعا کی اے اللہ اس پرندے کا گوشت کھانے کے لیے کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جو مجھے اور تجھے سب لوگوں سے عزیز تر ہو۔
اتنے میں حضرت علیؓ تشریف لائے یہ حدیث سب محدثین کے نزدیک جھوٹی اور موضوع ہے مشہور محدث امام حاکم سے اس حدیث الطیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا یہ سے حدیث صحیح نہیں حالانکہ حاکم تشیع کی جانب مائل ہے مگر حاکم اور دیگر علمائے حدیث مثلاً نسائی و ابنِ عبد البر کا تشیع تفضیلِ علیؓ کی حد تک نہیں پہنچتا محدثین میں کوئی ایسا عالم نہ تھا جو حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ سے افضل قرار دیتا ہو۔
(المنتقیٰ: صفحہ، 695)
4: حضورﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت علیؓ پر سلام بھیجنے کا حکم دیا اور فرمایا آپ سید المسلمین امام المتقین اور اہلِ جنت کے قائد ہیں شیعہ اس کی سند اور صحت ثابت نہیں کر سکتے بلکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت کسی صحیح کتاب اور قابلِ اعتماد مسند میں موجود نہیں اس کی اسناد میں متہم بالکذب راوی پائے جاتے ہیں اور مزید یہ کہ علماء اسے موضوع قرار دیتے ہیں اسی طرح اس کے یہ الفاظ وھو ولی کل مؤمن بعدی آنحضرتﷺ پر بہتان ہے۔
(المنتقیٰ: صفحہ، 697)
5: میرے اہلِ بیت کشتی نوح کی طرح ہیں جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا ڈوب گیا۔
شیخ اسلام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کشتی نوح والی حدیث صحیح نہیں اور حدیث کسی قابلِ اعتماد کتاب میں موجود نہیں۔
(منہاج السنۃ)
من احب حسنا و حسينا و والد كان معى في الجنة يہ محدث قطیعی نے کتاب الفضائل میں مسند احمد کے آخر میں اضافہ کے طور پر نقل کی ہے محدث ابنِ الجوزی رحمۃ اللہ نے اس روایت کو بواسطہ علی بن جعفر از موسیٰ موضوع قرار دیا ہے۔
(المنتقیٰ: صفحہ، 703)
7: حضرت ابو خدریؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا تمہاری حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے محبت علامتِ ایمان ہے اور تمہاری عادت موجبِ کفر تیرے محب سب سے پہلے جنت میں جائیں گے اور تجھ سے عداوت رکھنے والے سب سے پہلے واصلِ جہنم ہوں گے۔
ہم کہتے ہیں یہ صریح جھوٹ ہے کوئی مسلم یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خوارج و نواصب فرعون و ابوجہل جیسے رؤسا کفار سے پہلے دوزخ میں جائیں گے یا غالی اسماعیلیہ چھوٹے روافض اور فاسق امامیہ حبِ علیؓ کی بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
8: خطیب خوارزم نے مرفوع روایت کی ہے کہ جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو نا پسند کرتا ہو وہ کافر ہے اور اللہ کے رسول کے خلاف جنگ آزمائی کر رہا ہے۔
9: بروایتِ انسؓ علیؓ کو آتے دیکھ کر حضورﷺ نے فرمایا میں اور علیؓ روزِ قیامت اپنی امت پر حجت ہوں گے۔
10: معاوية بن حيدة القشيری مرفوعاً روایت کرتے ہیں جو شخص سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھتے ہوئے مر جائے تو یہ پرواہ نہ کریں کہ یہودی مرا ہے یا نصرانی۔
یہ تینوں روایات صحیح نہیں اس لیے کہ خطیب خوارزم کا ان روایات کو نقل کرنا ان کی صحت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس کی تصانیف موضوعات کا پلندہ ہیں جن کو دیکھ کر ایک حدیث دان شخص حیرت کا اظہار کرنے لگتا ہے اور بے ساختہ پکار اٹھتا ہے: هٰذَا بُهۡتَانٌ عَظِيۡمٌ ۞ وہ حقیقت شناس شخص جو واقعات سے آگاہ ہو اور آثار و اقوال میں مہارت رکھتا ہو اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس قسم کی احادیث کذاب راویوں نے عصرِ صحابہ و تابعین کے اختتام کے بعد وضع کر لی تھیں۔
(کذا فی منهاج السنة لابن تیمیهؒ)
11: امام نسائی رحمۃ اللہ نے خصائصِ علیؓ میں عباد بن عبد اللہ اسدی سے روایت کی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا میں اللہ کا بندہ اور رسولِ خدا کا بھائی ہوں میں ہی صدیقِ اکبرؓ ہوں میرے بعد جو اس کا دعویٰ کرے گا وہ کاذب ہوگا میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔
یہ روایت امام احمد نے اپنی کتاب الفضائل میں ذکر کی ہے ابن الجوزیؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے عباد متہم بالکذب ہے ابن المدینی نے بھی عباد کو ضعیف الحدیث قرار دیا اس کی سند میں منہال راوی بھی ہے جو شیعہ کے نزدیک متروک ہے اثرم کا قول ہے کہ میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا چھوڑئیے یہ ہے منکر الحدیث ہے۔
(المنتقیٰ: صفحہ، 7091)
درایتہً بھی حضرت علیؓ جیسے راست گفتار سے یہ بعید ہے کہ وہ اپنی خودستائی اور برتری کے لیے غلط بات کہیں۔
12: حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا تو پہلا شخص ہے جو بروزِ قیامت مجھ سے مصافحہ کرے گا تو صدیقؓ بھی ہے اور فاروقؓ بھی تو مؤمنوں کا لیسوب ہے ابنِ جوزی رحمتہ اللہ کہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اس کی سند میں عباد بن یعقوب اور علی بن ہاشم دونوں ضعیف ہیں اس کی دوسری سند میں عبد اللہ بن داہر ہے جسے محدث ابنِ معین رحمۃ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
بطورِ نمونہ متبرک عدد والی بارہ احادیث موضوعہ ذکر کی گئی ہیں 2، 10 ابنِ مظہر علی نے منبع الکرامہ میں خلافتِ علیؓ پر پیش کی ہیں جس کے رد میں شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ المتوفی 728 نے شہرہ آفاق تصنیف منہاج السنة النبوية فج نفض الشيرة القدرية لکھی ہے ہماری تنقید اسی سے ماخوذ ہے۔
اہلِ سنت ہی فائزہ المرام ہیں:
معترض کا یہ کہنا کہ ایسی کوئی حدیث حنفی شافعی حنبلی مالکی حضرات کے لیے بھی مل سکتی ہے اگر نہیں تو دیوبندی بریلوی نجدی سہروردی چشتی قادری نقشبندی حضرات کے لیے تلاش کر کے اطمینان دلا دیجیئے ایک لغو بات ہے کیونکہ چاروں ائمہ مجتہدین کے پیروکار یا علمِ تصوف میں چاروں سلاسل کے سالکین آپس میں کوئی اُصولی اختلاف نہیں رکھتے نہ ایک دوسرے پر طعن کرتے ہیں بلکہ شیر و شکر کر ہو کر ایک دوسرے کے پیچھے ہی نمازیں پڑھتے ہیں جب یہ سب اہلِ سنت والجماعت ہی ہیں تو سب کے لیے ایک حدیثِ نبوی اور فیصلہ مرتضوی کافی ہے۔ ملاحظہ جو حضرت علیؓ فرمانے ہیں:
وسيهلك فی صنفان محب مفرط يذهب به الحب الى غير الحق غلو و مبغض مفرط بن هب به البغض إلى غير الحق وخير الناس فی حالا النمط الأوسط فالزهوه والزموا السواد الاعظم فان بيد الله على الجماعۃ و اياكم والفرقة فان الشاذ من الناس للشيطن الخ۔
(نہج البلاغہ: قسم اول، صفحہ، 216)
ترجمہ: اور عنقریب میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ایک وہ جو محبت میں غلو رکھتا ہو کہ محبت اس کو خلافِ حق راستہ پر لے جائے اور ایک وہ جو عداوت میں غلو رکھتا ہو کے عداوت اس کو خلافِ حق کی طرف لے جائے میرے متعلق سب سے اچھے وہ لوگ ہوں گے جو درمیانی راہ اختیار کریں گے۔
لہٰذا تم درمیانی راہ کو لازم سمجھو او سوادِ اعظم کی پیروی کو لازم جو کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے خبردار جماعت سے علیحدہ نہ ہونا جماعت سے علیحدہ ہونے والا شیطان کا شکار ہے جس طرح وہ بکری جو گلے سے علیحدہ ہو جائے بھیڑیے کا شکار بنتی ہے آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے علیحدہ ہونے کی ترغیب دے اس کو قتل کر دو اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو یعنی اگر چہ میں ہی کیوں نہ ہوں نہج البلاغہ میں دوسرے مقام پر حضرت علیؓ نے حضورﷺ سے یہ حدیث نقل فرمائی ہے:
اس یقینی ارشادِ مرتضوی کی رو سے خوارج اور شیعہ کا باطل ہونا اظہر من الشمس ہے کیونکہ ایک غالی محب کے اپنے اندر خدا اور رسولﷺ کی صفات کا بھی عقیدہ رکھتا ہے صحیح مسلمان سوادِ اعظم ہیں جو اہلِ سنت و الجماعت ہے اور آپ کے متعلق معتدل عقیدہ رکھتے ہیں سوادِ اعظم سے مراد بڑی جماعت ہی ہے جیسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تصریح فرما دی اور ان کی اِتباع کی فرضیت بتائی علمائے شیعہ بھی سوادِ اعظم سے اکثریتی جماعت اور اہلِ سنت مراد لیتے ہیں مثلاً شیعہ کے شہیدِ ثالث نور اللہ شوستری مجالس المؤمنین: صفحہ، 572 پر لکھتے ہیں:
فقیر گفٹ کہ اہلِ سنت ہمیشہ سوادِ اعظم بودہ اند:
ترجمہ: فقیر کہتا ہے کہ اہلِ سنت پر دور میں سوادِ اعظم ہوئے ہیں ـ
اہلِ سنت جب سوادِ اعظم اور برحق و ناجی ہیں اور ارشادِ مرتضوی جیسے دنیا میں برحق نکلا آخرت کے اندر بھی برحق ہوگا اوراہلِ سنت فائز المرام اور جنات النعیم کے وارث ہوں گے اور جن محبانِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم پر حضرت امیر نے ہالک کا فتویٰ لگایا اور تاریخی حقائق کی روشنی میں وہ غدار و قاتل اہلِ بیتؓ ٹہرے ان سے بد دعائیں لیں اورآج بھی اتباعِ اہلبیتؓ سے محروم اور بدعات کے علمبردار ہیں 300 سال سے ناکامی ان کا مقدر بن چکی ہے اور ظلم و سفاکی سے بھر پور خمینی انقلابِ ایران کا وجود نا مسعود و جعلی فقہ جعفری کے لغو و ناکارہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے آخرت میں بھی ان کا یہی حشر ہوگا۔
وَمَنۡ كَانَ فِىۡ هٰذِهٖۤ اَعۡمٰى فَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ اَعۡمٰى وَاَضَلُّ سَبِيۡلًا ۞
(سورۃ الاسراء آیت 72)
ترجمہ: جو اس دنیا میں حق دیکھنے ماننے سے اندھا رہا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا اور گمراہ ترین ہوگا۔
اور ایسا کیوں نہ ہ محبِ علیؓ شیعہ میں دسیوں فرقے قائم ہوئے ہر ایک دوسرے سے اصولی اختلاف رکھتا ہے الگ امام بناتا اور دوسرے کی تکفیر کرتا ہے صرف امامیہ کے 29 فرقے ہیں تین بڑے فرقے زیدیہ اسماعیلیہ اور اثناء شریہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں سیدنا جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ امت کے 73 فرقے ہیں۔
ثلاث عشرة فرقة ینتحل ولا يتناو مودتنا الثنتاء عشرۃ قرقۃ منها فی النار وفرقة فی الجنة۔
(روضتہ الکافی کلینی: صفحہ، 224)
ترجمہ: 13 فرقے ہماری ولایت و محبت کے قائل ہیں ان کے بھی 12 فرقے جہنم میں ہوں گے صرف ایک جنت میں ہو گا۔
کیوں صاحب! شیعہ علیؓ اگر فائز ہیں تو بانی تشیع امام ان کو جہنم کی سند کیوں دیتے ہیں اور نہ معلوم مشتہر صاحب اور ان کے ہم مسلک جہنمی فرقوں سے ہیں یا ایک جنتی فرقہ کے فرد ہیں۔
اور واضح رہے کہ شیعہ عقائد و لٹریچر کی روشنی میں عہدِ ائمہ کے بعد جنت کا مستحق صرف وہی مختصر گروہ ہوگا جس کی تعداد بیش از بیش 313 ہوگی اور وہ بالفِعل حضرت قائم کی نصرت کرے گا ان کے علاوہ سب مدعیانِ تشیع منافق ہیں کیونکہ اگر اتنے مؤمن بھی ان میں ہوں تو حضرت مہدی غائب کو غار یا مخفی مقام سے باہر نکلنا واجب ہو جائے گا۔
(ملاحظہ ہوں روضہ کافی: صفحہ، 313 طبع ایران)