حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے تعلقات خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیسے تھے؟ کیا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا تھا کہ اس بڈھے نعثل کو قتل کر دو خدا اسے قتل کرے اگر ایسا ارشاد فرما کر آپ رضی اللہ عنہا مکہ تشریف لے گئیں تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلافت ظاہری کو سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کس طرح انہوں نے مظلوم تسلیم کر لیا کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے دیرینہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ذاتی رنجش نہ تھی ارشاد فرمائیں کہ جنگ جمل حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں ظہور پذیر ہوئی یا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی دیرینہ دشمنی کا نتیجہ تھی۔
مولانا مہرمحمد میانوالیحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں عقیدت مندی:
جواب: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے تعلقات اپنے فرزند و داماد سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے بالکل درست تھے آپؓ کا بھائی حضرت محمد بن ابی بکرؓ جب سیدنا عثمانِ غنیؓ پر تنقید کرتا تھا تو آپؓ اسے سمجھاتیں کہ ضد سے باز آجاؤ لیکن وہ کسی طرح نہ مانے ہر سال کے دستور کے موافق حضرت عائشہ صدیقہؓ اسی اثناء میں حج کے ارادے سے مکہ معظمہ چلی گئیں سیدنا محمد بن ابی بکرؓ کو بھی ساتھ لے جانا چاہا مگر وہ آمادہ نہ ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جن چند لوگوں کو سیدنا عثمانِ غنیؓ کے طرزِ عمل سے اختلاف تھا اور جن میں ایک جھوٹے پروپیگنڈہ پر مبنی روایت کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی داخل ہیں وہ بھی اس کے روادار نہ تھے اور نہ حاشا ان کا یہ مقصد تھا واقعہ سے پہلے اشتر نخعی نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا تھا کہ اس شخص حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کی نسبت آپؓ کی کیا رائے ہے فرمایا معاذ اللہ میں اماموں کے امام کے قتل کا حکم کیسے دے سکتی ہوں۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 356)
حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ حضرت عثمانؓ کے تذکرہ میں فرمایا خدا کی قسم میں نے کبھی پسند نہ کیا کہ حضرت عثمانؓ کی کسی قسم کی بے عزتی ہو اگر ایسا کبھی میں نے پسند کیا ہو تو ویسی ہی میری بھی ہو خدا کی قسم میں نے کبھی پسند نہ کیا کہ وہ قتل ہوں اگر کیا ہو تو میں بھی قتل کی جاؤں اے عبد اللہ بن عدی ان کے باپ سیدنا علیؓ کے ساتھ تھے تم کو اس علم کے بعد کوئی دھوکہ نہ دے اصحابِ رسولﷺ کے کاموں کی اس وقت تک تحقیر نہ کی گئی جب تک وہ فرقہ پیدا نہ ہوا جس نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر طعن کیا اس نے وہ کہا جو نہ کہنا چاہئیے تھا وہ پڑھا ہے جو نہ پڑ ھنا چاہئیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح نہ پڑھنی چاہئیے ہم نے ان کے کاموں کو غور سے دیکھا تو پایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال کے قریب تک نہ تھے یہ پوری تقریر جز خلق افعال العباد: صفحہ 76 پر امام بخاریؒ نے نقل کی ہے۔
(بحوالہ سیرتِ سیدہ عائشہؓ: صفحہ، 121 از سید سلیمان ندویؒ)
اس اعلان سے زیادہ حضرت عائشہؓ کے مخالفِ حضرت عثمانؓ ہونے کی افواہ کے جھوٹ ہونے پر کیا دلیل چاہئیے درحقیقت یہ بھی شیعہ کا لغو پروپیگنڈہ ہے جب وہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ و ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ دونوں کو نہیں مانتے تو ان کے درمیانی حسنِ تعلق یا اختلاف سے شیعہ کا کیا واسطہ اسی سے شیعہ کی بدنیتی اور فساد انگیزی نمایاں ہو جاتی ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ سے حسن تعلقات:
جنگِ جمل کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ کی مصالحت حسنِ نیت اور اصلاحی اقدام پھر بلوائیوں کی سازش سے اچانک جنگ کا قصہ سوال 13 کے تخت طبری وغیرہ تاریخ کے حوالہ جات سے گزر چکا ہے اسے مرتضیٰ دشمنی پر حمل کرنا بدترین بدظنی ہے جو از روئے قرآنِ حکیم عام مسلمانوں کے بارے میں بھی حرام ہے چہ جائیکہ حبیبہ حبیب رب العالمین و امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایسی یاوہ گوئی کی جائے۔
احادیثِ صحیحہ اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب جنگ کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات ہوئی تو ہر ایک نے گریہ و زاری کر کے معذرت اور امرِ جنگ سے لاعلمی ظاہر کی دو آدمیوں نے ام المومنینؓ کے حق میں گستاخی کی تو حضرت علیؓ نے ان کو 100، 100 درے کی حد لگائی اور فرمایا کہ بخدا کہ یہ تمہارے پیغمبرﷺ کی دنیا و آخرت میں اہلیہ اور تمہاری ماں ہیں ان سے لغزش ہو گئی ورنہ میرے اور ان کے درمیان کوئی خصومت نہیں حضرت عائشہؓ نے بھی برأت کرتے ہوئے فرمایا میرے اور حضرت علیؓ کے درمیان کوئی نہ تھی ہاں کبھی ایسی بات ہو گئی جو خاوند کے رشتہ دار اور بیوی کے مابین ہو سکتی ہے تو ممکن ہے۔ (کذا فی کشف الغمہ: صفحہ، 214 لعلی بن عیسیٰ اردبیلی شیعی)
شاید اس سے اشارہ اس شکر رنجی اور صدمہ کی طرف ہو جو قذف کے موقعہ پر آپ کو حضرت علیؓ کے حضورﷺ کو اس مشورہ دینے سے پہنچا تھا کہ آپؓ پر تنگی نہیں آپ اور شادی کرلیں جب کہ قرآنِ حکیم اور سب قرابت دارانِ نبیﷺ و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپؓ کی قطعی برات کی تھی ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کے تحت اس شدید صدمے کا اثر دیرپا بھی ہو سکتا ہے حضرت عائشہ صدیقہؓ بنتِ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس کی طرف اشارہ کر دیا تو یہ دوستانہ عتاب ہے اسے جنگِ جمل کا سبب قرار دینا انتہائی ظلم اور خبثِ باطنی کا اظہار ہے ترمذی مناقبِ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں سیدہ ام المومنینؓ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی ہے اور فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر بہت نماز گزار اور روزہ دار تھے صحیح بخاری مناقبِ قرابت اور مناقبِ حضرت فاطمہؓ میں حضرت عائشہؓ ہی سے یہ روایت کی ہے کہ مرضِ وفات میں حضرت فاطمہؓ کو حضورﷺ نے بلا کر چپکے سے کچھ کہا تو رو پڑیں پھر کچھ فرمایا تو ہنس پڑیں پھر حضرت عائشہؓ نے پوچھا تو فرمایا مجھے حضورﷺ نے اپنے وفات پانے اور خاتونِ جنت ہونے کی بشارت دی ہے حضرت علیؓ کا آلِ عبا میں داخل ہونا اور اہلِ بیتؓ ہونا ہمیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ ہی معلوم ہوا۔ (صحیح مسلم)
متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ سیدہ عائشہؓ کے پاس مستفتِی آئے ہیں خود جواب دے کر انہوں نے ان کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جانے کی ہدایت کی ہے۔
(مسنِد احمد: جلد، 6 صفحہ، 155)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کبھی سفر سے واپس آتے تو داماد کی ضیافتیں کرتیں۔ (مسندِ احمد ایضاً)
خوارج کی آپ سے مخالفت اور شہادت سن کر حضرت ابنِ عمرؓ سے فرمایا خدا حضرت علیؓ پر رحمت بھیجے ان کو جب کوئی بات پسند آتی تو یہی کہتے صدق الله و رسولہ اہلِ عراق ان پر جھوٹ تہمت باندھتے ہیں اور بات کو بڑھا کر بیان کرتے ہیں۔
(مسندِ احمد: جلد، 1 صفحہ، 86 بحوالہ سیرتِ سیدہ عائشہؓ)
اختلاف کا سببِ قصاص قتلِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ہی تھا ایک پیغمبر کریمﷺ کی بہترین اہلیہ ہیں اور ایک معزز داماد ہیں ان دونوں میں نفرت اور دشمنی ثابت کرنا پیغمبرﷺ کی تعلیم و تربیت کا منکر ایک یہودی یا نصرانی تو کر سکتا ہے مگر آپ کے محب اور مسلمان سے اس کی توقع نہیں ہو سکتی۔
اقتلوا نعثلا کا قصہ وضعی ہے:
تلاش بسیار کے بعد تنقید کا یہ قصہ ہمیں تاریخ طبری: جلد، 4 صفحہ، 459 پر ملا مگر افسوس کہ شیعہ کا یہ قلعہ بلبلہ آب ثابت ہوا۔
اولاً: اس کی سند میں حسین بن نصر عطار، ابو نصر بن مزاحم، محمد بن نویرہ، طلحہٰ بن اعلم حنفی وغیرہ ایسے مجہول لوگ ہیں جن کا عام کتبِ رجال و تاریخ میں تذکرہ نہیں ملتا۔
ثانیاً: ایک راوی سیف بن عمر معروف ہے مگر اس پر کتبِ رجال میں کڑی جرح موجود ہے میزان الاعتدال میں سیف کے ترجمہ میں ہے کہ وہ لیس شئ کچھ بھی نہیں ہے متروک ہے منکر الحدیث ہے وضع و زندقہ سے متہم ہے پھر آخری راوی اسد بن عبداللہ مروی عنہ کا نام نہیں لیتا تدلیس کرتا ہے ایسی بے سروپا اور جعلی روایت سے سیدہ ام المؤمنینؓ جیسی ہستی پر طعن کرنا واقعی شیعہ کو زیب دیتا ہے۔
ثالثاً: درایتاً بھی یہ قصہ لغو ہے بلکہ شاذ و منکر ہے کیونکہ اس کے خلاف حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بہت سی روایات ثابت ہیں جن میں آپ نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا قتل کو نفرت و حقارت سے دیکھا ان پر لعنت کی اور حضرت علیؓ نے بھی آپ کی تائید میں ان پر لعنت کی۔
(طبری: جلد، 4 صفحہ، 493 المنتقىٰ: صفحہ، 329)
رابعاً: حتیٰ الامکان آپ حضرت عثمانؓ اور بلوائیوں کے اختلاف کو دفع کرتیں ماں کی حیثیت سے بلوائیوں کی کسی غلط رپورٹ پر آپ کو حضرت عثمانؓ پر تنقید کا حق حاصل تھا کی کبھی کچھ کیا ہو تو وہ کس منطق سے حضرت عثمانِ غنیؓ سے دشمنی کے ذیل میں آئے گا محاصرانہ تنقید عام بات ہوتی ہے درحقیقت بلوائی کمینے آپ کی عزت کے بھی دشمن تھے۔لگائی بجھائی سے فتنہ برپا کرنا چاہتے تھے اور یہ تنقید ان کی ہی خود ساختہ ہے جب انہوں نے ام المومنین حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کی بھی بے عزتی کی تو آپ عزت بچا کر اور حج کے لیے مکہ مکرمہ چلی آئیں اگر آپ بزعمِ شیعہ مخالفِ حضرت عثمانؓ اور آپ کی قتل پر خوش تھیں یہ مقصد مدینہ شریف میں رہ کر جلدی حاصل کر سکتی تھیں بلوائیوں کی ڈھارس بندھتی مگر آپ کا عمل اس کے برعکس تھا۔
خامساً: در حقیقت یہ تنقید جھوٹ ہے نعثل کا لفظ صرف قاتلین حضرت عثمانؓ کی زبان پر جاری ہوا سب سے پہلے یہ لفظ بولنے والا جبلہ بن عمرو ساعدی تھا اس نے کہا اسے نعثل میں آپ کو قتل کر کے ایک خارشی اونٹ پر سوار کروں گا اور اسے شہر سے باہر پتھریلی زمین کی طرف ہانک دوں گا تاریخِ طبری: جلد، 5 صفحہ، 114 مطبع حسینیہ مصر)
بعد ازاں یہ لفظ جنگِ جمل کے موقعہ پر ہانی بن خطاب اور حبی کی زبان پہ جاری ہوا وہ کہتا ہے
ابت شيوخ من حج و ھمدان ان لا یردو نعثلا كما كان۔
تیسری مرتبہ یہ لفظ عبد الرحمٰن بن حنبل حمجی نے جنگِ صفین کے موقعہ پر بولا، وہ کہتا ہے۔
ان تقتلونی فانا ابنِ حنبل انا الذی قتلت فیکم نعثلا۔
جب جبلہ بن عمرو ساعدی نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ نعثل کا لفظ بولا حضرت عائشہ صدیقہؓ اس وقت مکہ مکرمہ میں محو عبادت تھیں جب حج سے واپس لوٹیں تو یہ لفظ آپ کے کانوں میں پہنچا۔
(تحشیہ الخطیب بر منتقیٰ: صفحہ، 342)
سادساً: زیرِ بحث تاریخی روایت میں یہ بھی ہے کہ عبد ابنِ امُ کلاب نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ کیوں قصاصِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ چاہتی ہیں جب کہ آپ نے ان پر نکتہ چینی کی تھی۔
قالت انہم استتبابوہ ثم قتلوہ وقلت وقالوا و قولى الاخير خير من قولی الاول۔ (طبری: جلد، 4 صفحہ، 459)
ترجمہ: فرمانے لگیں بلوائیوں نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے توبہ کرائی پھر انہیں شہید کر دیا اور میں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب بلوائیوں نے ان کے متعلق میرے پاس غلط رپورٹ بیان کی تھی۔ میری آخری بات حقیقت پر مطلع ہونے کی وجہ سے پہلی بات سے بہتر ہے۔
معلوم ہوا کہ وہ جملہ ثابت بھی ہو تو غلط خبر پر مبنی تھا جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تصریح کردی ہے۔
سابعاً: بصرہ کے شہر میں حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تقریروں کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا لوگ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کرنے لگے اور آپ کے حکام پر الزام لگاتے ہمارے پاس یہ لوگ مدینہ میں آتے تو جو کچھ بیان کرتے ہمیں اس کے چھپانے کا حکم دیتے اور ہماری نرم بات کو اپنے حق میں بہتر جانتے جب ہم ان کے الزامات میں غور کرتے تو حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو بری، پرہیز گار اور وفادار پاتے اور ہم ان کو بدکار اور جھوٹا سمجھتے کہ یہ جو کچھ ظاہر کرتے اس کی خلاف ارادہ رکھتے تھے طلبِ حق کے بجائے قتلِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ جب یہ باغی ٹولہ بنانے پر قادر ہو گئے تو گھر میں گھس کر حرام خون حرام مال اور حرام شہر کو حلال کر لیا۔
(طبری: جلد، 4 صفحہ، 464)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا اے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اللہ اگر تجھے ایک دن بھی خلافت کی قمیص پہنائے اور منافق اتروانا چاہیں تو اللہ کی اس پہنائی ہوئی قمیض کو کبھی نہ اتارنا آپﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا تھا راوی نے کہا اے اماں قتل والے دن آپؓ نے یہ حدیث کیون نہ سنائی فرمایا بھول گئی تھی۔
(ابنِ ماجہ: صفحہ، 11)