اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نہ ماننے والا جہنمی ہے تو اس سیدہ کا قاتل کیونکر رضی اللہ عنہ رہ سکتا ہے۔ مہربانی کر کے تاریخِ اسلام: جلد، 2 صفحہ، 44 نجیب آبادی ملاحظہ کر کے فتویٰ صادر فرمائیں۔
مولانا مہرمحمد میانوالیجواب: بطورِ الزام پہلی عرض یہ ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نہ ماننے والے کو آپ جنمی مان چکے ہیں اس سیدہ ام المؤمنینؓ زوجتہ الرسولﷺ سے جنگ کرنے والے بیٹوں پر فتویٰ بھی آپ بتا دیں ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی آپ کی جلالتِ شان کے پیشِ نظر آپ کا تذکرہ یہاں مناسب ہے۔
حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا مقام:
واقعی سیدہ ام المؤمنینؓ کو مومنہ نہ ماننے والا یا آپ کی شان میں گستاخی کرنے والا ملعون اور جہنمی ہے۔ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:
اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَاَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ الخ
(سورۃ الاحزاب: آیت 6)
ترجمہ: ایمان والوں کے لیے یہ نبیﷺ ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔
شیعہ مولوی مقبول صاحب نے تفسیرِ قمی کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لفظ بھی نازل ہوئے تھے و ھواب لھم اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ نبی دین و دنیا میں امت والوں کا باپ ہے دین میں تو اس طرح کہ ہر نبی اس جہت سے اپنی کل امت کا باپ ہوتا ہے کہ دائمی زندگی کی جڑ اس کی ذات ہے اور اسی سے مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں۔
(ترجمہ و حاشیہ مقبول: پارہ، 21 صفحہ، 105)
اس سے قطعاً معلوم ہوا کہ زوجة الرسول حضرت عائشہ صدیقہؓ و حضرت حفصہؓ ام المؤمنينؓ ہیں جیسے پیغمبرِ اکرمﷺ روحانی اور ایمانی باپ ہیں اسی طرح امہاتُ المؤمنینؓ روحانی اور ایمانی مائیں ہیں یہ نسبی رشتہ نہیں کیونکہ پیغمبرﷺ نے مؤمنوں کے گھر میں خود شادیاں کیں اور امہاتُ المومنینؓ کا امت سے پردہ بھی کرایا اب جو شخص امہات المومنینؓ کو مؤمن نہ مانے وہ دراصل ایمانی رشتے کا منکر اور قرآن کا منکر ہے عرفِ عام میں ایسا شخص ایمان سے محروم ماں پر الزام لگانے کی وجہ حرامی اور مؤمن برادری سے خارج سمجھا جائے گا۔
اسی طرح حضرت عائشہؓ وغیره ازواجِ مطہرات اہلِ بیتِ نبویﷺ بھی ہیں ارشاد ہے:
وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا ۞
(سورۃ الاحزاب: آیت 33)
وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا ۞
(سورۃ الاحزاب: آیت 34)
ترجمہ: اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری کرو اے نبیﷺ کے اہلِ بیت! گھر والو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی جو باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔
(ترجمہ مقبول: صفحہ، 505)
یہ سب خطابات ازواجِ مطہرات کو ہیں اور بنصِ قرآنی وہ اہلِ بیتِ نبویﷺ ہیی اس کا منکر قرآن کا ہی منکر ہوگا جیسے حضرت سارہ علیہا السلام زوجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے اہلِ بیت کہلوایا ہے ارشاد ربانی ہے:
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ ۞
(سورۃ ہود: آیت 73)
ترجمہ: فرشتوں نے کہا: کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کر رہی ہیں؟ آپ جیسے مقدس گھرانے پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہی برکتیں ہیں بیشک وہ ہر تعریف کا مستحق بڑی شان والا ہے۔ (ترجمہ مقبول)
گویا ہم نماز کے درود میں رحمت اور برکت کی جو دعا آلِ ابراہیم علیہ السلام پر پڑھتے اور انک حمید مجید سے اس پر مہر لگاتے ہیں وہ اسی آیتِ کریمہ سے ماخوذ ہے۔
جیسے یہاں مؤنث کو مذکر کے صیغوں سے خطاب کیا گیا اسی طرح اوپر والی آیت میں لفظ اہل کی رعایت کے لیے مذکر کے صیغے ارشاد فرمائے گئے اور یہ کلام عرب میں پایا جاتا ہے حماسی بیوی سے خطاب کر کے کہتا ہے:
فلا تحسبى انى تخشعت بعدكم شئی ولا انی من الموت افوق۔
شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان: پارہ، 22 سے ازواجِ مطہرات کی افضلیت اور اہلِ بیتِ نبویﷺ ہونا ملاحظہ فرمائیں:
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی فضیلت دنیا کی تمام عورتوں پر یہ فرما کر ظاہر فرمائی اے نبی کی بیویوں تم اور کسی بھی عورت کی طرح نہیں ہو حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں اس کا معنیٰ یہ ہے کہ تمہارا مرتبہ میرے ہاں اور نیک عورتوں جتنا نہیں ہے بلکہ تم میرے ہاں سب سے زیادہ معزز ہو تمہاری توجہ الی اللہ زیادہ رحمت دلانے والی ہے اور ثواب تمہارا سب سے بڑا ہے کیونکہ تمہارا رسول اللہﷺ سے رشتہ ہے
اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ الایۃ۔
(سورۃ الاحزاب: آیت 33)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رجس سے شیطان کا کام اور خدا کا ناپسندیدہ کام مراد ہے بیت میں لام تعریفِ خصوصیت والا ہے یعنی نبوت اور رسالت کا گھر اور عرب رہائش گاہ کو گھر کہتے ہیں اس لیے انساب کو بھی بیوت کہا جاتا ہے تمام امت کا اتفاق ہے کہ اہلِ بیت سے مراد ہمارے نبیﷺ کے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ہیں پھر تشریح میں اختلاف ہے سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد، عکرمہ وغیرہ کہتے ہیں ازواجِ نبیﷺ مراد ہیں کیونکہ آیت کا آغاز انہی سے مخاطب ہے شیعہ کے ہاں آلِ عبا ہیں۔
بلاشبہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی حضورﷺ نے اہلِ بیت قرار دے کر اس آیت میں مندرج فرمایا ہے لیکن دعا کی بدولت یہ شمول تبعی اور ضمنی ہے نزولِ خاص ازواجِ مطہرات کے حق میں ہوا ہے جیسے سیدنا ابنِ عباسؓ مفسر اہلِ بیتؓ اس پر مباہلہ کا چلنج دیا کرتے تھے۔ (تفسیر ماثورہ)
3: کاملین بھی بدزبانوں کے حملہ سے نہیں بچ سکتے اور انجام کار ان کے حق میں مفید ہوتا ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام اور بنی اسرائیل کے راہب پر بدکاری کی تہمت لگی تھی اور ان کی برأت خاندانِ زلیخا کے بچے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نومولود بچے نے دی تھی اسی طرح سیدہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ پر منافقوں نے تہمت لگائی تھی تو سابقہ برأتوں سے بڑھ کر خود خدا تعالیٰ نے برأت کی اور سورت نور کے 2 رکوع صرف اسی برأت کے لیے اتارے تمام مفسرین اور محدثین اس واقعہ پر متفق ہیں اللہ نے متنبہ کر کے فرمایا:
اللہ تم کو نصیحت فرماتا ہے کہ اس قسم کی ایمان و کردار میں عیب لگانے والی بات دوبارہ کبھی نہ کرنا اگر تم مؤمن رہنا چاہتے ہو۔
4: اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت پیغمبرﷺ اور آپ کی زوجہ مطہرہ میں مناسبت و مطابقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ ۞
(سورۃ النور: آیت 26)
ترجمہ: گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق یہ پاکباز مرد اور عورتیں ان باتوں سے بالکل مبرا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ان پاکبازوں کے حصے میں تو مغفرت ہے اور باعزت رزق۔
یعنی اگر تمہارے اعتقاد میں پیغمبرِ اکرمﷺ پاک ہیں تو ان کی بیویاں بھی پاک ہیں ان کے ایمان و کردار پر شبہ کرنا روا نہیں اور اگر العیاذ باللہ آپ کی بیویاں ایمان و کردار کے لحاظ سے گندی ہیں تو پیغمبرِ اکرمﷺ پر بھی حرف آتا ہے ایسی ازواج زوجات الرسولﷺ بننے کے بجائے گندے لوگوں کے عقد میں آتیں ازواجِ الرسول اور امہات المؤمنین کے دشمن ان چار آیات پر غور کریں کیا وہ ان کے حق میں بدگوئی کر کے مسلمان رہ سکتے ہیں یہ کس قدر واضح بات ہے کہ بیوی کا رشتہ اس قدر محبوب اور اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اس کے دفاع اور حرمت کی خاطر قریب ترین رشتہ داروں سے بھی دشمنی ہو جایا کرتی ہے اور انسان کے جذبات نازک صورت اختیار کر جاتے ہیں سخت ترین کفار کو بھی اس کمینگی کی جرأت نہ تھی کہ وہ حضورﷺ کی ازواجِ مطہرات کے متعلق نازیبا بات کہتے حالانکہ انہوں نے آپ سے دشمنی اور ایذاء رسانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ پیغمبرِ اکرمﷺ پر ایمان کا مدعی ایسا ٹولہ بھی ہے جو حضور پاکﷺ کی پاک بیویوں کے ایمان و کردار پہ پاگل جانور کی طرح چھوٹ چھوٹ کر حملے کرتا ہے حالانکہ ایسی معمولی سی بات اگر ان کی بیویوں کے متعلق کوئی کہہ دے خواہ وہ کتنے گھٹیا اور اوباش قسم کے ہوں تو وہ لڑائی دنگے پر اتر آئے مگر سرکارِ دو عالمﷺ جن کی عزت و حرمت پہ دونوں جہان قربان ہو سکتے ہیں کی پاک حرم کے لیے وہ ہر قسم کی بدگوئی ایمان سمجھتا ہے ہم اس پہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگ کمینگی میں کفار سے بھی بدتر ہیں اور خدا اور رسولﷺ کی لعنتیں ان کے مذہب پر اعمال پر اور عقائد پر برستی رہیں۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا ۞
(سورۃ الاحزاب: آیت 57)
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے ایسا عذاب تیار کر رکھا ہے جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔
اسی طرح جو نام نہاد نعرہ بازی اور مرثیہ خوانی کے شوقین سنی ان لوگوں کی مجلسوں کی رونق کو دوبالا کرتے ہیں اور طنزاً و کنایتاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و امہات المومنینؓ اہلِ بیتِ نبویﷺ کے گلے سنتے ہیں وہ ہر غیرت سے یکسر محروم ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ بدگوئی اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ آپ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جنگ کی حالانکہ یہ سب قاتلانِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ منافقوں کی سازش تھی تو واضح رہے کہ سیدنا علیؓ نے جنگ کے بعد فرما دیا تھا ولها بعد حرمتها الأولىٰ۔ (نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 63)
اس کے بعد بھی ان کی وہی عزت ہے جو پہلے تھی گویا اس واقعہ کے بعد بھی بنصِ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ایمان اور مقام میں فرق نہیں آیا جیسے سچے محبانِ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ سنت و الجماعت کا مذہب ہے جنگِ جمل کے بعد دو شخصوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو برا بھلا کہا تھا تو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کو 100، 100 درے سزا دی پھر رخصت کرنے کے لیے چند میل تک خود مشایعت کی اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مکہ سے ہوتی ہوئیں مدینہ تشریف لے گئیں۔
(طبری و ابنِ اثیر)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں:
بخاری شریف کی چند احادیث ملاحظہ ہوں:
1: ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اے عائشہؓ یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کھڑے ہیں آپ کو سلام کہتے ہیں میں نے کہا وعلیہ السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور! آپ جبرئیل علیہ السلام کو دیکھتے ہیں، میں نہیں دیکھتی۔
2: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مردوں میں سے بہت سے حضرات کامل ہو گزرے ہیں مگر عورتوں میں سے سوائے مریم بنتِ عمرانؑ اور آسیہ زوجہ فرعون کے کوئی کامل نہیں ہوئی ہاں سیدہ عائشہؓ کی فضیلت سب عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی سب کھانوں پر۔
ثرید عرب کے اس مرغوب کھانے کا نام ہے جو گوشت اور روٹی سے چوری بنا کر کھایا جاتا ہے۔
3: حضورﷺ مرضِ موت میں سب ازواج کے ہاں باری باری رہتے تو فرماتے میں کل کہاں ہوں گا کل کہاں ہوں گا سیدہ عائشہؓ کے گھر کے شوق میں یہ کہتے جب سیدہ عائشہؓ کی باری پہنچی تو آپ مستقل یہیں ٹھہر گئے اور وفات پائی اور اسی حجرہ کو روضہ اقدس بننے کا شرف حاصل ہوا۔
4: لوگ حضورﷺ کی خدمت میں ہدایا اس دن زیادہ بھیجتے جس دن حضرت عائشہؓ کی باری ہوتی ایک مرتبہ تمام ازواج کے مشورہ سے حضرت امِ سلمیٰؓ نے آپ سے عرض کی حضرت لوگوں سے فرمائیں کہ وہ ہدیے جہاں بھی ہوں بھیج دیا کریں حضورِ اکرمﷺ نے بار بار اس بات سے اعراض فرما کر بالآخر یہ فرمایا:
يا ام سلمة لا توذينی فی عائشة فو الله ما نزل على الوحی وانا فی لحاف امرأة منكن غيرھا۔
(بخاری: جلد، 1 صفحہ، 532)
ترجمہ: اے سیدہ امِ سلمہٰؓ سیدہ عائشہؓ کے بارے میں مجھے مت ستا خدا کی قسم اس کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ بیٹھے ہوئے مجھ پر وحی نہیں اتری۔
ذاتی حالات و علمی خدمات:
نسب یہ ہے حضرت عائشہ صدیقہؓ بنتِ ابوبکر صدیقؓ بن ابو قحافہؓ آپ کی ماں سیدہ امِ رومان بنتِ عامر بن عویمر بن عبد شمس ہے آپ نے آنحضرتﷺ سے بہت زیادہ احادیث روایت کی ہیں اور حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت فاطمہؓ سے بھی احادیث روایت کی ہیں آپ سے لا تعداد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعینؒ نے روایت کی ہیں جن میں حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓل سائبؓ بن یزید عبد اللہ بن زبیرؓ، عروہ بن زبیرؓ رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔
جب مسروق تابعیؒ آپ سے روایت کرتے تو کہتے مجھ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ بنتِ ابوبکر صدیقؓ بعینہ حبیب اللہ تعالیٰ نے حدیث بیان کی جس کی سات آسمانوں سے برأت کی گئی ہے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جیسے زبردست فقیہ عالم صحابی کہتے ہیں اصحابِ محمدﷺ جب کسی مشکل مسئلے میں اٹکے اور حضرت عائشہؓ سے جا کر ہم نے پوچھا تو یقیناً اس کا جواب اور حل ہم نے ان کے پاس پایا قبیصہ بن ذویب کہتے ہیں حضرت عائشہؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت بڑی عالمہ تھیں آپ سے چھوٹے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسائل پوچھتے تھے خصوصاً علمِ فرائض و میراث میں امام زہریؒ کہتے ہیں اگر تمام ازواجِ مطہرات اور دیگر سب عورتوں کا علم ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں صرف حضرت عائشہؓ کا علم رکھا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا زیادہ ہوگا حضرت عمرو بن العاصؓ نے ایک مرتبہ حضورﷺ سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ کون شخص پسند ہے فرمایا حضرت عائشہؓ میں نے کہا مردوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے فرمایا اس کے والدہ حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ کی وفات رمضان 58ھ میں ہوئی اور رات کو دفن کرنے کی وصیت کی تھی حضرت ابوہریرہؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
(تہذيب التہذيب مختصراً)
الغرض آپ کے فضائل و مناقب لا تعداد ہیں 9 سال کی عمر میں آپ کو شرفِ زوجیت الرسولﷺ حاصل ہوا اور 18 سال کی عمر میں آپ کی گود میں حضورﷺ کا وصال ہوا آپ نے آخری مرتبہ مسواک دانتوں سے چبا کر حضورﷺ کو کروایا آپ ہی کے حجرہ کو مدفنِ نبوی ﷺ اور روضہ اقدس ہونے کا شرف حاصل ہوا سیدنا ابو ہریرہؓ کے بعد سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر آپ سے ذخیرہ علم و احادیث 2200 کی تعداد میں مروی ہے گویا ایک چوتھائی علم سے زائد فقط آپ نے حضورﷺ سے روایت کیا ہے اور اسم بامسمیٰ ام المؤمنین تھیں کیونکہ جیسے باپ کماتا ہے اور ماں اس کمائی کو انتظام و سلیقہ کے تحت اولاد کو کھلاتی پلاتی اور پرورش کا حق ادا کرتی ہے اسی طرح ام المومنینؓ نے نے حضورﷺ کی احادیث اور شریعت کو نہ صرف مؤمنین تک پہنچایا بلکہ تفقہ استنباط اور استدلال کا بہترین ذخیرہ تیار کر کے اپنی مؤمنین اولاد کے سامنے دسترخوانِ نبویﷺ پر چن دیا اب جو واقعی اولاد ہے وہ اپنے ماں باپ پر مطمئن ہو کر ان کے دسترخوان سے کھانا کھاتی ہے اور جو لے پالک اور دعی قسم کی ہے وہ اس دسترخوان سے ناک بھوں چڑاتی ماں پر اعتراض کرتی اور غیروں کے آگے دریوزہ گری کرتی ہے ہر چیز اپنے اصل کی طرف جاتی ہے۔
قتل کا سانحہ غلط ہے:
معترض صاحب نے تاریخ نجیب آبادی سے جو نشاندہی کی ہے کہ مروان بن حکم نے آپ کے لیے کھانے کی دعوت تیار کی ایک کنواں کھدوا کر اس میں تلواریں اور تیر رکھے اوپر معمولی سا چھپر بنا کر سیدہ ام المومنینؓ کو بٹھانے کا انتظام کیا جب آپ وہاں گئیں تو کنویں میں گر گئیں اور اسی سے وفات پائی یہ بالکل غلط ہے کسی مؤرخ اور صاحبِ علم کی اس پر شہادت نہیں مل سکتی نجیب آبادی صاحب زمانہ حال کے اردو مؤرخ ہی۔ نہ معلوم انہوں نے یہ قصہ کہاں سے لیا ہے حوالہ بالکل نہیں دیا سنسنی خیز اور تعجب انگیز ہونے کی وجہ سے بلا رد و قدح لکھ دیا معترض صاحب کو کسی قدیم مأخذ کا حوالہ دینا چاہیئے سیدہ ام المومنینؓ، معلمہ امت اور حبیبہ حبیب رب العالمین ہیں اگر یہ اچانک حادثہ ان کی وفات کا سبب ہوتا تو یقیناً تواتر سے منقول ہوتا جب کہ سانحہ کربلا کی طرح حضرت عائشہؓ کا تذکرہ ہزاروں کتب میں پایا جاتا ہے اگر ایسا ہوتا تو سب مؤرخین اس کا ذکر کرتے اور قاتل پر لعنت بھیجتے مدینہ طیبہ میں کہرام مچ جاتا اہلِ مدینہ مروان کو کبھی زندہ نہ چھوڑتے اور واقعہ حرہ کا سا حشر برپا ہوتا فرض کیجیئے مروان بن حکم سے یہ کمینگی ہوئی تو خلیفہ وقت حضرت امیرِ معاویہؓ تو شیعہ کے خیال میں بھی سیدہ ام المومنینؓ کے ساتھی اور حامی تھے کیا وہ مروان کی گُدی نہ کھینچ دیتے حقیقت یہ ہے کہ مروان سے شیعہ کو جو ضد و عناد ہے اسی نے ان کے اسلاف کو بے سروپا عقل و نقل کے خلاف قصہ گھڑنے پر مجبور کیا ہے تاکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بھی بدنامی ہو جو اسلام دشمنوں کا شروع سے شعار چلا آرہا ہے مروان متفقہ طور پر صحابی نہیں بیشتر اقوال میں تابعی ہیں بعض نے ان پر نقد و جرح بھی کی ہے مگر وہ ایسی ہی بے سروپا کہانیوں کے پروپیگنڈہ اور حقیقتِ حال سے بے خبری پر مبنی ہے ان سے امام بخاریؒ امام ترمذیؒ ابو داؤدؒ، ابنِ ماجہؒ اور نسائیؒ وغیرہم جیسے محدثین مصنفین نے احادیث روایت کی ہیں اور حضرت سہلؓ بن سعد جیسے بزرگ صحابی کے علاؤہ حضرت عروة بن زبیر حضرت علی بن الحسين حضرت ابو بكر بن عبد الرحمٰن بن الحارث جیسے فاضل تابعین نے احادیث روایت کی ہیں۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 10)
بعض مؤرخین نے یہ الزام لگایا ہے کہ حضرت طلحہٰؓ کو جنگِ جمل میں اس نے شہید کیا تھا ہماری تحقیق میں یہ الزام بھی غلط ہے کیونکہ مردان کٹر عثمانی اور طالبِ قصاصِ عثمانؓ تھا سیدنا طلحہٰؓ اسی مقصد کے لیے کمان کر رہے تھے ایک مشخص عمداً ایسے موقعہ پر اپنے ہی سالارِ لشکر کو مار ڈالے عقل و نقل کے خلاف ہے لیکن اس واقعہ کی صحت و غلطی سے قطع نظر مروان پر کسی نے اس الزام کا ذکر نہیں کیا کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی قاتل ہے تمام مؤرخین اور علماءِ رجال سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے تذکرہ میں یا مروان کے ترجمہ میں اس کا اشارہ بھی نہیں کرتے۔
حافظ ابنِ حجر تقریب التہذیب: صفحہ، 332 پر بغیر کسی تنقید کے یہ لکھتے ہیں 64ھ کے آخر میں خلیفہ بنا اور 65ھ میں 61 سال کی عمر میں وفات پائی اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں طبقہ ثانیہ کا تابعی ہے اور ابنِ حجرؒ نے مقدمہ فتح الباری: صفحہ، 443 پر اسماعیلی کا قول قتلِ سیدنا طلحہٰؓ کا مروان پر الزام کا ذکر کیا ہے اور بشرطِ صحت اسے متاول قرار دیا ہے لیکن قتلِ عائشہؓ کا الزام اس پر نہیں لگایا۔
علامہ سید سلیمان ندوی المتوفىٰ 1952ء نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی سیرت پر تین سو صفحات کی مفصل علمی کتاب لکھی ہے اس کے صفحہ، 153 پر تذکرہ وفات کا عنوان باندھ کر طبقاتِ ابنِ سعد صفحہ، 51 جزء نساء کے حوالہ سے لکھا ہے۔
58ھ میں رمضان کے مہینہ میں بیمار پڑیں چند روز تک علیل رہیں کوئی خیریت پوچھتا تو فرماتیں میں اچھی ہوں جو لوگ عیادت کو آتے بشارت دیتے تو فرماتیں جیسے ہر متقی کہا کرتا ہے کاش میں جنگل کی ایک بوٹی ہوتی۔
اگر ایسی کوئی لغو افواہ ہوتی تو علامہ صاحب اس کا ضرور ذکر کرتے اللہ تعالیٰ روافض کی زبان سے ہر مسلمان کو بچائے۔